30 دسمبر کو ایک قومی اخبار میں ایک عالم نے ''خُنثٰی مشکل‘‘ کے غسلِ میت کا مسئلہ لکھا، تو اُس پر ممتاز دانشور جناب خورشید ندیم نے، جومذہبی مسائل پر بھی اظہار رائے فرماتے رہتے ہیں ،ناراضی کا اظہار فرمایا اور اُسے تکریمِ انسانیت کے خلاف قرار دیا ۔
جنابِ خورشید ندیم کا یہ کہنا کہ ''فقہ دراصل ایک عہد کے مسائل پر دینی احکام کا اطلاق ہے ‘‘، اس سے اگر حوادث ونوازل مراد ہیں ،تو ہمیںسو فیصد اتفاق ہے ۔حوادث ونوازل سے مراد یہ ہے کہ ایسی صورتِ حال پیش آگئی ہو ،جس کی نظیر پہلے سے موجود نہیں ہے اور جس سے ہمارے متقدمین اکابر کو براہِ راست واسطہ نہیں پڑا۔ایسے حوادث ونوازل آتے رہتے ہیں ،جیسے کلوننگ ،ٹیسٹ ٹیوب بے بی،ڈی این اے وغیرہ ۔ان مسائل کے لیے یقینا اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے ،اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ محض مفروضہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند کردیا گیا ہے ۔اجتہاد ایک جاری عمل کا نام ہے اور کوئی بھی اس کا دروازہ نہیں بند کرسکتا ،کیونکہ کسی کے علم میں نہیں ہے کہ مستقبل میں انسان کو کیا کیا مسائل پیش آسکتے ہیں ۔
نہایت احترام کے ساتھ گزارش ہے کہ ''خُنثٰی مشکل ‘‘حوادث ونوازل میں سے نہیں ہے ،یہ مسئلہ قدیم ہے اور اسی لیے ہمارے ائمۂ کرام اور فقہاء ومجتہدین نے اُن سے متعلق بحث کی ہے اوراُن کے حوالے سے وراثت، جنازہ اور غسلِ میت کے احکام بیان کیے ہیں ۔ جنابِ خورشید ندیم ذی علم آدمی ہیں ،ہمیں حیرت ہے کہ انہیں ''خُنثٰی مشکل ‘‘کے غسلِ میت کے حوالے سے ائمہ کی آراء نہیں ملیں ، ہمارے فقہی سرمائے میں یہ تمام ابحاث موجود ہیں ۔آسان الفاظ میں ہم ''خُنثٰی مشکل‘‘کی یہ تعریف کرسکتے ہیں:'' اگرکسی شخص کی تخلیق جنسی اعتبار سے اس ہیئت پر ہوجائے کہ وہ نہ مرد ہو اور نہ عورت اور کسی ایسی علامت کا ظہور بھی نہ ہو کہ اُسے مردیا عورت میںسے کسی کے مشابہ قرار دیا جاسکے تاکہ اُس کی رو سے اُس پر مرد یا عورت کے احکام کا اطلاق ہو ‘‘۔''خُنثٰی مشکل ‘‘نوعِ انسان سے ہے ،ایمان اور عبادات کا مُکلَّف ہے ،اِسی لیے فقہائے کرام نے بحث کی ہے کہ باجماعت نماز میںوہ کہاں کھڑے ہوں۔اگر فقہاء نے یہ کہا ہے کہ باجماعت نماز میں پہلے مردوں کی صف ہو،پھر عورتوں اور پھر بچوں کی ،تو اس میں عورتوں کی توہین نہیں ہے ،بلکہ اُن کے ستر اور حیا کا تحفظ مطلوب ہے اور وہ تقاضا آج بھی موجود ہے ۔
راقم نے اپنے فتاویٰ کی کتاب ''تفہیم المسائل ‘‘میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے ،ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے :''فقہی اعتبار سے مُخنّث وہ ہے جس میں مرد اورعورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں اورکسی ایک جانب کو ترجیح نہ دی جاسکتی ہو۔ اگر بلوغت سے پہلے یابعد میں کوئی ایسی علامت پائی جائے جوکسی ایک صِنف کے زیادہ قریب ہو تو اُس پراُسی کاحکم عائد ہوگا ۔اگر مذکر کی علامت غالب ہو تو اسے مردوں کے زمرے میں شامل کریں گے اور اگر مؤنث کی علامت غالب ہو تو اسے عورتوں کے زمرے میں شامل کریں گے ۔ امام اعظم ابوحنیفہ نے ایک علامت یہ بتائی ہے کہ اگر''مُخنّث‘‘ پیشاب کی ابتداعلامت ِذکور(Male) سے کرتا ہے ،تو اسے مردوں کے زمرے میں شامل کریں گے اوراگر علامتِ اِناث(Female) سے کرتا ہے ،تو اسے عورتوں کے زمرے میں شامل کریں گے ،اگرایسا امتیاز بھی ممکن نہ ہو اورکسی ایک جانب کی علامت غالب نہ ہو تو وہ '' خُنثیٰ مُشکِل ‘‘ہے۔اگر وہ چھوٹی عمر کاہو اورحدِ شہوت کونہ پہنچاہو اوراس کا انتقال ہوجائے تو مرد اورعورت دونوں ہی اسے غسل دے سکتے ہیں۔اگروفات کے وقت وہ قریب البلوغ یا بالغ تھا،تو اسے غسل نہیں دیا جائے گا بلکہ تیمم کرائیں گے ۔اگر تیمم کرانے والا مَحرم ہے تو اپنے ہاتھ سے براہِ راست تیمم کراسکتا ہے ،ورنہ ہاتھ پرکپڑا لپیٹ کرتیمم کرائے ۔اگر وہ بچپن میں وفات پائے تونمازِ جنازہ میں تیسری تکبیر کے بعد بچے والی دعاپڑھی جائے گی،ورنہ بالغ والی دعاپڑھی جائے گی ، بہرصورت اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اوراس کا کفن دفن عام مسلمانوں کی طرح ہوگا،اسے قبر میں عام مسلمانوں کی طرح قبلہ رُو رکھاجائے گا۔بہتر یہ ہے کہ اس کے مَحرم اگرموجود ہیں،تووہی اِسے خواتین کی میت کی طرح باپردہ قبر میں اتاریں ۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ مُخنّث کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جاتی اوراسے رات میں لوگوں سے خفیہ طور پر جنازے کے بغیر ہی دفن کیا جاتاہے ، شرعاً غلط ہے ۔ اگر کچھ لوگوں نے اپنی جہالت کی بناپر اُسے جنازے کے بغیر دفن کردیا ہو،تواس کی میت اگرتازہ ہے تو قبر پر نمازِ جنازہ پڑھ لی جائے ۔اگر وہ مستحق ہے تو اسے زکوٰۃ وخیرات دی جاسکتی ہے اور دینی چاہئے ،وہ ایمان لانے اور احکامِ شرعیہ کا مُکلّف ہے ،اگر نمازِ باجماعت میں شریک ہے تو بچوں کے بعد والی صف میں کھڑا ہو ،اسی طرح اس پر روزہ بھی فرض ہے ۔ اگرمالدار ہے اور محرم کی رفاقت میسر ہے تواُس پر حج بھی فرض ہے ۔اگربچپن میں ختنہ نہ کیاہو تو بلوغت کے قریب پہنچنے یابالغ ہونے کے بعد اس کا ختنہ نہ کیاجائے ۔ہمارے فقہاء نے تفصیلی ابحاث کی ہیں ،ان کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ہے ۔فقہاء نے ان کے وراثت کے احکام بھی بیان فرمائے ہیں ،جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ۔
خُنثٰی کے جسمانی نقص یا کمزوری کی وجہ سے اُنہیں حقارت سے نہ دیکھا جائے بلکہ اُن سے ہمدردی کی جائے۔یہ عام انسانوں کی طرح اللہ کی مخلوق ہیں اوران کی یہ ہیئتِ تخلیق اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت کے تحت ہے ،اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے ۔اگر یہ لوگ اپنے خاندانوں سے بچھڑ ے ہوئے ہیں، تو حکومت یادین دار اہلِ خیر ان کے لئے دارالکفالت بنائیں ،یہ بہت بڑی انسانی خدمت ہوگی ،(ج:6،ص:495-98)‘‘۔
جنابِ خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ انہیں یہ مسئلہ نہیں ملا ۔ ''الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ، ج:21، ص:19تا 30‘‘میں خُنثٰی کے مسائل پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔اُس میں لکھا ہے:'' خُنثٰی مشکل اگر بچہ ہے ،تو مرد اور عورتیں دونوں اُسے غسل دے سکتے ہیں، جیسے کہ اُس کو چھونا اور اُس کی طرف دیکھنا دونوں کے لیے جائز ہے ۔لیکن اگر بالغ یا قریب البلوغ ہے ،تو احناف کے نزدیک اسے نہ مرد غسل دے ،نہ عورت ،بلکہ تیمم کرایا جائے، ایک روایت میں شافعیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔شافعیہ کے نزدیک یہ بھی ہے کہ اگر مردوں یا عورتوں میں سے کوئی اُس کا مَحرم ہے تو بالاتفاق اُسے غسل دے سکتا ہے ،الغرض شوافع کے متعدد اقوال ہیں ۔امام احمد کے نزدیک اجنبی مردہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر تیمم کرائے ،کیونکہ غیر محرم کے لیے حائل کے بغیر خُنثٰی مشکل کے بدن کو مَس کرنا حرام ہے۔امام مالک کے نزدیک بھی تیمم ہے ،(الموسوعۃ الفقیہ ،ج:14،ص:57)''۔
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ سے دریافت کیا گیا :ایک بچہ پیدا ہوا ہے جس کی مردانہ وزنانہ دونوں علامتیں ہیں ،اُس کی وراثت کیسے ہوگی ، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دیکھا جائے گا کہ وہ پیشاب کس علامت سے کرتا ہے ،(السنن الکبریٰ للبیہقی:12518)‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر دونوں علامتوں سے کرتا ہے ،تو یہ دیکھا جائے گا کہ ابتدا کس علامت سے ہوتی ہے۔ اس مسئلے میں حضرت عمراورحضرت علی رضی اللہ عنہما کے آثار بھی بالترتیب مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن کبریٰ للبیہقی میں موجود ہیں۔پانی کی عدمِ دستیابی (یا پانی کے استعمال سے ہلاکت کے ممکنہ خدشے کے پیشِ نظر)سورۂ نساء ،آیت:43میں بے وضو اور جُنُب دونوں کوتیمم کی اجازت دی گئی ہے ،اس میں اہانت کا پہلو کہاں سے آگیا۔عورت کو غیر محرَم کے مَس کرنے یابے حجاب دیکھنے کی ممانعت کا سبب اُس کی اہانت نہیں، بلکہ اُس کا احترام ہے ۔ لیڈی سرجن دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مردسرجن سے عورت کا آپریشن کرانے کی اجازت اضطرار کے سبب ہے اور اس کے لیے یہ فقہی اصول موجود ہے :''ضرورت ممنوعات کومباح کردیتی ہے‘‘۔شہیدکی میت کو غسل نہ دینے کے حکم کا سبب بھی اُس کی خصوصیت ہے۔ فقہ جعفریہ میں بھی ہے کہ غسل دینے والا میت کو پردے میں رکھ کر غسل دے گا، یعنی اس کے بدن پر نظر نہیں ڈالے گا، یہ بھی احترامِ میت ہی کے سبب ہے ۔لہٰذا نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ احترام یااہانت و تحقیر کے تعیُّن کے لیے شریعت کے تعلیم فرمائے ہوئے معیارات کو تسلیم کرنے میں ہی ہماری سعادت ہے ۔