"MMC" (space) message & send to 7575

امریکہ میں انتقالِ اقتدار

میں12جنوری سے 30جنوری تک امریکہ کے دورے پررہا۔اس دوران طویل اسفار کرنے پڑے اورمختلف امریکی شہروں میں مسلمانوں کے اجتماعات سے خطابات اور ان کے ساتھ تبادلہ ٔخیالات کا موقع ملا۔ نیویارک میں مقامی صحافی جناب عظیم ایم میاں نے پاکستانی اہل صحافت اور کلیدی پاکستانی شخصیات سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کے لیے ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا۔اس دورے کی روداداورمشاہدات وتجربات سے قارئین کوآگاہ کروںگا۔
20جنوری2017ء کو صدراوباماکاآٹھ سالہ دوراختتام کو پہنچااورنومنتخب صدرڈونلڈٹرمپ نے آئندہ چارسال کی مدت کے لیے صدارت کا حلف اٹھالیا۔2016میںامریکی صدارتی انتخابات کی مہم امریکی روایات کے برعکس الزامات اور جوابی الزامات اور تضادات سے پُررہی۔ڈونلڈٹرمپ نے سفید فام اکثریت کے ذہنوں میں تارکین وطن اورمیکسیکن باشندوں کے حوالے سے ایک خوف پیدا کیا کہ وہ ان کے روزگار کے مواقع پرقبضہ کررہے ہیں اور مستقبل قریب میںان کی اکثریت بھی متاثر ہوسکتی ہے، ان کا یہ نفسیاتی حربہ کامیاب ثابت ہوا اورتمام تجزیوں اور جائزوں کے برعکس ڈونلڈٹرمپ واضح اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔
اپنے موقف کے اظہارمیںایک غیرمحتاط، غیرمتوازن اور منہ پھٹ شخص کا سپرپاور کا صدر منتخب ہوجانا پوری دنیا سمیت خود امریکیوں کے لیے بھی حیرت کا باعث بنا، لیکن بہرحال یہ عجوبہ رونما ہو گیا۔ اس کے بھی شواہد ملے کہ بڑے شہرں سے ہٹ کردور دراز کے قصبات کی سفیدفام آبادی میں عصبیت کے جراثیم موجود ہیں، جسے ٹرمپ نے کمالِ مہارت سے اپنے حق میںاستعمال کیا۔
ٹرمپ کی کامیابی کے باوجود یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایوان صدر میں داخل ہوتے ہی معاشرے کو شکست وریخت سے دوچار کرنے والے غیرمحتاط فیصلے کرنے میں عجلت نہیں کریں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلیں گے۔ لیکن بعض اقدامات اور فیصلوں کی شروعات میں انھوں نے تاخیرنہیںکی اور ایگزیکٹیوآرڈر جاری کرنا شروع کردیے، ان اقدامات میںٹی پی ٹی اورNAFTAسے معاہدے ختم کرنے ، امریکا اور میکسیکو کے درمیان سرحد پر دیوار تعمیر کرنے، غیرقانونی تارکین وطن کی بے دخلی اور وزارت خارجہ میں نان پروفیشنل ڈپلومیٹس کی تقرری،سات مسلم ممالک کے شہریوں کے داخلے پر تین ماہ پابندی اور اس دوران ان کے لیے امیگریشن کے سخت ترین قوانین کی تیاری شامل ہیں، بعد میں پاکستان اور سعودی عرب کوبھی خصوصی نگرانی کے تحت لانے کا اعلان کردیاگیا۔
اس تمام صورت حال کادوسرا رخ یہ ہے کہ امریکی تاریخ میںپہلی مرتبہ صدارتی انتخاب کے ردعمل میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، جن میں دیگررنگ ونسل کے لوگوں کے علاوہ سفید فام لوگوں کی بھاری اکثریت بھی شامل تھی۔ بعض ریاستوں نیویارک، کیلی فورنیاوغیرہ کے گورنروں اور بعض بڑے شہروں کے میئروں نے ان احکامات کو رد کرنے اور ان کے نفاذ میں وفاقی حکومت کے ساتھ عدم تعاون کا اعلان کیا۔اس کے ردعمل میںصدر ٹرمپ نے وفاقی بجٹ سے ان شہروں کو دی جانے والی گرانٹ میں کٹوتی کی دھمکی دی، مگر تاحال یہ دھمکی کارگرثابت نہیںہوئی ۔ الغرض ٹرمپ نے امریکا کی تاریخ میں پہلی بار امریکی سوسائٹی کو شکست وریخت سے دوچارکیا ہے۔ امریکا کی ایک سابقہ وزیر خارجہ میڈیلن البرائٹ نے ٹویٹ کیا:'' اگر امریکہ میں مسلمانوں پر رجسٹریشن کی پابندی عائدکی گئی تومیں سب سے پہلے خود کو مسلم امریکن کے طورپر رجسٹرکرائوں گی‘‘،بعض یہودی رہنماؤں نے بھی سوشل میڈیا پرا س سے ملتے جلتے ریمارکس دیئے اور ہیوسٹن میں وکٹوریا مسجد جلائے جانے پر یہودی مذہبی رہنمانے مسلمانوں کے لیے اپنی کنیسہ کھولنے کا اعلان کیا ۔ بعض سفید فام افراد نے مظاہروں کے دوران I am muslim Americanکے پلے کارڈاٹھا رکھے تھے۔سواسلام اور مسلمان9/11کے بعد ایک بار پھر ہیڈ لائن بن گئے ۔
صدرٹرمپ کی بیگم امریکی خاتون اول ملانیا ٹرمپ سفید فام تارکۂ وطن ہیں، کسی نے طنزکے طورپرپلے کارڈپر لکھا: ''ملانیاٹرمپ کوملک بدرکیاجائے‘‘۔صدراوباما نے دوبارہ عملی زندگی شروع کرنے سے پہلے کچھ عرصے تک سکوت اختیار کرنے کا اعلان کیاتھا مگر انہیں بھی کہنا پڑا کہ ٹرمپ کے یہ اقدامات ہماری روایات اورآئین کے خلاف ہیں۔مشیل اوباما نے ٹویٹ کیا:'' وائٹ ہائوس میں میری جگہ ایک تارکہ وطن خاتون لیں گی‘‘۔
امریکی رنگ ونسل ، مذہبی تنوع اور تکثُّر کو اپنے افتخار کے طورپر پیش کرتے تھے۔آج اس افتخار کا آئینہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہورہاہے،لوگ اس شعر کی تصویر بنے ہوئے ہیں:
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا
پوری مغربی دنیا حیرت میں ڈوبی ہوئی ہے کہ اچانک امریکہ میںکایا پلٹ کیسے ہوگئی۔ صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنے پہلے عوامی خطاب میں ہمارے سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کی طرح مکے لہراکر''سب سے پہلے امریکا‘‘ کا بھی اعلان کیا اور 
حب الوطنی کے جذبات کوبرانگیختہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایک بڑاسرمایہ دار ہوتے ہوئے عوام کی حالت ِزاربدلنے کے بھی دعوے کیے اور کہا:
''طویل عرصے تک دارالحکومت میں ایک چھوٹے سے طبقے نے عشرتیں کیں جبکہ اس کی قیمت عوام نے ادا کی۔ واشنگٹن کی رونق دوبالا ہوگئی مگر عوام اپنے حصے سے محروم رہے۔ سیاست دان خوش حال ہوگئے مگر روزگار کے مواقع ختم ہوتے چلے گئے۔اسٹیبلشمنٹ نے اپناتحفظ کیامگرشہری غیرمحفوظ ہوگئے۔ ان کی فتوحات آپ (عوام) کی فتوحات نہیں تھیں،ان کی کامیابیاں آپ کی کامیابی نہیں تھی۔جب دارالحکومت میں مراعات یافتہ طبقہ جشن منارہا ہوتا تواپنی بقاکی جدوجہد میں مصروف عوام اس میں شریک نہ ہوتے۔ تمام تبدیلیوں کاآغاز ابھی اور یہیں سے ہورہاہے۔ میں آپ میں سے ہوں، میں اُن سب کا ہوں جو آج یہاں جمع ہیں اور جو امریکہ بھر سے ہمیں دیکھ رہے ہیں اور اب امریکہ آپ کا ملک ہے، یہ آپ کا دن ہے ، آپ کا جشن ہے ۔ اس بات کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں کہ کون سی پارٹی امریکہ میں برسراقتدار ہے ، اہمیت اس کی ہے کہ آیا یہ عوامی راج ہے۔ یہ دن اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ آج حقیقی حکمرانی عوام کے ہاتھ آ گئی ہے، نظرا نداز کیے عوام اب مزید نظر اندازنہیں کیے جائیں گے۔ آج ہر ایک آپ کے لیے ہمہ تن گوش ہے اور دسیوں ملین افراداس یادگارتاریخی لمحے کا حصہ بن چکے ہیں۔ امریکیوں کو اپنے بچوں کے لیے عظیم درس گاہیں ، اپنے خاندانوں کے لیے محفوظ ماحول اور اپنے بچوں کے لیے روزگار چاہیے۔ آج ہم ایک قوم ہیں ہمارا دکھ درد ایک ہے، ہمارے خواب ایک ہیں اورہماری کامیابی ایک ہے۔ امریکیوں کا قتل عام آج اور ابھی رک جانا چاہیے۔ ہم نے دوسری اقوام کا دفاع کیا اور اپنا دفاع نہ کرسکے، ہم نے کھرب ہاکھرب ڈالر دوسروں پر خرچ کیے اور ہمارا اپنا معاشی ڈھانچاتباہ وبرباد ہوگیا،ہم نے دوسرے ملکوں کو دولت منداورطاقت وربنایاجبکہ ہم خود منظر سے غائب ہوگئے۔ ہمارے کارخانے بند ہوگئے، دسیوں ملین لوگ روزگار سے محروم ہوگئے، ہمارے متوسط طبقے کے وسائل چھن گئے۔(جاری) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں