"MMC" (space) message & send to 7575

ایم کیو ایم پاکستان

جیساکہ بتایا گیا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے ایم کیو ایم الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جناب ڈاکٹر فاروق عبدالستار کی سربراہی میں رجسٹرڈ ہے۔ ہمارے ہاں ضابطے کے کام چونکہ ہمیشہ خانہ پری کے لیے عجلت میں ہوتے ہیں ، اس لیے بعض اوقات وہ گلے کی ہڈی بن جاتے ہیںاور بعض صورتوں میں اُس سے نجات کی صورت نکل آتی ہے ،جیساکہ ایم کیو ایم کا مسئلہ ہے۔
ایک وقت تھا کہ جناب الطاف حسین ایم کیو ایم کے لیے اثاثہ تھے، اب وہ اپنی تلوُّن مزاجی ،انا پرستی اورنَخوَت وغرور کے سبب کافی عرصے سے اپنی پارٹی کے لیے بار بنتے جارہے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہورہا تھا۔رابطہ کمیٹی لندن اس سے لطف اندوز ہورہی تھی ،کیونکہ وہ مرکزِ توجّہ بن رہے تھے ،جب کہ رابطہ کمیٹی کراچی ان حالات کے سبب دبائو میں رہتی اور انہیں اپنے قائد کے غیر متوقع اور ہر روز بدلتے ہوئے ہِذیانی خطابات کی ایسی تاویلیں کرنی پڑتیں کہ :''کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔ اسے عربی محاورے میں کہتے ہیں: ''تَاوِیْلُ مَالَم یَرضَ بِہٖ الْقَائِلُ‘‘یعنی قائل کے کلام کی ایسی تاویل کرناجو اُن کی منشا کے برعکس ہو اور یہ حقیقت ان ماہرین تاویلات کے چہرے کے تاثرات سے بھی عیاں ہوتی تھی، لیکن ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا۔
پھر قدرت کا تازیانہ حرکت میں آیا اور 22اگست 2016ء کو پریس کلب کراچی میں الطاف حسین صاحب کے پاکستان دشمنی پر مبنی خطاب، نعروں اور میڈیا ہائوسز پر یلغار کا سانحہ رونما ہوا۔ اُس دن نصف شب تک تو ساری سیاسی قیادت اور دیگر پیشہ ور بیان باز میڈیا کی حُرمت کی پامالی کا مرثیہ پڑھتے رہے ،مقابلے کی فضا طاری تھی اورٹِکر پر ٹِکر چل رہا تھا۔ ابتدا میں پاکستان کی ناموس کی پامالی کسی کو یاد نہ رہی، یہاں تک کہ اچانک بارہ بجے شب وزیرِ اعظم محمد نواز شریف کا ٹِکر چلا کہ پاکستان دشمنی کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایک ایک لفظ کا حساب لیا جائے گا۔ پھر پورے میڈیا نے یوٹرن لیا اور سیاسی قائدین ،مختلف تنظیموں اور دیگر طبقات نے بھی پاکستان کی حرمت کی پامالی کو موضوع بحث بنایا۔ 
الطاف حسین صاحب اپنی تقریر کے سبب اس عربی کہاوت کا مصداق بنے :'' ایک بدو صحرا میں تھا، اسے اپنی بکری ذبح کرنی تھی،مگر چھُری نہیں مل رہی تھی ، اچانک بکری نے ریت پراپنا کھُر مارا اور نیچے سے چھُری نکل آئی ،بدو نے ''بسم اللہ اللہ اکبر‘‘پڑھ کر ُبکری کوذبح کرڈالا ، جس نے اپنی موت کاسامان خود فراہم کیا‘‘۔
اس کے بعد ایم کیو ایم کی کراچی میں موجودرابطہ وتنظیمی کمیٹی اور ہر سطح کے منتخب ارکان سرجوڑ کر بیٹھے اور یقینا لندن مرکز اور بیرون ملک دیگر ذمے داران سے بھی مشاورت کی ہوگی۔ پھر ایم کیو ایم پاکستان کا تصور وجود میں آیا ،پارٹی دستور میں حسبِ ضرورت ترمیم کی گئی تاکہ پارٹی دبائو سے نکلے اور اپنی بقا کا سامان کرے۔ الطاف حسین صاحب کاسایااور لندن رابطہ کمیٹی اُن کا تعاقب کرتی رہے گی اور اُن کے مکمل با اختیار ہونے کی حقیقت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بتدریج آشکار ہوگی،اگرچہ یہ ہمالیہ قائد کی زندگی میںاپنی پوری معنویت کے ساتھ سر کرنا محالِ عقلی تو نہیں ،مگر محالِ عادی ضرور ہے۔ منطق وفلسفے کی زبان میں محالِ عقلی اسے کہتے ہیں کہ جس کے وجود کو عقل سرے سے تسلیم ہی نہ کرے اور وہ صرف اور صرف شریکِ باری تعالیٰ کا وجود ہے ۔محالِ عادی اسے کہتے ہیں کہ عقل تو اس کے وقوع یا امکان کو تسلیم کرتی ہے ،لیکن عادتاً یا ہمارے زمینی حقائق اور دستیاب حالات میں اس کا وقوع ناممکن نظر آتا ہے۔
تاہم جناب ڈاکٹر فاروق عبدالستار کے دعوے یا بیان پر اعتماد کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے ،بعض لوگوں کی خواہش کے باوجود فوری طور پر ان حضرات کے اجتماعی استعفے بھی اس مسئلے کا حل نہیں ہیں ،کیونکہ بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات کے انعقاد سے ایک اور بحران جنم لے سکتا ہے ۔انڈیا نے امریکا کے ساتھ مل کر وطنِ عزیز کو چاروں طرف سے گھیرنے کا پروگرام بنالیا ہے اور ظاہری قرائن اور اشاریے ان خدشات کو تقویت پہنچارہے ہیں، کیونکہ ایران اور افغانستان کے علاوہ گردوپیش کے ممالک میں انڈیا کا نفوذ کئی گنا بڑھ چکا ہے ۔مزید یہ کہ بھارت پاکستان پر سفارتی یلغار کر کے اسے سیاسی تنہائی سے دوچار کرنے کا منصوبہ بھی بنارہاہے اورامریکہ دہشت گردی کے خلاف اپنی عالمی جنگ میں پاکستان کو استعمال کرنے کے بعد اب انڈیا کو اپناتزویراتی شراکت داربناچکا ہے۔
شورش وفساد پر مائل ہماری سیاسی قیادت اور غوغا آرائی کا بازار گرم کرنے والے میڈیا کے سواخطرات سے معمور ان حقائق کا ادراک ہر ذی شعور کوبخوبی حاصل ہے۔ کچھ لوگ سیاسی حکمرانوں کو کوستے ہیں کہ بھارت کے لیے ان کے شعلہ بداماں اور آتش بدہن بیانات کیوں نہیں آرہے؟۔ جن لوگوں نے دسمبر1971ء میںسقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ اپنی شعوری عمرمیں دیکھا ہے ،انہیں معلوم ہے کہ اس طرح کے بیانات سے وقتی طور پر جذبات تو بھڑکائے جاسکتے ہیں ،لیکن جنگیں نہیں جیتی جاسکتیں۔ کچھ دانائے روزگار ایٹمی ہتھیاروں کے محدود یا لامحدود استعمال کی بات کرتے ہیں،یہ بجا ہے۔مگرجنابِ والا! اس کے لیے معاشی وسیاسی استحکام ،تمام اہم شعبوں میںخود کفالت ،سیاسی ودفاعی قیادت میں مکمل ذہنی ہم آہنگی ،اسٹبلشمنٹ کے تمام عناصرمیں یکسوئی اور پوری قوم کا اتحاد اولین شرط ہے۔ سوویت یونین جب تحلیل ہوا تو اس کے پاس معاصر دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار موجود تھے، لیکن اقتصادی ضُعف کے سبب وہ انہیں استعمال نہ کرسکا اور ذلّت آمیز طریقے سے اس کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔جب کہ وہ اُس دور کی ایک سپر پاور اور رقبے کے لحاظ سے جدید دنیا کی سب سے بڑی ریاست تھا۔مگر مشکل یہ ہے کہ پوری عالمی تاریخ تو دور کی بات ہے ،ہم اپنی ماضی قریب کی تاریخ کو بھی یاد رکھنے کے روادار نہیں ہیں اور خواب وخیالات کی دنیا میں مگن رہنا چاہتے ہیں۔بلاشبہ اگر خدانخواستہ خاکم بدہن کبھی ہماری بقا کو خطرہ لاحق ہوا ،تویقیناایٹمی ہتھیاروں کاآپشن اختیار کرنا ناگزیر ہوگا۔لیکن اس کے بعد کون بچے گا اور کیا بچے گا ،اس کا تصور بھی دہلا دینے والا ہے، یہ الیکٹرانک میڈیا کی ریٹنگ کا بازاری تماشا یا شعبدہ بازی نہیں ہے ۔ اہل فکر ونظر کے سرجوڑ کر بیٹھنے کا وقت ہے۔
ڈاکٹر فاروق عبدالستار کراچی میں موجود اپنی ٹیم اور رفقاء کی حمایت کے ساتھ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم پر اعتماد کریں اور ہمیں موقع دیں، آپ ہمیں دور بین اور خوردبین دونوں سے دیکھیں، ہمارا ایم آئی آر اور سٹی اسکین کریں ،یعنی باریک بینی سے مشاہدہ کریں اور ہمارے آئندہ کردارکی روشنی میں ہمیں پرکھیں، سو وہ اپنے ماضی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔مگر یہ کمبل بھی آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں ہے۔ سب کومعلوم ہے کہ ایم کیو ایم کی ماضی کی تاریخ میںشر ہمیشہ خیر پرغالب رہا ہے، لیکن ان کو موقع دینے کے سوا کوئی متبادل فوری حل شاید اسٹبلشمنٹ کے پاس بھی نہیں ہے۔
یہاں تک سطور لکھی جاچکی تھیں کہ منگل کی شب میڈیا نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے رابطہ کمیٹی لندن کے پالیسی سے متضاد بیانات جاری کرنے والے رابطہ کمیٹی کے ارکان کی رکنیت منسوخ کردی ہے ۔اس کے بعد بدھ کی شب ایم کیو ایم کے کنوینر ندیم نصرت نے پاکستان میں ایم کیو ایم کے تمام تنظیمی ڈھانچے کو برطرف کردیا اور منتخب نمائندوں سے کہاکہ الطاف حسین کے مینڈیٹ پر حاصل مختلف ایوانوں کی نشستوں سے استعفیٰ دیں اور نیا مینڈیٹ لے کر آئیں ،کسی نے کہا تھا:''وہ اگلا موڑ جدائی کا،اُسے آنا ہے ، وہ آئے گا‘‘اور اب آچکا۔آخرِ کار ایم کیو ایم پاکستان کو سندھ اسمبلی میں اپنے بانی قائد کو غدار قرار دینے اور اُن کے خلاف مقدمہ قائم کرنے پر مبنی قرارداد پیش کرنی پڑی۔
اس فیصلہ کن مرحلے کی نوبت آنے سے ایم کیو ایم پاکستان گریز کر رہی تھی کہ شاید By pass کرنے کی کوئی تدبیر نکل آتی،جسے اردو میں ''پتلی گلی سے نکلنا‘‘کہتے ہیں،مگر یہ کڑوی گولی آخر کار نگلنی پڑی۔ لندن والوں کی بے تدبیری اور زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر نے کے سبب یہ مرحلہ ناگزیر ہوگیا ۔ اگر ایم کیو ایم پاکستان یہ جھٹکا برداشت کرگئی ،تو امکان موجودہے کہ وہ اپنا سیاسی وجود اٹھارہ بیس یا سولہ بیس کے فرق کے ساتھ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
اس فیصلہ کن اقدام کے بعد بھی ایم کیو ایم پاکستان کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا۔ سلیم شہزاد ڈاکٹر فاروق سے مطالبہ کر رہے تھے کہ لندن رابطہ کمیٹی سے لا تعلقی کے بارے میں دوٹوک اعلان کریں، جب فیصلہ ہوچکا اور اینکر پرسن نے انہیں لائن پر لیا تو انہوں نے اس فیصلے کی تائید کی۔ لیکن جب اینکر نے پوچھا : کیا اب ڈاکٹر فاروق آپ کے قائد ہیں ؟،وہ چند ثانیے توقُّف کے بعدبولے:''قائد تو نہیں، البتہ ہمارے سربراہ ہیں‘‘، باشعور لوگوں کو اس کا بینَ السُّطور ر سمجھ لینا چاہیے۔پس یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے اخباری بیان جاری کرنے پر اکتفا کی ،پریس کانفرنس نہیں کی ، کیونکہ منہ پھٹ میڈیا والے جھٹ یہی سوال کرتے کہ کیا الطاف حسین آپ کے قائد نہیں رہے اور انہیں بھی خارج کردیا گیا ہے، تو ان کے لیے اِس کا براہ راست جواب نہایت مشکل ہوتا۔ سو مشکلات پوری طرح ختم نہیں ہوئیں ،یہی دبائو پی ایس پی کی طرف سے بھی آئے گا۔الطاف حسین صاحب اگرچہ عملاً مائنس ہوچکے ہیں ،لیکن ایم کیو ایم پاکستان کواس کے واضح اعلان پر مجبور کیا گیا ،تو اُن کے لیے مشکلات بڑھیں گی ۔
وقت آگیا ہے کہ نیلسن منڈیلا کے نظریے ''سچ کی تلاش‘‘کواختیار کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان ماضی کی غلطیوں اور مظالم کا اعتراف کرے، اس عہد کے سیاسی کلچر کوعَلانیہ رد کرے اور قوم سے معافی مانگے اور ماضی کے تمام نقوش مٹاکر جرم وسیاست اورکرپشن وسیاست کا امتزاج ترک کر کے صاف ستھری سیاست شروع کرے، یہی شِعار اُن کی جماعت، سندھ کے شہری علاقوں اور پورے ملک وقوم کے مفاد میں ہے ،اس کے لیے کارکنان کی تطہیر بھی لازمی ہوگی۔
زبان وبیان:خارش ایک جِلدی بیماری کا نام ہے ،جسے اردو میں کھُجلی بھی کہتے ہیں ۔میں نے کئی کالم نگاروں کی تحریروں میں پڑھا:''میں نے خارش کی ‘‘۔خارش کی نہیں جاتی ، ہوجاتی ہے ، ہاں !البتہ خارش کی وجہ سے جو جِلدی حساسیت ہوتی ہے ، اُس سے سکون پانے کے لیے انسان جو عمل کرتا ہے ،اُسے اردو میں ''کھُجانا‘‘یا''کھُجلانا‘‘ کہتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں