"MMC" (space) message & send to 7575

عزت

عزت کے معنی ہیں:''طاقت اور غلبہ ‘‘،اسی سے اللہ تعالیٰ کا اسمِ صفت ہے :''اَلْمُعِزُّ‘‘یعنی عزت دینے والا۔حدیث پاک میں ہے:''(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:)کبریائی میری رِدا ہے اور عظمت میری ازار ہے ،سو جو کوئی ان صفات میںمیرے مقابل آئے گا، میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا،(سنن ابن ماجہ:4174)‘‘۔محدّثین نے فرمایا: یہاں رِداء اور اِزار سے اللہ تعالیٰ کی صفات مراد ہیں، جو اُس کا خاصّہ ہیں اور اگر بندہ ان صفات میں اُس کے مقابل آئے،تو اُسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔حدیثِ پاک میں ہے :''اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت ،جلال ،کبریائی اور عظمت کی قسم فرمائی ہے ،(صحیح البخاری:7510)‘‘۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ،قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کو ''رب العزت‘‘ بھی فرمایا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (منافقین) کہتے ہیں:''اگرہم مدینہ لوٹ آئے تو ضرور عزت والا وہاں سے ذلت والے کونکال دے گا، جبکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے، اُس کے رسول کے لیے اور اہلِ ایمان کے لیے ہے ، لیکن منافق نہیں جانتے، (المنافقون:8)‘‘۔منافقین کو اپنی قوت و طاقت پر ناز تھا، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ دائمی عزت اللہ ، اس کے رسول اور اہلِ ایمان کے لیے ہے ،اہلِ باطل اپنے عارضی غلبے کودائمی عزت نہ سمجھیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(1) ''اوربے شک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی تھی ،حالانکہ تم کمزور تھے ،(آل عمران: 123)‘‘۔(2)''جو شخص عزت چاہتا ہے ،توعزت سب اللہ کے لیے ہے، پاکیزہ کلمات اُسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اوروہ نیک عمل کی قبولیت کاذریعہ بنتے ہیں ،(فاطر:10)‘‘۔
آج کل عدالت اور منصبِ عدالت پر فائز معزز شخصیات یعنی عالی مرتبت جج صاحبان کی حرمت وناموس کا موضوع زیرِ بحث ہے اور متعدد افراد کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غیور اور باحمیت اقوام کے نزدیک اعلیٰ عدالتی ،قومی اور ملّی مَناصب باعثِ تکریم ہوتے ہیں ،منصب اور صاحبِ منصب کی عزت ایک طرح سے لازم وملزوم ہوتے ہیں ۔ہمارے نظامِ آئین وقانون میں منصبِ عدالت کی حرمت کا تحفظ کیا گیا ہے ،لیکن صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم سمیت کسی اور منصب کوایسی تکریم نہیں عطاکی گئی کہ خود صاحبِ منصب اپنی توہین کرنے والے کو کوئی سزا دے سکے۔توہینِ عدالت میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عدالت خودمدّعی بھی ہے اور منصف بھی اور اس میں عدالت کے فیصلے پر داد رسی کا کوئی فورم بھی نہیں ہے ۔ اس لیے ہماری نظر میں اِس عدالتی اختیارکا استعمال بہت کم ہوناچاہیے۔ حقیقی تکریم اور عزت دل سے ہوتی ہے اور جس شخصیت کی عزت کے نقوش لوحِ قلب پر ثبت ہوجائیں ،وہ کبھی مٹتے نہیں ہیں۔جو عزت منصب کی مرہونِ منّت ہو ،منصب سے فراغت کے بعدوہ باقی نہیں رہتی۔ پس بعض شخصیات کو منصب سے عزت ملتی ہے اور بعض شخصیات ایسی عظیم المرتبت ہوتی ہیں کہ ان سے منصب کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے ۔ایک وقت تھا کہ جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کی عدالتی ہیبت سے پورا نظام لرزاں رہتا تھا اور ریاست وحکومت کا ہر منصب دار شاید سرِ شام اور علی الصباح یہ دعا کرتا ہو کہ اللہ کرے عدالت سے واسطہ نہ پڑے، مگر آج کا حال سب کے سامنے ہے۔
ہم سب خطا ونسیان کے پتلے ہیں ،بشری کمزوریاں بھی ہیں ،لیکن منصبِ عدالت بھی مملکت کی ملازمت ہے ،اگرچہ اُس کی حرمت دیگر اداروں سے یقینا ممتاز ہے ،کیونکہ یہی وہ منصب ہے جو اداروں اور اصحابِ مناصب کو اُن کی حدود میں رکھتا ہے اور آئین وقانون کا پابند بناتا ہے۔لیکن بصد ادب عرض ہے کہ کرپٹ عناصر سے قطع نظر ملازمت سرکار کی ہو یا نجی ،انسان کی معاشی ضرورت ہے، لہٰذااعلیٰ سرکاری ملازمین کے اقدامات، فیصلوں اور طرزِ عمل کو تنقید کا نشانہ بنانا تو درست ہے ، لیکن شخصی توہین یا تحقیر کا تاثّر پیدا نہیںہونا چاہیے، ہر چھوٹے بڑے شخص کی عزتِ نفس کا پاس رکھنا چاہیے۔ 
صرف رسالت ہی ایسا منصب ہے کہ جس کے فیصلے کو قانوناً ہی نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے حق اور مبنی بر انصاف ماننا ایمان کا تقاضا ہے ،ورنہ ایمان سے محرومی یقینی ہے۔ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو ناپسند کیا ،تواللہ تعالیٰ نے اُس کی بابت شرعی ضابطہ بیان فرمایا : ''(اے رسولِ مکرم!) آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس کے تنازعات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ،پھر آپ کے کیے ہوئے فیصلے کے خلاف اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور اُس کودل وجان سے تسلیم کرلیں ، (النساء:65)‘‘۔یہ منصب کسی اور کوسزاوارنہیں ہے ،اس لیے جدید دور میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ نافذ ہوگا ،عدالت اور عادل کی توہین بھی نہیں کی جاسکے گی ،لیکن فیصلے پر تنقید کی جاسکتی ہے ،قبول کرنے کے باوجود فیصلے کو ناپسند کیا جاسکتا ہے اور ہماری ماضی کی تاریخ کے ایسے کئی فیصلے آج بھی ضرب المثل ہیں ۔سو توہینِ عدالت کا نوٹس لینااور اس کے لیے حدود وقیود طے کرنا بلاشبہ عدالت کا دائرۂ اختیار ہے اور اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا، لیکن نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ اس طرح کے نوٹس بکثرت نہ لیے جائیں ، کیونکہ ہر عالی مرتبت کوایک نہ ایک دن منصب سے سبکدوش ہونا ہوتا ہے ،پس حقیقی عزت وہی ہے جو منصب سے اترنے کے بعد بھی قائم رہے اور صاحبِ منصب کا ذکر ہمیشہ تعظیم وتکریم کے ساتھ کیا جائے ۔اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت کے شایانِ شان یہی بات ہے کہ اُن کے فیصلے خود بولتے ہیں اور فیصلوں کی زبان ہمیشہ ناطق رہتی ہے ۔فیصلوں میں بھی یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ منصف کے دل میں کسی کے لیے ذاتی عناد ہے ،بلکہ ہمیشہ نپی تلی زبان ہونی چاہیے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی جنگ میں ایک یہودی کے مقابل میدان میںاترے ،وہ شخص فنِّ حرب کا ماہر تھا، مقابلے کے بعد آپ نے اُسے پچھاڑ دیا اوراُس کے سینے پر چڑھ کر اس کی گردن کاٹنے کا ارادہ کیا۔ اسی اثناء میں اُس نے آپ کے چہرہ مبارک پر تھوک دیا ،آپ اُس کے سینے سے اترآئے اوراُسے چھوڑ دیا۔وہ شخص سخت حیران ہوا کہ میں نے توان کی توہین کی ، یہ مجھ پر قابو بھی پاچکے تھے ،اگر چاہتے تو مجھے قتل کردیتے ،لیکن انہوں نے مجھے چھوڑ دیا، سو اُس نے آپ سے اس کا سبب پوچھا۔حضرت علی نے فرمایا: میں تم سے رضائے الٰہی کے لیے لڑ رہا تھا ، مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تومجھے غصہ آگیا اور میں نے سوچا کہ اگر اب میں تمہیں قتل کرتا ہوں، توکہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا مُحرِّک میری اَنا اور نفسانیت قرار پائے اور میں اجر سے محروم ہوجائوں، اس لیے میں تمہارے سینے سے اتر آیا ،کیونکہ مومن کا جہاداپنی اناکی تسکین کے لیے نہیں، بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہوتاہے ، حضرت علی کے اس کمالِ اخلاص کو دیکھ کر اُس شخص نے اسلام قبول کرلیا، (مرقاۃ المفاتیح،ج:7،ص: 10)‘‘۔ 
پس اگرکسی منصف کے بارے میں کسی مدّعی یا مدّعیٰ علیہ کے خلاف ذاتی نفرت کا تاثّر پیدا ہوجائے ، تو آج کل کا عدالتی شِعار یہ ہے کہ جج کو اُس مقدمے سے الگ ہوجانا چاہیے ۔نبی کریمﷺ نے تو مدّعی کے حق میں عدالت سے فیصلہ آنے کے باوجود اُسے بھی خدا خوفی کی تعلیم دی ہے ،کیونکہ قاضی سے بھی فیصلے میں غلطی ہوسکتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، ہوسکتا ہے تم میں سے کوئی فریق اپنی دلیل کو زیادہ مہارت سے پیش کرنے والا ہو اور میں (دلائل سن کر) اُس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز اُسے دے دوں ، تو(وہ یہ جان لے کہ)میں اُسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، پس وہ اسے (ہرگز)نہ لے، (بخاری: 2680)‘‘۔نبی کریم ﷺ کو تو اللہ تعالیٰ حقائقِ اشیاء اور لوگوں کی قلبی کیفیات پر بھی مطّلع فرمادیتا تھا،لیکن عام منصفین کو یہ مقام حاصل نہیں ہے ،اس لیے آپ ﷺ نے حد درجے احتیاط کی تعلیم فرمائی ہے اور یہ احتیاط نہ صرف قاضی کے لیے ہے ،بلکہ مدّعی اور مدّعیٰ علیہ کے لیے بھی ہے۔اس حدیث سے متعلق کچھ فقہی ابحاث بھی ہیں ،لیکن وہ یہاں ہمارا موضوع نہیں ہیں۔
پس اللہ کی سنت یہی ہے کہ حقیقی معنی میں عدل قائم ہو اور شفاف عدل ہوتا ہوا نظر بھی آئے ۔حدیثِ پاک میں ہے: عبدالرحمن بن ابی بکرہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والدنے سجستان کے قاضی عبیداللہ بن ابی بکرہ کو یہ ہدایت نامہ لکھوایا :''(کبھی بھی) غصے کی حالت میں دو اشخاص کے درمیان فیصلہ نہ کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :''تم میں سے کوئی بھی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے، (صحیح مسلم:1717)‘‘۔نیز عالی مرتبت شخصیات کو تہمت کے مواقع سے بھی بچنا چاہیے ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے: ''جو بدگمانیوں کی راہوں پر چلے گا،وہ تہمت کا ہدف بنے گا ‘‘اور مکارمِ اخلاق میں خرائطی نے ان الفاظ کے ساتھ مرفوعاً روایت کیا ہے: ''جو مقامِ تہمت پر ٹھہرا ،توپھر اُسے چاہیے کہ بدگمانی کرنے والوں کو ملامت نہ کرے(کیونکہ اُس نے خودیہ موقع فراہم کیا )، (کشف الخفاومزیل الالباس، الجزء الاول،ص:44، )‘‘۔نوٹ: الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے میرے جون 2016ء تااپریل2017ء کے کالموں پر مشتمل چوتھا مجموعہ''آئینۂ ایام (جلد چہارم)‘‘ شائع ہوچکا ہے ،یہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور /کراچی سے دستیاب ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں