"MMC" (space) message & send to 7575

اشارات

ایک بزرگ کالم نگار نے چکوال کے کسی صاحبِ نظر کی یہ پنجابی نظم نقل کی ہے:
اساں دے گرائیں چِ نِکّے نِکّے چِٹّے چِٹّے جِن آگئے نوں٭ٹُکر اُوہناں چنگا نہ لگے ٭بِلّیاں کتّے ،کھوتے، کالے سَپ کھاگئے نوں٭ اساں دے گرائیں چِ نِکّے نِکّے چِٹّے چِٹّے جِن آگئے نوں٭بابا آکھے چوکی دیسن ٭بے بے آکھے بجلی لاسن ٭چاچا آکھے کنڑک کپیسن ٭ڈھاکے چھپری کوٹھا پَیسن ٭دادا اگوں ہس کے آکھے کوٹھا چاہڑ کے اِتھے ہی رہسن٭کھوتے ،کتّے ،چوہے کھاکے ، چھیکڑ بندے کھیسن ٭اسی سارے گلے بَنساں ٭جِنّ مالک بَن ویسن 
ترجمہ:''ہمارے گائوں میں چھوٹے چھوٹے، سفید سفید جنات آگئے ہیں ٭انہیں روٹی بالکل نہیں بھاتی ٭ وہ بلیاں، کتے، گدھے اور کالے سانپ کھاتے ہیں٭ہمارے گائوں میں چھوٹے چھوٹے، سفید سفید جنات آگئے ہیں٭ابا کہتے ہیں: یہ ہماری چوکیداری کریں گے ٭اماں کہتی ہیں: یہ ہمیں بجلی مہیا کریں گے٭ چچا کہتا ہے: یہ ہماری گندم کاٹیں گے٭پھر چھَپر گرا کر ہمیں پکا گھر بنادیں گے ٭آگے سے دادا ہنس کرکہتا ہے: وہ پکا گھر بناکے یہیں رہیں گے٭پھر گدھے ،کتّے، چوہے کھاکر آخر میں بندوں کو بھی کھاجائیں گے٭پھرہم سارے غلام بن جائیں گے اور جن ہمارے مالک بن جائیں گے ‘‘۔ہم نے جگہ کی قلت کے پیشِ نظر اس پنجابی کلام کو نظم کی طرز پر لکھنے کی بجائے مسلسل لکھا ہے اورنظم کے مصرعوں میں فصل کے لیے بطورِ علامت ٭بنایا ہے تاکہ اہلِ زبان نظم سے صحیح طور پر لطف اندوز ہوسکیں ۔
عام اصطلاح میں مشرقِ بعید کے لوگوں کو زرد کھال والے کہاجاتا ہے ،یہ بالعموم پست قامت ہوتے ہیں،چکوال کے شاعر نے اپنے ذوق کے مطابق انہیں چھوٹے چھوٹے سفید جنّات سے تعبیر کیا ہے۔اس سے مراد ہمارے برادر ملک چین کے لوگ ہیں جو آج کل سی پیک کی وجہ سے کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔سی پیک کو ہمارے ہاں اقتصادی ترقی کی روشن علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے ، بظاہر اس کا جواز موجود ہے ،ہماری دعا ہے کہ یہ منصوبہ ہمارے لیے کامیابیوں کے وسیع امکانات کا وسیلہ ثابت ہو ۔ اس منصوبے کے ذریعے چین وسطی ایشیا کے راستے یورپ اورافریقہ تک رسائی چاہتا ہے، اپنی درآمدات اوربرآمدات کو گوادر پورٹ سے منسلک کرناچاہتا ہے۔لیکن چین نے اس پر مکمل انحصار نہیں کیا ،بلکہ ایک متوازی منصوبہ ون بیلٹ ون روڈبنایاہے، جو پاکستان کی شمالی سرحد سے تاجکستان کے راستے وسطی ایشیا میں داخل ہوگا،یعنی اگربالفرض پاکستان میں بے امنی کے ممکنہ خطرات یا افغانستان میں پرامن گزرگاہ دستیاب نہ ہونے کے سبب سی پیک کووسطِ ایشیا تک آپریٹ کرنے اور پورے منافع سمیٹنے میں دشواری پیداہوئی تو اوبورکا متبادل روٹ موجود رہے گا۔ بظاہر مستقبلِ قریب میں افغانستان کے پرامن ہونے کے آثار نہیں ہیں ، چین اپنے طور پر اس کے لیے کوشاں ہے ، اس نے کسی طورپر طالبان سے روابط بھی قائم کر رکھے ہیں ۔امریکہ کی طرف سے الزام لگایا جارہا ہے کہ اب روس بھی طالبانِ افغانستان کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ انہیں اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے۔مگر روس کے مقاصد چین سے جزوی مطابقت رکھتے ہیں ،کیونکہ روس افغانستان میں امریکہ کی اُسی طرح رسوائی چاہتا ہے ،جیسی ماضی میںسوویت یونین کے حصے میں آئی ، یہ مقصدوہ افغانستان کی داخلی جنگ کو طول دے کر حاصل کرسکتا ہے، جبکہ چین کا مفاد پُرامن افغانستان میں ہے ،جو اُس کا حلیف ہو۔روس اپنے مقاصدحاصل کرپائے گا یا نہیں ، اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے ،مگر یہ خواہش فطری ہے۔روس سوویت یونین کی شکست وریخت کے صدمے سے نکل رہا ہے اورپیوٹن کی قیادت میں دوبارہ سپرپاور بننے اور عالمی تزویری سیاست میں موثر حصہ لینے کے لیے کوشاں ہے ،جبکہ چین کی اولین ترجیح عالمی سطح پر ہر آویزش سے بچتے ہوئے اقتصادی سپر پاور بننا ہے ،کیونکہ معاشی قوت کے بغیر محض فوجی طاقت کے بل پر دنیا پراثرانداز ہونا بظاہر مشکل نظر آرہا ہے ، سوویت یونین کا زوال اس کا واضح ثبوت ہے،حالانکہ اُس وقت تک سوویت یونین کے پاس اسلحے کے ذخائر کی کمی نہیں تھی ،مگر اقتصادی قوت مضمحل ہوچکی تھی اور وہ کسی بڑی جنگ کا بوجھ اٹھانے کامتحمل نہیں تھا۔
ہمارے ہاں سی پیک کے بارے میں کوئی منفی بات پسندیدہ امر نہیں ہے، اس کا جواز بھی موجود ہے کہ ماضی میں ہمارا انحصار امریکہ پر رہا ہے ،تاحال ہم اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہیں ،بدستور استعمال ہورہے ہیں ،مگر اب فریقین کے درمیان بے اعتمادی ہے ، امریکہ نے اسلحہ اور نقد امداد روک رکھی ہے اور مسلسل دھمکیاں دے رہا ہے ۔ پہاڑوں اور غاروں میں رہنے والے طالبان پر تو یہ دھمکیاں اثر انداز نہیں ہوتیں ،لیکن ان دھمکیوں کو روبہ عمل لانے کے نتائج کا تصور ہمارے لیے ہوش رُبا ہے ۔امریکہ اب یقینا دوست نہیں رہا ،لیکن اس کی دشمنی کو سہارنا بھی ہمارے لیے آسان نہیں ہے ۔چنانچہ 16جنوری کو ایوانِ صدر میں،میں نے صدرِ پاکستان ، وفاقی وزراء ،مقتدرہ کے ذمے داران ، علمائے کرام واہلِ فکر ونظر کی موجودگی میں کہا تھا :ہوسکے توسابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کا یہ قول لکھ کر اپنی میز پر رکھ دیں:''اگر تم امریکہ کے دشمن ہو تو محتاط رہو اور اگر تم امریکہ کے دوست ہو تو بہت زیادہ محتاط رہو‘‘۔سو آج کی بری خبر یہ ہے کہ ہم امریکہ کے قریبی دوست ،اتحادی اور عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اُس کے شریکِ کار ہیں ،لہٰذا ہمیں نہایت محتاط رہنا ہوگا اوردوستی کی قیمت چکانا ہوگی۔ہاں ! جس دن امریکہ اپنی سرپرستی سے ہمیں آزاد کردے گا، اپنا دستِ شفقت ہمارے سر سے اٹھالے گا، تو وہی صحیح معنی میں ہماری صبحِ آزادی ہوگی، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے وسائل پر جینا سیکھنا ہوگا ۔
یہ امر مسلّم ہے کہ چین ہمارا دوست ہے،مشکل وقت میں ہمارے کام آتارہا ہے ۔پہلے ہمارے دفاعی اسلحے کا انحصار امریکہ پر تھا، لیکن اب امریکہ نے ہاتھ کھینچ لیا ہے،لہٰذا اب ہم چین پر انحصار کر رہے ہیں ، روس سے رابطہ کر رہے ہیں اور متبادل ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہیں،اگرچہ کوالٹی کے اعتبار سے امریکی اسلحے کو اب بھی برتری حاصل ہے ۔لیکن ظاہر ہے کہ ملکوں کی دوستی اوردشمنی اپنے قومی مفادات کے تابع ہوتی ہے،ترجیحات کے بدلنے پربعض اوقات دشمن دوست بن جاتے ہیں اوربے رخی اختیار کرنے میں ماضی کے دوست بھی دیر نہیں لگاتے۔
8اپریل2017ء کو ''پاکستان کے بین الاقوامی معاہدات‘‘ کے عنوان سے میں نے ایک کالم لکھا تھاکہ ہم معاہدہ کرتے وقت انتہائی عُجلت میں ہوتے ہیں ،اس کے متن اور بینَ السطور پرباریک بینی سے غور نہیں کرتے ، قانونِ بین الاقوام کے ماہرین سے رہنمائی نہیں لیتے اور بعد میں یہ معاہدے ہمارے گلے کی زنجیر اور پائوں کی بیڑیاں بن جاتے ہیں ۔ حال ہی میں آسٹریلین کمپنی ٹیتھان کے ساتھ رِکوڈک اور ترکی کی کمپنی کے ساتھ رینٹل پاور معاہدے کی یک طرفہ تنسیخ پر عالمی ثالثی کونسل نے پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کیا ہے ،یہ ہمارے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدالتی فَعالیت کے آفٹر شاکس ہیں،اس سے ہمارے اُس دور کے قابلِ احترام چیف جسٹس کی آئینی اور قانونی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سو قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ چین کے ساتھ معاہدات کو بھی پبلک کیا جائے اورقانونِ بین الاقوام کی رُو سے اگرکوئی سُقم ہے اورہم پر کوئی ایسی یک طرفہ بندش ہے توابھی وقت ہے کہ چین کی مدد سے اُسے درست کیا جائے تاکہ مستقبل میں پاکستان پر کوئی آفت نہ ٹوٹے ۔اس وقت چین کے قومی اورعالمی مفادات نے پاکستان کو چین کے لیے ایک ضرورت بنادیا ہے ،کیونکہ امریکہ اور یورپ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے بھارت کو تقویت پہنچارہے ہیں اور چین کی مخالفت کے سبب ہی آج بھارت امریکہ اور مغرب کا منظورِ نظر ہے ۔
پس پنجابی نظم میں بھی ایک پیغام مستور ہے کہ چین کے ساتھ جو معاہدات ہورہے ہیں ،ان کے مابعد اثرات کا جائزہ لینا چاہیے ،دوستی یقینا مقدم ہے ،اہم ہے ،ہماری ضرورت ،بلکہ ایک حد تک مجبوری ہے ،لیکن طویل اور دیرپا قومی مفادات سب پر مقدم ہیں ۔ دوستی کی آڑ میں کسی ملک یا قوم کے باشندوں کو قانون سے ماورا سہولتیں دینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ حال ہی میں چینی باشندوں نے ڈی کوڈ کر کے یا کسی جدید تکنیک کے ذریعے کراچی میں بنکوں کی اے ٹی ایم مشینوں سے بڑی رقوم نکالی ہیں ۔جس طرح شخصی معاملات میں ضرورت ،حاجت ،آسائش اور تعیُّش کے درجات ہوتے ہیں ،پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی حیثیتیں بدلتی رہتی ہیں کہ ایک وقت میں ایک چیز انسان کے لیے تعیُّش ہے ،لیکن حالات بہتر ہونے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی چیز ضرورت بن جاتی ہے، یہی حال اقوام کے تعلقات کا ہے ۔کل ہم جہادِ افغانستان میں امریکہ کی ضرورت تھے ،انتہائی قابلِ اعتماد دوست تھے ، مگر آج ہماری حیثیت وہ نہیں رہی ،سو چین سے معاملات طے کرنے میں بھی ہمیں اپنے دیرپا مفاد کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ کسی دوست ملک سے یہ توقع بھی عَبث ہے کہ وہ اپنے ہرنفع نقصان سے ماورا ہوکر عالمی میدان میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوگا، اس کی واضح مثال برِکس میں چین کا ہمارے خلاف ووٹ، پھر فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس میں چین اورسعودی عرب کا ہمارے خلاف ووٹ دینا ہے، حالانکہ ہمارے فوجی افسران اور جوان سعودی عرب کے دفاع کے لیے آج بھی اُن کی سرزمین پر موجود ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں