اللہ تعالیٰ عادل ہے اور قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ، (الحجرات: 9)‘‘۔(2):''بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو واپس کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو عدل پر مبنی فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں کیسی عمدہ نصیحت فرماتا ہے ،بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے، (النساء:59)‘‘۔اللہ تعالیٰ مالک ومختار اور قادرِ مطلق ہے ،وہ اپنے عدل کے لیے کسی کو جواب دہ نہیں ہے ، وہ میزانِ عدل اور نظامِ عدل قائم کیے بغیر اپنے علمِ قطعی کی بنیاد پر جہنمیوں کو جہنم میں اور جنتیوں کو جنت میں داخل فرماسکتا ہے ،کوئی اُس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''آج کے دن (اعمال کا)وزن حق ہے ،(الاعراف:8)‘‘۔اسلام میں عقل پرستوں کا ایک فرقہ معتزلہ گزرا ہے ،اُن کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ حشر کے دن اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ فرمائے گا،اُسے میزانِ عدل قائم کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے اور مزید یہ کہ اعمال عوارض ہیں ،ان کا اپنا کوئی مستقل بالذات وجود نہیں ہوتا،جیسے بدن کا درجۂ حرارت بدن کے ساتھ قائم ہے ،بدن سے جدا اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ،یہی صورتِ حال امراض کی ہے کہ وہ مریض کے وجود کے ساتھ قائم رہتی ہیں ، امراض کامریض سے الگ کوئی ذاتی اور خارجی وجود نہیںہوتا۔لیکن اس کے برعکس جمہورِ علمائے امت کا عقیدہ ہے کہ اعمال کا وزن ہوگا اور اس کے باوجود کہ اعمال عوارض ہیں، اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اُن کا وزن کرے ،اُس کی کیفیت کے بارے میں علماء نے مختلف صورتیں بیان کی ہیں ،لیکن اُس کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ الغرض اعمال کاوزن حق ہے اور اس دنیا میں رہتے ہوئے ہمارا اس کی حقیقت پر مطلع ہونا ضروری نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا محشر میں میزانِ عدل قائم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سنّۃ اللہ یہ ہے کہ عدل ہو اور ہوتا ہوا نظر بھی آئے ۔
عدل کے لیے شہادت ناگزیر ہے اور قاضی محض اپنے علم کی بنیاد پر فیصلے صادر نہیں کرتا، بلکہ عدالتی فیصلے اعترافِ جرم یا شہادتوں پر مبنی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام فرمایا ہے ،ارشاد ہوا(1): ''جب (اُس کے ہر قول و فعل کو) دوفرشتے حاصل کرلیتے ہیں ،جو اُس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے ہیں، وہ جو بات بھی کہتا ہے (اُس کو لکھنے کے لیے )اُس کا محافظ (فرشتہ) تیار رہتا ہے ،(ق:17-18)‘‘۔(2):''آج ہم اُن کے مونہوں پر مُہر لگادیں گے اور اُن کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور اُن کے پائوں اُن کے اعمال کی گواہی دیں گے ،(یٰس:65)‘‘۔ (3)''جس دن اُن کی زبانیں ، اُن کے ہاتھ اور اُن کے پائوں (اُن کے اعمال کے بارے میں )گواہی دیں گے جو وہ دنیا میں کیا کرتے تھے،(النور:24)‘‘۔ قرآن کریم نے یہ بھی بتایا کہ بندوںکے اعمال کا ریکارڈمرتّب کیا جارہا ہے :''اور بے شک اُن پر نگہبان (مقرر) ہیں ،معزّز لکھنے والے ،تم جو بھی عمل کرتے ہو، وہ جانتے ہیں، (الانفطار:10-12)‘‘۔
پس اللہ کی سنت یہی ہے کہ حقیقی معنی میں عدل قائم ہو اور شفاف عدل ہوتا ہوا نظر بھی آئے ۔حدیثِ پاک میں ہے: عبدالرحمن بن ابی بکرہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والدنے سجستان کے قاضی عبیداللہ بن ابی بکرہ کو یہ ہدایت نامہ لکھوایا :''غصے کی حالت میں (کبھی بھی) دو اشخاص کے درمیان فیصلہ نہ کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :''تم میں سے کوئی بھی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے، (صحیح مسلم:1717)‘‘۔
یہ سطور میں نے اس لیے تحریر کیں کہ آج کل ایک تاریخی مقدمہ ہماری عدالتِ عظمیٰ میں چل رہاہے اور اس کے لیے مختلف اداروں کے ماہرین پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT)اُس کی نگرانی میں سرگرمِ عمل ہے ۔ سیاست دانوں کا ایک طبقہ اُس کے مدّاحین میں شامل ہے ،جو یقینا قابلِ فہم ہے ،جب کہ دوسرا طبقہ اُس کے متاثرین اور مجروحین میں شامل ہے اور اُن کی آہ وفغاں بھی قابلِ فہم ہے۔ اصل بات عدالتِ عظمیٰ کا رویّہ ہے ،جو اس طرح ٹھنڈے مزاج کا حامل نظر نہیں آرہاجیساکہ آنا چاہیے۔فاضل جج صاحبان کا تاثر مغلوب الغضب والا نہیں ہونا چاہیے اور نہ یہ تاثّر پیدا ہوکہ گویا وہ فیصلے کے حوالے سے ذہن بناچکے ہیں ،بس صرف رسمی کارروائی باقی ہے ۔ ایک طرف فاضل عدالت اٹارنی جنرل سے کہے کہ ایس ای سی پی کے بارے میں آفیشل اسٹیٹمنٹ دیں اور دوسری طرف تصویر کے اِفشا ہونے کے بارے میں وہی عدالت یہ کہے کہ ذمے دار شخص کے خلاف کارروائی ہوگئی ہے ، کسی کو ذمے دار شخص کے نام سے آگاہ بھی نہیں کیا گیا ۔اگر اس کا یہ فعل کسی سطح کا جرم نہیں تھا تو کارروائی ''چہ معنی دارد‘‘ اور اگر یہ جرم تھا تو اِسے پردۂ اِخفا میں کیوں رکھا جارہا ہے ، زبانوں پر مُہر کون لگائے گا ،کہنے والے توکہیں گے : ''کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘۔ اسی طرح فاضل جج صاحبان کاٹی وی ٹاک شوز اور کالموں کاحوالہ دینا بھی مناسب نہیں ہے،اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں سے مثبت یا منفی اثر لیتے ہیں اور جج جب یہ ریمارکس دے :''ہم یہاں بات کرتے ہیں تو چیخیں نکل جاتی ہیں‘‘،توعدالت کی شفافیت بھی مجروح ہوتی ہے، کیونکہ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں کسی عدالت کے ایسے ریمارکس نہیں سنے،ہوسکتا ہے اس کا سبب ہماری کم علمی ہو۔ہم ہمیشہ سے لکھتے آئے ہیں کہ افراد سے قطع نظر ریاست کے اعلیٰ مناصب کی تکریم ہونی چاہیے،لیکن وہ عزت عارضی ہوتی ہے جو منصب کی مرہونِ منّت ہو، حقیقی عزت وہ ہے جو صاحبِ منصب سے منصب کو ملے۔ذرا سوچیے! جسٹس افتخار محمد چوہدری کے رعب ،دبدبے اور ہیبت کا عالَم دیدنی تھا ،مگر آج وہ بھولی بسری کہانی ہیں ، جب کہ جسٹس عبدالرشید ، جسٹس اے آر کارنیلیس اور جسٹس محمد رستم کیانی کا نام آج بھی احترام سے لیا جاتا ہے ۔
منصبِ عدالت وراثتِ نبوت ہے ،آپ ﷺ نے اسے بہت تکریم عطا کی ہے ،فرمایا: عادل حاکم کا (انصاف کرنے میں گزرا ہوا) ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ایک حد ،جوحق پر قائم کی جائے، زمین کو اتنا پاک کرتی ہے جو چالیس سال کی بارش بھی نہ کرسکے، (المعجم الکبیر للطبرانی:11932)‘‘۔یہ اس لیے کہ ساٹھ سال عبادت کرنے والا اپنی فلاح کی فکر میں سرگرداں رہتا ہے اورلوگوں کے حقوق کی حفاظت اور مظلوموں کی داد رسی کرنے والاعادل حاکم دوسرے انسانوں کے لیے بارانِ رحمت کی مانند فیض رساں ہوتا ہے اور مظلوموں کی دعائیں لیتا ہے۔حدیث پاک میں ہے :''جب حاکم اپنی پوری علمی و فکری صلاحیت کو کام میں لاکر فیصلہ کرے اور اس سے(خدانخواستہ) خطا بھی ہوجائے، تب بھی اسے ایک اجر ملے گا، (صحیح بخاری: 7352)‘‘۔یعنی یہ وہ شعبہ ہے جس میں غیر ارادی خطا پر بھی اجر ہے۔
منصب عدالت پر فائز حاکم پر ہمیشہ خشیتِ الٰہی طاری رہنی چاہیے کہ ذراسی غفلت سے کسی کا حق تلف ہوسکتا ہے یا کسی کو استحقاق کے بغیر کچھ مل سکتا ہے ، نبی کریمﷺ نے فرمایا: تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، ہوسکتا ہے تم میں سے کوئی فریق اپنا موقف پیش کرنے میں زیادہ حجت باز ہو اور میں( دلائل سن کر) اُس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز اُسے دے دوں ، تو(وہ یوں سمجھے کہ)میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، سو وہ اسے (ہرگز)نہ لے، (بخاری:2680)‘‘۔ رسول اللہ ﷺ کو تو اللہ تعالیٰ اشیاء اور معاملات کی حقیقت پر مطلع فرمادیتا تھا، لیکن عام قاضی اور حاکم کا تو یہ مقام نہیں ہے ۔اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ عدالتی فیصلہ قانون کی طاقت سے نافذ تو ہوجاتا ہے ، لیکن عند اللہ اس سے حقائق نہیں بدلتے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:''(اے رسول !)بے شک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اُس قانون کے مطابق فیصلہ کریںجو اللہ نے آپ کو دکھایاہے اورآپ خیانت کرنے والوں کے وکیل(دفاع کرنے والے)نہ بنیں، (النساء:105)‘‘۔لہٰذا عنداللہ قاضی پرلازم ہے کہ حق اور حقائق پر مبنی فیصلہ کرے اور کسی فریق کی رعایت نہ کرے، خواہ وہ کتنا ہی با اختیاروبارسوخ ہو۔ نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ زیر بحث مقدمے میں عدالت کا تاثر جارحانہ اور مغلوب الغضب نظر آتا ہے ،حقائق وشواہد کی روشنی میں فیصلہ جو بھی آئے ،عدالت کا تاثر مثبت اور غیر جانبدار نظر آنا چاہیے۔
چونکہ فیصلوں کا مدارشہادتوں اور حقائق پر ہوتا ہے ،اس لیے اس کے بارے میں بھی قرآن کریم نے دوٹوک انداز میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:''اے ایمان والو!انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے، اللہ (کی رضا )کے لیے گواہی دینے والے ہوجائو، خواہ (یہ گواہی) تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف (ہی )ہو، (فریقِ معاملہ) خواہ غنی ہو یا فقیر ،اللہ تعالیٰ اُن کا زیادہ خیر خواہ ہے، پس تم خواہشِ نفس کے تحت عدل سے روگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کی یا اعراض کیا، تو اللہ تمہارے سب کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے،(النساء:125)‘‘۔ سورۂ بقرہ آیت:283میں گواہوں کے بارے میں تین واضح ہدایات ہیں : (1)''گواہی کو نہ چھپائو اور جو اسے چھپائے گا تو اس کا دل گناہ گار ہے، (2)گواہوں کو جب گواہی دینے کے لیے بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں ،خاص طو پر اس صورت میں کہ صرف اُن کی شہادت پر ہی کسی کے حق کے ثبوت کا انحصار ہو،(3)دستاویز لکھنے والے اور گواہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے ،یعنی انہیں تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ حق داروں کا حق ضائع نہ ہو۔