اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ پر دعوتِ دین کوفرضِ کفایہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ''اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو (لوگوں کو )خیر کی طرف بلائیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، (آل عمران:104)‘‘۔ پھر اِسی شعار کو بطورِ مدح بیان فرمایا(1):''جو امتیں لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہیں ،تم اُن سب میں بہترین امت ہو ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو،(آل عمران:110)‘‘۔ پھراقتدار واختیار ملنے کی صورت میں اہلِ ایمان کو اُن کی ذمے داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:''اِن لوگوں کو اگرہم زمین میں اقتدار عطا فرمائیں تو وہ نماز قائم کریں ،زکوٰۃ ادا کریں، نیکی کا حکم دیںاور برائی سے روکیں ،تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ،(الحج:41)‘‘۔دیگر متعدد آیات میں اِسی مضمون کا بار بار اعادہ فرمایا گیا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے جو کوئی بھی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے روکے اور اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو دل سے اُسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ،(صحیح مسلم: 49)‘‘۔اگر کوئی شخص برائی کو روکنے کی قدرت کے باوجود اس ذمے داری کو ادا نہیں کرتا تواُس کی بابت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس قوم میں برے اعمال ہورہے ہوں اور وہ قدرت کے باوجود انہیں نہ روکیں ،تو خدشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عذاب سے دوچار فرمادے ،(سنن ابودائود:4338)‘‘۔اسی طرح دینی معاملے میں کسی با اثر شخص کی بے جا رعایت کو رسول اللہ ﷺ نے مُدَاہَنَت سے تعبیر فرمایا ،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:''سوآپ جھٹلانے والوں کی بات نہ مانیں ،انہوں نے تو یہ چاہا ہے کہ اگر آپ (دین میں) نرمی کریں تووہ بھی نرمی دیں گے ،(القلم:9)‘‘۔اسی مضمون کو سورۃ الکافرون میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے ، اس سورت کا شانِ نزول اس مضمون کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔
بعض حضرات اپنی عافیت پسند طبیعت کی وجہ سے شیخ ابراہیم ذوق کے اس شعر کواپنا شِعار بنائے رہتے ہیں :
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو
اور اس کے لیے قرآنِ مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: ''اے ایمان والو!تم اپنی فکر کرو ،جب تم خود ہدایت پر ہو تو (کسی کی ) گمراہی کا وبال تم پر نہیں آئے گا، (المائدہ:105) ‘‘۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بے عملی کی اس توجیہ وتاویل کو رد کرتے ہوئے فرمایا: ''اے لوگو!تم اس آیت کو پڑھتے ہو :''اے ایمان والو!تم اپنی فکر کرو ،جب تم خود ہدایت پر ہو تو (کسی کی) گمراہی کا وبال تم پر نہیں آئے گا،(المائدہ:105)‘‘(یہ بے عملی اور دعوتِ حق سے فرار کا فری لائسنس نہیں ہے )کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:بے شک لوگ جب برائی کو دیکھیں اور (قدرت کے باوجود )اُسے نہ روکیں ،توقریب ہے کہ اللہ انہیں عمومی عذاب میں مبتلا کردے ،(سنن ابودائود:4338)‘‘۔پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسا کوئی مرحلہ آسکتا ہے کہ اس آیت کی رُو سے مومن'' نھی عن المنکر‘‘کی مسئولیت سے بری ہوجائے ،تو اس کا جواب حضرت ابوثعلبہ کی اس روایت میں ہے ،وہ بیان کرتے ہیں :میں نے المائدہ:105کی بابت رسول اللہ ﷺ سے پوچھا،تو آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ (ہر حال میں )نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ،یہاں تک کہ (جب انتہائی مشکل دور آجائے اور) تم دیکھو کہ بخیل رہنما بن چکا ہے ، خواہشات کی پیروی کی جارہی ہے اوردنیا کو (آخرت پر)ترجیح دی جارہی ہے اورہر شخص (اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے ) اپنی رائے پر اِترا رہا ہے اور تیرے نفس میں بھی اِن خرابیوں کی طرف میلان کا اندیشہ ہے ،تو (لوگوں سے الگ تھلگ رہ کر )اپنی نجات کی فکر کرو اور (شر کے غلبے کے عالَم میں )لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دو،کیونکہ اب تمہارے پاس صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ،پس جو ایسے حالات میں صبر کرے گا تو یہ آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں پکڑنے کی مانند ہے (یعنی انتہائی مشکل صورت حال ہے )،سو جو اِن حالات میں نیکی پر کاربند رہے ،تو اُسے اُس کے نیک عمل کا ثواب پچاس افراد کے برابر ملے گا،صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ!اُس دور کے پچاس افراد کے برابر؟،آپ ﷺ نے فرمایا: (اے میرے صحابہ!نہیں )تمہارے پچاس افراد کے برابر،(سنن ترمذی:3058)‘‘۔
اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ عامّۃ المسلمین کی اصلاح کے فریضے سے دست برداری مومن کا آخری آپشن ہونا چاہیے، جب اُس کے پاس اپنے ایمان وعمل اور عزتِ نفس کو بچانے کے لیے کوئی اور راستہ نہ رہے تو برسبیلِ تنزُّل خلوت گزینی کی اجازت ہے، لیکن اس مرحلے پر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی غالب اکثریت کا ملک،جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ، اتنے بدترین حالات سے دوچار ہوچکا ہے کہ پرامن انداز میں قرآنِ مجید کے بیان کردہ اسلوبِ دعوت یعنی حکمت ،موعظۂ حسنہ اور جدالِ احسن کو شِعار بناکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو ادا کیا جائے۔جب مذکورہ بالا شِعار کے مطابق دعوتِ دین کے لیے ماحول سازگار ہواور اس کے باوجود لوگ فریضۂ دعوت سے لاتعلق ہوکر بیٹھ جائیں تو اُن کے لیے حدیثِ پاک میں وعید آئی ہے ،حضرت جابر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے :اے جبرائیل!فلاں بستی کو اُس کے باسیوں سمیت الٹ دو، جبریلِ امین (بارگاہِ الٰہی میں )عرض کرتے ہیں: اے پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں بندہ بھی ہے ، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی (یعنی اُس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟)،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس بستی کو اُس سمیت الٹ دو ، کیونکہ (میری شرعی حدود کو پامال ہوتا ہوا دیکھ کر )اُس کی جبیں پر کبھی شکن نہیں آئی (اور وہ لاتعلق بنا رہا )، (شعب الایمان: 7595)‘‘۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے لا تعلق رہنے والوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں شدیدوعید بیان فرمائی: حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ کی حدود میں (با اثر لوگوں کے بارے میں )بے جا نرمی برتتا ہے اور جو اس میں مبتلا ہوجاتا ہے ، ایسے لوگوں کی مثال کشتی میں سوار اُس قوم کی سی ہے ، جنہوں نے قرعہ اندازی کی ، کچھ کشتی کی نچلی منزل میں چلے گئے اورکچھ اوپر والی منزل (Deck) پر چلے گئے ،پس جو لوگ کشتی کے نچلے حصے میں تھے، وہ پانی لینے کے لیے کشتی کے اوپر والے حصے کے لوگوں کے پاس سے گزرتے تھے جس سے ان کو تکلیف ہوتی تھی ،(اُن کے رویّے سے تنگ آکر ) اُن میں سے کوئی کلہاڑی لے کر کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا، پس اوپر والے اس کے پاس آئے اور پوچھا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟،اس نے کہا: تم کو مجھ سے تکلیف پہنچتی ہے اور مجھے پانی لینے کی ضرورت ہے ،پس اگر اوپر والے اس کے ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اس کو بھی (دریا میں ڈوبنے سے )بچالیں گے اور اپنے آپ کو بھی بچالیں گے اور اگر انہوں نے (اس کو)چھوڑ دیا ،تو (نہی عن المنکر سے لا تعلقی کے باعث )وہ اُس کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے اور خود کو بھی ہلاک کردیں گے ، (صحیح البخاری:2686)‘‘۔
اسی طرح عاقبت کی رُسوائی کی وعید اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ تو ادا کرتے ہیں، لیکن خود بے عملی یا بد عملی میں مبتلا رہتے ہیں ،اُن کے بارے میں حدیث میں ہے : اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا ،پس اُس کی آنتیں آگ میں نکل رہی ہوں گی اور جس طرح کولہو کا گدھا چکی کے گرد چکر کاٹ رہا ہوتا ہے ، وہ اپنی آنتوں سمیت جہنم کی آگ میں چکر کاٹ رہا ہوگا ۔ پس جہنمی لوگ وہاں جمع ہوں گے اور کہیں گے: اے فلاں صاحب!آپ اس انجام سے کیسے دوچار ہوئے ، آپ تو ہمیں نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے روکتے تھے، وہ کہے گا: (بے شک )میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا ، لیکن خود اُس نیک عمل سے عاری رہتا تھا اور میں تمہیں برائی سے روکتا تھا ،لیکن خود اس برائی میں مبتلا رہتا تھا ،(اس بناپر میں اس انجام سے دوچار ہوا)،(صحیح البخاری:3267)‘‘۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو قول وفعل کے اِس تضاد سے محفوظ فرمائے اور اس کے انجام سے اپنا حفظ وامان عطا فرمائے، فکر کی کجی ، عمل کی گمراہی اور عقیدے کی بربادی سے بچائے رکھے ، ورنہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جن پر تم خود عمل نہیں کرتے ۔اللہ تعالیٰ اس پر شدید غضب فرماتا ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے ،(الصف:2-3)‘‘۔
آج کل ہماری دعوت وتبلیغ کی بے اثری کا ایک سبب شاید قول وفعل کا تضاد بھی ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ علمائے بنی اسرائیل اِسی شِعارکے سبب اللہ تعالیٰ اور لعنت کرنے والوں کی لعنت کا نشانہ بنے اور قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے بار بار انہیں اس پر متنبہ فرمایا،لیکن کبھی کبھی تمرّد انسان کے دل ونگاہ کے لیے حجاب بن جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''ہرگز نہیں! بلکہ اُن کے (برے )کرتوتوں نے اُن کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ،بے شک وہ اُس دن اپنے رب (کے دیدار) سے محروم ہوں گے ، (المطففین:15-16)‘‘۔