اس سال قومی سیرت کانفرنس کا موضوع ''تعلیماتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں قیادت کا معیار‘‘ تھا۔میں بیرونِ ملک اپنی مصروفیات کی وجہ سے دعوت کے باوجود شرکت کی سعادت حاصل نہ کرسکا،تاہم اس کالم کے ذریعے چند گزارشات پیش کر رہا ہوں:
(۱)قول وفعل میں مطابقت :جمہوری نظام میں آئینی وقانونی اعتبار سے پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کا حصول قیادت کا معیار ہے ، لیکن اسلام میں اخلاقی برتری کے بغیر کسی رہنما کوحقیقی احترام نہیں ملتا،اس کے لیے قول وفعل میں مطابقت ضروری ہے ، قول وفعل میں تضاد رہنماکو لوگوں کی نظروں سے گرادیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو!تم ایسی باتیں کیوں کہتے ہو، جن پر تم خود عمل نہیں کرتے،اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی نا راضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو خود نہیں کرتے ہو، (الصف:2-3)‘‘۔علمائے بنی اسرائیل کی اسی خرابی کو قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(1)''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو فراموش کردیتے ہو،حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو( یہ شعار اللہ کو ناپسند ہے)،(البقرہ:44)۔ ( 2)''پس ان لوگوں کے لیے عذاب ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت لے لیں ، (البقرہ:79)‘‘۔
(۲)قومی مناصب کے لیے اہلیت کو معیار بنایا جائے : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچائو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تمہیں کیسی عمدہ نصیحت فرماتا ہے ،بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے،(النسائ:58)‘‘۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:(1) ''جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو ، سائل نے عرض کیا: یارسول اللہ! امانت کیسے ضائع ہوتی ہے ؟، آپ ﷺ نے فرمایا: جب زمامِ اقتدار نا اہل کو تفویض کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو، (بخاری: 6496)‘‘۔ (2) آپﷺ نے فرمایا:''جس شخص نے کسی (نا اہل )کوقوم پر عامل بنایا ،جبکہ اس قوم میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ راضی کرنے والاشخص موجود ہے ،تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور مومنوں سے خیانت کی، (المستدرک :7023)‘‘۔ (3)''جب قومی خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھ لیا جائے ، قومی امانتوں کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے ، زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جائے ،دین کا علم دنیاوی مقاصد کے لیے حاصل کیا جائے، ایک شخص بیوی کا فرمانبردار اور ماں کا نافرمان ہوجائے ، ایک شخص دوست کو قریب اور باپ کو دور کردے،مسجدوں میں شوروغوغا ہونے لگے ، قبیلے کا سردار بدکردار شخص بن جائے اورقومی رہنمائی کمینے لوگوں کے ہاتھ میں آجائے ، کسی شخص کی عزت اس کے خوف کی بناء پر کی جائے ، آلاتِ موسیقی اور مغنّیات کا دور دورہ ہوجائے ،شراب نوشی عام ہوجائے ،اس اُمّت کے پچھلے لوگ پہلوں پرلَعن طَعن کریں(تو اچھے دنوں کی تمنا عبث ہے)،پس ایسے عالَم میں سرخ ہوائیں چلیں گی ،زلزلے آئیں گے ،زمین میں دھنسا دیے جائو گے، صورتیں بگاڑی جائیں گی ،تہمتیں لگائی جائیں گی اور اُس ٹوٹی ہوئی لڑی کی طرح جس کے دانے ایک ایک کر کے گرے جارہے ہوں، پے درپے علامات ظاہر ہوں گی،(سنن ترمذی: 2218)‘‘۔ صورتیں مسخ ہونے کے ایک معنی یہ ہیں کہ جیسے بنی اسرائیل کو اُن کی سرکشی کی بناء پر بندر اور خنزیر بنادیا گیا اور ایک معنی یہ ہیں کہ ملّت اقوامِ عالَم کے سامنے بے توقیر ہوجائے، جیسے ڈیڑھ ارب مسلمان اسّی لاکھ کی آبادی پر مشتمل اسرائیل کے سامنے بے توقیر اور بے بس ہیں۔اس کا واضح سبب یہ ہے کہ ستاون مسلم ممالک میں قیادت پر فائز لوگ دینی و ملّی حمیت سے عاری اور پست ہمت ہیں۔
(3)قائد کا کردار مثالی ہونا چاہیے: ''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: تین اشخاص نبی ﷺ کی عبادت کے احوال معلوم کرنے کے لیے آپ ﷺ کی ازواجِ مطہّرات کے پاس حاضر ہوئے، پھر جب اُن کو (آپ ﷺ کی عبادت کے معمولات)بتائے گئے ،تو گویا انہوں نے اسے کم سمجھااور کہا: کہاں ہم اور کہاں نبی ﷺکی ذاتِ گرامی، آپ ﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نے (دنیا ہی میں)مغفرتِ کُلّی کی قطعی سند عطا فرمادی ہے۔اُن میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ پوری رات نوافل پڑھتا رہوں گا، دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی نہیں چھوڑوں گا اور تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ اس دوران رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور فرمایا: تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسی باتیں کیں(یعنی تقویٰ کے من پسند معیارات وضع کیے)، توسنو!اللہ کی قسم! بے شک میں تم سب سے زیادہ متقی ہوں اور مجھ میں اللہ کی خَشیَت سب سے زیادہ ہے ، لیکن میں روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں،(راتوں کو)نوافل پڑھتا بھی ہوں اور(کچھ دیر کے لیے) سوبھی جاتاہوں اور عورتوںسے نکاح بھی کر رکھے ہیں، سو جس نے (تقوے کا مَن پسند معیار وضع کر کے )میری سنت سے اعراض کیا تو وہ میرے (پسندیدہ)طریقے پر نہیں ہے،(بخاری:5063)‘‘۔اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ کمالِ تقویٰ رہبانیت اور ترکِ دنیا میں نہیں ہے بلکہ دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں رہتے ہوئے اَخلاق وکردار کی آلودگیوں سے اپنا دامن پاک رکھنے اور سب کے حقوق ادا کرنے میں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی مثالی اور معیاری زندگی گزارنا پلِ صراط پر چلنے کے مترادف ہے،جو خدا ترس لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
(4)حضرت موسیٰ ویوسف علیہما السلام کے حوالے سے قیادت کے چار معیار : (1)ان دونوں خواتین میں سے ایک نے کہا:'' اے ابا جان!آپ ان کو اُجرت پر رکھ لیجیے ،بے شک آپ جس کو اجرت پر رکھیں گے، اُن میں سے بہترین وہی ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو ، (القصص:26)‘‘۔(2)حضرت یوسف علیہ السلام کی جب دربار تک رسائی ہوئی تو آپ نے فرمایا:'' مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردیں ، کیونکہ میں حفاظت کرنے والا علم والا ہوں(کہ کس سے لیا جائے اور کس کو دیا جائے)،(یوسف:55)‘‘۔
(5)مشاورت کا شِعار: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور (درپیش) معاملے میں اِن (صحابہ) سے مشورہ کیجیے ،پھر جب آپ (کسی بات کا ) عزم کرلیں ، تواللہ پر توکل کیجیے، (آل عمران: 159)‘‘۔ غزوۂ احد کے موقع پر آپ ﷺ نے اس امر پر صحابۂ کرام سے مشاورت کی کہ مدینے میں رہ کر دفاع کیا جائے یا آگے بڑھ کر کفار سے مقابلہ کیا جائے ،آپ کی اپنی ترجیح یہ تھی کہ مدینے میں رہ کر ہی دفاع کیا جائے، لیکن بعض پرجوش نوجوان صحابہ ٔ کرام نے جن کے دل جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے لبریز تھے،آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے پر اصرار کیا۔رسول اللہ ﷺ اندر تشریف لے گئے اور اس دوران حضرت سعد بن مُعاذ اور اُسَید بن حُضیر نے لوگوں کو متوجہ کیا کہ تم نے رسول اللہ ﷺ کی رائے کے مقابل اپنی رائے پر اصرار کر کے غلطی کی ،کیونکہ آپ پر وحی نازل ہوتی ہے ،معاملہ اللہ کے رسول پر چھوڑ دو۔پھر جب رسول اللہ ﷺ مسلّح ہوکر باہر تشریف لائے تو صحابۂ کرام نے اظہارِ ندامت کیا اور اپنی رائے واپس لینا چاہی، آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ کا نبی جب ہتھیار بند ہوجائے ،پھر وہ ہتھیار نہیں اتارتا یہاں تک کہ اللہ اُس کے اور اُس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرمادے،(سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد، ج: 4، ص: 186)‘‘۔
(6)اندازِ گفتار:آپ ﷺ کا اندازِ گفتار باوقار تھا ،آپ کی گفتار تکلّف و تصنع اور فحش کلامی سے پاک تھی۔ قرآن کریم میں ہے: ''آپ کہیے: میں تم سے اس(دعوتِ حق )پر کوئی اجر نہیں مانگتااور نہ ہی میں تکلّف کرنے والوں میں سے ہوں، (ص:86)‘‘۔ حدیث پاک میں ہے(1): ''نبی ﷺ(اپنی پاکیزہ فطرت کے سبب) نہ تو فُحش کلامی فرماتے اور نہ ہی اپنے آپ کو اس پر آمادہ کرتے تھے اورفرماتے:تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، (بخاری:3559)‘‘۔ (2)''رسول اللہ ﷺ کا اندازِ کلام ایسا( ٹھہرائو والا) تھا کہ ایک ایک لفظ جدا ہوتا اور جو بھی اُسے سنتاپورا مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا،(ابودائود: 4839)‘‘۔آپ کے کلام کے تاثرات آپ کے چہرۂ انور سے بھی محسوس ہوتے ،جسے آج کل باڈی لینگویج کہاجاتا ہے ۔
(7)صادق القول :رہنما کو صادق القول ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو اُن پر پورا پورا اعتبارہو۔جب رسول اللہ ﷺ دعوتِ توحید کا پیغامِ عام دینے کے لیے کوہِ صفا پر چڑھے اور قوم کو پکارتے ہوئے فرمایا: بتاؤ کہ اگر میں تم کو خبردوں کہ دشمن کا ایک بڑا لشکر اس پہاڑ کے پیچھے کھڑا ہے ، تو کیا تم سب میری تصدیق کرو گے ؟، سب نے کہا : ہم نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا، اس لئے ہم آپ کی تصدیق کریں گے ، (بخاری:4972 )‘‘۔ اسی طرح قیصر نے اُس وقت کے دشمنِ رسول ابوسفیان سے پوچھا: کیا اُس مدعیِ نبوت نے کبھی جھوٹ بولا ہے یا وعدہ خلافی کی ہے ؟،اس نے جواب دیا:نہیں، (بخاری: 7، ملخّصاً)‘‘ ۔
(8)بقدرِ ضرورت کلام :رہنما کو منہ پھٹ اور بسیار گو نہیں ہوناچاہیے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اچھی بات کہو یا خاموش رہو، (بخاری:6018)‘‘۔ ''رسول اللہ ﷺ نے کم الفاظ میں جامع بات کہنے کو تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنے وجوہِ فضیلت میں سے ایک قرار دیا،(مسلم:523)‘‘۔
(9)شفاف عدل:عدل جب بھی پسند وناپسند کی بنیاد پر ہوگا، ظلم کو جنم دے گا، اللہ تعالیٰ نے بلا امتیاز عدل کا حکم فرمایا :''اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں نا انصافی پر نہ ابھارے ،عدل کرو ،یہ شِعار تقوے کے قریب ترین ہے ،(مائدہ:5)‘‘(2):''اے ایمان والو!انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ (کی رضا) کے لیے گواہی دینے والے بن جائو، خواہ یہ( گواہی)تمہارے اپنے یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے خلاف ہو، (النسائ:135)‘‘۔