"MMC" (space) message & send to 7575

عمرانیات

عمرانیات سوشل سائنسز کو کہا جاتا ہے، مغرب میں نیچرل سائنسز کی طرح ان علوم کو بھی بے حد اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم نے امریکہ کے دورے کے دوران لاس اینجلس میں مسیحیت کی ایک مذہبی درس گاہ دیکھی، جہاں سوشل سائنسز کے مختلف شعبہ جات پر پی ایچ ڈی کرائی جا رہی ہے۔ سوشل سائنسز سے مراد معاشرے کے احساسات، فطری رجحانات، تعامل، اخلاقی ماحول، قوم کے سِفلی یا عُلوی جذبات، اَقدار اور ماحول کا مطالعہ کرنا ہے جو افراد، معاشرہ اور اقوام کا مزاج تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ ان شعبوں میں نہ روزگار کے مواقع ہیں، نہ علم برائے علم کی روایت ہے، نہ ہی کسی کو اعلیٰ اقدار پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی فکر ہے، اس لیے یہ علوم قابلِ توجہ نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو چونکہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پر اپنی پالیسیاں مسلّط کرنا ہوتی ہیں، اس لیے یہ علوم اُن کی ضرورت ہیں۔
میں نے تفننِ طبع کے طور پر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے سربراہ جنابِ عمران خان کی حکمرانی کو ''عِمرانیات‘‘ کا نام دیا ہے۔ 2017ء کے اوائل میں مَیں نے ایک دن ایبٹ آباد میں گزارا تھا اور ''پختونخوا میں تبدیلی کا ایک سرسری جائزہ‘‘ کے عنوان سے اپنے مشاہدات اور تاثرات تحریر کیے تھے۔ بہت بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ہمدردوں نے بھی اس کا مطالعہ کیا اور مثبت تاثرات کا اظہار کیا۔ اب دسمبر 2017ء کے آخری ہفتے میں ایک بار پھر مجھے ایبٹ آباد میں دو تین دن گزارنے کا موقع ملا، میں نے خالی الذہن ہوکر معاشرے کے اہلِ نظر سے معلومات حاصل کیں، اُن کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔
ضلع ہزارہ جب ڈویژن بنا تو ابتدا میں یہ تین اضلاع پر مشتمل تھا، بعد میں مختلف ادوار میں کوہستان، بٹگرام اور تورغر کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا، پی ٹی آئی حکومت نے قومی اسمبلی کے ایک حلقے پر مشتمل ضلع کوہستان کو تین اضلاع میں منقسم کر دیا ہے، ضلع لوئر کوہستان جناب عبدالحق ایم این اے اور کولائی پالس مولانا عصمت اللہ اور جناب زرگل کی فرمائش پر بنائے گئے ہیں۔ اب ہزارہ ڈویژن میں آٹھ اضلاع ہیں: ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، تورغر، اَپر کوہستان، لوئر کوہستان اور کولائی پالَس۔ مجھے بتایا گیا کہ نئے ضلع کا انفراسٹرکچر بنانے پرکم از کم چھ ارب روپے اور مصارفِ جاریہ پر سالانہ ایک ارب روپے کا تخمینہ ہے، کیونکہ ضلعی انتظامیہ کے تمام محکموں کے لیے دفاتر، رہائش گاہیں اور اوپر سے نیچے تک عملے کا تقرر ناگزیر ہوتا ہے۔ جبکہ بیشتر علاقہ پہاڑی ہونے کے سبب ان مقاصد کے لیے آسانی سے زمین بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ پس جب انتظامی اخراجات کو بڑھا دیا جائے گا تو ترقیاتی اخراجات کے لیے وسائل کم دستیاب ہوں گے۔
ایک ارب درخت لگانے کا دعویٰ محلِّ نظر ہے، کیونکہ اس کا آڈٹ آسان کام نہیں ہے، البتہ اگر اُن کی تعداد بیس پچیس کروڑ ہی مان لی جائے، تو بھی شجرکاری بجائے خود ایک قابلِ تحسین اقدام ہے۔ بعض علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کے سبب شجرکاری خطرات سے دوچار ہے لیکن بارش کا نہ ہونا قدرتی امر ہے، اس میں پی ٹی آئی کی حکومت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ صنوبر کے درخت کی شجرکاری کی گئی ہے۔ اس کی تین قسمیں ہیں: (1)چیڑ: یہ درخت چار ہزار فٹ کی بلندی پر اگتا ہے، ایندھن کے سوا اس کا کوئی مصرف نہیں ہے۔ اب لوگوں نے گیس کے سلنڈر استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں لہٰذا ایندھن کے طور پر بھی اس کا استعمال محدود ہے۔ اب وہاں پکے مکانات بنانے کا رجحان ہے۔ اس لیے یہ درخت کچے مکانات میں تعمیری مقاصد کے لیے شہتیر اورستون کے طور پر بھی استعمال نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی حکومت نے درختوں کی کٹائی پر پابندی بھی لگائی ہوئی ہے اور مناسب حد تک اس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ (2) بیاڑ: یہ درخت چھ ہزار فٹ کی بلندی پر اگتا ہے اور یہ کچے مکانات میں شہتیر اور ستونوں کے کام آتا تھا۔ اب پکے مکانات کے رجحان کی وجہ سے یہ مَصرف اختتام پذیر ہے۔ (3) دیار: یہ درخت آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر اگتا ہے، یہ لکڑی اگر پروسس ہو جائے تو پھر اسے کیڑا کم لگتا ہے اور یہ دروازوں، کھڑکیوں اور تعمیراتی مقاصد میں استعمال ہوتی ہے، لیکن یہ بہت مہنگی ہے، کم دستیاب ہے۔ اس لیے اب اس کے متبادل درآمد شدہ لکڑی یا المونیم استعمال ہو رہا ہے۔ چیڑ کا درخت چالیس سال سے کم عمر میں بلوغت کو نہیں پہنچتا یعنی اسے کامل درخت بننے کے لیے لمبی عمر چاہیے۔ ایک صاحب نے کہا: یہ دوسری نسل کا درخت ہے، یعنی ایک نسل اس کی شجر کاری کرے گی اور اس کے کامل ہونے تک دوسری نسل کا دور آ جائے گا۔ اس کے کاٹنے پر پابندی کا ایک پہلو تو مثبت ہے کہ درخت تباہ نہیں ہوں گے اور منفی پہلو یہ ہے کہ اس کے نیچے نہ گھاس اگتی ہے اور نہ ہی زمین میں فصل کی کاشت ہوتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں مویشی بانی اور کاشتکاری کے لیے مقامی لوگوں کی ضرورت ہیں۔ لہٰذا اس کا سائنٹفک تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نقصان کا پہلو کم سے کم ہو۔ اگر وہاں کے ماحول کے مطابق کوئی دوسرا مفید درخت دستیاب ہو تو اس کا تجربہ کیا جانا چاہیے۔
ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں حاضری میں کافی بہتری آئی ہے۔ جنابِ عمران خان نوّے فیصد کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اگر اسّی فیصد حاضری بھی حاصل ہو جائے تو ہم اسے کامیابی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ میں لکھ چکا ہوں کہ اساتذہ کو پابند کیا جانا ہی کافی نہیں ہے، معیاری تعلیم کے لیے اُن کی قابلیت اور اہلیت بھی لازمی ہے، جسے یقینی بنانا آسان نہیں ہے کیونکہ پرانا عملہ Status Quo کا حامی ہوتا ہے اور مزاحمت کرتا ہے، الغرض نیک نیتی کے باوجود بہترین نتائج حاصل کرنا کافی دشوار ہے۔ اس میں بھی پی ٹی آئی حکومت پر پوری ذمہ داری عائد کرنا قرینِ انصاف نہیں ہے۔ بڑے ٹیچنگ ہسپتالوں میں بورڈ آف گورنرز کے تجربے کو ایک اہم اقدام تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ بہت کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ اس کے بھی مثبت اور منفی پہلو موجود ہیں اور ان پر گفتگو کے لیے تفصیلی کالم درکار ہے۔
ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی بڑے پیمانے پر بھرتی ہوئی ہے، ایسا بھی ہے کہ ایک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں پندرہ ڈاکٹر تھے اور اس کی مطلوبہ تعداد پینتالیس تھی، اسے کافی حد تک پُر کیا گیا ہے، اس سے نوجوان ڈاکٹروں کو روزگار کے مواقع ملے ہیں، دشوار علاقوں میں بھی کافی حد تک ڈاکٹروں کی حاضری کو چیک کیا جا رہا ہے۔ سکولوں میں بھی سائنس ٹیچرز کی عرصے سے خالی اسامیاں پُر کی گئی ہیں، حاضری کا معیار بہتر ہونے کی وجہ سے یقینا تعلیم پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ پرانے اساتذہ کو پرکشش پیکج دے کر ریٹائر کرے اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دے۔ بہرحال اس اصلاحی کاوش کی داد نہ دینا ناانصافی ہو گی۔
رشوت کے خاتمے کے دعوے پر میں نے جس صاحبِ نظر سے بھی دریافت کیا، تقریباً سب کا جواب ایک ''خندۂ استہزائ‘‘سے بڑھ کر کچھ نہ تھا، بتایا گیا کہ جب رشوت لینا پُرخطر ہوجائے تو اس کا ریٹ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس میں ہمارے معاشرے کی مجموعی اخلاقی ساخت کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ اس شعبے میں نیک نیتی کے ساتھ کاوش کی جا سکتی ہے، مثبت نتائج کے حصول کے لیے تعلیم و تربیت، مجموعی نظام کی بہتری اور سیاست دانوں کی اپنی اخلاقی برتری کا بہت بڑا دخل ہے۔ پولیس کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ پختونخوا کی پولیس پہلے بھی دوسرے صوبوں سے مختلف تھی، بات بات پر گالم گلوچ اور تذلیل وہاں کا معاشرہ آسانی سے قبول نہیں کرتا۔
جہاں تک وسائل کی منصفانہ تقسیم کا تعلق ہے، اس کے کوئی آثار وہاں دستیاب نہیں ہیں۔ میں نے پہلے بھی اس کی نشاندہی کی تھی، جب میں ایبٹ آباد کی حدود میں داخل ہوا تو پی ٹی آئی کے ہمدرد جنابِ علی اصغرکا ایک سائن بورڈ دیکھا کہ پرویز خٹک کے ضلع نوشہرہ کا ترقیاتی بجٹ ہزارہ ڈویژن کے تمام اضلاع کے برابر ہے۔ سو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھی ہمیشہ کی طرح بیشتر بجٹ پشاور ویلی کے اضلاع پر صَرف ہوا ہے لیکن پی ٹی آئی کی جارحانہ سیاست کا انہیں فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے پورا عرصہ وفاق اور پنجاب کو مسلسل دبائو میں رکھااور اُن کی اپنی جوابدہی کی نوبت نہیں آئی۔ وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک نے ایبٹ آباد بائی پاس کا وعدہ کیا تھا اور جناب عمران خان نے ایک ملاقات میں مجھ سے اس وعدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اُس پر سرے سے کام کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ ایبٹ آبادکی حدود میں داخل ہونے سے لے کر مانسہرہ کی حدود سے نکلنے تک تقریباً تیس کلومیٹر کا فاصلہ بعض اوقات تین سے چار گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں انسانوں کے اوقات اور ایندھن کا کتنا ضیاع ہے اور اس سے لوگوں کے مزاج میں تنائو پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وفاق کے منصوبے ہزارہ ایکسپریس وے پر بڑی تیزی سے عمل ہوا اور اس کے پہلے فیز کا وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ ہفتے افتتاح کیا ہے۔
جناب پرویز خٹک بظاہر بھولے بھالے لگتے ہیں لیکن گھاگ سیاستدان ہیں، انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ایک اقلیتی حکومت کا دورانیہ کامیابی سے پورا کر رہے ہیں۔ ان کی اپنی پارٹی میں بھی مزاحمت جاری رہی لیکن وہ جنابِ عمران خان کوہمیشہ شیشے میں اتارنے میں کامیاب رہے۔ ہر باراُن کے منتخب ممبران تلملا کر رہ گئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر اُن کی اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت رہی ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے باغی ممبران کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی۔ اب انہوں نے آئمہ مساجد کو فی کس دس ہزار روپے تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگر اس پر کامیابی سے عملدرآمد ہوتا ہے، تو اس سے جے یو آئی کی سیاست پر مستقبل قریب یا بعید میں یقینا اثر مرتب ہو گا اور پاکستان میں پہلی بار منبر اور مائیک بتدریج حکومت کے کنٹرول میں آ جائے گا جبکہ خیبر پختونخوا میں منبر اور مائیک ہمیشہ حکومت کے کنٹرول سے آزاد رہا ہے اور جے یو آئی کی انتخابی کامیابیوں میں اس کا بڑا دخل رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں