جہیز بہت ساری معاشرتی خرابیوں کا حامل ہے، سب سے بڑی خرابی شادی اور نکاح میں رکاوٹ ہے۔ بعض اوقات تعلیم یافتہ، باصلاحیت، خوبصورت، دیندار اور بااخلاق لڑکیاں جہیز کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔ اس رسم کے پھیلاؤ میں معاشرے کی مجموعی بے حسی، خود غرضی، لالچ اور خدا خوفی کی کمی شامل ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ ہندوانہ رسوم ہیں، جو ہمارے معاشرے میں بے لگام میڈیا کے ذریعے دَر آئی ہیں۔ غیر ملکی چینلز کے ڈراموں اور فلموں نے ہم سے اپنی ثقافت کو چھین لیا ہے اور اپنی ثقافت کو ہم پر مُسلط کر دیا ہے۔ نکاح جتنا مشکل ہوگا، بدکاری اتنی عام ہوگی اور جتنا سہل ہوگا ،گناہ کے دروازے اتنے ہی بند ہوں گے۔ جہیز کی رسم نے ہمارے معاشرے میں نکاح کو ایک انتہائی مشکل عمل بنا دیا ہے۔ اس لیے سَدِّ ذرائع کے طور پر اس کی مخالفت لازم ہے۔
شریعت میں جہیز دینے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی ایک بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو شادی کے وقت کچھ سامان مثلاً :چکی، پانی کا برتن اور تکیہ وغیرہ دیا تھا۔ حدیث میں ہے: ''رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر (علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ) کے گھر بھیجنے کے لیے ایک چادر، مشک اور تکیہ، جس میں اَذخر گھاس بھری ہوئی تھی، پر مشتمل جہیز دیا،(سنن نسائی:3382)‘‘۔ یہ سامان اس دور کے مطابق گھر بسانے کے لئے بنیادی ضروریات میں سے تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی باقی بیٹیوں کے متعلق ایسی کوئی روایت نہیں ملتی ۔ حضرت ابو العاص کا گھر پہلے سے موجود تھا، اس لئے سیدہ زینب کے نکاح کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ایسا کوئی انتظام نہ کیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا الگ گھر بھی پہلے موجود تھا، اس لئے سیدہ رقیہ اور ام کلثوم رضی اﷲتعالیٰ عنہما کے لیے رسول اللہ ﷺ کو ایسے کسی انتظام کی ضرورت نہ پڑی۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں جو خواتین آئیں، اُن کے والدین کو بھی ایسے کسی انتظام کی حاجت نہ تھی۔
رسول اللہ رﷺ حضرت فاطمۃ الزَہرا اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما دونوں کے کفیل اور سرپرست تھے۔ اس لئے دونوں کے ازدواج کا اہتمام بھی آپ ہی کو کرنا تھا۔ خانہ داری کے لیے کچھ مختصرترین سامان مثلاً چارپائی، اَذخر گھاس سے بھری توشک تکیہ، مشکیزے، گھڑے اور چکی کا اہتمام آپﷺ نے فرمادیا۔ چاندی کا ہارحضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ہی کا تھا، جو آپ کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ترکے سے ملا تھا۔ یہ سارا انتظام رسول اللہ ﷺ کو اس لئے کرنا پڑا کہ ان کو ایک الگ گھر بسانا تھا۔ اگر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پہلے ہی سے کوئی الگ گھر ہوتا تو رسول اللہ ﷺ شاید یہ اہتمام نہ فرماتے،کیونکہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شادی سے پہلے تک حضورکے ساتھ ہی رہتے تھے، لہٰذا نکاح کے وقت ان کے پاس کوئی الگ گھر نہ تھا۔ ایک انصاری صحابی نے اپنا ایک مکان رسول اللہ ﷺکی خدمت میں بخوشی پیش کردیا، جس میں یہ پاکیزہ نیا جوڑا منتقل ہوگیا اور خانہ داری کے مختصر اسباب وہاں بھیج دیئے گئے۔ یہ ہمارے عرف کے معیار کا جہیز نہ تھا بلکہ خانہ داری کی کم ازکم بنیادی ضروریات تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے حق مہر پہلے ہی لے لیا تھا، ایک زرہ تھی جو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے ہاتھ تقریبا پانچ سو درہم میں فروخت کی تھی۔ یہی رقم حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے جس سے آپ ﷺ نے خانہ داری کا سب سامان اور کچھ خوشبو وغیرہ منگوائی تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''میں نے جب رسول اللہ ﷺ کو آپ کی صاحبزادی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کے نکاح کا پیغام دینے کا ارادہ کیا، تومجھے یاد آیاکہ میرے پاس توکچھ بھی نہیں ہے، پھر مجھے آپ ﷺ کی عادتِ مبارکہ اور فضل و احسان یاد آیا، تو میں نے پیغام دے دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس کچھ ہے جو تم اسے (سیدہ فاطمہ کو) مہرکے طورپر دو، میں نے عرض کی: کچھ نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ حُطَمی زرہ کہاںہے، جو میں نے فلاں دن تمہیں دی تھی، میں نے عرض کی: وہ میرے پاس موجود ہے، فرمایا: اُسے لے آؤ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے وہ زرہ آپ کو دے دی (جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خرید لیا) اور آپ ﷺ نے (فاطمہ سے) میرا نکاح کردیا،(مسند حمیدی : 38 )‘‘۔
اگر لڑکا بہت زیادہ غریب ہو کہ گھر کا ضروری سامان خریدنے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں لڑکی کے والدین اگر اس کے ساتھ مالی تعاون کرنا چاہیں، تو حرج نہیں بلکہ باعثِ ثواب ہے لیکن آج کل کے دور میں رائج جہیز کسی بھی صورت جائز نہیں۔ موجودہ دور میں بصورت جہیز دیا جانے والا سامانِ تعیّشات ایک معاشرتی لعنت ہے۔ نکاح کے عوض کسی طرح کے مال کا لین دین جائز نہیں ہے، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ: ''عورت اپنے نکاح کے عوض جو مال دے، وہ باطل ہے، اس لیے کہ نکاح میں عوض عورت پر نہیں ہے (بلکہ مہر کی شکل میں مرد پر ہے)، (ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد8،ص:440)‘‘۔
تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: '' رخصتی کے وقت لڑکی والوں نے اگر کچھ لیا ہے تو شوہر کو اسے واپس لینے کا حق ہے کیونکہ وہ رشوت ہے‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: '' یعنی اگر لڑکی کے بھائی یا کسی دوسرے ولی نے لڑکے سے مہر کے علاوہ مزید مال لے کر نکاح کرایا، تو شوہر کو حق حاصل ہے کہ اسے واپس لے لے، خواہ وہ مال موجود ہو یا ختم ہوگیاہو، اس لیے کہ یہ (مال) رشوت ہے، (''بزازیہ‘‘ ،ج: 8،ص:520)‘‘۔
اسی طرح لڑکی والوں کا لڑکے سے مہر کے سوا کسی اور شے کا مطالبہ رشوت اور باطل ہے۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ''کسی شخص کی بہن کو کسی نے نکاح کا پیغام دیا، بھائی نے انکار کردیا کہ جب تک کچھ روپے نہیں دوگے، رشتہ منظور نہیں، مرد نے وہ رقم دے دی اور نکاح کرلیا، پس مرد نے جو رقم دی، وہ اسے واپس لے سکتاہے، اس لیے کہ یہ رشوت ہے۔ ''قنیہ‘‘ میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد4 ، ص:403)‘‘۔
شریعت کا اصل حکم یہ ہے کہ عورت کا ماں یا بیوی یا بیٹی یا بہن کی حیثیت سے وراثت میں جو حق بنتاہو، وہ اُسے دیاجائے، لیکن ہمارے ہاں خواتین کو وراثت کا حق دینے کا شِعار بہت کم ہے اور اُس کی بجائے جہیز کی رسم کو اپنے گلے کا طوق بنالیا ہے۔ اس کی بنا پر رشتے بنتے اور ٹوٹتے ہیں اور بعض لوگوں کو معاشرے میں اپنی عزت برقرار رکھنے یا اپنی بیٹی اور بہن کے لیے سسرال کے گھر میں گنجائش پیداکرنے کے لیے بعض اوقات قرض لے کر جہیز کا انتظام کرنا پڑتا ہے اور بعض برادریوں اور علاقوں میں اس کی نمائش بھی کی جاتی ہے، یہ مالی اعتبار سے کمزور طبقات میں احساسِ محرومی کا سبب بنتا ہے۔
شادی کے موقع پر دلہن کو اُس کے والدین کی جانب سے جو زیورات، سامان،لباس اور دیگر اشیاء بطور جہیز دی جاتی ہیں، خواہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، وہ دلہن کی ملکیت ہوتی ہیں۔ اگر کبھی قضائِ الٰہی سے اُس خاتون کا انتقال ہو جائے تو وہ تمام سامان اُس کے ترکے میں شامل ہوکر اس کے وارثوں میں ترکے کے طور پر تقسیم ہوگا۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''پس ہر شخص یہ جانتا ہے کہ جہیز عورت کی ملکیت ہوتا ہے، اور جب شوہر اس کو طلاق دے دے تو وہ تمام جہیز لے لے گی اور جب اس عورت کا انتقال ہوجائے تو وہ جہیز ترکے کے طور پر اس کے وارثوں کو ملے گا اور اِس میں کسی چیز کااستثنا نہیں ہے، (ردالمحتارعلی الدرالمختار،ج: 2، ص : 238)‘‘۔ امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ''جہیز ہمارے بلاد کے عرفِ عام میں زوجہ کی ملکیت ہوتا ہے، اس میں شوہر کا کوئی حق نہیں، طلاق ہوئی تو کل لے گی اور مرگئی تو اسی کے ورثاء پر تقسیم ہوگا،(فتاویٰ رضویہ، جلد12، ص:202)‘‘۔
خیبر پختونخوا، قبائلی علاقوں، افغانستان اور بلو چستان کے بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ مرد جب تک دلہن کے والد کو ایک مقررہ رقم نہ دے، تب تک وہ اس کو رشتہ نہیں دے گا، اسے مقامی زبان میں ''ولور‘‘ کہتے ہیں، یہ رسم ورواج شریعت کے خلاف ہے۔مہر کے علاوہ کسی اور رقم کا مطالبہ لڑکی والوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ اِسی طرح بعض علاقوں میں ''وٹّا سٹّا‘‘ کی رسم رائج ہے، زمانۂ جاہلیت میں اس سے ملتی جلتی نکاح کی ایک شکل یہ تھی کہ دو افراد یا دو خاندان ایک دوسرے کو رشتہ دیتے، ایک جانب کی لڑکی کا نکاح دوسرے جانب کے لڑکے سے منعقد کر لیا جاتا ہے، اس میں دونوں جانب سے لڑکیوں کا مہر مقرر نہیں ہو تا، بلکہ یہ نکاح بلا مہر ہو تا ہے اور عملًا ایک لڑکی دوسری کا بدلِ مہر بن جاتی ہے، اِسے ''نکاح شِغار‘‘ کہا جاتا تھا۔ اسلام نے اس رسم کو باطل قرار دیا ہے۔ یہ نکاح اپنی اصل کے اعتبار سے صحیح ہے اور اس میں حرمت کا کوئی سبب نہیں، فساد کا سبب صر ف یہ ہے کہ عورت کو اس کے حق مہر سے محروم کرکے دوسری عورت کا بدل مہر بنا دیا جاتا ہے، اس لئے یہ شرط کالعدم ہو جائے گی۔ ایسا نکاح اگر ان عورتوں کی آزاد نہ رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں ہوا ہے، تو یہ شرعاًجائز ہے اور اگر ان دونوں عورتوں کا مہر مقرر نہیں ہوا ہے، تو دونوں مہرِمثل (یعنی اُن کے خاندان میں اِس حیثیت کی حامل خواتین کا عام طور پر جو مہر مقرر ہوتا ہے) پائیںگی اور اگر دونوں کا اپنا اپنا مہر مقرر ہوا ہے تو وہ اسی کی حقدار ہوںگی۔ حدیث میں ہے: ''حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ''شِغار‘‘ سے منع فرمایا ہے۔ شِغار یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیٹی کا نکاح دوسرے شخص سے اس کی بیٹی کے عوض کر دے (یعنی وہ بھی اپنی بیٹی کا نکاح پہلے شخص سے کردے ) اور ان دونوں نکاحوں میں مہر مقرر نہ ہو،(صحیح مسلم : 3354 ) ‘‘۔