"MMC" (space) message & send to 7575

مِلّتِ حنیف

حضرت ابراہیم علیہ السلام کوقرآنِ مجید میں ''دینِ حنیف‘‘اور ''مِلَّتِ حنیف‘‘کا حامل اور داعی قرار دیا گیا ہے۔ حنیف کے معنی ہیں:''باطل کی طرف کسی میلان یا جھکائو سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے پوری عزیمت کے ساتھ حق پر قائم رہنا ‘‘۔حق کو صراطِ مستقیم سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اہلِ کتاب نے کہا:یہودی یا نصرانی ہوجائوتو ہدایت یافتہ ہوجائو گے ،آپ کہیے:بلکہ ہم ملتِ ابراہیمی پر ہیں جو ہر باطل سے اجتناب کرنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے ،(البقرہ:135)‘‘۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ اُس دور میں یہود صرف یہودیت کواور نصرانی صرف مسیحیت کو ہدایت ونجات کا مَدار سمجھتے تھے اور اُن میں سے ہر گروہ اپنے دین کی طرف دعوت دیتا تھا۔یہود ،نصاریٰ اورمشرکینِ مکہ میں سے ہر ایک کادعویٰ یہ تھا کہ صرف وہی ملتِ ابراہیمی کے پیروکار ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اُن کے باطل دعووں کا رد کرتے ہوئے فرمایا:''ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی ،بلکہ وہ ہر باطل سے اعراض کرنے والے مُسلِم تھے اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھے،(آل عمران67)‘‘۔ 
الغرض حضرت ابراہیم علیہ السلام شرک کی تمام صورتوں کو مٹانے کے لیے آئے تھے ،مُجَدِّدِ انبیاء تھے ،اُولوالعزم رسول تھے اور تنہا باطل کے مقابل میدان میں استقامت کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔حق کی راہ میں انہیں طرح طرح کی آزمائشوں ،مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''اور(یاد کیجیے!) جب ابراہیم کے رب نے کئی باتوں میںاُن کی آزمائش کی، تو انہوں نے اُن کو پورا کردیا ،اللہ نے فرمایا:بے شک میں تمہیں تمام لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، (ابراہیم علیہ السلام نے )کہا:اور میری اولاد سے بھی ،(اللہ نے) فرمایا:میرا عہد (منصبِ امامت)ظالموں کو نہیں پہنچتا، (البقرہ:124)‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام غیر اللہ کی خدائی کی نفی فرماتے اور اللہ وحدہٗ لا شریک پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''کیا آپ نے اُس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اُن کے رب کے متعلق (ابراہیم کے اس دعوے پر )جھگڑا کیا کہ اللہ نے اُس ( نمرود)کوبادشاہت عطا فرمائی ہے ، جب ابراہیم نے کہا:میرا رب وہ ہے جو حیات عطا کرتا ہے اور اُسے سلب کرتا ہے ،(نمرود نے)کہا :میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ،(ابراہیم نے )کہا: بے شک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ،سو (اگر تجھے خدائی کا دعویٰ ہے)تواُسے مغرب سے نکال لا،تو کافرکے ہوش اڑ گئے اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا،(البقرہ:258)‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ باطل خدائی کا دعویٰ کرنے والے خدائی اختیارات کے بھی دعوے دار ہوتے ہیں اور اِسی بنا پر نمرود لاجواب ہوا۔
اللہ کے رسولوں کا مشن محض مناظرے میں غلبہ پانا اور اپنی برتری جِتانا مقصود نہیں ہوتا ،بلکہ خالیُ الذہن اور عقلِ سلیم والے لوگوں کے ذہنوں میں حق کو جاگزیں کرنا ہوتا ہے ،اِس لیے ایسی لفظی بحثوں اور منطقی دلائل میں الجھتے نہیں ہیں ،جو عام لوگوں کی ذہنی سطح سے بالا تر ہوں۔ورنہ وہ یہ بحث کرسکتے تھے کہ اِحیاء یعنی زندگی عطا کرنااوراِماتَت یعنی زندگی سلب کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں ، جو تم سمجھے ۔قتل یا سمندرمیں ڈوب جانا یا سیلاب میں بہہ جانا یا ملبے تلے دَب جانا یا بلندی سے گر جانا یا درندے کا چیرپھاڑ لینا یا کسی بم بلاسٹ یا آگ میں جل جانا وغیرہ یہ سب اسبابِ موت ہیں ،اِن تمام صورتوں میں موت دینے والا یعنی مُمِیْت اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔
یہی صورتِ حال اُس وقت پیش آئی جب قومِ نمرود اپنے میلے پر گئی ہوئی تھی ،توابراہیم علیہ السلام نے سوائے بڑے بُت کے اُن کے بتوں کو پاش پاش کردیا ۔جب وہ میلے سے واپس آئے تو آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرنے لگے کہ ہمارے خود تراشے ہوئے اِن خدائوں کا یہ حشر کس نے کیا؟۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:''انہوں نے کہا: ایک جوان کو اِن بتوں کا (ناپسندیدگی کے ساتھ) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ،جس کو ابراہیم کہاجاتا ہے ،(الانبیائ:60)‘‘۔پھر ابراہیم علیہ السلام کو برسرِعام طلب کیا گیا اور آپ سے اس بارے میں باز پُرس ہوئی ۔انہوں نے فرمایا:''(مجھ سے سوال کرنا عبث ہے )،یہ بڑا بُت (موجود)ہے ،اگر یہ بُت بات کرتے ہیں ، تو اِنہی سے پوچھ لو،پس انہوں نے اپنے دلوں سے رجوع کیا اور (دل ہی دل میں )کہا:بے شک تم ظالم ہو،پھر انہوں نے (شرم کے مارے )سر جھکا لیے (اور کہا:)آپ کو معلوم تو ہے ،یہ بت بول نہیں سکتے ،(ابراہیم نے )کہا:کیا تم اللہ کے مقابل اِن (باطل معبودوں) کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں ،(الانبیائ:64-66)‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام قوم کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی ذات ہی وہ ہے جس کی قدرت ، علم اور ارادہ ہرچیز پر محیط ہے اور اُس کی مَشِیْئَت ہر چیزپرنافذ ہے ۔خود تراشیدہ بُت ہوں یامَظاہرِ کائنات ہوںیا کوئی غیبی طاقتیں از قسمِ جنّات وغیرہ ہوں یا انسان خدا بن بیٹھے ہوں ،یہ سب قادرِ مطلق کے سامنے بے بس ہیں ،اِن کی طاقت اور ہر عروج وکمال عارضی اور فانی ہے ،اللہ چاہے تو آنِ واحد میں سَلب فرمالے ۔ابدی اور دائمی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔شرک توحید کی ضِد ہے ۔
شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں کسی کو شریک مانا جائے ،خواہ کسی کو اللہ کے سوا واجب الوجود (Self Extent)مانا جائے جیساکہ مجوس مانتے ہیں یا کسی کو عبادت کا مستحق مانا جائے جیساکہ بت پرست مانتے ہیں ،(شرح العقائد ، ص:56)‘‘۔اس تعریف کی رُو سے الوہیتِ حقیقی کو ہم دو چیزوں سے تعبیر کرسکتے ہیں :(1)وجوبِ وجود(2)استحقاقِ عبادت۔یعنی اگر کوئی شخص کسی کو اللہ تعالیٰ کے سوا واجب الوجود یا مستحقِ عبادت مانے ،تو یہ شرک ہے ۔واجب الوجود کے معنی ہیں:ایسی ہستی جس کی کوئی ابتدا وانتہا نہیں ہے ،وہ ایسا اَوّل ہے ،جس سے پہلے کوئی اور نہیں اور وہ ایسا آخِر ہے ،جس کے بعد کوئی اور نہیں ۔اسی کو ہمارے فلسفے کی اصطلاح میں ازلی اور ابدی کہا جاتا ہے ۔ الغرض واجب الوجود وہ ہے ،جو مسبوق با العدم نہیں ہے ،یعنی اُس پر عدم و فنا کبھی طاری نہیں ہوا ،وہ عدم سے وجود میں نہیں آیا ۔مزید آسان لفظوں میں واجب الوجود وہ ذات ہے ،جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ، وہ کسی کے خَلق سے وجود میں نہیں آیا ،بلکہ اُس کا وجود اپنی ذات سے ہے ۔ اِسی حقیقت کو ہم دوسرے لفظوں میں ''لا متناہی ‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ،یعنی جس کی کوئی حد وانتہا نہیں ہے ۔ ملحدین ،عقل کو حتمی اور قطعی معیار ماننے والوں اور مادّہ پرستوں کے لیے اِس حقیقت کوسمجھنا دشوار ہے ،کیونکہ لا محدود حقیقت کا احاطہ محدود عقل نہیں کرسکتی ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(1)''نگاہیںاُس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ،وہ ہرچیز کی باریکیوں کو جاننے والا (ہرچیز کے ظاہر وباطن سے )بہت باخبرہے ،(الانعام:103)‘‘۔(2)''اور انہوں نے اللہ کے لیے جِنّوں کو شریک قرار دیا حالانکہ اُس نے اُن کو پیدا کیا ہے اور اُن لوگوں نے جہالت سے اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں اِختراع کرلیں ،وہ (اِن اوصاف سے)پاک اوربالا تر ہے ، جو وہ بیان کرتے ہیں،وہ آسمانوں اور زمینوں کا موجِد ہے ،اُس کی اولاد کیونکر ہوگی حالانکہ اُس کی بیوی ہی نہیں ہے اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے ،یہی ہے اللہ جو تمہارا رب ہے ،اُس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ،وہ ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے ،سو تم اُس کی عبادت کرو ، وہ ہرچیز پر نگہبان ہے ،(الانعام:100-102)‘‘۔
شرکِ صریح تو یہ ہے کہ اللہ کے مقابل غیر اللہ کی عبادت کی جائے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے :''کہہ دیجیے!مجھے فقط اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کروں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائوں ،اُسی کی جانب میں بلاتا ہوں اور اُسی کی جانب لوٹ جانا ہے ،(الرعد:36)‘‘۔مسلمانوں کے اندر یہ شرکِ صریح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل کسی اور کی عبادت کریں ،لیکن کئی ایسی چیزیں ہیں جو توحید کے منافی ہیں اور کچھ کو تو رسول اللہ ﷺ نے شرکِ اصغر سے تعبیر فرمایا ہے :
محمود بن لَبِید بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺ نے فرمایا:''سب سے زیادہ مجھے تمہارے بارے میں جس چیز کا خوف ہے ، وہ شرکِ اصغر ہے ،صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ!شرکِ اصغر کیا ہے؟،آپ ﷺ نے فرمایا: ریاکاری(یعنی بندوں کو خوش کرنے کے لیے یا اُن کی عقیدت کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے نیک کام کرنا )،(آپ ﷺ نے فرمایا:)قیامت کے دن جب بندوں کو اُن کے نیک اعمال کی جزا دی جائے گی ،تواللہ تعالیٰ ریاکاروں سے فرمائے گا:دنیا میں جن کو دکھانے کے لیے تم (بظاہر)نیک کام کرتے تھے ، اُن کے پاس جائو ،کیا اُن کے پاس تمہارے لیے کوئی جزا ہے ،(مسند احمد:23630)‘‘۔ 
اِسی طرح جب رسول اللہ ﷺ کو حکم ہوا کہ نصاریٰ کو اُن مشتَرکات پر آنے کی دعوت دیں جو ظاہر میں مسلمانوں کی طرح نصاریٰ میں بھی مُسَلَّم تھیں ،تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:''کہہ دیجیے :اے اہلِ کتاب!آئو ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں طور پر (مُسَلَّم )ہے ،(وہ یہ کہ)ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور ہم اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے مقابل کسی دوسرے کو رب نہ بنائے ،سو اگر وہ پھر جائیں (یعنی اِس میثاق کو نہ مانیں )،تو تم کہہ دو:(لوگو!) تم گواہ رہو ، بے شک ہم مسلمان ہیں، (آل عمران:65)‘‘۔عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں :میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی ،آپ ﷺ نے فرمایا: اے عدی!''اِس بت کو اتارکر پھینک دو ‘‘اور میں نے سنا کہ آپﷺ سورۂ براء ت کی یہ آیت تلاوت کر رہے تھے: (ترجمہ):''انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے مقابل رب بنا لیا ہے‘‘ ،آپ ﷺ نے فرمایا: ''بے شک وہ اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے ،لیکن جب وہ اِن کے لیے کسی (حرام )چیز کو حلال قرار دیتے ،تو یہ اُسے حلال مان لیتے اور جب وہ اِن کے لیے کسی (حلال )چیز کوحرام قرار دیتے ،تو یہ اُسے حرام تسلیم کرلیتے ،(سنن ترمذی: 3106)‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ چیزوں کوحلال یا حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے یا اُس کے اِذن سے رسول اللہ ﷺ کا اختیار ہے ۔کسی غیر اللہ کو ، خواہ وہ کوئی بھی ہو ،یہ اختیار دینا عملاً اُسے رب ماننا ہے اور قرآنِ مجیدنے اِسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں