بڑی تعداد میں مخلصین نے علامہ حافظ خادم حسین رضوی اور علامہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کے مابین اتحاد کے لیے کوشش کرنے کا پیغام دیا ہے ، اُن کا بے حد شکریہ ۔یہ اہلسنت وجماعت کے ہر فرد کے دل کی آواز ہے اور اس کے لیے سعی کرنا کارِ خیر اور باعثِ اجر ہے، ہم سے زیادہ اس کی تمنا کون کرے گا۔لیکن اس کے لیے پہلے میدان ہموار کرنا ہوتا ہے ، ہماری دونوں بزرگوں سے اب تک اس موضوع پر براہِ راست کوئی ملاقات یا بات چیت نہیں ہوئی تاکہ اندازہ ہو کہ صلح کی گنجائش کہاںتک ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:''اور ہرچیز کا اس کے نزدیک ایک اندازہ ہے ،(الرعد:8)‘‘۔اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہرچیز کا ایک وقت مقرر ہے۔
علامہ حافظ خادم حسین رضوی صاحب نے سیز فائر کیا ہے اور باہمی خلافیات پر اب وہ میڈیا اورعوامی مجالس میں بات نہیں کرتے ،یہ قابلِ تحسین بات ہے اور اس کا انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ علامہ اشرف آصف جلالی اپنی اکثر مجالس میں اس موضوع پر بدستور باتیں کر رہے ہیں، اس کا زیادہ نقصان خود انہیں کو پہنچے گا ،یہ بات اُن کاکوئی معتمد ہی انہیں باور کراسکتا ہے ۔
اصلاح کے کارِ خیر کے لیے ضروری ہے کہ دونوں قائدین کے''مُقَرَّبِیْنِ خاص‘‘ماحول کو سازگار بنائیں تاکہ دلوں میں گنجائش پیدا ہو، اس کے لیے باہمی احترام شرطِ اول ہے۔ہمارے ہاں ایسے مواقع پر اپنے محبوب قائد سے اظہارِمحبت کا ایک ہی شِعار اختیار کیا جاتا ہے کہ نفرت کو ابھارا جائے،حالانکہ نفرت کو کم کرناہی حقیقی محبت ہے۔ نیز تَعدُّدِ اِمارت سے ملّتیں، قومیں ، جماعتیں اور تنظیمیں کامیابی حاصل نہیں کرسکتیں ، حفظِ مراتب اور ایک قیادت وامارت پر اتفاقِ رائے ضروری ہے ۔ سیّدالمرسلین ﷺنے صلح کرانے والوں کے لیے بڑی گنجائش رکھی ہے، حدیثِ پاک میں ہے:
(1)ترجمہ:''وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان (قربت پیدا کرنے کے لیے کسی فریق کی طرف)اچھی بات منسوب کرتا ہے،(مستخرج ابی عوانہ:11377)‘‘،( 2):ترجمہ:''وہ شخص جھوٹا نہیں ہے ، جو لوگوں کے درمیان اصلاح کا کام کرتا ہے اور اچھی بات کہتا ہے یا (کسی فریق کی طرف)اچھی بات منسوب کرتا ہے،اُمِ کلثوم بیان کرتی ہیں:میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہﷺنے کسی چیز کے بارے میں (خلافِ واقعہ یا مبالغہ آمیز بات کرنے کی)رخصت دی ہو ، جیسے کہ لوگ جھوٹی باتیں کرتے رہتے ہیں، مگر تین امور میں آپﷺنے (خلافِ واقع بات کرنے یا مبالغہ آرائی کی )اجازت دی ہے، (ایک)جنگ میں ، (دوسری)لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں اور (تیسری)شوہر کا اپنی بیوی (کی دلداری )کے لیے(اظہارِ محبت میں مبالغہ آرائی کے ساتھ)بات کرنا، (المعجم الاوسط:9205)‘‘۔ایسے مواقع پر بھی نبیﷺنے صریح کذب سے اجتناب کر کے توریہ ، ایہام اور تعریض کے ساتھ بات کرنے کو ترجیح دی ہے،آپﷺنے فرمایا: ترجمہ: ''تعریض(اور توریہ)کے طور پر بات کرنے سے انسان صریح جھوٹ سے بچ جاتا ہے،(مصنف ابن ابی شیبہ:26096)‘‘۔
آپ سب مطمئن رہیں ،ہمیں جب بھی موقع ملے گااور اس کی گنجائش نظر آئے گی ،تو ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبِ مکرم ﷺکی رضا کے لیے اور اہلسنت وجماعت کے بہترین مفاد میں ضرور مقدور بھر سعی کریں گے ،اَلسَّعْیُ مِنَّا وَالْاِتْمَامُ مِنَ اللّٰہ ،اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کے طفیل دلوں میںگنجائش پیدا فرمائے۔
علامہ ڈاکٹراشرف آصف جلالی صاحب کے بعض محبّین بار بار کہتے ہیں:''مفتی صاحب رانا ثناء اللہ کے بارے میں خاموش ہیں"، حدیثِ پاک میں ہے،ترجمہ:''کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا کردیتی ہے،(سنن ابودائود:5130)‘‘۔میں ''فدائیانِ ختمِ نبوت کی توجہ کے لیے‘‘کے عنوان سے 18اکتوبر 2017کو رانا ثناء اللہ کے بارے میں اپنا موقف صراحت کے ساتھ بیان کرچکا ہوں۔میں کسی کی نیت پر تو شُبہ نہیں کرتا، لیکن اس کے بعد بار بار یہ سوال اٹھانا میرے لیے باعثِ حیرت ہے، مجھے کچھ لوگوں نے بتایا کہ خود علامہ صاحب بھی کسی چینل کے پروگرام میں ایسی بات کہہ چکے ہیں، دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو قول وفعل کی راستی نصیب فرمائے،جس کو کوئی خاص فتویٰ جاری کرنا ہو،بڑے شوق سے کرے، ہر مفتی اس کا مُجاز ہے ،اس کے لیے ہماری توثیق ضروری نہیں ہے۔
تحریکِ لبیک کی پیش رفت کا تسلسل : ماشاء اللہ ! ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے تحریک لبیک پاکستان کی پیش رفت کا تسلسل جاری ہے ۔لاہور ،پشاور اور پھر چکوال کے ضمنی انتخابات میں اس جماعت نے اپنے سیاسی وجود کو منوایا ہے ،الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار چوہدری ناصر عباس نے پنجاب اسمبلی حلقہ نمبر 20سے 16576 ووٹ لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی ہے ۔ اگر انہوں نے اسی رفتار سے اپنی پیش رفت جاری رکھی تو آئندہ قومی انتخابات میں بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
مذہبی قوتوں کے بارے میں لبرل میڈیا کا متعصبانہ رویہ: ہماراالیکٹرانک وپرنٹ میڈیا ویسے تو بڑے دعوے کرتا ہے کہ ہم تصویر دکھاتے ہیں ،جس کو اچھی نہ لگے اپنا چہرہ نوچ لے۔ لیکن یہ محض دعویٰ ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لبرل میڈیا کا رویّہ دینی قوتوں کے ساتھ انتہائی متعصّبانہ ،جانبدارانہ اور جارحانہ ہے ۔ کسی کے جلسے کی خالی کرسیوں کو بھی گھنٹوں دکھایاجاتا ہے ،طویل دورانیوں کے لیے لائیو کوریج دی جاتی ہے ،لیکن دینی تنظیموںیا جماعتوں کی مقبولیت اُن پر بجلی بن کر گرتی ہے ،حقیقی تصویر دکھانے کے بارے میں اُن کے کیمروں کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں ۔ غیر جانبدار لوگوں کامشاہدہ ہے کہ 14جنوری کو باغِ جناح کراچی میں تحریک لبیک کا جلسہ حالیہ سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا، نہ صرف یہ کہ باغِ جناح انسانی سروں سے بھرا ہوا تھا ،بلکہ جلسہ گاہ سے باہر بھی دور دورتک لوگوں کا بڑا ہجوم تھا،حالانکہ سیاسی جماعت کے لیے اس جلسہ گاہ کو بھرنا کارے دارد ہے۔صرف ایک چینل نے چند منٹ کے لیے دکھایا ، باقی چینلز نے لائیو کوریج نہیں کی ،ایک بڑے چینل نے اپنی اسکرین کے کونے میں ہلکی سی جھلک دکھائی ۔پھر یہ وہ لوگ تھے جو اپنی آدرش ،اپنے جذبے اور اپنے وسائل سے جلسہ گاہ میں آئے ،یہ نہیں کہ پورے صوبے یا پورے ملک سے زرِ کثیر صرف کر کے لوگوں کو لایا گیا ہو۔میڈیا سے ہمارا سوال ہے :کیا بیوٹی پارلر سے سج کرجلسہ گاہ میں آنے والے ہی جمہور ہیں اور عوام ہیں ، یہ سادہ لوح مذہبی لوگ اس ملک کے عوام نہیں ہیں ،یہ پاکستان کے جمہور نہیں ہیں ،یہ قابلِ توجہ نہیں ہیں ،کیا یہ خس وخاشاک ہیں ، کیا ان کے چہرے میڈیا کے لیے نفرت کی علامت ہیں ۔یہی وہ متعصبانہ رویہ ہے جو لوگوں کے دلوں میں نفرت اور جذباتیت کو جنم دیتا ہے ، ظلم صرف اسی کا نام نہیں کہ کسی کا سر قلم کردیا جائے یا اُسے زدوکوب کیا جائے ،ظلم یہ بھی ہے کہ کسی کی آواز کو پورے ملک تک پہنچنے نہ دیا جائے اور اُن کی افرادی قوت کو دبایا جائے :
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
کیا یہ لوگ اس لیے قابلِ توجہ نہیں ہیں کہ انہوں نے یہ دعویٰ نہیں کیا :''ہم اگراپنے کارکنوں کو حکم دیں تو وہ مخالفین کا لباس تار تار کردیں ،بوٹیاں نوچیں ،گھر وں میں محصور کردیں اور نکلنے نہ دیں ،جمہوریت پر ہزار لعنت،پارلیمنٹ پر ہزار لعنت وغیرہ‘‘۔اگر یہ مذہبی لوگ اس طرح کی دھمکی دیتے ،تو سرِ شام پچاس ٹیلی ویژن چینلز'' شامِ غریباں‘‘ منانے کے لیے بیٹھ جاتے اور دہائی دیتے: ''مذہبی انتہا پسندوں سے جانوں کو خطرہ ہے ،جمہوریت اور پارلیمنٹ کو خطرہ ہے ، نظام خطرے میں ہے، ریاست خطرے میں ہے ، آزادیٔ صحافت خطرے میں ہے ،وغیرہ‘‘۔ان عاشقانِ مصطفی ﷺ کے پاس نہ ڈنڈے تھے ،نہ اسلحہ تھا ،صرف اور صرف ''لبیک یارسول اللہ ‘‘کے ایمان افروز اور پرجوش نعرے تھے، ساری انسانیت کے لیے امن ،عافیت اور سلامتی کا پیغام تھا ۔لیکن میڈیا کو اہلِ دین کا یہ چہرہ ہرگز گوارا نہیں ہے ،انہیں صرف تشدد، انتہا پسندی اور نفرت انگیزی کا وہ چہرہ پسند ہے جسے مغرب کے سامنے خطرے کی علامت کے طور پر پیش کر کے اپنی مارکیٹنگ کرسکیں ، این جی اوز کا کاروبار فروغ پائے ۔اگرکوئی قرآن وسنت پر مبنی عافیت کا پیغام دینا چاہے ،تو اُس کو دنیا تک پہنچانے کے لیے کیمرے اندھے اور اسپیکر گونگے بہرے ہوجاتے ہیں ۔آپ اپنے تبصروں اور تجزیوں میں اگر انصاف نہیں کرسکتے تو سامنے کا منظر تو جیسا ہے ویسا دکھادیں ،کسی کو قبول یا رد کرنا یہ عوام کا اور قوم کا حق ہے ۔اگر مقبولیت کیمرہ مین ، رپورٹر اور اسٹوڈیوز میں بیٹھے اینکر پرسن یا تجزیہ کار کے اختیار میں ہے،تو بہتر ہے وہ خود میدانِ سیاست میں اتریں اور جمہوری انتخاب کے ذریعے تختِ اقتدار پر متمکن ہوجائیں ۔
پس اگر ہمارا لبرل طبقہ ایک آزاد اور پر امن معاشرہ تشکیل دینے کا خواہاں ہے ،جیساکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں ،تو جمہوری اور انتخابی نظام میں شامل ہونے والے دینی طبقات کو مایوسی اور محرومی کی طرف نہ دھکیلیں ،آپ رپورٹر بنیں ،پارٹی نہ بنیں ،اپنی پسند سے بالاتر ہوکر کام کریں،قبول یا رَد کرنا یہ عوام کا اختیار ہے ، اس کا فیصلہ قومی جمہوری انتخابات میں عوام کو کرنے دیں ۔آپ کا کام یہ ہے کہ سب کو یکساں مواقع فراہم کریں ،سب کی آواز کو عوام تک پہنچانے میں مدد کریں ،اپنی خواہشات کو کسی پر مسلّط نہ کریں ۔یہی تو فکری اور نظریاتی جبرہے ،عصبیت ہے ،نفرت انگیزی ہے، جس میں آپ خود مبتلا ہیں اور اس کے فتوے دوسروں پر صادر کرنا چاہتے ہیں۔آپ نے فریق بننا ہے تو آپ بھی سیاسی جماعت بنائیں ، اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کریں اور عوام کے فیصلے کو قبول کریں۔ کسی کا گلا گھونٹنا ،کسی کی آواز کو دبادینا ،کسی کی اکثریت کو کیمرہ ٹیکنیک سے اقلیت دکھانا ،یہ کون سی صحافت ہے ،آزادیٔ اظہار کی کون سی کسوٹی ، میزان اور معیارہے۔اگر آپ کسی خاص سیاسی جماعت کے ترجمان ہیں تو ان کا لیبل لگالیں، کسی کو گلہ نہیں ہوگا،جو آپ کو پسند کرے گا، آپ کی اسکرین کے سامنے آبیٹھے گا۔