"MMC" (space) message & send to 7575

اعترافات

اقرارِ جرم کو قانون کی زبان میں Confessionکہتے ہیں۔ ہم کراچی کے حالات کے حوالے سے ملزَمین کے اعترافی بیانات کی افسانوی داستانیں گزشتہ دو تین عشروں سے تسلسل کے ساتھ سن اور پڑھ رہے ہیں ، لیکن اس کے بعد ان کے بَطن سے کچھ برآمد نہیں ہوتا اور اب یہ اعترافی بیانات مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔بس چند دنوں کے لیے اخبارات کو سرخیاں اور ٹیلی ویژن چینلزکو ہیڈ لائنز مل جاتی ہیں اور سیاسی مکالمے کے اینکرپرسنز کی مجالس میں کچھ دنوں کے لیے رونقیں لگ جاتی ہیں اورپھر سارا معاملہ قصہ پارینہ ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ تفتیشی ادارے ملزَمین سے جو بھی اعترافات کرانا چاہیں، وہ بخوشی اُسے قبول (Own) کرلیتے ہیں، خواہ وہ آڈیو/ویڈیو کی صورت میں ہو یا تحریری صورت میں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تشدد سے بچ جائیں اور انہیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق وتفتیش (Investigation)کے مرحلے پر اِس اعترافی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی تاوقتیکہ جوڈیشل میجسٹریٹ کے سامنے کھلی عدالت میں اس طرح کا اعترافی بیان نہ دیا جائے۔
ایسا ہرگزنہیں ہے کہ امریکہ یا مغربی ممالک میں جرم کا ارتکاب کرنے والے ہر شخص کو تلاش کر کے کیفرِ کردار تک پہنچایا جاتا ہے، سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی، برطانیہ کے ولی عہد پرنس چارلس کی سابق اہلیہ پرنسیس لیڈی ڈیانا اور ماضی قریب میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ اور مغرب میں بھی اسٹیبلشمنٹ اپنے ریاستی اور ملکی مفاد میں بعض مقدمات کی تحقیقات اور اُن سے متعلق تمام حقائق کو افشا کرنے پر اثر انداز ہوتی ہے، واللہ اعلم۔ قائدِ ملت خان لیاقت علی خان اور سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاء الحق کے سانحاتِ قتل کی مثالیں ہمارے ہاں بھی موجود ہیں، اِن کے بارے میں بالترتیب مقامی اسٹیبلشمنٹ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ملوّث ہونے کی باتیں اکثر اشارات وکنایات میں ہوتی رہی ہیں۔ اسی طرح کہاجاتا ہے کہ 1977ء میںجنابِ ذوالفقار علی بھٹو اور1999ء میںجنابِ محمد نواز شریف کی اقتدار سے معزولی میں امریکی آشیرباد شامل تھی، کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی تھے اور جناب محمد نواز شریف 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے ذمے دار تھے، واللہ اعلم بالصواب۔
لیکن یہ ضرور ہے کہ جو مجرم امریکہ اور مغربی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آجائے، وہ سزا سے بچ نہیں سکتا، کیونکہ وہ مجرم کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے کافی محنت و مشقت کے ساتھ جرائم کی تفتیش کے بارے میں جدید تحقیقات سے استفادہ اورفنی آلات استعمال کرکے ایسے ناقابلِ تردید ثبوت وشواہد اکٹھے کرتے ہیں کہ مجرم کا سزا سے بچ نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا وہاں قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھرم اور رُعب قائم ہے، جبکہ ہمارے ہاں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار سیاست زدہ (Politicised) ہوچکے ہیں، یعنی وہ وقت کے حکمرانوں یا ہر دور کے با اثر سیاست دانوں کے زیرِ اثرہیں۔ قانون کے سامنے جواب دِ ہ سمجھنے کی بجائے وہ اپنے آپ کو اپنے اُن سیاسی آقائوں کے سامنے جواب دِہ سمجھتے ہیں، جن کے پاس اُن کی تقرری، ترقی، تنزُّلی، تبادلے اور معزولی کے اختیارات ہوتے ہیں۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اعلیٰ عدالتوں کے ذی وقار جج صاحبان اُن کو ڈانٹتے رہتے ہیں، لیکن عالی مرتبت جج صاحبان بھی اسی معاشرے کے افراد ہیں اور حقیقتِ حال اُن کو بھی معلوم ہے کہ ملک میں قانون بھی ہے، عدالتیں بھی ہیں، لیکن اس کے باوجود قانون بے اثر وبے بس ہے اور عدل عَنقا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عزت مآب سید منصور علی شاہ نے حال ہی میں صوبۂ پنجاب میں ماتحت عدلیہ کو کرپشن اور نااہلی سے پاک کرنے کا عمل شروع کیا ہے اور بڑے پیمانے پر نچلی عدالتوں کے ججوں کے تبادلے اور معزولی کے احکامات جاری کرنا شروع کردیے ہیں۔ یہ عزم لائقِ تحسین ہے اور اس کی ہر ممکن تائید اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، لیکن لازم ہے کہ اس مہم میں بھی پسند وناپسند کار فرما نہ ہو بلکہ روحِ عدل کار فرما ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ برسوں سے زیر التوا مقدمات کو فائلیں جھاڑ کر دوبارہ کھولا جائے اور ہر عدالتی مرحلے پر ان کے فیصل ہونے کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت کا تعیُّن کیا جائے، جس کی پابندی نہ کرنے والا جج نا اہل قرار پائے۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ مقدمات کے التوا میں وکلا کا بھی بڑا دخل ہے، پس بار پر بھی لازم ہے کہ وہ انصاف کو سستا اور سریع الحصول (Speedy) بنانے کے لیے ضابطۂ اخلاق بنائے اور بعض وکلا صاحبان کی طرف سے ججوں کو ہراساں کرنے اور بلیک میلنگ کے جو واقعات وقتاً فوقتاً رپورٹ ہوتے ہیں، ان کا سدِّ باب کرے۔
اسی طرح جرائم کی تحقیق و تفتیش کے بارے میں ایک جامع قانون سازی کی ضرورت ہے، جس میں آئینی و قانونی ماہرین اور اعلیٰ عدلیہ کے عالی مرتبت فاضل جج صاحبان اورماہرینِ آئین وقانون کو بھی شامل کیا جائے تاکہ سب کی اجتماعی دانش سے تحقیق وتفتیش کے جدید طریقے اور معیارات مقرر ہوں، تحقیق وتفتیشِ جرائم کی جدید تکنیک اور اُس کے لیے جدید آلات اور مالی وسائل دستیاب ہوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکارصرف اور صرف قانون کے سامنے جواب دہ ہوں اور عدالتوں سے تصریح (Clearance) لیے بغیر تحقیقی مراحل کے دوران اُن کا تبادلہ ممکن نہ ہو۔ ہمارے ہاں ایک اور خرابی یہ ہے کہ ہمارے قانون ساز کوئی بھی قانون بناتے وقت اپنے آپ کو سامنے رکھتے ہیں ، کیونکہ انہیں یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ یہ قانون سب سے پہلے انہی کی گردن ہی میں فِٹ ہوگا، لہٰذا وہ کوئی بھی کڑا اور سخت گیرقانون بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہمارے عدالتی ضوابطِ کار (Procedural Laws) نہایت پیچیدہ ہیں اور ہمارے ماہر وکلا قوانین کی انہی خامیوں (Flaws) سے فائدہ اٹھاتے ہیں، بال کی کھال اتارتے ہیں، قانونی موشگافیوں سے کام لے کر دلائل کا انبار لگادیتے ہیں، الفاظ کی جادوگری کرتے ہیں اور بھاری فیسیں وصول کر کے اپنے مُوَکِّل کو قانون کی گرفت سے بچا لیتے ہیں۔ اس طرح جرائم پیشہ لوگ رہائی پاکر معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں اور قانون کے رکھوالے اُن سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔
سو اصل مسئلے کے حل کی طرف کوئی نہیں آتا۔ اکیسویں آئینی ترمیم بھی ہمارے قابلِ احترام قانون سازوں نے آرمی پبلک ہائی اسکول پشاور کے سانحے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف اور دفاعی اداروں کے دبائو کے تحت آنسوئوں سے چھلکتی آنکھوں کے ساتھ منظورکی۔ چیئرمین سینیٹ جنابِ رضا ربانی اور جنابِ اعتزاز احسن کے ریمارکس پارلیمنٹ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس آئینی ترمیم کی مدت بھی پانچ جنوری2017ء کو ختم ہوجائے گی۔ سو یہ عارضی اختیارات، جو قانون نافذ کرنے والوں کو اس آئینی ترمیم کے ذریعے حاصل ہوئے تھے، وہ ختم ہوجائیں گے اور ہم سابق دور کی طرف واپس پلٹ جائیں گے۔ سوائے اس کے کہ ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعے اس کی مدت میں توسیع کردی جائے۔
الغرض ہمارے وطنِ عزیز کے اندر بے امنی کے سدِّ باب اور قانون کی حکمرانی کے مسئلے کا کوئی دیر پا حل موجود نہیں ہے۔ عدالتیں آزاد ہوں تو وہ تمام زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر کے آئیڈیل ازم کی طرف چلی جاتی ہیں اور بعض کے بقول جسٹس افتخار محمد چوہدری جیسا جوڈیشل مارشل لا نافذ ہو جاتا ہے، وہ جس کو چاہتے بلاکر بے توقیر کردیتے، جس کو چاہتے منصب سے معزول کردیتے یا اُس کے اختیارات پر قدغن لگادیتے،کسی کو مجالِ دَم زَدَنی نہیں ہوتی تھی۔ سابق وزیرِ اعظم جنابِ سید یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے26 اپریل 2012ء کوفیصلہ سنائے جانے کے دورانیے کے برابر یعنی 30 سیکنڈ کی سزا سنائی اور 19 جون 2012ء کو عدالت ِعُظمٰی نے قرار دیا کہ وہ سزا یافتہ ہونے کی بنا پر وزارتِ عُظمٰی کے منصب پر فائز رہنے کے اہل نہیں رہے، پس انہیں منصب چھوڑنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود سوئٹزرلینڈ میں سابق صدر جنابِ آصف علی زرداری کے مقدمے کو اپیل کی مدت گزرجانے کے سبب Reopen نہ کیا جاسکا اور سوئٹزر لینڈ کے بینکوں سے تقریباً چھ کروڑڈالر نکال لیے گئے۔ الغرض ''کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا‘‘ والا معاملہ ہوا، صرف بیچارے جنابِ سید یوسف رضا گیلانی نشانِ عبرت بنے۔ سابق وزیر مذہبی امور علامہ سید حامد سعید کاظمی کا مقدمہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے، اس کا ایک رُخ تو یہ ہے کہ اُن کے بقول اُن پر براہِ راست کرپشن میں ملوث ہونے کا کوئی الزام نہیں لگا، انہیں سزا بھی سنا دی گئی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت کی درخواست بھی رد کردی ہے۔ فیصلے کے ایک حصے کا میں نے مطالعہ کیا ہے، لیکن اس کا صحیح جائزہ کوئی ماہر ِقانون ہی لے سکتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب کے عوامی نوعیت اور واعظانہ قسم کے ریمارکس تو اخبارات میں رپورٹ ہوئے، لیکن کوئی ایک بھی ٹیکنیکل اور خصوصی نوعیت کا ریمارک، جس میں ملزَم پرکرپشن کی ذاتی ذمے داری عائد ہ ورہی ہو، پڑھنے کو نہیں ملا۔ مجھے سینئر ایڈووکیٹ جناب خالد حبیب الٰہی نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق فرنٹ مین احمد بخش نے یہ تو کہا کہ مجھے ہی صدر آصف علی زرداری، وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ڈائریکٹر جنرل رائو شکیل سمجھیں، لیکن اس نے صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی کا نام نہیں لیا، واللہ اعلم بالصواب۔ ایسے بھی کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے کہ فرنٹ مین نے کوئی رقم صاحبزادہ سید حامد سعیدکاظمی کو بلا واسطہ یا بالواسطہ دی ہو۔
اسی طرح ہمارے قانون میں یہ سُقم بھی ہے کہ کوئی ملزَم کسی بھی صورت میں اگر ملک سے باہر جا چکا ہو اور عدالت کے سامنے پیش نہ ہو رہا ہو، تو عدالت اُسے مفرور اور اشتہاری تو قرار دے دیتی ہے، لیکن اس کا مقدمہ موقوف ہو جاتا ہے اور وہ تمام عدالتی و قانونی مراحل طے کر کے حتمی اور قطعی فیصلے کے مرحلے تک نہیں پہنچ پاتا، سابق صدر جنابِ جنرل (ر) پرویز مشرف کی صورتِ حال سب کے سامنے ہے۔ افغانستان بھی بے امنی کے حوالے سے ہم جیسے حالات سے دوچار ہے، میں نے کافی عرصہ پہلے اخبار میں یہ پڑھا تھا: ''حکومتِ افغانستان نے قانون بنایا ہے کہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں بھی اس کے خلاف مقدمہ چلا کرآخری مراحل تک پہنچایا جائے گا ‘‘ جبکہ ہمارے ہاں اس طرح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس قانونی سُقم کا سب سے زیادہ سیاست دان اور با اثر لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، غریب آدمی تو ملک سے فرار نہیں ہوسکتا، وہ زیادہ سے زیادہ ملک کے اندر روپوش ہوسکتا ہے، لیکن خاص طور پر غریب آدمی کے لیے ملک کے اندر روپوشی زیادہ عرصے تک ممکن نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں