"MMC" (space) message & send to 7575

علمِ نبوّت کی کرنیں ۔۔۔۔ (حصہ اول)

جدید میڈیکل سائنس کی ارتقا کا عمل جاری وساری ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ سفر کہاں جاکر ختم ہوگا یا کبھی ختم ہوگا بھی یا نہیں۔ لیکن جس سطح تک یہ ارتقائی عمل اب تک پہنچ چکا ہے،اُس کی اساس ہمیں بخوبی علمِ نبوّت میں نظر آتی ہے اور احادیثِ مبارکہ کا ذخیرہ اس پر شاہدِ عدل ہے۔انسانی رنگت، شکل وشباہت، اَعضاء کی ساخت، مزاج کے تنوُّع اور نسَب کے جانچنے کے حوالے سے سائنس دانوں نے قانونِ توارُث کو متعارف کیا،اس میں Mandel , Lvon Poalov اور Calvin Hall کے نام قابلِ ذکر ہیں اور ڈی این اے بھی اِسی کا تسلسل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بے شک اللہ نے آدم (علیہ السلام)کو جب پیدا کیا، تو پورے کُرَۂ ارض سے ایک مُشتِ خاک لی، تو مٹی کی جتنی رنگتیں اور قِسمیں ہیں، وہ سب بنی آدم کی رنگتوں اور مزاج میں ڈھل گئیں۔ سو بنی آدم میں سرخ، سفید، سیاہ اور ملی جلی رنگتوں کے افراد موجود ہیں۔ اِسی طرح بعض مٹی نرم ہوتی ہے، بعض سخت، بعض درمیانی خاصیت کی اور اِسی طرح کوئی مٹی اپنی اصل کے اعتبار سے خبیث،کوئی پاکیزہ اور کوئی درمیانی خاصیت کی ہوتی ہے،(طبقات الکبریٰ لابن سعد:30)‘‘۔ سو مٹی کے یہ خواص انسانی مزاج میں ڈھل گئے۔
پس انسانوں میں بھی آپ کو ہر طرح کے مزاج والے ملیں گے،نرم خُو بھی ہوتے ہیں، معتدل مزاج بھی ہوتے ہیں، اکھڑ، اَڑیَل اور دُرُشت مزاج بھی ہوتے ہیں۔اِسی طرح بنی آدم میں بدطینت، اَخلاقِ رذیلہ وخبیثہ کے حامل اور اخلاقِ حمیدہ سے مزیّن ہر طرح کے افراد ملتے ہیں۔الغرض اصل خِلقتِ آدم تو مٹی سے ہے اور وہ قطرۂ آب جو انسان کے وجود کا نقطۂ آغاز ہے، ان تمام خصوصیات کا حامل ہے اور یہ سب چیزیں انسانوں میں منعکس نظر آتی ہیں۔
حدیث پاک میں ہے:''ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک وسلم)، میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹے نے جنم لیا ہے،آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اُس نے جواب دیا: جی ہاں ! آپ ﷺ نے پوچھا: اُن کے رنگ کیسے ہیں ؟ اُس نے عرض کی: سرخ، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اُس نے عرض کی: جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا: تو وہ (یعنی سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ)کہاں سے آگیا ؟ اُس نے عرض کی: شاید کسی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو، (بخاری: 5305)‘‘۔ 
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قیاس فرماتے تھے اور اس میں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حیوانات میں بعض نسلی خصوصیات پر مبنی قانونِ توارُث جاری ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے،اِسی طرح انسانوں میں بھی یہ قانون ِفطرت جاری وساری ہے۔ حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً وہ شخص سفید رنگ کا تھا،
تو اُسے اپنے سیاہ فام بیٹے کے بارے میں شُبہ ہوا کہ کہیں اس کا نسب مشتبہ تو نہیں ہے، آپ ﷺ نے اپنی پاکیزہ الہامی بصیرت سے اُس کے شک وشبے کو دور فرما دیا اوردرج ذیل حدیثِ مبارک میں اس کی مزید وضاحت ملتی ہے:
