"MMC" (space) message & send to 7575

علمِ نبوت کی کرنیں (حصہ دوم)

کلوننگ:کسی جاندار کے وجود کے ایک خَلیے (Cell)سے دوسرے جاندار کے پیدا کیے جانے کے جدید سائنسی نظریے کو کلوننگ کہتے ہیں ،جیساکہ سائنس دانوں نے اپنے دعوے کے مطابق ایک بھیڑ کے خَلیے سے ''ڈولی‘‘ نامی دوسری بھیڑ پیدا کی۔ الحمد للہ! قرآن کریم نے ماں باپ دونوں کے واسطے کے بغیر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ،عورت کے واسطے کے بغیر حضرت آدم کے وجود سے حضرت حوا کی پیدائش اور مرد کے واسطے کے بغیر حضرت مریم کے وجود سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا حوالہ دے کر روزِ اول سے بتادیا ہے کہ یہ تمام صورتیں نہ صرف ممکن ہیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وجود میں آچکی ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
(1)''بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم کی سی ہے ،جسے اس نے مٹی سے بنایا ،پھر (اسے )فرمایا:ہوجا، سو وہ ہوگیا، (آل عمران:59)‘‘۔(2)''(اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ، (الاعراف:189)‘‘۔ (3)''فرشتے نے کہا:میں توصرف تمہارے رب کا بھیجاہوا ہوں تاکہ میں تمہیںایک پاکیزہ بیٹا دوں ،مریم نے کہا: میرے ہاں بیٹا کیسے ہوسکتا ہے ، حالانکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں اور نہ میں بدکار ہوں،فرشتے نے کہا:(مَشِیْئَتِ باری تعالیٰ )اِسی طرح ہے،آپ کے رب نے فرمایا : یہ مجھ پر آسان ہے تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی )نشانی اور اپنی طرف سے رحمت بنادیں اوریہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میںطے شدہ امرہے ، (مریم: 19-21)‘‘ ۔ (4)''اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان (آدم) سے پیدا کیااور اُسی سے اس کا جوڑ ا(Spouseیعنی حواکو) پیدا کیا اور اُن دونوں سے بہ کثرت مَردوں اور عورتوں کو(زمین میں) پھیلادیا، (النساء:1)‘‘۔
یہی بات حدیث پاک میں بیان کی گئی ہے ،فرمایا: ''عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو،کیونکہ( کائنات کی پہلی ) عورت کو (آدم)کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی کی سب سے اوپر والی ہڈی ٹیڑھی ہے ،پس اگر تم ان کو (زاویۂ قائمہ کی طرح) سیدھا کرنے لگو گے،توتوڑ دوگے اوراگر تم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی ، سو عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو، (صحیح بخاری:3331)‘‘۔ 
ہماری دینی بہنیں اس حدیث کو سن کر ناگواری محسوس کرتی ہیں کہ انہیں ٹیڑھا کہا گیا ہے ۔در اصل رسول اللہ ﷺ نے طبائع اور مزاجوں کے تفاوت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عورت کو سو فیصد اپنی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش نہ کرو ،بلکہ اس کے مزاج کے ساتھ مطابقت (Adjustability)پیدا کرو ۔ ظاہر ہے کہ مطابقت پیدا کرنے کے لیے ہر فریق کو دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنی ہوتی ہے ،سو خاندانی نظام کو استوار رکھنے کے لیے مرد کو بھی جھکنا پڑے گا،اکڑ کر رہنے سے ٹکرائو تو ہوسکتا ہے ،مطابقت نہیں ہوسکتی اور خاندان بکھر جاتا ہے ،جو منشائے ازدواج کے خلاف ہے ۔
