ایک باخبر شخص نے بتایا کہ مختلف مراحل پر جب ارکانِ پارلیمنٹ کو ''میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں‘‘ کے الفاظ کے حذف کیے جانے پر متوجہ کیا گیا، تو سب نے کہا: ''یار جانے دو‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ لیکن ہماری شرعی ذمہ داری ہے کہ ہم شواہد کے بغیر کسی پر تعین کے ساتھ الزا م نہیں لگا سکتے۔
ختم نبوت کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں سب سے پہلے شیخ رشید صاحب نے آواز اٹھائی ہے، لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے بھی قانون کی منظوری کے مرحلے میں کوئی آواز بلند نہیں کی۔ اگرجناب شیخ نے اُس وقت اس لیے جان بوجھ کر آواز نہیں اٹھائی تاکہ مناسب وقت پر اِسے حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کیا جائے‘ اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو‘ لیکن اگر ایسا ہے تو اس پر اُن کے لیے آخرت میں کوئی اجر نہیں ہے کیونکہ یہ '' کَلِمَۃُ الْحَقِّ اُرِیْدَ بِھَا الْبَاطِل‘‘ کے مصداق ہوگا۔ قانون کی منظوری کے وقت اس غفلتِ مجرمانہ میں دوسرے ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ وہ بھی شامل ہیں، تاہم بعد میں اگر علم میں آنے کے بعد انہوں نے فوراً آواز اٹھائی ہے تو وہ یقینا عند اللہ ماجور ہوں گے، ہم کسی کی نیت کا فیصلہ کرنے کے مُجاز نہیں ہیں۔ قانون سازی تو اتنا سنجیدہ کام ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں پاس کیے گئے کسی قانون میں ایک فل سٹاپ یا کاما یا کسی لفظ کا سپیلنگ بھی غلط درج ہوگیا ہے، تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسمبلی یا سینیٹ سیکرٹریٹ یا وزارتِ قانون کا کوئی افسر اپنے قلم سے اس کی اصلاح کر لے، بلکہ ایسی کسی بھی غلطی کی اصلاح کے لیے باقاعدہ قانون سازی کے طریقۂ کار کے مطابق دونوں ایوانوں سے اُس کی منظوری لینا ہوتی ہے۔
پس ہماری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کا کوئی بھی رکن اس غفلتِ مجرمانہ کی مسئولیت سے بری الذّمہ نہیں ہو سکتا۔ جناب سیف اللہ گوندل کی فراہم کردہ اطلاع اگر درست ہے، تواس مسئولیت سے صرف وہ چند افراد مستثنیٰ ہیں، جن کا میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا ہے لیکن نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے کہ جنہیں اصل میں جوابدہ ہونا چاہیے، وہ مدعی بن کر سامنے آ گئے ہیں اور سادہ لوح عوام سے داد وصول کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان سب کو اللہ تعالیٰ، خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہﷺ اور مسلمانانِ پاکستان سے صدقِ دل سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنی اس مجرمانہ غفلت پر توبہ کرنی چاہیے۔ اگر کسی کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس قانون کی منظوری کے وقت ''حلفیہ اقرارِ ختم نبوت‘‘ سے متعلق کوئی ترمیم پیش کی تھی جسے ردّ کر دیا گیا تھا، تو اسمبلی اور سینیٹ کے ریکارڈ سے ہمیں اس کا ثبوت فراہم کریں، ہم دل و جان سے ان کی تحسین کریں گے کہ کم از کم انہوں نے ذاتی حیثیت میں اپنا فرض ادا کیا۔
اہل سنت و الجماعت کی بعض جماعتیں پہلے سے سیاسی میدانِ عمل میں ہیں، تحریک لبیک پاکستان حال ہی میں سیاسی اور انتخابی میدان میں اتری ہے اور اس نے اپنا سیاسی وجود مؤثر انداز میں ثابت کیا ہے۔ ہمارا آزاد میڈیا جو از خود تمام طبقات کے لیے مُصلِح، نقّاد اور محتسب بن بیٹھا ہے‘ وہ خود بھی اپنی عصبیتوں کا اسیر ہے۔ 17 ستمبر 2017 کو قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کا ضمنی انتخاب ہوا۔ اس انتخاب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ نئی جماعت ''تحریک لبیک پاکستان‘‘ نے حصہ لیا اور تیسری پوزیشن حاصل کی مگر ٹیلی ویژن چینلز نے اگلی صبح تک اِس جماعت کا بلیک آئوٹ کیے رکھا، جبکہ اس کے برعکس جماعت الدعوۃ کے نئے سیاسی جنم ''ملی مسلم لیگ پاکستان‘‘ کے امیدوار یعقوب شیخ صاحب کی تیسری پوزیشن دکھاتے رہے اور حقیقی تیسری پوزیشن کے حامل شیخ اظہر حسین صاحب شاید میڈیا کی نظروں میں ناپسندیدہ فرد قرار پائے۔ جس طرح دیہاتی عورت شوہر کا نام لیتے ہوئے شرماتی ہے، ہمارے میڈیانے بھی یہی کام کیا۔ بعد میں ایک دو چینلز پر سرسری تذکرہ ہوا۔ کیا مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے نعرے محض فریب وسَراب ہیں؟
اہل سنت کی سیاسی جماعتوں سے ہماری گزارش ہے کہ اپنے متوقع امیدواروں کے لیے ملک کے آئینی وقانونی نظام اور قانون سازی کے طریقۂ کار کے بارے میں آگہی کے لیے پروگرام ترتیب دیں۔ سرِ دست تو حکومتِ وقت آپ کے نشانے پر ہے، لیکن 2018 کے انتخابات میں تمام جماعتیں آپ کے مقابل کھڑی ہوں گی اور آپ کو اُن سب کے مقابلے میں اپنے آپ کو ووٹ کا بہترین حقدار ثابت کرنا ہوگا۔ اس وقت نگران حکومت ہوگی اور وہ انتخاب میں شریک نہیں ہوگی کہ آپ صرف اُسے ہدف بناکر اپنی انتخابی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔ تازہ المیہ قادیانیوں کے بارے پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کا ایک نجی چینل پر انٹرویو ہے، اگرچہ یہ مسلم لیگ ن کا سرکاری موقف قرارنہیں دیا گیا، تاہم اُن کے مندرجہ ذیل ریمارکس انتہائی حد تک قابلِ اعتراض ہیں:
'' اگراس بحث کو ہم اور زیادہ ڈیٹیل میں جاکر کریں گے‘ تو اُن کے متعلق جو ہمارے علمائے کرام ہیں‘ آپ کہتے ہیں نان مسلم، وہ ان کو نان مسلم تسلیم نہیں کرتے‘‘۔
اپنے موقف کی تائید میں وہ مزید کہتے ہیں: ''آپ ڈیٹیل میں دیکھیں تو یہ بالکل وہ تمام عقائد یعنی ہماری نماز ہے، روزہ ہے، تو یہ اُن سب چیزوں کے اوپر عمل بھی کرتے ہیں‘ یہ اپنی مساجد بھی بناتے ہیں، اُن میں اذان بھی دیتے ہیں، بس آ کر اس پوائنٹ کے اوپر یہ اختلاف کرتے ہیں، تو اس لیے اُن کے متعلق جو جذبات ہیں یا فتوے ہیں، وہ بالکل Otherwise ہیں‘‘۔ یہ بیان کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے اور نہ ان کی یہ تاویل درست ہے کہ میرے بیان کوتوڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ انہیں اپنی غلطی تسلیم کر کے غیر مشروط طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم خاتم النبیینﷺ کے حضور صدقِ دل سے توبہ کرنی چاہیے اور مسلمانانِ پاکستان سے معافی مانگنی چاہیے، گول مول وضاحتیں بیکار ہیں، بلکہ '' عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ کی مصداق ہیں اور اِن رکیک تاویلات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ مذہبی امور پر اپنا پالیسی سٹیٹمنٹ دینے کے لیے کسی ذمہ دار مذہبی شخصیت کا تقرر کیا کریں جسے زبان و بیان پر عبور ہو اور مذہبی حساسیت اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے رد عمل کا کماحقہٗ احساس ہو، مسلم لیگ ن میں جناب پیر امین الحسنات شاہ اس کے لیے بہترین انتخاب ہوسکتے ہیں۔
ہماری معلومات کے مطابق علمی دنیا میں صرف ایک لبرل سکالر ہیں جن کا موقف ہے کہ:'' کسی فرد یا ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو غیر مسلم قرار دے‘‘۔ ان کا یہ موقف اجماعِ امت کے خلاف ہے، کیونکہ عہدِ رسالت مآبﷺ کے بعد بھی اسلامی ریاست کا تسلسل قائم رہا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسولِ اکرمﷺ کے خلیفۂ اول منتخب ہوئے۔ انہوں نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں اور ان کے پیروکاروں کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کیا اور ان کا قلع قمع کیا، یہ اس مسئلے پر نبوت و رسالت کے بعد مسلمانوں کے سب سے پاکیزہ نفوس یعنی صحابہ کرامؓ کا اجماعِ کلی تھا، اس کے بارے میں کسی ایک صحابی سے بھی کوئی نکیر ثابت نہیں ہے۔ نیز وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی باطل خرافات کو شیخِ اکبر محمد بن عربی ؒکی شطحیات پر قیاس کر کے قابلِ معافی گردانتے ہیں۔ ان کے یہ نظریات امتِ مسلمہ کے اجماعی نظریات کے برعکس ہیں۔ بعض مذہبی جرائد میں ان کے نظریات پر نقد ونظر شائع ہوتا رہتا ہے۔
قادیانیوں سے مسلمانوں کا صرف یہ مطالبہ ہے کہ وہ دستور میں بیان کردہ اپنی حیثیت کو تسلیم کریں، خود کو غیر مسلم پاکستانی کے طور پر متعارف کرائیں، جب تک وہ اپنی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور سے منحرف قرار پائیں گے۔ قادیانی عقیدے پر پیدا ہونے والے، پروان چڑھنے والے اوراس کا اقرار کرنے والے قادیانیوں کو دستورِ پاکستان کے مطابق شہری حقوق حاصل ہیں، لیکن انہیں مسلمانوں کے مذہبی شعائر، جس میں مسجد کا عنوان بھی شامل ہے،کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ایک مسلک اپنے مذہبی مرکز کو جماعت خانہ کہتا ہے، اُس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ روزے کا کوئی نہ کوئی مذہبی تصور دیگر مذاہب میں بھی شامل ہے مگر ان کی اپنی اصطلاحات ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جناب میجر جنرل آصف غفور نے یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان کی مسلّح افواج میں شمولیت اختیار کرنے والے ہر مسلمان سے اقرارِ ختم نبوت کا وثیقہ لیا جاتا ہے، البتہ غیر مسلم جوان اور افسران اس سے مستثنیٰ ہیں، اس حد تک یہ بات درست ہے۔ البتہ دستورِ پاکستان کے شیڈول سوم میں ریاست کے مختلف اعلیٰ مناصب پر فائز عہدیداروںکے حلف نامے کا متن درج ہے، اس کی رُو سے صدر اور وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حلف نامے میں اقرارِ ختم نبوت کے کلمات شامل ہیں، لہٰذا کوئی بھی غیر مسلم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے مطابق پاکستان کا صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ اس کے علاوہ صوبائی گورنرز، وفاقی وصوبائی کابینہ کے ارکان، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کے ارکان، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور مسلّح افواج کے سربراہان کے حلف ناموں میں اقرارِ ختم نبوت کے الفاظ شامل نہیں ہیں ،جس کے لازمی معنی یہ ہیں کہ مطلوبہ پیشہ ورانہ اہلیت وقابلیت اور تجربے کا حامل کوئی بھی غیر مسلم پاکستانی ان عہدوں پر فائز ہوسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں چیئرمین پیپلز پارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری نے ہندوؤں کی ایک تقریب میں کہا تھا: ''میری خواہش ہے کہ غیر مسلم بھی پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم بنیں‘‘۔ ان کی یہ خواہش دستورِ پاکستان کے منافی ہے، کیونکہ آئینِ پاکستان میں درج صدر اور وزیر اعظم کے حلف نامے سے اقرارِ ختم نبوت کے میثاق کو حذف کیے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا۔ پس ہمارے سیاستدانوں کو داد و تحسین اور نعرے بازی کے شوق میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تختۂ مشق بنانے کی روِش ترک کر دینی چاہیے، ورنہ لازماً تنقید بھی ہوگی اور احتجاج بھی ہوگا کیونکہ: ''اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں‘‘۔