"MMC" (space) message & send to 7575

دانشِ خورشید…(حصہ دوم)

فاضل کالم نگار لکھتے ہیں:
''جہاد کی علت کفر کا خاتمہ اور غلبۂ اسلام ہے ،اس کا مفہوم یہ ہے کہ جہاد کفر کے خاتمے اور اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ،یہ فرضِ عین ہے ، یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے ،لیکن خورشید صاحب کایہ کہنا کہ علماء نے اسے ہر مسلمان پر فرضِ عین قرار دیا ہے ، درست نہیں ہے ۔ فقہائے اسلام کے نزدیک بعض ناگزیر صورتوں میں جہادفرضِ عین ہے ، ہر صورت میں نہیں ہے :امام کاسانی لکھتے ہیں: ''اگر جہاد کے لیے'' نفیرِ عام‘‘ ہو اورتمام مسلمانوں کو جہاد میں شرکت کے لیے کہا جائے ،اُس وقت یہ فرضِ عین ہے ،ورنہ فرضِ کفایہ ہے،(بدائع الصنائع، ج:7،ص:145)‘‘۔سورۂ توبہ اورانفال میں جہاد کے فرض عین ہونے کے بارے میں صریح آیات ہیں۔ جب دشمن اسلامی ریاست پر حملہ آور ہوجائے تو اس صورت میں جہاد فرضِ عین ہوگا اوراِقدامی جہاد ،جو مجموعی طور پر مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ہو،کی صورت میں یہ فرضِ کفایہ ہے ،تفصیلات کتبِ فقہ میں موجود ہیں۔موجودہ زمانے میں فرضِ عین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہرشخص پر اپنی اہلیت کے مطابق خدمات پیش کرنا فرض ہے، اندھا دھند میدان میں کود جانا جنگی حکمتِ عملی کے منافی ہے، اس میں مسلّح افواج کی ترجیحات کے مطابق حصہ لینا ہوگا۔
عہدِ رسالت اور خلافتِ راشدہ کے ابتدائی دور میں ریاستی ادارے منظّم نہیں تھے ،اس لیے جب کسی جہادی مشن کے لیے ''نفیرِ عام ‘‘ہوتا توجنگ کے قابل ہر شخص حسبِ توفیق اپنی سواری ، زادِ راہ اور سامانِ حرب کے ساتھ لشکر میں شامل ہوتا ، صرف بوڑھے ، عورتیں ،بیماراور بچے مستثنیٰ تھے۔ لیکن جب باقاعدہ مسلح افواج کا شعبہ قائم ہوگیا ،تو اب ہر شخص پر عملاً جنگ میں شرکت کرنا نفع بخش نہیں رہا، کیونکہ جدیدسامانِ حرب اور فن حرب کی مہارت ہر ایک کو حاصل نہیں ہے، اس کے لیے خصوصی تربیت لازمی ہے۔البتہ جب مسلّح افواج سرحدوں پر دشمن کے مقابلے میں مصروف ہوجائیں ،تو شہری اداروں اور تنصیبات کی حفاظت کے لیے آج بھی ''سوِل ڈیفنس‘‘ کے ادارے موجود ہیں ۔ افواج اور سامانِ حرب کی نقل وحمل کے لیے بعض اوقات سرکاری اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹیشن کو بھی مسلّح افواج اپنی تحویل میں لے لیتی ہیں ، زمانۂ جنگ میں اُن کے لیے قانون میں گنجائش رکھی جاتی ہے ۔البتہ دشمن ممالک کے ساتھ جنگ کا فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے ،کیونکہ اُسے اپنی اور دشمن کی امکانی حربی قوت کا اندازہ ہوتا ہے اور کسی بھی جنگ میں کودنے سے پہلے اُس کے عواقب پربھی غور کیا جاتا ہے ،اِلَّا یہ کہ دشمن اچانک جنگ مسلّط کردے ،تو اس کا سامنا کرنے کے سوا کوئی متبادل آپشن باقی نہیں رہتا ۔
جنابِ غامدی کے ترجمان سید منظور الحسن لکھتے ہیں:
''غامدی صاحب کے نزدیک مسلم تشخص اور پاکستانی تشخص نہ باہم مغائر ہیں اور نہ لازم وملزوم۔ ایک مسلمان ،مسلمان ہوتے ہوئے جس طرح عرب، امریکی ،ایرانی اور افغانی ہوسکتا ہے ،اسی طرح پاکستانی بھی ہوسکتا ہے ،لیکن پاکستانی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لازماً مسلمان بھی ہو۔ پاکستان کے مسلمان مذہبی اعتبار سے تقسیمِ ہند سے پہلے بھی مسلمان تھے اور بعد میں بھی مسلمان رہے ، تاہم قومی اعتبار سے وہ پہلے ہندوستانی اور پھر بعد میں پاکستانی ہوئے۔ غامدی صاحب کے موقف سے اس طرح کا تاثر قائم کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ تحریکِ پاکستان کے تناظر میں دو قومی نظریے کو درست نہیں سمجھتے ،ایسا ہرگز نہیں ہے ،وہ مذہبی تشخص کی بنیاد پر جداگانہ قومیت کے تصور اور اُس کے نتیجے میں علیحدہ وطن کے مطالبے کو بالکل جائز قرار دیتے ہیں ۔البتہ وہ اِسے ایک خالص سیاسی مطالبہ سمجھتے ہیں ،جس کا دین وشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے اسلام کا نعرہ لگایا گیا تھا، یہ بانیانِ پاکستان کی نیت پر حملہ ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ منظورصاحب کیا کہنا چاہتے ہیں ،کس نے کہاہے کہ ہر پاکستانی کے لیے مسلمان ہونا لازمی ہے اورکوئی غیر مسلم پاکستانی شہری نہیں ہوسکتا ۔لیکن جب وہ جداگانہ قومیت کی بنیاد پر تقسیمِ ہند کو جائز قرار دیتے ہیں ،تو مذہب کی بنیاد پر قومیت کے اصول کو انہیں تسلیم کرنا ہوگا ،مگراس کے لیے وہ ذہنی طور پر آمادہ نہیں ہیں ۔یہ لوگ دوسروں سے تو ہربات کی دلیل مانگتے ہیں، لیکن خود دلیل کے بغیر بات کرتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ دوسرے آنکھیں بند کر کے ان کے مقلّد بن جائیں ۔
منظور الحسن لکھتے ہیں:
''نظمِ اجتماعی سے متعلق یہ شریعت کے احکام اس تنبیہ وتہدید کے ساتھ دیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اُس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ،قیامت کے دن وہ اُس کے حضور میں ظالم ،فاسق اور کافر قرار پائیں گے‘‘۔ یہ نظریہ کہ ظلم ،فسق اور کفر کا حکم آخرت میں لگے گا ،دنیا سے اِن احکام کا کوئی تعلق نہیں ہے،تو کیا دنیا میں اسلام اور کفر ایک ہیں ، کفر کو کفر نہیں کہا جائے گا،یہ موقف آپ نے قرآن کی کس آیت کے تحت اختیار کیا ہے ؟۔قرآنِ مجید کفر وایمان کے درمیان حدِّ فاصل قائم کرنے کے لیے ہی تو آیا ہے ، کئی مقامات پرقرآن کو'' الفرقان‘‘ یعنی ''حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا‘‘کہا گیا ہے، تو کیا اس دنیا میں مسلمان حق وباطل کے حوالے سے اندھیرے میں رہیں گے اور آخرت میں جاکر یہ واضح ہوگا، یہ ایسی منطق ہے جو صرف ہمارے اِن دوستوں کواِلقاہوئی ہے ۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
''غامدی صاحب کے نزدیک شرک ،کفر اور ارتداد کے حوالے سے قرآن وحدیث کے احکام کا تعلق زمانۂ رسالت کے مشرکینِ عرب ویہود ونصاریٰ سے ہے ،جن پررسول اللہ ﷺ کے براہِ راست انکار کی پاداش میں عذابِ الٰہی نازل کیا گیا۔ رسول اللہﷺ کے بعد کفر، شرک اور ارتداد کے مرتکبین اور دنیا کے باقی انسانوں سے اب ان احکام کا کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘۔یہ الحاد کو فروغ دینا اور نصوصِ قرآنی کو اپنی رائے سے معطَّل کرنا ہے ،اسی فکر کے زیر اثربعض لوگ میڈیا پر سرِ عام کہتے ہیں کہ انسانی فلاح کے کام کرنے والے غیر مسلم جنت میں جائیں گے ۔قرآنِ مجید کے احکام کو کسی زمانے تک محدود کرنے اور مابعد ادوار کے لیے منسوخ یامُعَطَّل کرنے کے اختیارات آپ کے پاس کہاں سے آئے، قرآن سے دلیل پیش کیجیے ۔ آپ بتاسکتے ہیں کہ آپ کی فکر کے حاملین کا تناسب پاکستان کے مسلمانوں میں کتنا ہے اورآیا مسلمانوں کی غالب اکثریت جن علماء کو اپنا رہنما اور اپنے لیے حجت مانتی ہے ،وہ آپ کے نزدیک کسی گنتی میں نہیں ہیں ۔ آپ نے سنتوں کی پہلے ستائیس اور پھر سترہ تک تحدید کی ،یہ مسئلہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا؟، آپ کوجمہورِ امت کے نزدیک سنت کی تعریف یقینا معلوم ہوگی ۔
منظور صاحب لکھتے ہیں:
''خلافت کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی اصطلاح ہے، یہ نہ دینی اصطلاح ہے اور نہ مسلمان اس کے مکلف ہیں کہ وہ خلافت کے نام پر دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک حکومت قائم کرنے کی سعی کریں۔ ان کے نزدیک دنیا بھر کے مسلمانوں کا کسی ایک ریاست یا ایک حکومت کے تحت جمع ہونا ایک اچھی خواہش ہو سکتی ہے اور اس کے لیے پرامن جدوجہد بھی جائزہے، لیکن اس تمنا کو ایک دینی مطالبے کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ،وہ کہتے ہیں:''جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کر لیں، یہ ایک پسندیدہ خواہش ہوسکتی ہے، ہم اِس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کر سکتے ہیں، لیکن اِس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہرگز نہیں، نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اِس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے، (مقامات، 197)‘‘۔
غامدی صاحب کے لیے حدیث میں بیان کردہ خلفاء کی اصطلاح شاید قابلِ قبول نہیں ہے ۔نبوت کے بعد انسانیت کا بہترین طبقہ صحابہ کرام کا تھا ،جورسول اللہ ﷺ کے براہِ راست تربیت یافتہ تھے ،انہوں نے اپنے نظامِ حکومت کا نام خلافت ہی رکھا تھا ،ان حضرات کے نزدیک شایدوہ سمجھ نہ پائے ہوںکہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے ، جب تک اسلام کو غلبہ حاصل رہا،جمہورِ امت نے اِسی اصطلاح کو استعمال کیا ۔مقامِ حیرت ہے کہ ریاست کی اصطلاح قبول ہے او ر خلافت کی اصطلاح مردود ہے ،صدر یا وزیرِ اعظم کی اصطلاح قبول ہے ،لیکن خلیفہ کی اصطلاح نامقبول ۔ ہم نے کب جدید اصطلاحات کو خلافِ اسلام قرار دیا ہے ،لیکن عہدِ نبوت کے بعد جس اصطلاح سے مسلمان مانوس رہے ،وہ خلافت ہی ہے اور جب آپ خود مانتے ہیں کہ جمہوری طریقے سے اِحیائے خلافت کے لیے جدوجہد جائز ہے ،تو پھر پریشانی کس بات کی ؟، چلیے ! مسلمانوں کی ایک پسندیدہ خواہش کو دل پر پتھر رکھ کربرداشت کرلیجیے ،آپ کا احسان ہوگا۔ یہی سمجھ لیجیے کہ خلافت کے عنوان سے مسلمانوں کی وحدت ایک جنونی تخیُّل ہے ،بہت سے انسانی خواب اپنی تعبیر نہیں پاتے اور کبھی نعمتِ غیر مترقّبہ کے طور پر ناقابلِ تصور خواہشات بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پوری ہوجاتی ہیں ۔خلافت کے نام پر فساد کی نہ تو ہم نے حمایت کی ہے،نہ اِسے درست سمجھتے ہیں اور نہ اس کو دین کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں ،لہٰذا جمہورِ امت پر یہ تہمت جائز نہیں ہے۔
مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل ملک میں پر امن جمہوری جدوجہد کے ذریعے نفاذِ شریعت کا مطالبہ جمہوریت کے کس اصول کے تحت ناجائز ہے۔ حدودوقصاص کے قوانین اور اسلام کے دیگر احکام اپنی عملی تنفیذ کے لیے قوت نافذہ کا تقاضا کر تے ہیں، کیا اب انہیں تاقیامت معطل سمجھا جائے، اگر جواب نفی میں ہے ،تو کیامسلمان نفاذِ شریعت کے لیے پر امن جمہوری جدوجہد کے مکلف نہیںہیں، فساد کے حق میں کوئی بھی نہیں ہے، کامیابی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں