"MMC" (space) message & send to 7575

کیا ابھی وقت نہیں آیا؟

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''کیا ایمان والوں کے لیے اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور اس حق کے لیے جو نازل ہوچکا ہے ،نرم ہو جائیں اور گزشتہ اہلِ کتاب کی طرح نہ ہوجائیں، جن پر لمبا عرصہ گزر گیا تو ان کے دل بہت سخت ہوگئے اور ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں، (الحدید:16)‘‘۔اس آیت کی طرف ذہن اس لیے متوجہ ہوا کہ کیا اہلِ پاکستان پر ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ امریکہ پر انحصار چھوڑیں ،اس کے آگے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیں ،اپنی عشرتوں کی خاطر قومی وملّی حمیت کو قربان نہ کریں اور اپنے وسائل پر جینا اور آگے بڑھنا سیکھیں ۔جب تک ہم دوسروں پر انحصار کی روش کو ترک نہیں کریں گے ، ہمیں وقتاً فوقتاً اُن کی دھمکیاں اور طعنے سننے پڑیں گے ۔اپنے شِعار کو نہ بدلنا اور محض گھر بیٹھے غرّاتے رہنابے سود ہے،دوسرے ہماری ان حرکتوں پر دل ہی دل میں ہنستے ہوں گے ۔شمالی کوریا کا صدر کم یانگ تن کر کھڑا ہوگیا ۔امریکہ نے پابندیاں لگا کر دیکھ لیں ، لیکن ان کا کچھ بگاڑنہ سکااور اس سے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ۔ ہماری خود اعتمادی تو دور کی بات ہے ،ہم اللہ پر توکل سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں ۔اب ٹرمپ کوریا کو نشانِ عبرت بنانے کی بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں اب ہماری بات سمجھ میں آنے لگی ہے ، لیکن شاید زیادہ درست بات یہ ہے کہ ٹرمپ صاحب کو ان کی بات سمجھ میں آنے لگی ہے۔
جمعرات کو وزیرِ اعظم کی سربراہی میں ہماری ''نیشنل سیکورٹی کونسل‘‘ کا اجلاس ہوا،سول اور عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی ، اجلاس میں جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کی نئی اعلان کردہ پالیسی پر غور کیا گیا اور ان کی اجتماعی دانش سے درج ذیل فیصلے سامنے آئے : (الف) امریکہ نے افغان جنگ میں اپنی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا ہے ،اس موقف کو مسترد کردیا گیا ہے ، (ب)امریکہ پر انحصار ختم کرنے کے لیے متبادل امکانات پر غور ہوا اور روس اور چین کے ساتھ مشاورت اور سفارت کاری کا عمل شروع کیا جارہا ہے، (ج)وزیر خارجہ کے دورۂ امریکہ کو منسوخ تو نہیں کیا گیا ،لیکن ناراضی کی علامت کے طور پر اسے مؤخر کیا گیا ہے ،ہمارے ہاں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی ،(د) امریکہ ''کولیشن سپورٹ فنڈ ‘‘کے نام سے جو رقم پاکستان کو دیتا ہے ،یہ ہماری برّی، بحری اور فضائی حدود کو استعمال کرنے کا معاوضہ ہے ،امدادیا خیرات نہیں ہے ،(ہ) این ایس سی نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کردار کا اعتراف کیا جائے ۔
'' کولیشن سپورٹ فنڈ ‘‘کا نام تو ہم 2002سے سن رہے ہیں اور امریکہ اور اس کے حلیف یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ گویا پاکستان کو کوئی امداد یا خیرات دی جارہی ہے ،ریاستی سطح پر یہ موقف پہلی بار سامنے آیا کہ یہ رقم کوئی امداد یا خیرات نہیں ہے ،بلکہ ہماری برّی ، بحری اور فضائی حدود کے استعمال کا معاوضہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے جو نقصانات اٹھائے ہیں، یہ معاوضہ اس کا عُشرِ عشیر بھی نہیں ہے ۔یہ طعن ہم پندرہ سال سے مسلسل سن رہے ہیں ،کاش کہ یہ ریاستی موقف بہت پہلے سامنے آجاتا۔ اس سے قطع نظر کہ وطنِ عزیز کی برّی، بحری اور فضائی حدود کو ایک ناقابلِ اعتماد حلیف کے سپرد کرنا قومی وملّی حمیّت کے منافی ہے ، ہمیں دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کے سپرد کرنے والے حکمران جنرل پرویز مشرف نے اس کی بابت نہ کوئی تحریری معاہدہ کیا اور ہماری معلومات کے مطابق کوئی تحریری دستاویز اس ضمن میں دستیاب نہیں ہے ۔محترمہ حنا ربانی کھر 2002سے 2007تک اور پھر پیپلز پارٹی کے دور میں وزارت کے منصب پر فائز رہی ہیں ،انہی دو ادوارِ حکومت میں ملک کے مفادات اور سلامتی کو دائو پر لگایا گیا ۔ بلیک واٹر کے کئی سو کارندے کسی قانونی دستاویز کے بغیر اور سفارتی چھتری تلے پاکستان کی سرزمین میں دندناتے پھر رہے تھے اور ریمنڈ ڈیوس جب دہرے قتل اور جاسوسی کے جرم میں پکڑا گیا ،تو اُسے پھر اعزاز واکرام کے ساتھ رخصت کیا گیا ،اس کے باوجود حنا ربانی کھر کا یہ کہنا ہے : ''ہماری حکومت ہوتی تو فوری فیصلہ کردیتے ‘‘،محترمہ! آپ کے ادوار کے فیصلے ہی تو قوم بھگت رہی ہے ۔
قوموں کو خطرات کے مقابل تن کر کھڑے ہونے کے بارے میں سوچ بچار کرنی پڑتی ہے ، کسی کے آگے لیٹنے اور بچھنے کے لیے کسی جرأت واستقامت کی ضرورت نہیں ہوتی،یہی وجہ ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کوامریکہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے میں کسی فکری ریاضت سے نہیں گزرنا پڑاتھا،بس ٹیلی فون کال کے جواب میں ایک ''ہاں‘‘سے مسئلہ حل ہوگیا۔ 
چیف آف آرمی اسٹاف جنابِ قمر جاوید باجوہ کی امریکی سفیر کے ساتھ ملاقات کے بعد آئی ایس پی آر نے جو پریس ریلیز جاری کی،اس کی بابت ہمارے بعض سیاستدان اور میڈیا کے لوگ مَن پسند تبصرے کر رہے ہیں ،ذیل میں ہم اس کا لفظ بہ لفظ ترجمہ درج کیے دیتے ہیں :
''23اگست کو پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے چیف آف آرمی اسٹاف جنابِ قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ،امریکی سفیر نے چیف آف آرمی اسٹاف کو نئی امریکی پالیسی کے بارے میں آگاہ کیا ۔امریکی سفیر نے کہا: ''امریکہ افغان مسئلے پر پاکستان کے کردار کی قدر کرتا ہے‘‘۔چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا:''کسی بھی دوسرے ملک کی طرح افغانستان میں امن پاکستان کے لیے اہم ہے، ہم نے اس مقصد کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور اپنی بہترین استعداد کے مطابق کرتے رہیں گے ، یہ کام ہم کسی کو مطمئن کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے قومی مفاد اور قومی پالیسی کے تحت انجام دے رہے ہیں‘‘ ۔انہوں نے کہا: ''ہم امریکہ سے مادّی یا مالی مفاد کے خواہش مند نہیں ہیں ، بلکہ اپنی کارکردگی پراعتماد،اعتراف اور ادراک چاہتے ہیں‘‘ ۔انہوں نے کہا:''افغانستان کی طویل جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کامیابی کی کلید تمام اسٹیک ہولڈرز کی کوششوں کے درمیان مطابقت ہے‘‘۔ظاہر ہے اسٹیک ہولڈرز سے پاکستان ،افغانستان کے علاوہ امریکہ اور نیٹو ممالک بھی مرادہیں،کیونکہ وہ سب اس میں مبتلا ہیں ۔ٹرمپ کے تازہ اعلان کے مطابق امریکہ انڈیا کو افغانستان کے مسئلے کا اسٹیک ہولڈر بنانے جارہا ہے ،بالفاظِ دیگر وہ نیا مسئلہ پیدا کر رہا ہے ، جو پاکستان کے لیے کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف کا بیان سلطان راہی کی بڑھک نہیں ہے، جیسا کہ بعض سیاستدان یا میڈیاپرسنز تاثر دے رہے ہیں،بلکہ انتہائی محتاط اور نپا تلا بیان ہے،کیونکہ کوئی فیصلہ کن اقدام اجتماعی مشاورت اور اجماعی رائے سے ہی کیا جاسکتا ہے اور وہ امریکہ اور اہلِ مغرب کو گڈ بائی کہنا ہے ۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کبھی بھی کھلے دل سے ہماری قربانیوں کی تحسین نہیں کی ،بس صرف تھپکی دیتے رہے،وہ ''چڑھ جا بیٹا سولی ،رام بھلی کرے گا‘‘والا سلوک روا رکھتے رہے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی اقدامات کو منافقت اور دھوکے بازی سے تعبیر کرتے رہے ہیں ۔جنابِ عمران خان کی یہ تجویز مناسب ہے کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو ،مگر پارلیمانی قائدین کو نمبر بنانے ، میڈیا پر داد پانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تقریریں کرنے کی بجائے ،سنجیدہ خطابات کرنے چاہئیں۔اپنے فیصلوں کے عواقب اور منفی و مثبَت نتائج پر گہرا غوروخوض کرنے کے بعد پالیسی مرتّب کریں اور سب اس کے اسٹیک ہولڈر بنیں۔جنابِ عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے موقف میں بنیادی فرق ہے ،خان صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا: ''یہ جنگ ہماری نہیں ہے، یہ ہمارے اوپر امریکہ کی مسلّط کی ہوئی جنگ ہے، ہم نے امریکہ کے کہنے پر وزیرستان میں فوج بھیجی ‘‘، اس کے برعکس چیف آف آرمی کے مطابق یہ ہماری اپنی داخلی سلامتی کی جنگ ہے، ہم اپنے قومی مفاد میں یہ جنگ لڑ رہے ہیں اور ضمناًہم دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ہیں ۔ 
چیئرمین سینیٹ جنابِ رضا ربانی کے نظریات کا ہمیں علم ہے ، وہ لبرل سوشل ڈیموکریٹ ہیں ،انہوں نے کہا: ''پاکستانیوں میں ویتنام اور کمبوڈیا والی خصوصیات اور روایات پائی جاتی ہیں، اگر امریکی صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکی افواج کا قبرستان بن جائے، تو ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں ،انہوں نے اس حساس مسئلے پر پالیسی اصول وضع کرنے کے لیے ایک چھ رکنی کمیٹی بھی قائم کی اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے متفقہ سفارشات کو قبول کرنے کا وعدہ کیا‘‘۔ جنابِ رضا ربانی کو چاہیے تھا کہ اہلِ پاکستان کوویتنام اور کمبوڈیا کی روایات کا حامل قرار دینے کی بجائے اپنے اسلاف کی روایات کا امین قرار دیتے۔
اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو ورجینیامیں امریکی قوم کے نام ٹرمپ کے خطاب میں پاکستان کو کوسنے اور انڈیا کی خوشامد کرنے کے سوا کوئی نئی بات نہیں تھی ،انہوں نے مزید چار ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کی بات کی ۔جب ایک لاکھ سے زائد اتحادی افواج افغانستان میں کوئی نتیجہ نہ دے سکیں ،فیصلہ کن فتح حاصل کرنے میں ناکام رہیں ،تو چار ہزار کی اضافی نفری سے کون سی جوہری تبدیلی آجائے گی،جب کہ اتحادی اس نفری میں بھی حصہ ڈالنے سے گریزاں ہیں اور احتیاط سے جائزہ لے رہے ہیں۔پاکستان کی گرانٹ میں پہلے ہی کٹوتی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور ہر قسط کو وائٹ ہائوس کی توثیق کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے ،جس امداد کو بے توقیری کے ساتھ دیا جائے ، اُس سے دستبرداری ہی بہتر ہے ۔پاکستان کے حسّاس اداروں کواس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اضافی نفری کی آڑ میں بلیک واٹر ایسے دہشت گرد اداروں کے کرائے کے فوجی دوبارہ پاکستان کی سرزمین پر دندناتے نہ پھریں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں