گزشتہ کچھ عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ آزادی نے ایک بار پھر جھرجھری لی ہے، اسے ہم فلسطین کی تحریکِ انتفاضہ سے مشابہت دے سکتے ہیں۔ماضی میں ہندوستان کے حکمران الزام لگاتے تھے کہ یہ گھس بیٹھیے ہیں،بیرونی مداخلت کار ہیں، ہیں، لیکن اب کسی آزاد بین الاقوامی فورم یا تحقیقی ومطالعاتی ادارے سے اس طرح کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا ،کیونکہ ہندوستانی حکومت مسلّمہ عالمی قوانین کو روندتے ہوئے کنٹرول لائن پر باڑ(Fence) لگا چکی ہے اور آزاد کشمیر یا پاکستان کی طرف سے کسی کے سرحد پار کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔سو اب اُس کے لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ تحریک بھارت کے مظالم سے تنگ آکر وہاں کے لوگوں نے برپا کی ہے،اس کے پیچھے کوئی غیر ملکی سازش یا سرمایہ نہیں ہے،یہ انگریزی اصطلاح میں سرزمین کشمیر کے بطن سے ابھرنے والی Indigenous تحریک ہے،اس میں وہاں کے فرزندوں کا خون شامل ہے،اس کو پروپیگنڈے کے زور یا طاقت سے دبانا آسان نہیں ہوگا۔ہر ظالمانہ ردِ عمل نفرت کی آگ کو اور ہوا دے گا اور اس کے شعلے بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں گے۔وہ لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرجب پاکستان کا پرچم بلند کرتے ہیں تو ہندوستانی غاصب حکمرانوں اور اُن کی ظالم وجابر افواج کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ انتقام کی ہر حد کو عبور کرجاتے ہیں۔تین ہفتے سے زائدکے مسلسل کرفیوکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، لوگوں کو روزگار اور اشیائے خورونوش کے حصول سے محروم کیا جا رہا ہے اور اُن کے جذبۂ حریّت اور قوتِ مزاحمت کو ختم کرنے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف بدقسمتی یہ ہے کہ انسانی حقوق کے لیے ہر وقت شعلہ بداماں اور آتش بدہن مغربی دنیا مہر بہ لب ہے،کوئی احتجاج نہ کوئی آواز! حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں،عالمی ادارۂ عفوِعام (Amnesty International) اور اقوامِ متحدہ قطعی لاتعلق ہوچکے ہیں۔چین دشمنی اور سوا ڈیڑھ ارب کی انڈین مارکیٹ نے ہندوستان کو ان کا محبوب بنادیا ہے اور اس بنا پر انہوں نے اپنی ساری مسلّمہ اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
او آئی سی یا مسلم ممالک بھی سو فیصد لا تعلق ہیں اور اپنے اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔اس تناظر میں مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں کی مظلومیت اور تنہائی میں ہر لمحے اذیت ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔حال ہی میں ہندوستانی افواج نے اپنی برہنہ جارحیت کو ایک نئی صورت دی ہے،وہ یہ کہ احتجاج کرنے والے عوام کو نشانہ بناکر چھَرّے دار بندوق(Pellet Gun) استعمال کی جا رہی ہے، نوجوانوں سے جیتے جی اُن کی بینائی چھینی جارہی ہے،یہ ظلم کی انتہا ہے اور اس پر پورے عالم سے احتجاج یا مذمت کی کوئی توانا آواز بلند نہیں ہوئی۔بی بی سی نے کہا ہے کہ پیلٹ گن مارتی تو نہیں، لیکن زندہ لاش بنادیتی ہے۔اس کے کارتوس پانچ سے بارہ کی رینج تک کے ہوتے ہیں اور پانچ رینج والے سب سے خطرناک ہوتے ہیں، ایک بلٹ میں پانچ سو تک چَھرے ہو سکتے ہیں،اس سے اس کے ظالمانہ اثرات کا اندازا لگایا جاسکتا ہے۔بی بی سی نے یہ بھی بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں سوشل میڈیا،موبائل فون،ٹیلی فون حتیٰ کہ اطلاعات کی ترسیل اور معلومات کے حصول کے تمام ذرائع کو بند کردیا گیا ہے جو ظلم کی انتہا ہے۔بی بی سی نے یہ بھی بتایا کہ ہندوستانی فوجی جنازے اور تدفین میں شرکت سے واپس آنے والوں کو بھی معاف نہیں کرتے؛حالانکہ وہ کسی مظاہرے میں شریک نہیں ہوتے۔بھارتی افواج کے مظالم کی انتہائی دردناک تصویریں بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر دیکھی جاسکتی ہیں۔بعض دوستوں کے متوجہ کرنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں بی بی سی مقبوضہ کشمیر میں عوام کی مظلومیت اور بھارتی فوج کے مظالم کو زیادہ اجاگر کر رہا ہے،افسوس ہے کہ ہمارے میڈیا کو اپنے سیاست دانوں کی چٹکیاں لینے،لطیفوں اورچٹکلوں سے فرصت ہی نہیں ہے،ان کے نزدیک سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ناظرین کو اپنی سکرین کے ساتھ کیسے جوڑ کر رکھا جائے۔
مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں پاکستان میں جو جلوس یا ریلیاں نکالی جا رہی ہیں یا ہماری پارلیمنٹ اور منتخب اداروں میں جو قراردادیں پاس کی جارہی ہیں،وہ صر ف اس حد تک مفید ہیں کہ مظلومین کے ساتھ ہماری طرف سے یکجہتی کا اظہار ہو رہا ہے اور ہم انہیں یہ باورکرا رہے ہیں کہ اُن کے انتہائی دکھ بھرے لمحات میں ہم اُن کے ساتھ ہیں اور اُن کے درد کی کسک ہم اپنی روح اور دل ودماغ میں محسوس کر رہے ہیں،لیکن اس سے درحقیقت اُن کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو رہا۔ماضی قریب میں خادم الحرمین الشریفین اورمملکتِ سعودی عرب کے سربراہ جناب ملک سلیمان بن عبدالعزیز نے ہندوستان کے وزیرِ اعظم نریندر سنگھ مودی کو بلاکر انہیں اپنے وطن کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا۔اسی طرح اپنی تمام تر روایات کے برعکس دبئی کے حکمران جنابِ شیخ محمد بن راشد المکتوم نے دبئی میں نریندر سنگھ مودی کا جلسۂ عام منعقد کیا اوریہ سارے مناظر مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے مسلمانوں کے دلوںکو چھلنی کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ماضی قریب میں یمن کے بحران پر پاکستان کی بہت سی مذہبی و سیاسی تنظیموں نے سعودی عرب کی حمایت میں ریلیاں نکالیں، کنونشن اور سیمینار منعقد کیے،اپنی حکومت اور پارلیمنٹ کو ملامت کیا کہ سعودی عرب کی حمایت میںانہوں نے ساری حدیں عبور کیوں نہیں کیں۔میری ان تمام مذہبی وسیاسی تنظیموں سے درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ سعودی عرب،کویت،متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کے سفرا کو ایک کانفرنس میں مدعو کریں اور اُن کے سامنے پاکستانی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کریں اور ان کے سامنے یہ مطالبات رکھیں:
(الف)حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں پر ہندوستانی مسلح افواج کے مظالم کا جائزہ لینے کے لیے حقائق کی کھوج لگانے والا ایک اعلیٰ سطحی وفد (Facts Finding Mission) مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے جسے کھلی اجازت ہو کہ ہندوستانی اداروں اور ایجنسیوں کی رسائی سے الگ رہ کر برسرِ زمین حقائق معلوم کرے۔
(ب)مہینہ بھر کے کرفیوکے دوران جو لوگ بے روزگار ہوئے، غذا اور اشیائے ضرورت کی قلت کا شکار ہیں، اُن کے لیے ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ترسیل کی جائے یا پاکستان کے مسلمانوں کو اس کا موقع دیا جائے۔ (ج) زخمیوں کے علاج کے لیے مقبوضہ کشمیر میں حسبِ ضرورت آئی کیمپس اور دیگر امراض کے علاج کے لیے گشتی طبی اسپتال قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ پاکستان کے آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ٹیم نے پہلے ہی اپنی خدمات پیش کردی ہیں،کم ازکم فوری طور پر انہیں ضروری ادویات اور آلات کے ساتھ وہاں جاکر میڈیکل کیمپ منعقد کرنے کی اجازت دی جائے۔ (د) غیر سرکاری سطح پر امتِ مسلمہ کے عالمی شہرت کے حامل ماہرینِ آئین وقانون،حقوقِ انسانی کے اداروں اور پریس کے نمائندوں کا ایک وفد برطانیہ،امریکا اور یورپین یونین کے ممالک میں بھیجا جائے تاکہ دنیا کو حقائق سے آگاہ کیا جاسکے۔ (ہ) مذہبی رہنمائوں کا ایک وفد آرچ بشپ آف کنٹر بری، پوپ فرانسس اور دیگر مذہبی رہنمائوں کے پاس بھیجا جائے تاکہ مذاہبِ عالَم مل کر محکوم اقوام کی حریّت کے حق میں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کریں ۔ (و) میں پاکستان کے مسیحی مذہبی رہنمائوں سے بھی اپیل کروںگا کہ اگر اُن کے لیے ممکن ہو تو وہ اس حوالے سے پیش رفت کریں۔(ز) پاکستان کے سیاستدانوں کو اگر اپنے داخلی تنازعات سے فرصت ملے تو پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والے تمام اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل ایک غیر سرکاری وفد سفارتی مشن پر بھیجا جائے اور ہندوستانی سفارت خانے سے خصوصی ویزے کے لیے کہا جائے تاکہ یہ وفد مقبوضہ کشمیر کا بھی دورہ کر کے حقائق معلوم کرسکے۔ (ح) یہ معلوم کیا جائے کہ اب تک کتنے کشمیری مسلمانوں کو ظلماً شہید کیا گیا ہے اور معذورین (Disabled)اور مَجروحین (Injured)کی تعداد کیا ہے اور آیا ان معذورین کا علاج اور بحالی ممکن ہے،اگر جواب اثبات میں ہے،تواُن کے لیے کوئی تدبیر اختیار کی جائے ۔(ط) برطانیہ میں آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے مسلمان بہت بڑی تعداد میں ہیں،اُن میں سے بہت سے معاشی لحاظ سے مُرَفَّہُ الْحَال(Well Off) ہیں،برطانوی اداروں میں نمائندگی بھی رکھتے ہیں،وہ بھی سفارتی سطح پر کوششیںکر کے عالمی قوانین اور روایات کے دائرے میں رہتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں مادّی امداد کی ترسیل کی کوئی راہ نکالیں۔ (ی) میں برطانیہ میں مقیم علمائے کرام و مشائخ عظام اور وہاں کی دینی تنظیمات سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور برطانیہ کے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا اجتماعی احتجاج ریکارڈ کرائیں اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں اوربرطانوی حکومت کے اعلیٰ عمائدین اور برطانیہ میں موجود مغربی ممالک کے سفرا کے ساتھ ملاقاتیں کرکے ان کی حکومتوں کی توجہات مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کی بربریت اور مظالم کی طرف مبذول کرائیں۔ان کے لیے مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کے ساتھ یکجہتی کی ایک ممکن صورت یہ بھی ہے کہ حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم تنظیموں کو انسانی بنیادوں پر متحرک کریں۔پاکستان میں بیرونی سرمائے سے قائم کردہ این جی اوزکی دلچسپی کا واحد عنوان پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے مواقع تلاش کرنا ہے،ہم نے کبھی ان کو امتِ مسلمہ کے مسائل پر سرگرمِ عمل نہیں دیکھا۔