علی بن ابی رباح اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا؟ اُس نے جواب دیا: میرے ہاں جو بھی پیدا ہوگا بیٹا ہوگا یا بیٹی ، آپ ﷺ نے پوچھا: وہ بچہ (صورت میں )کس سے مشابہ ہوگا؟ اُس نے عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک وسلم) یقیناً اپنے باپ یا ماں میں سے کسی کے مشابہ ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو (بات یہ ہے کہ ) جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت سے ) اُس کے اور آدم علیہ السلام کے درمیان تمام رشتوں (یعنی اُن کی صورتوں) کو حاضر فرما دیتا ہے، (پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ) کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ''وہ جس صورت میں چاہتا ہے، تمہارے وجود کی تشکیل فرما دیتا ہے،(المعجم الکبیر للطبرانی: 4624)‘‘۔
غورکا مقام ہے کہ اُس دور میں جسے دورِ جہالت کہا جاتا ہے،ن ورِ نبوت کے سوا،جو وحیِ الٰہی کا منبع ہے، کسی اور صاحبِ علم ودانش کی بصیرت و فراست کے بارے میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ اتنی گہرائی اور گیرائی کی حامل ہو اور علم کی ایسی کرنیں بکھیر دے کہ جن تک جدید دورکے ذی عقل وذی شعور انسانوں کی صدیوں بعد جزوی رسائی ہوئی ہو۔ یہ مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ بچے کی صورت نہ باپ کے مشابہ ہے اور نہ ماں کے، اِسی سبب بعض لوگ صحتِ نسب کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے علمِ نبوت کے فیض سے اِس مسئلے کوکم و بیش سوا چودہ سو سال پہلے حل فرمادیا۔ اس مسئلے کی مزید تصدیق وتصویب اس حدیثِ پاک سے ہوتی ہے :
''ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کا رُخِ انور مسرّت و شادمانی سے دمک رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : (عائشہ!) تمہیں معلوم ہے کیا ہوا؟ زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید چادریں اوڑھ کر اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ اُن کے سر (اور بدن کا بالائی حصہ) ڈھکا ہوا تھا اور پائوں کھلے تھے۔ اس اثنا میں بنو مُدلِج کا ایک قیافہ شناس مُجَزَّزْمُدْلِجِی آیا، اچانک اُس کی نظر دو لیٹے ہوئے اشخاص پر پڑی (جن کے صرف پائوں نظر آرہے تھے ) تو اُس نے کہا: یہ پائوںایک دوسرے سے ہیں یعنی یہ آپس میںباپ بیٹا ہیں،(صحیح مسلم: 1459)‘‘۔ 
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والے چار نفوس میں شامل ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متبنّیٰ تھے، جب آپ ﷺ نے انہیں آزاد کردیا،تو انہوں نے آزاد ہوکر اپنے ماں باپ اور خاندان کے پاس جاکر رہنے کی بجائے رسول اللہ ﷺ کی دائمی غلامی کو ترجیح دی۔ انہوں نے ایک حبشی عورت بَرَکہ ، جن کی کنیت اُمِّ اَیمَن تھی، سے شادی کی اور اُن سے اُن کے فرزند اسامہ پیدا ہوئے۔ حضرت اسامہ کا لقب ''حِبُّ رسولِ اللّٰہ‘‘ یعنی ''رسول اللہ ﷺ کا محبوب‘‘ تھا۔ رسول اللہ ﷺ آپ کو ایک ہی سواری پر اپنے پیچھے بٹھاتے تھے، عربی میں اونٹ یا گھوڑے پر سوار کے پیچھے بیٹھنے والے کو ردیف کہتے ہیں۔ وہ رنگت میں سیاہ فام لگتے تھے۔ باپ سے رنگت کے فرق کی وجہ سے کسی بدنیت شخص نے اُن کے نسب پر شک ظاہر کیا، اس سے رسول اللہ ﷺ کو رنج ہوا۔ لہٰذا جب مُجَزَّزْ مُدْلِجِی نے قیافے کی بنا پر محض دونوں کے پائوں دیکھ کر انہیں باپ بیٹا قرار دیا، تو آپ ﷺ کو نہایت مسرت ہوئی۔ شرعاً تو ان کا نسب پہلے ہی ثابت تھا، مگر قرائن کی شہادت سے اس کو تقویت ملی، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ شہادت کا اصل معیار تو شریعت ہی کا رہے گا، تاہم قرائن کی شہادت اس کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہے۔
آج کل موسمیاتی تغیر کا عالَمی چیلنج درپیش ہے۔ Global Warming یعنی عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں اضافہ ایک خطرے کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔ سو ماحولیاتی حرارت میں کمی یا کم از کم اسے موجودہ حد تک برقرار رکھنے کے لیے ایک مفید حکمت عملی شجرکاری اور جنگلات میں اضافہ ہے۔ عالمی ماہرین کسی بھی ملک کی زمین میں جنگلات کا ایک کم از کم تناسب ضروری سمجھتے ہیں۔ جنگلات اور درخت موسم کو بہتر رکھنے، زلزلوں اور طوفانی بارشوں میں زمین کے کٹائوکو روکنے کا باعث بنتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے شجر کاری کی ترغیب دیتے ہوئے اس فعل کو نیکی کا درجہ دیا اور اس کے ثمرات کو صدقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: 
(1) ''جو شخص کوئی درخت لگائے یا فصل کاشت کرے، پھر اُس سے کوئی انسان یا پرندہ یا درندہ یا چوپایا کھائے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے، (مسند احمد:15201)‘‘۔ 
(2) ''جوبھی مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے، تو اُس درخت سے جو کچھ کھایا جائے، وہ اُس کے لیے صدقہ ہے اور جو اُس سے چوری ہوجائے اور جو درندے اُس سے کھالیں، وہ (بھی) اُس کے لیے صدقہ ہے اور جو پرندے اُس سے کھالیں، وہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہے اورکوئی شخص اُس میں سے کم کرے گا، وہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہو جائے گا، (مسلم: 1552)‘‘۔ 
(3)''اگر قیامت سر پہ کھڑی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کسی درخت کا کوئی قلم یا پودا ہے، اگر وہ کھڑا ہونے سے پہلے اُسے زمین میں لگا سکتا ہے، تو ضرور لگالے،(ادب المفرد:479)‘‘۔
یہ انسان کی فطرت ہے اور اس کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کاشت کی ہوئی فصل،لگایا ہوا باغ اور بویا ہوا پودا جب کامل ہوجائے،تو اپنی محنت کا سارا ثمر وہ اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اُس کا کوئی دانہ، کوئی پھل،کوئی پھول، کوئی سبزی الغرض کوئی بھی چیز ضائع ہوجائے۔ لیکن شجر کاری وہ شعبہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے نیت کے بغیر ہی انسان کو اجر کا حق دار قرار دیا ہے اوررسول اللہ ﷺ نے اسے صدقے سے تعبیر فرمایا ہے۔ اُس میں سے کوئی چیزانسان،حیوانات،چرند،پرند، درندے حتیٰ کہ حشراتُ الارض کھائیں یا چوری ہوجائے یا کوئی کمی ہوجائے،تو اللہ تعالیٰ اُس پر بھی اُسے اجر عطا فرماتا ہے۔انسان کے لگائے ہوئے درخت کی چھائوں میں کوئی راحت پالے تو یہ بھی صدقہ ہے، کوئی پرندہ اُس کی شاخوں میں آشیانہ بنالے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ جو دین اتنا ماحول دوست ہو،انسان نواز ہو،اللہ کی ہر مخلوق کے لیے وسیلۂ رحمت ہو، حتیٰ کہ اللہ کی زمین کی برقراری اورشادابی کے لیے سہارا ہو، اُس کے ماننے والوں کے وطن میں جنگلات تباہ و برباد ہوتے رہیں،زمین درختوں کے سائبان سے بے لباس ہوجائے، اِسے دنیا وآخرت کی محرومی کے سوا اور کس چیز سے تعبیر کیا جائے۔
اس کی اہمیت کا بیان زبانِ نبوت ہی فرما سکتی ہے کہ تمہارے ہاتھ میں قلم یا شاخ ہے اور قیامت سر پہ کھڑی ہے،تب بھی اٹھنے سے پہلے اسے زمین میں لگاسکتے ہو تو لگالو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں