"MMC" (space) message & send to 7575

فریبِ نفس

نفس کے معنی ہیں:'' ذات یا شخص ،روح ، تعقُّل ، خیر وشر کے دواعی اور مُحرِّکات(Incentives) کا منبع اور ان رُجحانات کے قبول یا رَد کرنے کی صلاحیت یا ملکہ (Aptitude, Ability)‘‘۔قرآنِ مجید نے اِسے مختلف مقامات پر عقل ،فکر ،قلب اور فُؤاد سے بھی تعبیر کیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ تعلیمِ امت کے لیے اپنے خطبے میں ''شرورِ نفس اور فریبِ نفس‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے اور آپ نے یہ دعا کی :''اے اللہ!مجھے تیری رحمت پر یقین ہے ،سو مجھے پلک جھپکنے کی مقدار بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرما،(ابودائود:5090)‘‘۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! فریبِ نفس ،شُرورِ نفس اور ہوائے نفس سے میری حفاظت فرما اور ایک اور دعا میں آپ نے فرمایا: ''پس اگر تو مجھے میرے نفس کے حوالے کردے گا،تو مجھے شر سے قریب کردے گا اور خیر سے دور کردے گا اور مجھے تو تیری رحمت پر پختہ یقین ہے ،(مسند احمد:3916)‘‘۔آپ نے یہ بھی دعاکی: ''اے اللہ! میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اِسے (باطل کے میلانات سے)پاک فرما،کیونکہ توہی نفس کو بہترین پاکیزگی عطا کرنے والا ہے ،تواس کا ولی اور کارساز ہے ،اے اللہ !میں ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے قلب سے جس میں تیرے لیے عاجزی نہ ہو اور ایسے (حریص) نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو (کبھی) قبول نہ ہو،تیری عافیت کا طلب گار ہوں، (مسلم:2722)‘‘۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ خیر وشر کی ایک کشمکش انسان کے وجود سے خارج میں اور ایک اُس کے وجود کے اندر جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ حرص وہوس ،کینہ وبغض ،حسد، ریا ، بخل وزر پرستی اور دیگر تمام اخلاقی عوارض انسان کے نفس میں پرورش پارہے ہوتے ہیں اور نفس کے یہی منفی اور باطل تقاضے انسان کی دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بنتے ہیں ۔نفس اگر شریعت کے تابع ہوگیا اور خود سری سے نکل کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردیا اور اُس کی رِضا کو اپنی چاہت پر غالب کردیا بلکہ حاکم بنادیا ،تو انسان رشکِ ملائک بن جاتا ہے ، ورنہ قرآنِ مجید کے کلماتِ طیبات شاہد ہیں کہ وہ اَسفل سافِلین میں گر جاتا ہے اور چوپایوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام جو ایسی طویل ابتلاوآزمائش کے دور سے گزرے کہ ایک جواں عمر کا ان آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکلنا اللہ کے فضل ہی سے ممکن ہوتا ہے ،چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ''اور میں اپنے نفس کی پارسائی کا دعویٰ نہیں کرتا،بے شک نفس تو برائی کابہت حکم دینے والا ہے ، سوائے اُس کے کہ جس پر میرا رب رحم فرمائے،(یوسف:53) ‘‘۔انبیائے کرام علیہم السلام تو معصوم ہوتے ہیں ،اُن کے اس طرح کے اقوال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تواضع کے لیے ہوتے ہیں ۔
شیطنت اور ابلیسیت کا شکار نفس اور خواہشِ نفس ہوتی ہے اور وہ نفس کے مُقتضیات اور مطالبات کو اتنا حد سے بڑھا دیتا ہے کہ عملاً وہ خدائی اختیارات سے کم پر راضی نہیں ہوتا ،یعنی اُس کا ہر حکم مانا جائے خواہ وہ سراسر شرہی ہو،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''پس کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا ،جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیااور اللہ نے اُس کو علم کے باوجود گمراہ کردیا اور اُس کے کان اور اُس کے دل پر مہر لگادی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، پس اللہ کے بعد اُس کو کون ہدایت دے سکتا ہے، تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے، (الجاثیہ:23)‘‘۔اس سے معلوم ہوا کہ علم بھی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوجائے ۔ اسی فریبِ نفس نے سامری کو اس بات پر آمادہ کیا کہ بچھڑے کو اپنی قوم کے سامنے معبود بناکر پیش کرے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:'' (موسیٰ نے)کہا: اے سامری! تیرا معاملہ کیا ہے ؟، سامری نے کہا:میں نے وہ چیز دیکھی جو اوروں نے نہیں دیکھی، سو میں نے (اللہ کے) رسول (جبریل) کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی بھر لی ، پھر میں نے اُس (مٹھی بھرخاک ) کو (بچھڑے کے مجسمے میں) ڈالا، میرے نفس نے اسی طرح مجھے یہ بات سُجھائی تھی ، (طٰہٰ:95-96)‘‘۔
اسی طرح قرآنِ کریم برادران یوسف کی نفس پرستی کے واقعہ کو بیان فرماتا ہے: ''اور وہ یوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا کر لائے ،(یعقوب علیہ السلام نے) فرمایا:بلکہ تمہارے نفس نے ایک بات گھڑ لی ہے ،سو صبر کرنا ہی بہتر ہے، (یوسف:18)‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ''بلکہ تمہارے دلوں نے ایک بات گھڑ لی ہے ،تو اب صبر ہی بہتر ہے ،عنقریب اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے گا،(یوسف:83)‘‘۔
قرآن نے یہ بھی بتایا کہ یہ ہوائے نفس ہی ہے جو انسان کو عدل سے دور کرتی ہے اور ظلم پر آمادہ کرتی ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو!عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے ہوجائو،اللہ کے لیے گواہی دینے والے (بن جائو)، خواہ (یہ گواہی) تمہاری اپنی ذات کے خلاف ہو یا تمہارے والدین اور تمہارے قرابت داروں کے خلاف ہو،(فریقِ معاملہ )خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ اُن کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے ،پس تم عدل سے انحراف کے لیے خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو اور اگر تم نے (سچی گواہی دینے سے) ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا ،تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے،(النساء:135)‘‘۔آج ہم بحیثیتِ قوم انفرادی اور اجتماعی طور پر فریبِ نفس ،شُرورِ نفس اور ہوائے نفس کی اِسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں اور اس کے غلبے نے ہمارے دل ودماغ پر مہر لگادی ہے ، ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جھوٹ بھی سچ اور دوسرے کا سچ بھی جھوٹ نظر آتا ہے ۔الغرض حق وصداقت ،دیانت وامانت ، صدق وکذب اور عدل کے حوالے سے ہمارے دعوے اکثر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے ،بلکہ اشخاص کے حوالے سے سیاسی فتوے اور احکام بدلتے رہتے ہیں اور ہمارے قلوب واذہان خوفِ خدا سے خالی ہوتے جارہے ہیں ۔
اتباعِ نفس ہی انسان کو بڑے بڑے جرائم پر ابھارتی ہے ،حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''سواُس کے نفس نے اُسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا ،پس اُس نے اُسے قتل کردیا ،پھر وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا، (المائدہ:30)‘‘۔ اس کے برعکس اطاعت گزار نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم بشارت ہے ،فرمایا:''سو جو اللہ کے حضور جواب دہی کے تصور سے لرز گیا اور اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی سے روکے رکھا تو اُس کے لیے جنت المأویٰ (آخری آرام گاہ) ہے ،(النازعات:40)‘‘۔اور فرمایا:''اور جو (قیامت کے دن) اپنے رب کے حضور جواب دہی کے تصور سے لرز گیا، تو اُس کے لیے (آخرت میں) دو جنتیں ہیں ،(الرحمن:46)‘‘۔
پس بندگی کی معراج یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو شریعت کی لگام ڈالے ،اُسے صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے سِدھائے اور اُسے اُس کے مطالبات ومطلوبات سے بچاکر اللہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی کی طرف لے آئے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''دانا وہ ہے ،جو اپنے نفس کو (شریعت کا)اطاعت گزار بنا لے اور آخرت (کی فلاح) کے لیے کام کرے اور عاجز وہ ہے کہ جو (اللہ کی اطاعت کو چھوڑ کر)خواہشاتِ نفس کا پیروکار بن جائے اور(توبہ واستغفار اور اصلاحِ نفس کے بغیر) اللہ تعالیٰ سے (عفو ومغفرت کی) آرزوئیں باندھتا پھرے،(سنن ترمذی:2459)‘‘۔ اس حدیث کی شرح میں محقق بشار عواد معروف لکھتے ہیں:
''امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھ کر (خطبے میں)ارشاد فرمایاکرتے تھے:''اے مومنو! قبل اس کے کہ(اللہ کی عدالت میں)تمہارا حساب کتاب شروع ہو،خود ہی اپنا محاسبہ کرلواور بڑے امتحان کے دن کی تیاری کرلو۔قیامت کے دن صرف اُس کا حساب کتاب آسان ہوگا،جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا‘‘ ۔میمون بن مہران نے کہا: ''مومن پارسا نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ وہ اپنا محاسبہ بھی اُسی طرح (بے دردی سے) کرے ،جس طرح اپنے فریق کا کرتا ہے کہ اُس کے لباس وطعام (اور رہن سہن) کا ذریعہ کیا ہے؟‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:'' پہلوان وہ نہیں ہے جو اکھاڑے میں اپنے مقابل کو پچھاڑ دے ،بلکہ حقیقی پہلوان وہ ہے جو غضب کے وقت اپنے نفس پر قابو پائے ،(بخاری:6114)‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''جو اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع کرے گا،اللہ تعالیٰ (انعام کے طورپر)اُسے ایک درجہ رفعت عطا فرمائے گا، یہاں تک کہ (ترقی دیتے دیتے )اُسے (اعلیٰ) عِلِّیِیْن میں مقام عطا فرمائے گا اور جو اللہ پر ایک درجہ تکبر کرے گا، اللہ تعالیٰ (سزا کے طور پر)اُسے ایک درجہ گرا دے گا،یہاں تک کہ (گرتے گرتے) وہ اَسفَلِ سَافِلِین میں پہنچ جائے گا، (مسند احمد: 11724)‘‘۔ تواضع اور خشوع کے معنی ہیں:'' اللہ تعالیٰ کے حضور عَجز ونیاز اور انکسار اختیار کرنا ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عَجز وانکسار ایک تو نماز کے وقت ہوتا ہے ،جیساکہ قرآنِ کریم میں ہے: ''وہ مومن فلاح پاگئے ،جو اپنی نماز میں خشوع(عاجزی) کرتے ہیں،(المومنون:1-2)‘‘۔ اللہ کی رضا کے لیے بندوں کے سامنے متواضع بن کر رہنا بھی ایک اعلیٰ اَخلاقی قدر ہے ،البتہ کسی صاحبِ اقتدار واختیار کے سامنے نفسانی اغراض کے لیے اپنے نفس کو ذلّت سے دوچار کرنا ،یہ مذموم فعل ہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں