ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا:''امریکا دوبارہ مثالی فتح حاصل کرے گا، ہم ملازمتیں واپس لائیں گے،ہم اپنی دولت اور اپنے خواب واپس لائیںگے،ہم نئی سڑکیں، ہائی ویز، پل،ایرپورٹ اور ریلوے بنائیں گے، ہم امریکی ہاتھوں اور کارکنوں سے اپنے ملک کی تعمیر نوکریںگے، ہم ایک بارپھرامریکہ کوقابل افتخار،دولت مند،طاقت ور ،عظیم اورمحفوظ بنائیں گے‘‘۔
ٹرمپ کے قوم سے خطاب کسی انقلابی فلم کے ڈائیلاگ معلوم ہوتے ہیں، بلندوبانگ دعوے ہیں،لیکن اس پورے خطاب میں کوئی روڈ میپ یا حکمت عملی دور تک نظر نہیں آتی کہ وہ اپنے اس منشور کو کیسے روبہ عمل لائیں گے۔ایک پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے CNNکے نمائندے کو سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا اور کہا: ''تم جھوٹی خبریں دیتے ہو‘‘ ۔اس سے معلوم ہوا کہ جارحانہ انداز رکھنے والا میڈیا اب اپنی اہمیت کھورہاہے ،کاش کہ اس رجحان کا ادراک کرتے ہوئے ہمارا میڈیا متوازن ہوجائے ،ورنہ نتیجہ سامنے ہے ۔
پاکستان کے حوالے سے ایک امریکی ریڈیونیٹ ورک سے انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں،میںنے کہا: ''اگر امریکا پاکستان کی سرپرستی چھوڑ دے ، اپنا دست شفقت اور تازیانہ پاکستان کے سرسے اٹھالے توچندجھٹکے سہنے کے بعد یہ قوم اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے گی، ہمارے اندر خود اعتمادی آجائے گی، ہم اپنی صلاحیت اور امکانات سے فائدہ اٹھاکرخود کفیل ہوجائیںگے۔ اللہ کرے یہ ہمارے لیے ''عَدُو شرے برانگیزد،کہ خیرما دراںباشد‘‘ کے مصداق یہ شرِّظاہر، خیرِمستور میں بدل جائے۔
میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے ہمیشہ کہتاہوں کہ پاکستان میں ضرور اپنی پسند کے اداروں اور سیاسی جماعتوں کی مالی اعانت کریں ، لیکن وہاں کی سیاسی تقسیم اور محاذ آرائی کو اپنے اوپر مُسلط نہ کریں ،بلکہ یہاں آپس میں متحد ہوکر مقامی سیاست اورسماجی شعبوں میں اپنی اہمیت کو ثابت کریں تاکہ مقامی انتظامیہ اور کانگریس کے منتخب ارکان آپ کے جائز قانونی مفادات اور حقوق کے حق میں آواز بلند کریں ۔
اوباما کی رخصتی :
سابق امریکی صدر بارک حسین اوباما نے اپنی صدارت کے دو دورانیے یعنی آٹھ سالہ مدتِ اقتدار ختم ہونے پر 20جنوری 2017ء کو وہائٹ ہاؤس کو الوداع کہا۔امریکہ کی تاریخ میں سفید فام اکثریتی آبادی کے ملک پر ،جوایک سپر پاور بھی ہے ، ایک سیاہ فام کا عہدۂ صدارت پر مُتمکن ہونا یقیناً ایک عجوبہ تھا ،جو اس سے پہلے ناقابلِ تصور تھا ،تاریخ میں یہ افتخار اوباما کے سرپر سجا ،جبکہ حالیہ صدارتی انتخاب تک اُن کے والد کا مسلم پس منظر اور پیدائشی امریکی نہ ہونے کا طعن بھی اُن کا تعاقب کرتارہا ۔اوباما اوراُن کی بیگم دونوں سیاہ فام اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ،اوباما بلاشبہ ایک بلند پایہ مُقرر تھے ،دونوں مُتوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔عام طورپر ایک زیریں یا مُتوسط طبقے کا شخص سب سے بڑے ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوجائے ،تووہ اپنی اصلیت بھول جاتاہے ،حواس کھوبیٹھتاہے ،اُس سے بے اعتدالیاں سر زد ہوتی ہیں ،بدعنوان وبدکردار یا ظالم بن جاتاہے ۔لیکن اوباما نے توازن برقرار رکھا ، اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ،یقیناًریپبلکن اکثریت پر مشتمل کانگریس نے اُ نہیں اپنی پالیسیوں اور ویژن پر عمل کرنے کے لیے مکمل آزادی نہیں دی ۔ لیکن وہ مرعوب ہوکر بھی نہیں بیٹھے اور جدوجہد جاری رکھی اور زیریں طبقات کو ''اوباما ہیلتھ کیئر ‘‘ کی صورت میں بعض سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب رہے ،سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ سال میں اُن کا کوئی اسکینڈل نہیں بنا اورایوانِ اقتدار سے باعزت رخصت ہوئے اور رخصتی کے وقت امریکہ میں اُن کی مقبولیت کا گراف نو منتخب صدر ٹرمپ سے بہترتھا اور کسی صاحبِ اقتدار کی عظمت کی اصل کسوٹی یہی ہے ،اس کے برعکس ارب پتی ٹرمپ صدر منتخب ہونے کے بعد میڈیا کے سامنے نمودار ہوئے اور فائلوں کا ایک پلندا دکھاکر کہا کہ میں کاروبار سے الگ ہوگیاہوں ۔رپورٹر نے پوچھا : ''اس فائل میں کیاہے ؟،اُنہوں نے کہا: یہ میں نہیں بتاؤں گا‘‘،بعد میں پتاچلاکہ بیرون ملک اُن کا کاروبار اُن کے نام سے جاری رہے گا ،پھرٹرمپ نے اپنے کاروباری داماد کو اپنا سینئر مشیر بنادیا ،ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان کاروباری ہیں ۔اِس میں پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہے ۔
اپنے اقتدار کے آخری ایام میں اوباما نے اسرائیل کو بھی اپنی حیثیت یاد دلادی کہ اس طوطے کی جان امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ سفرِ امریکہ کے دوران پروازمیں ایک اسرائیلی وزیرخاتون کا انٹر ویو پڑھنے کو ملا ،اُنہوں نے کہا :'' ہمیں یقین ہے کہ امریکہ کبھی ہماری حمایت سے دستبردار نہیں ہوگا ،لیکن اگر کبھی ایساہوبھی گیا تو ہمیں پروا نہیں ہے ،مشرقِ وسطیٰ میں ہمیں کوئی چیلنج دَرپیش نہیں ہے‘‘ ، لیکن یہ اِدّعا اور خوش فہمی غلط ثابت ہوئی اور سلامتی کونسل میں صرف ایک قرارداد کی حمایت سے امریکہ کے ہاتھ اٹھانے پرنیتن یاہو کو اپنا فیصلہ وقتی طورپر واپس لینا پڑا ۔اس طرح اسرائیل کی مخالفت کے باوجود ایران کے ساتھ اُس کے ایٹمی پروگرام کی تحدید کا معاہدہ کیا ۔
پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن نے دو مرتبہ منتخب ہونے کے بعد تیسری مرتبہ مقبولیت کے باوجود خود اپنی دست برداری کا اعلان کیا تاکہ دوسروں کو بھی موقع ملے جبکہ روزویلٹ مسلسل چار مرتبہ صدر منتخب ہوئے ۔اس کے بعد امریکی کانگریس نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے جارج واشنگٹن کے اصول کو دستوری حیثیت دے دی ۔جنوبی افریقہ کی تحریکِ آزادی کے ہیرو اور بانی نیلسن منڈیلا بھی دوسروں کو موقع دینے کے لیے رضاکارانہ طورپر اُمیدواری سے دست بردار ہوئے ۔
اوبامانے اپنا الوداعی خطاب شکاگو میں کیا ،جہاں سے اُنہوں نے اپنی تحریک شروع کی تھی ،اُنہوں نے اپنے خطاب میں کہا: گھر واپسی کیاخوب ہے۔امریکی اہلِ وطن!میں اورمیری اہلیہ گزشتہ چند ہفتوں سے آپ سے جڑے ہوئے ہیں،آپ کی نیک خواہشات پر مبنی پیغامات ملتے رہے ،مگر آج شب میری باری ہے کہ آپ کا شکریہ اداکروں ۔آج میں آپ کے روبرو ہوں ،میرا خطاب اُن تمام امریکیوں سے ہے ،جو گھروں میں ہیں ،اپنے کھیتوں کھلیانوں اور کارخانوں میں ہیں ،طعامِ شب پر جمع ہیں یا دوردراز ہیں ، کون ہے ، جس نے مجھے دیانت دار بنایا ، مجھے قابل افتخار بنایا ،مجھے مصروفِ عمل رکھا ،مجھے ایک بہتر صدر اور ایک بہتر انسان بنایا ،یہ آپ اور صرف آپ ہیں ۔میں اپنی زندگی کے تیسرے عشرے میں پہلی بار شکاگوآیا ،اب تک خود کو پہچاننے میں لگاہواہوںکہ میں کون تھا ، اب تک میں اپنے مقصدِ حیات کی جستجو میں ہوں ،شکاگو کی گلیوں میں چلتے ہوئے میں نے ایمان کی طاقت کو دیکھا ،محنت کش کی عظمت کو جانا ، یہاں سے میں نے جانا کہ تبدیلی تب آتی ہے ،جب عام آدمی اُس کا طلب گار بن جائے ،اس کی جدوجہد میں شامل ہوجائے اور سب یکجان ،یک زبان اور پیکرِ عمل بن جائیں ۔ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہم بحیثیت انسان مساوی پیداہوئے ہیں ، خالق کی طرف سے ہمارے کچھ ناقابلِ تنسیخ حقوق ہیں ،ان میں حقِ حیات اور حقِ حُرّیت اور مُسرّت کی تلاش ہے ۔اوباما نے اپنی کامیابیاں بھی بیان کیں ، جن میں 2007ء کے معاشی بحران سے ملک کو نکالنا اور بے روزگاری کے بڑے بحران کے بعد ریکارڈ تعداد میں روزگار کے مواقع کی فراہمی بھی شامل ہے ۔(ختم)