"MMC" (space) message & send to 7575

سیاپافروش

''سیاپا‘‘ پنجابی زبان میں مصیبت کو کہتے ہیں ۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ایک سینئر اینکرپرسن اور تجزیہ نگار 2008ئتا 2013ئکے زمانے میں الیکٹرانک میڈیا کے اپنے اُن بعض پیٹی بندیعنی ہم پیشہ بھائیوں کو سیاپا فروش کہتے اور لکھتے تھے،جوہر روز سرِ شام ایسا سماں باندھتے ہیں کہ لگتا کل صبح تک یہ حکومت رخصت ہوجائے گی اور ان کی مَن پسند تبدیلی آجائے گی۔لیکن جنابِ آصف علی زرداری نے اور کوئی کمال دکھایا ہو یا نہ ،یہ کمال ضرور دکھا دیا کہ انتہائی صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری نظام کے تسلسل کو جاری رکھا اور اگلے دورانیے کے لیے اپنے جانشینوں کو پُرامن طریقے سے اقتدارمنتقل کردیا۔ہمارے ممدوح جنابِ شیخ رشید احمد کا دَم غنیمت ہے کہ ٹیلی ویژن چینلوں کی اسکرین پر رونق قائم کررکھی ہے اور بعض اوقات ایک ہی وقت میں وہ تین تین اینکر پرسنز کو انگلی پکڑ کر چلاتے رہتے ہیں ۔ہمارے کراچی کے کاروباری لوگوں کی زبان میں کاروبار ی شراکت کو ''پَتِّی ‘‘بھی کہتے ہیں۔میری بھی پَتِّی رکھ لوکامطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھے اپنے کاروبار میں شراکت دار بنادو۔ سو جناب شیخ رشید احمد اگر ٹیلی ویژن چینلز کے بڑے بڑے پیکج والے ان مایہ نازاینکرپرسنز سے ''پَتِّی ‘‘کا مطالبہ کریں تووہ بجا طور پر اس کے حق دار ہوں گے اور اب تو قِصاص واحتساب کی دو تحریکات کو سرگرم رکھنے کے لیے ان کی مصروفیات اور بڑھ گئی ہیں۔ 2002میں اُس وقت کے صدر جناب جنرل (ر)پرویز مشرف کو ایک تابعِ فرمان وزیرِ اعظم کی تلاش تھی اور متوقع فہرست میں جنابِ مخدوم امین فہیم مرحوم بھی تھے۔ چنانچہ ایک رات دامنِ کوہ کے ہوٹل میں اُن کی ملاقات رپورٹ کی گئی ، جنابِ مخدوم نے اپنی وضاحت میں کہا:''اتفاقیہ ملاقات تھی ‘‘، اِس پر جنابِ حافظ حسین احمد نے پھبتی کَسی کہ بالکل درست:اتفاقیہ ملاقات تھی ، کیونکہ اس پر دونوں کے مابین پہلے ہی اتفاق ہوچکا تھا۔سو ایسا ہی اتفاق ان تحریکات میں بھی ہوجاتا ہے ۔
توازن اور اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔تمام نوجوان پرجوش لکھاریوں کواس عاجز کا مشورہ یہ ہے کہ صحافت کے میدان میں آپ کی سب سے بڑی متاع آپ کی اپنی ساکھ ،وقار اوراعتبار ہے ،جسے انگریزی میں Credibilityکہتے ہیں ۔ چونکہ آپ نے اس میدان میں رہنا ہے اور یہ آپ کا ذریعۂ معاش بھی ہے ،لہٰذا اس بازار میں آپ کی قدروقیمت کے تعیُّن کی کسوٹی یہ ہے کہ آپ قارئین ، سامعین اور ناظرین کے نزدیک کتنے مستند ،ثقہ اورقابلِ اعتبار ہیں ۔اس میدان میں بلند مقام پانے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کی پگڑی اچھالی جائے ،ہر ایک کی عزت سے کھیلا جائے ،اپنے اور اپنے ممدوح کے سوا سب کو بے توقیر سمجھا جائے، آپ کے بولے ہوئے لفظ اور لکھے ہوئے حرف کا وزن دلیل واستدلال کے معیار پرپورا اترنے سے بنتا ہے۔ہماری تو خواہش اور دعا ہے کہ ہماری سیاست اور صحافت میں اَقدار فروغ پائیں ۔ہم سب باہمی احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے اتفاق یااختلاف کریںاورکسی کی توہین ، تحقیر اور تذلیل نہ کریں۔عربی زبان کا محاورہ ہے :''مَنْ وَقَّرَ وُقِّرَ‘‘،یعنی جس نے دوسروں کی عزت کی ،در اصل اُس نے خود عزت پائی۔ 
جب پاکستان میں صحافت اخبارات تک محدود تھی ،دولت کی ریل پیل نہیں تھی،بڑے بڑے ناقابلِ یقین پیکج بھی نہیں تھے، معاش کے ساتھ ساتھ کسی حد تک مشن بھی تھا۔اگر تقسیم تھی توشخصی وابستگی کی بنیاد پرنہیں بلکہ نظریات کی بنیاد پر تھی۔اُس زمانے میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصطلاحات رائج تھیں ، کہاجاتا تھا کہ کسی کا قبلہ ماسکو اور بیجنگ ہے اور کسی کا لندن اور واشنگٹن ہے۔ ایک دوسرے پر طنز وتعریض بھی ہوتی تھی ،لیکن کسی نہ کسی درجے میں باہمی احترام بھی ملحوظ رہتا تھا۔بیسویں صدی کے ساٹھ ستر کے عشرے تک اگر اخبار میں کسی کے خلاف چند سطریں چھپ جاتیں تو ہلچل مچ جاتی اور اُس کے اثرات اقتدار کے ایوانوں میں بھی محسوس ہوتے تھے ۔آج کل اخبارات اورٹیلی ویژن چینلز کی کثرت کے سبب لکھے ہوئے حروف اوربولے ہوئے الفاظ کی وہ اہمیت وتاثیر نہیں رہی ۔ غالب نے کہا تھا: 
رنج سے خُوگر ہُوا انساں ، تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی ، کہ آساں ہو گئیں
اور غالب ہی نے کہا ہے کہ 
عشرتِ قطرہ ہے ، دریا میں فنا ہو جانا 
درد کا حد سے گزرنا ہے ، دوا ہو جانا 
سو ٹیلی ویژن چینلز پرسیاسی مباحثوں کی کثرت اور اخبارات میں آرٹیکلز کی بھرمار نے اہلِ اقتدار کے لیے بہت حد تک مشکلات کو آسان کردیا ہے ، درد حد سے گزر کر خود دوا بن گیا ہے اور اب کافی حد تک راوی چین لکھتا ہے ۔ہرچند کہ ہم اپنے لکھے ہوئے حرف کو نَشتر اور بولے ہوئے لفظ کو تیر سمجھیں ، مگریہ ہتھیار اب کند ہوتے جارہے ہیں۔دعا کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے کلام کی بے تاثیری کو شاعر نے ان کلمات میں منظوم کیا ہے:
مانگا کریں گے اب سے دُعا ہجر یار کی
آخر تو دشمنی ہے دُعا کو اثر کے ساتھ
حالانکہ الفاظ کی اثر آفرینی کے بارے میں کسی زمانے میں عربی کے ایک دانا شاعر نے کہا تھا:
جَرَاحَاتُ السَّنَانِ لَھا التِّیام
وَلَا یَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللِسَانُ
ترجمہ:'' تیر کے لگے ہوئے زخم تو پھر بھی (وقت گزرنے کے ساتھ )مندمِل ہوجاتے ہیں ،لیکن زبان کا زخم (آسانی سے) مُندَمِل (Heal Up)نہیں ہوتا‘‘۔پس وقت آگیا ہے کہ اگر ہم اپنے قاری اورناظر کواپنے ساتھ جوڑے رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے رویّے اور اندازِ تحریر وتقریر میں توازن پیدا کریں ،تنقید اور تنقیص وتوہین میں فرق کو سمجھیں۔ اگر کوئی کسی کے ایجنڈے پر بھی کام کر رہا ہے تواپنے مُرَبِّی اور ولیٔ نعمت کے مقصد کو حکمت سے بات کرکے ہی حاصل کر پائے گا ،شوروغوغا اور بے مقصد الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ،بلکہ یہ حربے انگریزی کی اصطلاح میں Counter Productiveیعنی منفی نتائج کے حامل ہوں گے۔ہمارے آزاد الیکٹرانک میڈیا کی عمرِ عزیز اب سولہ سال ہوچکی ہے ،لہٰذا ہمارے رویّوں میں پختگی (Maturity)آنی چاہیے۔ہمارا یہ مشورہ مذہبی طبقات کے لیے بھی ہے کہ تمام مسالک کے بیشترمقبولِ عام خطباء کا شِعارِ خطابت منفی ہوتا ہے ،وہ طنز ،تعریض ،توریہ اور ایہام کے فن کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں کی تذلیل کرتے ہیں ۔اس لیے میں اس بات کا اعادہ کرتا رہتا ہوں کہ ہمیں دوسروں کی خامیوں پر جینے کی بجائے اپنی خوبیوں پر جینے کا سلیقہ اختیار کرنا چاہیے ۔زبان اور قلم کا استعمال انتہائی محتاط انداز میں کرنا چاہیے ۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی یہی ہے :(1)''اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ،اُس پر لازم ہے کہ اچھی بات کہے یا (دوسروں کے لیے اذیت رسانی کی بات کہنے کی بجائے )خاموش رہے، (صحیح البخاری: 6018)‘‘۔(2):''اچھی بات کہنا (بھی )صدقہ ہے ،(مسند احمد:8111)‘‘۔ (3)''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:رسول اللہ ﷺ کا اندازِ گفتار (اتنا وقار ،متانت اور ٹھیرائو والا تھا ) کہ ہر لفظ جدا جدا معلوم ہوتا (جیسے موتی ترتیب سے جَڑے ہوئے ہوں )،جو بھی اُسے سنتا ،پوری طرح (اُس کے مفہوم کو)سمجھ لیتا، (سنن ابودائود:4839)‘‘۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ،پھر جو کچھ خرچ کریں اُس پر احسان جتاتے ہیں نہ تکلیف پہنچاتے ہیں ،اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس اُن کا اجر ہے اور نہ اُن پر کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ،(لوگوں سے )اچھی بات کہنا اور (اُن کی خطا سے )درگزر کرنا اُس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد تکلیف پہنچے،اور اللہ بے نیاز اور بہت بردبار ہے ،اے ایمان والو! احسان جتاکر اور اذیت پہنچاکر اپنے صدقات کوضائع نہ کرو، (البقرہ:262-64)‘‘۔ سو اذیت رسانی انسان کی کمائی ہوئی نیکی سے اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے اپنے مال کے اجر سے بھی محروم کردیتی ہے ۔اسی طرح دینِ اسلام نے بدگمانی ،بہتان تراشی ،عیب جوئی ،غیبت،تمسخُراڑانے اور طعن وتشنیع سے بھی منع فرمایا ہے ۔سورۂ الحجرات کے دوسرے رکوع ،سورۃ الہمزہ اور سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات میں اخلاقیات کے مسائل کو تفصیل سے بیان فرمایا گیاہے اور ویسے تو قرآنِ مجید میں جا بجا ان باتوں کی تاکیدات، تنبیہات اور وعیدیں مذکور ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں