"MMC" (space) message & send to 7575

خود کشی کے نفسیاتی، سماجی اور معاشی محرکات… (حصہ دوم)

(1) دینی شعور و آگہی کا فقدان:
ہمارے معاشرے میں حال ہی میں رونما ہونے والے خودکشی کے رجحان اور اس لہر کا سب سے بڑا سبب دینی تعلیمات سے دوری اور دینی شعور کا فقدان ہے۔ شعور پیدا کرنے کے لیے سب سے مؤثر شعبہ الیکٹرانک میڈیا ہے، وہ فحاشی، عریانی، تشدد، دہشت اور شر کے فروغ میں تو ہمہ وقت مصروف ہے، صحیح دینی شعور پیدا کرنا اس کی ترجیحات میں نہیں ہے۔
میڈیا بنیادی طور پر کارپوریٹ کلچرکا نمائندہ ہے اور اس کا مؤثر حصہ ہے، اس لیے اس کی ترجیحی فہرست میں صرف ایسے پروگرام آتے ہیں جو لوگوں کے سفلی جذبات کو ابھاریں، ناپختہ ذہن سکرین سے جڑے رہیں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے اثرات معاشرے پر کیا مرتّب ہوتے ہیں۔ جب وہ ملّی مسائل کی دہائی دیتا ہے، تو اس میں بھی کاروباری پہلو غالب ہوتا ہے۔ ہماری نظر میں دینی آگہی کے فروغ کو ترجیحِ اول ملنی چاہیے کیونکہ خود کشی کا مرتکب شخص اپنی عاقبت کو تو برباد کرتا ہی ہے، اپنی ذات سے وابستہ کئی دوسرے افراد کی زندگیوں کو بھی ناقابلِ برداشت اذیت اور بے شمار مسائل سے دوچار کر دیتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تو ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ ماں باپ نے خود کشی سے پہلے اپنی بے قصور اولاد کو بھی زندگی کے حق سے محروم کر دیا، یعنی خود تو حرام موت کا شکار ہوئے، قتلِ ناحق کا کبیرہ گناہ بھی اپنے سر لیا۔
(2) معاشی مسئلہ:
خودکشی کے بہت سے واقعات کے پسِ پشت بے روزگاری، تنگ دستی اور معاشی محرومیوں کے عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی ذمہ داری وقت کے اہلِ اقتدار اور معاشرے کے خوش حال طبقات پرعائد ہوتی ہے۔ یہ چند ہزار افراد ملک کے اسّی فیصد وسائل پر قابض ہیں، بدقسمتی سے ہمارے اہلِ اقتدار بھی اسی طبقے کا حصہ بلکہ سرخیل ہیں۔ اسلام ارتکازِ دولت کے خلاف ہے کہ چند لوگ سارے وسائل پر قابض ہو جائیں اور لوگوں کی اکثریت روٹی، کپڑا اور مکان کی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''ایسا نہ ہو کہ (ساری دولت) مالداروں کے درمیان ہی گردش کرتی رہے۔ (الحشر:7)‘‘۔ اب تو عالمی سطح پر بھی اس طرح کے سروے سامنے آ رہے ہیں کہ پوری دنیا میںمحدود لوگ اسّی فیصد وسائل پر قابض ہیں اور باقی بیس فیصد پر تقریباً ساڑھے سات ارب انسان قناعت کیے ہوئے ہیں۔
اسلام دولت اور وسائلِ رزق کی تقسیم کا حکم دیتا ہے تاکہ ان کا فیض ساری انسانیت کے لئے عام ہو۔ اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان اپنی جان کا مالک و مختار نہیں بلکہ صرف متصرف ہے، مال و دولت کے بارے میں بھی اس کا نظریہ یہی ہے کہ اس کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، انسانوں کی طرف ملکیت کی نسبت مَجازاً ہے، اسلام نے مال کمانے کے لئے حلال و حرام کے احکام دیئے اور خرچ کرنے کے لیے فرائض و واجبات اور فضل و استحسان کے بڑے جامع اصول مقرر کیے ہیں اور محرمات و ممنوعات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''اور کیا سبب ہے کہ تم (اپنی دولت کو) راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے، حالانکہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ (درحقیقت) اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ (الحدید:10)‘‘۔ اور اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ غربا کو اس سوچ کے ساتھ نہ دو کہ تم ان پر احسان کر رہے ہو، بلکہ یہ سمجھ کردوکہ تم اپنے مال میں سے اُن کا حق انہیں لوٹا رہے ہو۔ قرآنِ کریم میں ہے (1) ''اور اُن کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔ (الذاریات:19)‘‘۔ (2) ''اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے، پس جن کو فضیلت دی گئی ہے، وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے زیردستوںکو لوٹا دیں تاکہ وہ رزق میں برابر ہو جائیں، تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمت کا انکار کر رہے ہیں۔ (النحل:71)‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے، تو اسے ان کے مالداروں سے لے کر ان کے ناداروں کی طرف لوٹا دیا جائے۔ (صحیح بخاری:1458)‘‘ ۔ 
جب نظامِ حکومت میں تقسیم دولت کا عادلانہ نظام نہیں ہو گا، دولت کا غالب حصہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے گا تو معاشی ناہمواریاں اور محرومیاں پیدا ہوں گی، سانحات رونما ہوں گے اور خدانخواستہ حالات طبقاتی تصادم پر بھی منتج ہو سکتے ہیں۔ مغربی ممالک میں بھی ارتکازِ دولت اور سرمایہ دارانہ نظام اپنے عروج پر ہے لیکن وہاں بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی ہر شہری کے لئے ممکن بنا دی گئی ہے۔ تعلیم، معاش اور ترقی کے ہر میدان کو مسابقت کیلئے کھلا رکھا گیا ہے، میرٹ پر اقربا پروری، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کو ترجیح نہیں دی جاتی، یہ خرابیاں یقینا وہاں بھی ہیں، لیکن ایک حد کے اندر ہیں۔
سماجی مسئلہ:
ان سانحات کا ایک سبب متضاد رویوں پر مبنی ہمارے سماجی حالات، گھریلو ناچاقیاں، شادی کے مسائل پر والدین اور اولاد میں موافقت کا نہ ہونا ہے۔ ایک دوسرے کے نقطۂ نظر سے مطابقت پیدا کرنے سے کلی انکار اور ایثار و تحمل کا فقدان اس کا سبب ہے۔ ایک طرف ہمارے ہاں کافی حد تک آزاد روی رائج ہو گئی ہے، بیشتر تعلیمی اداروں میں نظامِ تعلیم مخلوط ہے، رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا نے پوری کر دی ہے، بلکہ اس نے تو غضب ہی ڈھا دیا ہے اور اب ہماری دیہی آبادی کا غالب حصہ بھی اس کی زد میں ہے۔ یہ وہ فحاشی ہے جو جبراً مسلط کر دی گئی ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اپنے دل کو یوں تسلی دیتے ہوں کہ ہماری بچیاں نقاب اوڑھ کر جاتی ہیں، بلاشبہ اخلاقی تنزل کے اس دور میں یہ جہاد ہے اور بڑے اجر کی بات ہے لیکن جہاں انہیں جانا ہے، وہاں تو ماحول بے حجاب بلکہ بے قابو ہے۔ جب ماحول میں ایمان و عرفان اور نورانیت کی بہاریں اپنی اوج کمال پر تھیں، اس عہدِ مبارک میں احتیاط کا عالم یہ تھا ''حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں: حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے کہ میں اور حضرت میمونہؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھیں کہ نابینا صحابی عبد اللہؓ بن ام مکتوم حاضر خدمت ہوئے، حضورﷺ نے فرمایا ''تم دونوں پردہ کرو‘‘، میں نے عرض کی: یارسول اللہ! وہ تو نابینا ہیں، نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا: کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم دونوں ان کو دیکھ نہیں رہی ہو؟ (سنن ترمذی :2778)‘‘۔
میری والدین سے دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت پر بچپن سے توجہ دیں، انہیں حالات اور ماحول کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ فقہ حنفی میں نکاح کے لیے لڑکے لڑکی کی رضا مندی ضروری ہے اور سر پرست (ولی ) کے حقوق کا بھی تحفظ کیا گیا ہے، دونوں میں کافی حد تک توازن ہے۔ اگر رشتے کے سلسلے میں بیٹے یا بیٹی کا انتخاب درست ہے تو اسے قبول کیجیے، نامناسب ہے تو دلائل سے اپنی اولاد کو قائل کیجیے، اگر وہ تسلیم کر لیں تو آپ کی خوش نصیبی اور ان کی سعادت مندی ہے اور کسی صورت نہ مانیں تو ذہنی مطابقت کی صورت پیدا کیجیے۔ عالم شباب میں انسان جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے، اولاد کی غلطی کا امکان اسی فیصد تسلیم کر لیا جائے، تو والدین بھی تو خطا سے معصوم نہیں ہیں، بیس فیصد غلطی کا امکان ان کے فیصلے اور اجتہاد میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں لہٰذا جہاں عقل جواب دے جائے، وہاں معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے اور اس کی تقدیر پر راضی ہوکر مفاہمت و مطابقت کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ گزشتہ سالوں میں کتنے ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنے، والدین، خاندان اور خود بچیوں کی رسوائی ہوئی، قتل و تشدد تک نوبت آ پہنچی، لیکن ناکامی اور رسوائی کے سوا ہاتھ کچھ نہ آیا۔
خودکشی کے ہر واقعے کا انفرادی تجزیہ ضروری ہے:
یہ ضروری نہیں کہ خودکشی کے ہر واقعے کے پیچھے ایک ہی نوعیت کے عوامل کار فرما ہوں، حقائق تک رسائی کیلئے ہر واقعے کا جدا جدا سائنٹیفک تجزیہ ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے بعض واقعات کے پیچھے قتل عمد کا سنگین جرم کار فرما ہو اور خود کشی کی عام لہر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمال عیاری سے اسے خودکشی کا رنگ دے دیا گیا ہو، ماضی میں ہتھوڑا قتل کے واقعات کا ذہانت سے تعاقب کیا گیا تو وہ دانستہ انتقامی قتل کے واقعات نکلے۔ مغربی ممالک میں تفتیش کی عام روش سے ہٹ کر ہر جرم کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بعض اوقات وہ کامیابی پر منتج ہوتی ہے۔
مومن ہمیشہ رجائیت پسند رہے، یاس اور قنوطیت کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ہے ''اے میرے بندو! جنہوں نے (کثرتِ گناہ سے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بیشک اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ (الزمر:53)‘‘ اور فرمایا ''بے شک اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ مایوس ہوتے ہیں۔ (یوسف:87)‘‘۔ مشکلات میں گھرے انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے امید دلائی ہے ''بے شک تکلیف کے ساتھ راحت ہے، بے شک تکلیف کے ساتھ راحت ہے ،(الم نشرح:5-6)‘‘۔
خودکشی پست ہمتی، بزدلی، قنوطیت اور بے عملی کا دوسرا نام ہے، یہ فرد کی پژمردگی اور احساس شکست کی آئینہ دار ہے، یہ صحت مند معاشرے کی علامت نہیں ہے۔ انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ایمان، عزم و ہمت، جذبۂ عمل اور بدی کی قوتوں سے مزاحمت ہے۔ شکست خوردہ ذہنیت کے حامل لوگ خودکشی کی راہ پر چل پڑتے ہیں، کیونکہ ان میں زندگی کے حقائق اور مشکلات کاسامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ زندہ دل، اولو العزم اور قوت ایمانی کے حامل لوگ بلند ہمتی سے مصائب کا مقابلہ کرتے ہیں، گر کر پھر اٹھتے ہیں، دکھ سہتے ہیں، دکھ پالتے نہیں اور آخرکار کامیابی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ جب دین کا تقاضا ہو تو جان صرف ''جاں آفریں‘‘ کے نام پر دینی چاہیے۔ مظلوم اور کمزور طبقات ایمانی قوت سے سرشار ہو کر اللہ کے دین کی سربلندی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں، اگر اللہ کا دین اور نظامِ مصطفیﷺ اپنی اصل، کامل اور جامع شکل میں نافذ ہو جائے تو پھر سب کیلئے عافیت ہو گی، ہرایک کے دکھ کا درماں اور درد کا مداوا ہو گا۔ دنیا بھی سکون کا گہوارہ بنے گی اور عاقبت بھی سنور جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں