تحریک لبیک پاکستان کے قائدین علامہ خادم حسین رضوی اور علامہ پیر محمد افضل قادری اپنی دھرنا تحریک میں سرخرو ہوئے اور ایک باوقار معاہدے کے نتیجے میں دھرنا ختم کر کے واپس لاہور پہنچے۔ ان کا ہر جگہ پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ بادی النظر میں حکومت کی طرف سے معاہدے پر لفظاً ومعناً مِن و عَن عمل بھی ہو رہا ہے، یہ ایک اچھی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے رفقاء کو عزت دی ہے، اس پر انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سراپا تشکّر و امتنان ہونا چاہیے اور لازم ہے کہ سجدۂ تشکر بجا لائیں۔ عبدیت کی شان اور افتخار خالق تبارک وتعالیٰ کے حضور عَجز و انکسار ہے۔ فارسی شاعر نے کہا ہے:
فروتن بود ہوشمند گزیں
نہد شاخ پر میوہ سر برزمیں
ترجمہ: دانا آدمی عاجزی کو اختیار کرتا ہے اور برگ و بار، پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوئی شاخ زمین پر جھکی ہوتی ہے، جبکہ اس کے برعکس موسمِ خزاں میں وہی شاخ جب بے فیض و بے لباس ہو جاتی ہے تو تنی رہتی ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُسے سربلند فرماتا ہے، وہ اپنے دل میں اپنے آپ کو معمولی سمجھتا ہے، لیکن لوگوں کی نظروں میں وہ عظیم ہوتا ہے اور جو تکبر کرے، اللہ تعالیٰ اسے پست کر دیتا ہے، وہ اپنے دل میں اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی نظروں میں گرا دیتا ہے۔ (مسند الشہاب للقضاعی:335)۔ بعض اوقات مجاہدین جب فتح یاب ہوکر واپس لوٹتے تو جہاد میں شرکت سے محروم رہنے والوں پر ایک گونہ تفاخر محسوس کرتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں: حضرت سعدؓ نے گمان کیا کہ انہیں دوسروں پر فضیلت حاصل ہے، نبیﷺ نے (ان کی اس ذہنی کیفیت کو بھانپ کر) فرمایا: تمہیں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) جو نصرت ملتی ہے اور جو رزق (میں کشادگی) عطا ہوتی ہے، وہ کمزوروں (کی دعائوں )کی برکت سے ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری: 2896)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنی جان اور مال سے جہاد کرنے والے مجاہدین کو اللہ نے قاعدین (جہاد میں کسی عذر کے سبب پیچھے رہ جانے والوں) پر درجے میں فضیلت دی ہے۔ (النسائ:95)۔ بعض مفسرین کرام نے فرمایا: قاعدین سے ہاتھ باندھ کر بیٹھنے والے مراد نہیں ہیں بلکہ وہ ہیں جو سکیمرز (منصوبہ ساز) ہوتے ہیں، فکری رہنمائی فراہم کرتے ہیں، انہیں وسائل فراہم کرتے ہیں یعنی ذہنی، فکری اور مالی مدد کرتے ہیں۔
الغرض تحریک لبیک پاکستان کی اُٹھان الحمدللہ اچھی ہے، نہایت اُمید افزا ہے، لیکن سفر طویل ہے، منزل ابھی بعید ہے۔ انہیں فراست، تدبر، حکمت اور عاقبت اندیشی سے آگے بڑھنا ہوگا۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہا ہے:
بالائے سرش زہوشمندی
می تافت ستارۂ بلندی
ترجمہ: وہ دانائی سے سربلند ہے اور اس کا ستارہ عروج پر چمک رہا ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی کو بلاشبہ یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ اہلسنت و جماعت کو نہ صرف ڈرائنگ روم سے نکال کر پبلک میں لائے ہیں، انہوں نے ہمارے میلاد النبیﷺ کے جلسوں اور دیگر روایتی مذہبی اجتماعات کو سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا، ورنہ یہ اجتماعات محض پیشہ ور واعظین، نعت خواں حضرات اور میلاد انجمنوں کے کار پردازوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بن کر رہ گئے تھے۔ ہم روایت شکنی اور ان مقدس مجالس کو رجحان ساز (Trend setter) بنانے پر علامہ رضوی کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ بعض پیرانِ عظام کا اچانک ایک ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ انہیں بھی خطرے کا احساس ہو گیا ہے کہ مریدین پر ان کی گرفت کمزور پڑ سکتی ہے۔
ہمارا علامہ صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی چشم بصیرت وا رکھیں، بندگانِ اَغراض اور مالی وسائل سے عزتیں اور مناصب خریدنے والے افراد جب کسی تحریک یا شخصیت کو مائل بہ عروج دیکھتے ہیں تو خوشامد کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں، کہنیاں مار کر اور دھکے دے کر بے مایہ مگر انتہائی مخلص کارکنوں کو پیچھے دھکیلتے ہیں اور اگلی صفوں میں جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کسی بھی انقلابی تحریک کا اصل سرمایہ اور اثاثہ وہ مخلص کارکن ہوتے ہیں، جو اپنے خونِ جگر اور شب وروز کی محنت سے تحریک کو جِلا بخشتے ہیں، اُس کی رگوں میں خون دوڑاتے ہیں، ہر سو چھائی ہوئی ظلمت کی گھنگھور گھٹائوں کو امید کی شمع سے روشن کرتے ہیں اور یاس کو آس میں بدلتے ہیں۔ تاجدار کائناتﷺ کی انقلابی تحریک کا اثاثہ بھی ایسے ہی ضُعَفاء اور بندگانِ بے مایہ تھے، جو ظاہری اسباب سے محروم تھے مگر ایمان وایقان اور عزیمت و استقامت کی دولت سے مالا مال تھے۔ انہوں نے بے مثال قوتِ ایمانی کی بدولت اپنے ضُعف کو قوت میں بدل ڈالا، کفارِ مکہ ان کے برابر بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے تھے، انہیں اپنے معاشرتی جاہ و منصب (Status) پر ناز تھا اور رسول اللہﷺ سے فرمائش کرتے کہ اگر آپ ان مفلوک الحال لوگوں کو کچھ دیر کے لیے اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم آپ کی بات سن لیتے ہیں، اللہ عزوجل نے ان مرفہ الحال سردارانِ قریش کی اِس فرمائش کے جواب میں اپنے حبیب کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمایا: (1) اور ان( مسکین مسلمانوں) کو اپنے پاس سے دور نہ کیجیے جو صبح وشام اپنے رب کی عبادت کرتے رہتے ہیں درآنحالیکہ وہ اسی کی رضا چاہتے ہیں، ان کاحساب بالکل آپ کے ذمہ نہیں ہے اور آپ کا حساب سرِمو اُن کے ذمہ نہیں ہے، پس اگر (بالفرض) آپ نے ان کو دور کر دیا تو آپ غیرمنصفوں میں سے ہوجائیں گے۔ (الانعام:52)، (2) اور آپ اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ لازم رکھیں جو صبح اور شام اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے اُس کی عبادت کرتے ہیں اور اپنی آنکھیں اُن سے نہ ہٹائیں کہ آپ دنیوی زندگی کی زینت کا ارادہ کرتے ہوں اور آپ اس شخص کا کہا نہ مانیں جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے، اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور اس کا معاملہ حد سے بڑھ گیا۔ (الکہف:28)۔
میں آج کل امریکہ میں ہوں اور مختلف ریاستوں میں مسلسل اَسفار میں رہتا ہوں، میں نے دھرنے کی کامیابی پر یہاں کے دوستوں کو پیش گوئی کی تھی کہ الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کی کمین گاہوں میں مورچہ زن ہمارے لبرل دانشوروں کو دینی وضع رکھنے والے ان اصحابِ جبہ و دستار کی کامیابی آسانی سے ہضم نہیں ہوگی، وہ ریاست و حکومت کی ناکامی کا رونا روئیں گے، آئین و قانون کی دہائی دیں گے، شامِ غریباں منائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر علامہ پیر محمد افضل قادری اور علامہ ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کی چشمک نے اچانک رخ بدل ڈالا، شام غریباں شادیٔ مرگ میں تبدیل ہونے لگی، مگر الحمدللہ! ان حضرات نے ابتدائی بے اعتدالی کے بعد ہوشمندی سے کام لیا، جوش پر ہوش غالب آ گیا اور سیز فائر ہوگیا۔ یہ نہایت درست حکمت عملی تھی، امید ہے آئندہ بھی تدبر و فراست سے کام لیا جائے گا۔ ہماری خواہش اور دعا ہے کہ اہلسنت و جماعت کے تمام اکابر علماء ومشایخ کے درمیان باہمی اعتماد و احترام کا رشتہ قائم ہو، فرق مراتب کو ملحوظ رکھا جائے، جسے جدید دفتری اصطلاح میں (Hierarchy) کہتے ہیں۔ حالات نے علامہ خادم حسین رضوی کو تحریک کی سیادت وقیادت کا منصب تفویض کر دیا ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا ہے۔ علامہ ڈاکٹر آصف اشرف جلالی بھی اسے تسلیم کر لیں تاکہ ایک ورکنگ ریلیشن یعنی عملی طریقۂ کار، فیصلہ سازی اور اس پر عملدرآمد کے اصول وضوابط وضع ہو جائیں اور سب ایک قیادت اور ایک پرچم کے نیچے مصروفِ عمل ہوں۔ سب کی جہود و مساعی اور توانائیاں یکجا اور یکسو ہوں اور ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے بجائے مشترکہ ہدف پر نظر رکھیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
ہم نے اپنی کتاب ''اصلاحِ عقائد و اعمال‘‘ میں لکھا ہے کہ مفتیان کرام کفر کا فتویٰ صادر کرنے میں انتہائی حد تک احتیاط سے کام لیں، مزید یہ کہ لزوم کفر اور التزامِ کفر کے فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں۔ نیز ایسے دقیق مسائل کے لیے ثقہ و معتمد مفتیانِ کرام کی ایک جماعت ہونی چاہیے، ہرکس و ناکس کو یہ اختیار دینا قاتل اور ڈاکو کے ہاتھ میں زہر آلود خنجر تھما دینے کے مترادف ہے۔ کوئی کلمۂ کفر اپنے مفہوم پر قطعی الدّلالت ہو اور ایک فیصد بھی کسی صحیح تاویل و توجیہ کا احتمال نہ رکھتا ہو تو اس کے بعد ہی ایسی حتمی رائے قائم کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ کسی ضعیف توجیہ کے ہوتے ہوئے بھی حکم صادر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ علامہ ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کی خدمت میں بصد ادب گزارش ہے کہ ''تَعدُّدِ اٰلِھِہ‘‘سے اللہ تعالیٰ کی ذات سے مشابہت ہرگز مراد نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ قیادت و سیادت اور امارت کا تعدُّد قوموں، ملّتوں، تنظیموں اور جمعیتوں کے لیے فساد کا باعث ہوتا ہے اور قوت کو پارہ پارہ کردینا ہوتا ہے، تاریخِ اسلام اور تاریخِ اُمَم و مِلَل اس پر شاہد عدل ہے۔
مزید یہ کہ کسی کے جسمانی نَقص یا کمزوری کو ہدفِ طعن بنانا ہرگز جائز نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے معاملات ہیں، علامہ خادم حسین رضوی حادثے کا شکار ہوئے، ہم حادثے پر تاسُّف کے اظہار کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ اس نے انہیں حیاتِ نَو عطا کی اور شاید قدرت نے ان سے دین کا کام لینا تھا۔ قیادت و سیادت اور امارت کے لیے جسمانی صحت و سلامتی بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی نعمتِ بے بہا ہے مگر قیادت کا اصل جوہر ایمان و ایقان کی پختگی، دل کی مضبوطی و حوصلہ مندی، علمِ نافع، قلبِ خاشع، تقویٰ، ذہن رسا، فکر کی اصابت و راستی، اللہ پر توکل، عزیمت، استقامت، سعیِ پیہم اور جُہدِ مسلسل کا حامل ہونا ہے۔ جس کو اپنی ٹانگوں اور پیٹھوں کی مضبوطی پر ناز ہو، وہ کسی اکھاڑے میں پہلوانی کا شوق پورا کر سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
یقینِ مُحکَم‘ عملِ پیہم‘ محبت فاتحِ عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
............
قہاری و غفّاری و قُدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں
............
نگہ بلند‘ سخن دل نواز‘ جاں پرسوز
یہی ہے رَختِ سفر میرِ کارواں کے لیے