کتے کے منہ کے جراثیم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتامنہ ڈالے(یعنی زبان سے چاٹے) ،تو اُسے پاک کرنے کے لیے سات مرتبہ دھویا جائے ،جن میں سے پہلی مرتبہ اُسے مٹی سے مانجھا جائے ،(بخاری:168)‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ کتے کے منہ سے نکلنے والے جراثیم موذی ہوتے ہیں اور اُن سے بچائو کے لیے احتیاط نہایت ضروری ہے ، آج کل مٹی کی جگہ کیمیکل یا واشنگ پائوڈر استعمال کیے جاتے ہیں ۔حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ کتے کے لعاب کا تریاق مٹی میں ہے اور شاید مٹی میں ایسا دافع عفونت (Antiseptec)مادہ ہوتا ہے ،جو کتے کے جراثیم کے برے اثرات کا خاتمہ کردیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہائے کرام نے کہا:خشک مٹی پاک ہے اور اُس پر کوئی کپڑا بچھائے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میرے لیے مٹی کو پاک کردیا ہے ،(سنن ابودائود:489)‘‘۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ کتا جب فُضلہ خارج کرتا ہے تو اُس کے ذرّات اُس مقام کے اطراف کے بالوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں ، پھر اُن میں موذی جراثیم (Viruses)پیدا ہوتے ہیں اور کتا جب اُس مقام کو چاٹتا ہے ،تو وہ جراثیم اُس کے لعاب میں شامل ہوجاتے ہیں ۔اسی طرح کتا جب باولا ہوجاتاہے ،تو اُس کے لُعاب(Spittle) میں Lyssaviruses پیدا ہوجاتے ہیں اور اگراُن کابروقت علاج نہ کیا جائے ، تو اُس سے Rabiesکی بیماری پیدا ہوتی ہے ، علامات (Symptoms)ظاہر ہونے کے بعدیہ بیماری تقریباً ناقابلِ علاج ہوتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اس آخری مرحلے کے بعد اب تک طبی دنیا میں صرف پانچ مریضوں کا شفا یاب ہونا ریکارڈ پر ہے۔اس بیماری کے بعد دماغی اعصاب(Neuro Nerves) متاثر ہوتے ہیں اور Hydrophobiaیعنی پانی سے خوف کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور مریض شدید پیاس کے باوجود پانی نہیں پی پاتا ۔ابتدائی مراحل میں اگر زخم کو اچھی طرح Antibioticسے دھولیا جائے اور Immunoglobulinکے انجکشن دے دیے جائیں ،تو بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔ سرِ دست کوئی ایسا میڈیکل ٹیسٹ ایجاد نہیں ہوا کہ اس بیماری کوابتدا ہی میں Diagnoseکیا جاسکے ،جدید تحقیق کے مطابق یہ چھ ہفتے سے لے کر چھ ماہ تک کے عرصے میں نمودار ہوسکتی ہے ،البتہ پوسٹ مارٹم میں تشخیص ہوسکتی ہے ۔یہ علمِ نبوت ہی کا فیضان ہے کہ آپ ﷺ نے دینی و اَخلاقی تعلیمات کے ذریعے اِن مہلک جسمانی امراض اور اَخلاقی عوارض کے علاج تجویز فرمائے ۔
کلمات کی تاثیر: قرآن مجید کی سورۂ المائدہ :4میں تربیت یافتہ اور سِدھائے ہوئے کتوں کے ذریعے حلال جانور کے شکار کے جواز کا حکم بیان فرمایا گیا ہے ، کتبِ فقہ میں اس کے تفصیلی احکام اور شرائط موجود ہیں ،حدیثِ پاک میں ہے:
حضرت عدی بن ابی حاتم نے نبی ﷺ سے عرض کی:ہم لوگ کتوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں(یعنی اس کا حکم کیا ہے؟)، نبی ﷺ نے فرمایا:'' جب تم نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے شکاری کتے کو چھوڑا اور اس نے شکار کو روکے رکھااور مار ڈالا، تو تم اس کو کھالواور اگر اُس نے خود کھالیاتو پھر تم مت کھائو، کیونکہ اُس نے اِس جانور کواپنے لیے شکار کیا ہے۔اوراگر اُس کے ساتھ دوسرے شکاری کتے بھی مل جائیں ،جن پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہواور انہوں نے اُس شکار کوروکے رکھا اور مارڈالا،توتم اس کو نہ کھائو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ُان میں سے کس کتے نے اِس شکار کو مارڈالا ہے،(بخاری:5484)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے مقدس نام میں ایسی معنوی اور روحانی تاثیر موجود ہے ، جس کے سبب اللہ کے نام پر چھوڑے ہوئے اورسِدھائے ہوئے کتے کا شکار حلال ہوجاتا ہے،حالانکہ کتے کے لعاب کا حکم آپ حدیثِ پاک میں پڑھ چکے ہیں کہ اُس کی پاکیزگی میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ، لیکن شکاری کتے پر بسم اللہ پڑھنے کی برکت سے شریعت نے کتنی رعایت دی ۔بعض ماہرین نے اس کا حسّی سبب بھی بتایا ہے اورعلامہ ابن حجر نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ جب کتا شکار کے پیچھے دوڑتا ہے ،تو اُس کے منہ کا لعاب خشک ہوجاتا ہے اور وہ جب شکار کو پکڑتا ہے تو اُس کا لعاب شکار کو آلودہ نہیں کرتا ۔الفاظ کی روحانی تاثیر کو تو سبھی مانتے ہیں ، عربی شاعر نے کہا ہے:
جَرَاحَاتُ السّنَانِ لَھَا الْتِیَامُ 
وَلَا یَلْتَامُ مَاجَرَحَ اللِّسَانُ
ترجمہ:تیر کے زخم تووقت گزرنے کے ساتھ مُندَمِل(Recover) ہوجاتے ہیں ، لیکن زبان کا لگا ہوا زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ میں تاثیر ہے ۔اچھی نیت سے پیار بھرے الفاظ سن کر انسان کا قلب مسرور ہوجاتا ہے اور روح کو سکون ملتا ہے ، جب کہ نفرت انگیز الفاظ سُن کر دل پر چوٹ لگتی ہے اور روح سے ٹِیسیں اٹھتی ہیں ۔ سو اگر کوئی شیطانی کلمہ روح کو بے چین کرسکتا ہے ، تو پھر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کی صداقت میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے؟۔''سنو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ، (الرعد:)‘‘۔ اور حدیثِ پاک میں ہے :''دو کلمے اللہ کو پسند ہیں ،جو پڑھنے میں نہایت سہل ہیں اور (قیامت کے دن )میزانِ عمل میں وہ بھاری ہوں گے اور وہ یہ ہیں:''سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ‘‘(بخاری:7563)‘‘
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :''میں نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پست قد کے بارے میں طعن کیا ،تو نبی ﷺ نے فرمایا:( اے عائشہ!)تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اُسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے ، تو وہ اُسے بھی بدمزا کردے ،(سنن ترمذی: 2502)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اور برے کلمات کی تاثیر ہوتی ہے اور وہ انسان کے ذہن پر مُثبت یا منفی اثرات مرتب کرتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(1)''اچھی بات کہنا اور(کسی کی غلطی سے) درگزر کرنااُس صدقے سے بہتر ہے جسے بعد میںجِتلا کراذیّت پہنچائی جائے اور اللہ بے نیاز ،نہایت حِلم والا ہے اور اپنے صدقات کو احسان جتلاکر اور (ذہنی )اذیت پہنچاکر ضائع نہ کرو،(البقرہ:263-64)‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''پاکیزہ بات صدقہ ہے (یعنی کسی کو اچھی بات کہنے پر بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اجر ملتا ہے ) ، (بخاری:2891)‘‘۔ جب رسول اللہ ﷺ نے بدشگونی کی مذمت فرمائی ، تو فرمایا:نیک فال لینا بہتر ہے ،سوال ہوا:یارسول اللہ!نیک فال کیا ہے؟،آپ ﷺ نے فرمایا:وہ پاکیزہ بات جسے کوئی سنے (اورخوش ہو)، (بخاری:5754)‘‘۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ،اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے ،ورنہ (بیہودہ بات کہنے کی بجائے)چپ رہے، (6018)‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں