"MMC" (space) message & send to 7575

متفرقات

پچھلے دنوں ایک کالم نگار نے 1970ئکے قومی انتخابات سے لے کر 16دسمبر1971 کے المیے اور سقوطِ ڈھاکا کا پسِ منظر بیان کرتے ہوئے اس وقت کی سیاسی جماعتوں اور قومی اخبارات وجرائد کے کردارکو واضح کیا ہے کہ کس طرح ''حُبُّ الوطنی‘‘ کے دلکش نعروں کی گونج میں پاکستان کو دولخت کردیا گیا ۔اس زمانے میں بی بی سی پل پل کی خبریں سنارہا تھا ،لیکن ہمارے ہاں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے اور راوی چین لکھتا تھا، حتیٰ کہ سرکاری میڈیا نے شکست کے دلخراش منظر کو بھی ہندوستانی افواج کے ساتھ معاہدے کے تحت جنگ بندی سے تعبیر کیا تھا۔ صاحب موصوف کا اندازِ تحریر دلکش ہے ،ان کا مطالعہ وسیع ہے ،ان کاطنز ، استعارات ، کنایات اور تشبیہات دلچسپ اور بامعنی ہوتی ہیں،ان کے نظریات سے اتفاق یا اختلاف ہر ایک کا حق ہے۔
انہوںنے لکھا: ''صرف نیپ اور جے یو آئی نے پاکستان توڑنے کی سازش کا ساتھ نہیں دیا اور مطالبہ کرتے رہے کہ جمہوری اصولوں کے مطابق اکثریت کو اقتدار منتقل کیا جائے‘‘ ۔ان ایام میں جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اعلان کیا تھا : ''مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی مشرقی پاکستان جائے گا،اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی ‘‘۔ مغربی پاکستان میں عدمِ مقبولیت اور مشرقی پاکستان میں جان کا خطرہ مول لے کرجو چند افراداتمامِ حجت کیلئے ڈھاکا گئے ، ان میں جمعیت علمائے پاکستان کے صدر علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم بھی تھے ۔ 
1970 میں کراچی کے گلی کوچوں میںبااستثنائے تعصب وتشدد جماعت اہلسنت کی مقبولیت کا عالَم پندرہ بیس کے فرق کے ساتھ ایسا ہی تھا ،جیسا کہ بعد میں لوگوں نے ایم کیو ایم کا دیکھا،گلی گلی دفاتر تھے۔ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے دورۂ مشرقی پاکستان کے بعد ہمارے لوگوں نے خوف سے اپنے دفاتر بند کردیے کہ نفرت کا نشانہ بنیں گے،پنجاب میں ہمارے کئی سرکردہ علماء و مشایخ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سے نفرت کی حد تک مخالفت پر اتر آئے تھے۔ اس کا سبب بدنیتی اور ذاتی عناد نہیں تھا، بس سرکاری اور نجی ذرائع ابلاغ قوم کے ذہنوں میں یہی انڈیل رہے تھے کہ آنکھیں بند کر کے جنرل یحییٰ خان کی حکومت کی حمایت ہی حقیقی '' حُبُّ الوطنی‘‘ ہے اورجو اپنی دیانت و بصیرت کے مطابق ایسا نہیں کرتا، وہ بھارتی ایجنٹ ،غدارِ وطن اور دشمن کے ہاتھوں بکاہوا ہے۔
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے دامن پر کوئی داغ اوردھبّا نہیں تھا ، آج تک بدترین مخالف بھی ان پرکوئی الزام نہیں لگاسکا۔جنابِ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت میں ارکانِ پارلیمنٹ کو ٹیوٹا کرولا کے پرمٹ دیے جاتے تھے، چونکہ یہ پالیسی کے تحت تھا ،اس لیے اس پر کرپشن کی پھبتی بھی نہیں کسی جاتی تھی ۔کراچی میں جام صادق علی صاحب ریوڑیوں کی طرح پلاٹ بانٹ رہے تھے، بعد میں جونیجو دورمیں اسلام آباد میں بھی ارکانِ پارلیمنٹ کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ شروع ہوئی ۔لیکن علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے کار کاپرمٹ اور پلاٹ کچھ بھی نہ لیا اور نہ کوئی اور منفعت حاصل کی ۔ حال ہی میں ایک اخبار میں مولانا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرطِ محبت میں ایک مضمون نگار نے لکھا: ''مولانا نورانی نے کار کاپرمٹ جمعیت علمائے پاکستان کے نام کردیا تھا‘‘،یہ قطعاً درست نہیں ہے، مولانا نے بعض لوگوں کے مشورے کے باوجود کارپرمٹ نہیں لیاتھا، ریکارڈ اس پر شاہد ہے۔وہ فقیرمنش انسان تھے ،مردِ قلندر تھے ،متوکّل علی اللہ تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں ''غِنائے نفس ‘‘سے نوازا تھا ۔جنابِ حاجی حنیف طیب راوی ہیں: '' چائے کے وقفے میں پارلیمنٹ ہائوس میں پارلیمنٹیرین چائے پیتے تھے ،علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی ٹیبل پر سردار شوکت حیات اور دیگر جاگیردار ارکانِ اسمبلی آبیٹھے ،وہ سب اہلِ ثروت تھے ،لیکن بل آیا تو علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے ادا کردیااوران کے پاس اس وقت کل سرمایہ یہی تھا ‘‘۔
الغرض پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جانے پر علامہ شاہ احمد نورانی پر طنز وطعن کے تیر برسائے گئے کہ مشرقی پاکستان سے پان کے ٹوکرے لے کر آئے ہیں، کارٹون بنائے گئے ،انہوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا ،لیکن اللہ تعالیٰ ، اپنے ضمیر اورتاریخ کے آگے اپنے آپ کو شرمندہ نہیں کیا اور پاکستان توڑنے میں حصہ دارنہیںبنے۔ یہ سب کچھ میں تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں، کیونکہ میں شعوری طورپر اُس دور کے قومی اخبارات اور جرائد کا بھی مطالعہ کرتا رہا ہوں۔جب مشرقی پاکستان میں اسمبلی کی جعلی رکنیت ریوڑیوں کی طرح بٹ رہی تھی ، وہ منظر ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔میں کبھی بھی جمعیت علمائے پاکستان کا باضابطہ رکن نہیں رہا،صرف علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سے ان کے پاکیزہ کردار کی وجہ سے عقیدت اور باہمی احترام کا ایک تعلق تھا ،جو آخر دم تک رہا۔
تحریک لبیک پاکستان: تحریک لبیک پاکستان نے لاہور کے بعد پشاور میں بھی اپنی سیاسی اور انتخابی اہلیت کو ثابت کیا ہے ،پشاور کی سرزمین تواُن کے لیے اس حوالے سے بالکل نئی تھی ،ہوسکتا ہے اس میں ان کے امیدوار جناب ڈاکٹر شفیق امینی کی صلاحیتوں کا بھی دخل ہو۔میڈیا کے بعض حلقوں نے اس تنظیم کا ذکر شدت پسندوں میں کیا ہے ، میری معلومات کے مطابق تاحال ان کے کھاتے میں نہ کوئی شدت پسندی ہے اور نہ ہی کسی فساد سے ان کا تعلق رہا ہے،البتہ شروع میں سیاسی تجربہ نہ ہونے کے سبب ان سے کچھ بے تدبیریاں ہوئیں ،لگتا ہے اب وہ اس پر قابو پارہے ہیں۔ آپ اسے اہلسنت کی ایک متصلّب سیاسی جماعت قرار دے سکتے ہیں اور اس کی اٹھان بھی اسی حوالے سے ہے ۔میں تو سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا، لیکن بعض دوستوں نے بتایا کہ سیاست میں آنے کے بعد علامہ خادم حسین رضوی کے لب ولہجہ میں کافی بہتری اورشائستگی آگئی ہے اور یہ لائقِ تحسین ہے ۔کہاجاتا ہے کہ وہ علامہ اقبال کے بھی حافظ ہیں ، اردو خطابت کی اثر آفرینی اور لذت افزائی کے لیے علامہ اقبال کی شاعری سے بہتر مصالحہ اور کوئی نہیں ہے ۔ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ سیلف میڈ ہیں اور ان کی علمی وسیاسی وجاہت میں کسی صاحبزادگی کا سابقہ شامل نہیںہے ۔تاوقتیکہ کوئی متفقہ قومی میثاق مرتب نہ ہو،دھرنے اور ریلیاں اب ہمارے مذہبی وسیاسی کلچر کا لازمہ بن گئی ہیں، اس کے لیے کسی ایک طبقے کو ملامت کرنا درست نہیں ہے ۔ میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ جب تک ہر حکومتِ وقت پرامن طریقے سے شکایات کے ازالے کے شِعار کو نہیں اپنائے گی ،احتجاج کے کلچر کو ختم کرنا عملاً ممکن نہیں ہے۔
وضاحت:علامہ ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کے حلقۂ ارادت سے تعلق رکھنے والے ایک مہربان نے''السیف المسلول ‘‘کے مجاہدانہ نام سے لکھا ہے : ''مفتی صاحب سیاست سے فرصت مل جائے تو ختمِ نبوت مارچ پر بھی لب کشائی فرمالیں‘‘۔ ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ ہم آپ کی کامیابی اور سرخروئی کے لیے دست بدعا ہیں ،جو لوگ اس قافلے میں شریک ہیں ، اللہ تعالیٰ انہیں ماجور فرمائے ۔اس عنوان پر میں اپنی فہم کے مطابق اپنا موقف تین کالموں میں لکھ چکا ہوں ،جب کوئی اور بات سامنے آئے گی تو ضرور اظہارِ خیال کروں گا۔ہمیں ان رہنمائوں کے اخلاص کا پورا یقین ہے ،ان کے مطالبات کی تفصیلات ہمیں معلوم نہیں ہیں ۔ یہ حضرات اچانک کسی احتجاجی پروگرام کا اعلان کردیتے ہیں ،اہلِ دانش کا طریقہ رہا ہے کہ گزشتہ تجربات سے سبق حاصل کر کے آئندہ کی حکمتِ عملی مرتب کرتے ہیں تاکہ پہلے سے بہتر نتائج نکلیں ۔مجھ سے وزیرِ داخلہ جناب احسن اقبال کے دفتر سے بدھ کے دن ایک بار رابطہ قائم کیا گیا کہ میں جمعرات کو صبح دس بجے اسلام آباد آجائوں۔میں نے ان سے معذرت کی ،کیونکہ نہ تو میں حکومت کا نمائندہ ہوں اور نہ ہی ''تحریکِ لبیک یارسول اللہ ﷺ‘‘ کی طرف سے میرے پاس کوئی مینڈیٹ یا نمائندگی کا حق ہے۔ اُن کی اپنی مذاکراتی ٹیم موجود ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ مذاکرات میں مصروف ہے اور یقینا اُن کے پاس معاملات کو طے کرنا کا اختیار بھی ہوگا۔ لہٰذا حکومت کے ذمے داران کو چاہیے کہ براہِ راست ان سے مذاکرات کریں اور احسن طریقے سے معاملے کو انجام تک پہنچائیں۔ ہماری خواہش اور دعا ہے کہ پر امن طریقے سے یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو اور اللہ کرے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو، کیونکہ ملک انتہائی نازک حالات سے دوچار ہے اور کسی بھی ایسی صورتِ حال کا متحمل نہیں ہے جو داخلی انتشار یا عدمِ استحکام پر مُنتَج ہو ۔
بچپن سے ایک مقولہ سنتے چلے آرہے ہیں :''مصیبت اکیلے نہیں آتی‘‘ ، سو اس حکومت پر بھی مصیبتیں پے در پے نازل ہورہی ہیں، دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ پھونک پھونک کر قدم رکھا جائے ،لیکن ایسا نہیں ہورہا ۔رانا ثناء اللہ صاحب کے بارے میں میں پہلے ہی اپنا موقف لکھ چکا ہوں : '' ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں جو الفاظ انہوں نے استعمال کیے،کسی توجیہ، تاویل یا ہیرا پھیری کے بغیر غیر مشروط طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں اور اس کے حبیبِ مکرّم ﷺ سے معافی کی التجا کریں، مسلمانوں کے جذبات کو انہوں نے مجروح کیا ہے، اس پر ان سے معافی مانگیں ‘‘۔لیکن ابھی تک انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ لاہور میں ہمارے علماء علامہ غلام محمد سیالوی ،صاحبزادہ محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی ، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی ودیگر حضرات وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور جناب پیر امین الحسنات شاہ کی موجودگی میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب جنابِ شہباز شریف کواپنی تائید کے ساتھ میرا یہ موقف بتا چکے ہیں ،اس محفل میں رانا ثناء اللہ بھی موجود تھے ،عمل درآمد کا وعدہ بھی کیا ، لیکن جب بدقسمتی اور نحوست غالب آجائے تو دودھ میں مینگنیاں ڈالے بغیر لوگوں کو چین نہیں آتا،ان پراَنا غالب آجاتی ہے ، جبکہ مصیبت سے نجات کا واحد راستہ عَجز وانکسار اور شریعت کے مطابق غلطی کی تلافی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں