اب جب کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے سانحے کی جذباتی کیفیت میں ٹھہرائو آگیا ہے، پختونخوا کی پولیس نے تفتیش کا عمل بھی شروع کر دیا ہے ،تو اب مناسب ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوئوں پر غیر جذباتی انداز میں گفتگو کی جائے۔ اکثر پرائیویٹ چینلز نے تبصرے کے لیے رابطہ کیا، ایک تو میں اس دوران اَسفار میں تھا، دوسرا یہ کہ ہمیں پوری بات کرنے کا موقع نہیں ملتا اور سیاق وسباق سے ہٹ کر ہماری بات کا کوئی جملہ اپنے مقصد کے لیے استعمال کرلیا جاتا ہے یا کسی جملے کو اپنے کڑوے کسیلے تبصرے کا ہدف بنا کر چاند ماری شروع کردی جاتی ہے۔ یہ اعزا ز صرف جناب شیخ رشید کو حاصل ہے کہ وہ بعض اوقات تین چار چینلوں کے اینکر پرسنز کو ون آن ون بیٹھ کر انگلی پکڑ کر چلا رہے ہوتے ہیں ، نوکری اور ریٹنگ کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو متوازی شریعتیں چل رہی ہیں، ایک شریعتِ اسلامی اور دوسری لبرل ازم اور تجدُّد کی خود ساختہ شریعت ہے،جس کو مختلف زبانوں کے کم وبیش سو چینلز کی خدمات رضاکارانہ طور پر دستیاب ہیں، این جی اوز ، سوشل میڈیا کی مختلف اصناف اور پرنٹ میڈیا کی خدمات اضافی ہیں۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو بھی وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو لبرل ثابت کرنا ہوتا ہے،جب کہ شریعتِ اسلامی کے لیے یہ سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔لبرل عناصر سیاست دانوں کی طرح علماء کو بھی وقتاً فوقتاً آمنے سامنے بٹھاکر مناظرے کراتے ہیں تاکہ ناظرین کو شعور ی طور پر یہ پیغام دیا جائے کہ مذہب کا کام توڑنا ہے، جوڑنا نہیں ہے۔ یہ مناظرین اپنے اپنے حلقوں میں جاکر داد وتحسین کی سوغات وصول کرتے ہیں، انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ مجالسِ مناظرہ برپا کرنے والوں کو ان میں سے کسی کے مسلک سے غرض نہیں ہے، ان کانشانہ مذہب ہے اور نئی نسل کو مذہب سے دور کرنا ہے۔ جو چند مذہبی چینل ہیں، وہ اپنے اپنے برانڈ کو لے کر چل رہے ہوتے ہیں، وہ اچھے بچوں کی طرح پروگراموں کو چلاتے ہیں ،کیونکہ نہایت اخلاص کے ساتھ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیا کو فتح کرنا ہے ،ملکوں ملکوں جانا ہے، سو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے لیے دروازے بند ہوجائیں۔اس لیے دین کا پورا موقف اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ عوام کے سامنے آنا مشکل ہے۔
صرف ایک معروف عالم دین کو یہ سہولت حاصل ہے کہ اپنی پسند کا عنوان چن کر اپنی پسند کے میزبان کے ساتھ پروگرام کریں۔ سوال وجواب بھی اپنی پسند کے ہوں اور ہر مسئلے میں اباحت کی گنجائش بھی نکال دی جائے، تو لبرل طبقے میں پذیرائی ملنا یقینی ہے۔ان کی فکر کے ایک شارح کہہ چکے ہیں کہ کفر وشرک، نفاق، ضلالت، فسق وفجور اور حق وباطل کے لیے دارالافتاء حشر میں کھلے گا یا عدالت لگے گی، اس دنیا میں ان باتوں کی اجازت ریاست کے سوا کسی کو نہیں ہونی چاہیے اور ریاست کو کیا پڑی ہے کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالے، کیونکہ ان کی آرزو عافیت کے ساتھ حکمرانی سے لطف اندوز ہونا ہے۔
سو ہم بھی کہتے ہیں :قانون کسی کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے، انار کی نہیں پھیلنی چاہیے،اسی طرح انسانی میت کی بے حرمتی کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی،لیکن یہ تخیلاتی معراج وہاں ہوسکتی ہے،جہاں قانون،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں مکمل با اختیار ہوں ،ہر ادارہ کسی جبر واکراہ اور خوف کے بغیر اپنا کام کر رہا ہو، سب اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہ سمجھیں اور آئین وقانون کی مکمل بالادستی ہو، لیکن ہمارے ہاںچند مستثنیات کے سوا ایسا نہیںہے۔جنابِ عمران خان چار سال سے پختونخوا پولیس کے قصیدے پڑھ رہے ہیں، ہماری نظر میں اُن کے لیے یہ ٹیسٹ کیس ہے، کیونکہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے سانحے میں مذہبی جماعتیں اور مذہبی افراد ملوث نہیں ہیں، یونیورسٹی میں لبرل سیکولر جماعت اے این پی کی چھاپ واضح ہے، اسٹوڈنٹس تنظیموں میں بھی ان کی ذیلی تنظیم نمایاں ہے، اس لیے اس واردات کا ملبہ مذہبی عناصر پر براہ راست نہیں ڈالا جاسکا ، اس میں پی ٹی آئی اورپی پی پی کے لوگ بھی شامل تھے۔ لہٰذا اس وقوعے کا ایک واضح پیغام یہ ہے کہ ہمارے وطن عزیز بلکہ پورے خطے کے مسلمان ، خواہ وہ عام معنوں میں با عمل مسلمان نہ ہوں، دینی مقدسات کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔
چنانچہ مردان میں کل جماعتی ''دینی محاذ‘‘تشکیل پاچکا ہے، وہ مردان اور چارسدہ میں بڑے احتجاجی جلوس نکال چکے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر اللہ تعالیٰ ،رسولِ مکرم ﷺ اور شعائرِ دین کی توہین اتنی خباثت کے ساتھ کی گئی ہے کہ کوئی مسلمان نہ اس کا تصور کرسکتا ہے اور نہ اسے نقل کرسکتا ہے ،یہ سب کچھ وہاں کے لوگوں کے پاس ریکارڈ اور شہادت کے لیے موجود ہے۔لہٰذا اس مقدمے کی تحقیقات جامع انداز میں ہونی ضروری ہے، اس کے لیے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز سیل کو بھی تفتیشی ٹیم کا حصہ بنایا جائے اور بین الاقوامی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں کہ اس سارے موادکی شروعات کہاں سے ہوئیں، اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔جناب خان سے گزارش ہے کہ ان سب امور کی غیر جانبدارانہ مکمل تحقیقات کرائیں، ورنہ آئندہ الیکشن پر بھی یہ مقدمہ سایہ فگن رہے گا۔سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر عطاء الرحمن نے بتایا کہ مردان میں ایک کذاب مدعیِ نبوت کو لوگوں نے پولیس کے حوالے کیا، ایس ایس پی کے سامنے بھی اس نے اقرار جرم کیا، لیکن اس کے کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ حکمرانوں کو کسی غیر قانونی طریقۂ کار کی مذمت کا حق توحاصل ہے ،لیکن عدالتی تحقیق سے پہلے کسی کی براء ت کا اعلان درست نہیں ہے ۔وزیرِ اعلیٰ پختونخوا جناب پرویز خٹک نے ایسا ہی کیا ہے۔
اسی طرح الیکٹرانک میڈیا پر جو لبرل مفتیانِ کرام اوروالا شان بیٹھے ہیں، وہ بھی فوری فتویٰ صادر کردیتے ہیں کہ 295-Cکا غلط استعمال ہورہا ہے، وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یونیورسٹی پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگوں کا ادارہ ہوتا ہے، وہاں ماسٹرزسے ڈاکٹریٹ کی سطح تک تعلیم دی جاتی ہے، پھر ان میں سے ہر ایک کو سوشل میڈیا تک رسائی بھی ہوتی ہے ،کیا بقائمی ہوش وحواس یہ مانا جاسکتا ہے کہ اچانک سب پر جنون طاری ہوگیا اور ہوش وخرد کھو بیٹھے۔
مغرب سے متاثر ذہن کی تان تو اس پر آکر ٹوٹتی ہے کہ قانون تحفظ ناموس رسالت کو یکسر ختم کردیا جائے، تو کیا اس کے ذریعے آپ مسلمانوں کے دلوں سے اللہ تعالیٰ اوراُس کے رسول مکرم ﷺ کی محبت، قرآن اور شعائرِ دین کی حرمت نکال سکیں گے۔ ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا، اس کے پیچھے عہدِ رسالت مآب ﷺ سے لے کر عہدِ حاضر تک ایک طویل تاریخ ہے۔ اگر محض شور شرابے سے مسائل کا حل ممکن ہو تو ہمارے اینکر پرسنز اور تجزیہ کاروں سے بڑا انقلابی اس آسمان کے نیچے اور کون ہے، کئی ایک ہیں جو ہرروز سر شام ''حق الیقین‘‘ اور ''اعتقاد جازم‘‘ کی حد تک قطعی فیصلے صادر کر رہے ہوتے ہیں ،مگر ان فیصلوں کی حیاتِ مستعار چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف چونکہ ہمارے نظام ریاست وحکومت میں ہمہ مقتدر اور عقلِ کل تھے، ڈرتے ورتے بھی کسی سے نہیں تھے، لیکن 2007کے بعد چشمِ فلک نے بہت کچھ دیکھا، آخرِ کار قرآن کا فرمان ہی سچ ثابت ہوتا ہے:''اس زمین پر جو کوئی بھی ہے (ایک دن) فنا ہونے والا ہے اور (صرف) تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے، باقی رہ جائے گی، (الرحمن:20-21) ‘‘۔
ہم نے ہمیشہ کہا کہ دیگر تمام مقدمات کی طرح 295-Cکی ایف آئی آر بھی براہ راست درج کی جائے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جس شخص پر الزام ہے، وہ پولیس کی تحویل میں چلا جائے گا اور عوام کے قانون کو ہاتھ میں لینے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف نے خاص اس دفعہ کی ایف آئی آر کے اندراج کے لیے ضابطۂ فوجداری میں یہ ترمیم کی کہ جب تک ایس ایس پی سطح کا پولیس افسر مطمئن نہ ہو ،ایف آئی آردرج ہی نہیں ہوسکے گی۔عقل کا اندھا بھی جانتا ہے کہ ہمارے ملک میں عام آدمی کی رسائی ایس ایچ او تک ممکن نہیں ہے ، ایس ایس پی تک کیسے ہوگی۔ سوآپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، جتنی ایف آئی آر درج ہوئی ہیں، وہ اس وقت ہوئیں جب لوگوں نے پولیس تھانوں پر چڑھائی کردی یا کسی عدالت سے حکمنامہ لے کر آئے۔
ہم نے یہ بھی تجویز کیا تھاکہ قانون میں ترمیم کر کے اس کا ٹرائل براہِ راست فیڈرل شریعت کورٹ میں کیا جائے تاکہ اگر بے قصور ہے توجلد با عزت بری ہوجائے گا اور قصور وار ہے تو سزا پائے گا۔ ہمارے میڈیا کے لبرل حضرات کا اصل ہدف قانونِ تحفظِ ناموس رسالت کا خاتمہ ہے ،لیکن ایسی خواہش پالنا آسان اور پانا مشکل ہے۔ پاکستان میں مسلمان سر عام اللہ تعالیٰ ،رسولِ مکرم ﷺ اور مقدساتِ دین کی اہانت برداشت نہیں کریں گے۔ پس لازم ہے کہ سوشل میڈیا پر ڈالی جانے والی باتوں کی تَقْطِیْر (Filtration) کا کوئی انتظام ہو، مذہب اور اہلِ مذہب کو ملامت کرنااس مسئلے کا حل نہیں ہے، ورنہ یہ کار خیر تو ہمارے ہاں صبح وشام ہوتا ہے۔ اس ملک کو کسی غریب یا جاہل نے لوٹ کر کنگال نہیں کیا، اس کو لوٹنے والے وہ ہیں جن کے پاس پہلے سے سونے کی ایک وادی ہوتی ہے اور جو بیرون ملک یا ملک کے اندر رؤساء کے لیے قائم اداروں میں پڑھے ہوتے ہیں۔اس مسئلے کے قابل قبول اور دیر پا حل کے لیے میری تجویز ہے کہ پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ سرکردہ علماء کی تفصیلی میٹنگ ہو ، اس میں غیر مسلم مذہبی رہنمائوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ،کیونکہ جب بھی ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ ہمارے مقدسات کی توہین کرنا چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں: نہیں، اس کا غلط استعمال روکا جائے۔سوالزام کے صحیح یاغلط ہونے کا معاملہ عدالت ہی طے کرسکتی ہے،اس کے لیے تفتیشی اور عدالتی طریقۂ کار کو سہل اور تیز تر بنانے کی ضرورت ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ ہجوم عدالت لگائے ،بازاروں اور چوراہوں پر فیصلے ہوں، لیکن یہ بھی تو ماننا پڑے گا کہ یہ اس وقت ہوتا ہے جب قانونی عمل مفلوج یا بے اثر ہوجاتا ہے۔