آج کل دین ومذہب ہی ایسا شعبہ رہ گیا ہے کہ جس پر ہر شخص ماہر بن کر کلام کرسکتا ہے ،دین میں بیان کردہ حقائق کو مَن پسند تعبیر دے سکتا ہے ،ہر شعبے کے بارے میں بات کرنے کے لیے اس کا ماہر ہونا ضروری ہے ،لیکن دین کے حسّاس معاملات پر بات کرنے کے لیے اب ہمارے ہاں کسی کم از کم معیارِ علم کی ضرورت بھی نہیں محسوس کی جاتی ،بس گفتار یا تحریر کا ماہر ہونا کافی ہے ،عمارت کا نقشہ بنانے کا لائسنس صرف آرکیٹکٹ کے پاس ہوتا ہے ،حسابات کو آڈٹ کرنے کا لائسنس صرف چارٹرڈ اکائوٹنٹ یا اُس کے مساوی حسابیات کی ڈگری رکھنے والے کے پاس ہوتا ہے ،آپریشن کرنے اور انسانی بدن کی چیر پھاڑ اورقطع وبُرید کرنے اورپیوند کاری کرنے کا لائسنس صرف سرجن کے پاس ہوتا ہے ،لیکن مذہب پر حتمی رائے دینے اور ماہرانہ گفتگو کرنے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دینی موضوعات پر ہر کوئی مشقِ ناز کرسکتا ہے اور ستم ڈھاسکتا ہے ۔
احادیثِ مبارکہ میں ''کتاب الفِتَن ‘‘کے عنوان سے قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے فتنوں کا ذکریقینا آیا ہے ، اسی طرح ''اَشْرَاطُ السَّاعَۃ‘‘ کے عنوان سے علاماتِ قیامت کا بیان بھی آیا ہے ،منجملہ علاماتِ قیامت میں سے دجال کا خروج بھی ہے، لیکن اِن فتنوں اور علاماتِ قیامت کا قطعی مصداق متعیّن کرلینا نہایت مشکل امر ہے ۔آج کوئی صاحبِ علم جس چیز کو قطعی اور حتمی مصداق قرار دے رہا ہے ،اگر اس کے ظہور کے باوجود صبحِ قیامت طلوع نہ ہوئی ،تو لوگ دین کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجائیں گے ،لہٰذا اہلِ علم ودانش سے گزارش ہے کہ ازراہِ کرم اس مشقِ ناز سے گریز فرمائیں تو بہتر ہے ۔ ہمارا کام فقط اتنا ہے کہ قیامت سے پہلے ظہور میں آنے والے فتنوں اور علاماتِ قیامت کے بارے میں جو کچھ قرآنِ کریم کی آیات کریمہ اور احادیثِ مبارکہ میں بیان ہوا ہے، مفسرینِ کرام، محدثین کرام اور اکابرِ امت کے علمی فیوض سے استفادہ کرکے مناسب تشریح کے ساتھ ان امور کو بیان کردیں ،حقیقی اور قطعی مصداق کے تعیّن کا اپنے آپ کو مکلف نہ بنائیں۔ نیز یہ بھی کہ ان اخبارِ احاد کا فنی اعتبار سے جو مقام ہے ،وہ بھی بیان کردیں۔
مثلاً :سورۃ القمر میں ہے :''قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا ،(القمر:1)‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو بطورِ مثال دکھاتے ہوئے فرمایا: '' قیامت میری بعثت کے اتنے ہی قریب ہے ،جیسے (ہاتھ کی )دو انگلیاں ، (صحیح البخاری:6505)‘‘۔ یعنی جس طرح یہ دونوں انگلیاں قریب ہیں ،اسی طرح میری بعثت قربِ قیامت کی دلیل ہے،اس کا ایک معنی یہ ہے :میں خاتم النبیین ہوں اور میرے اورقیامت کے درمیان اب کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔نیز یہ کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی دو مبارک انگلیوں کے اشارے سے زمان ومکان کے اعتبار سے کتنی صدیوں یاہزاریوں کو تعبیر فرمایا ہے اور نہ ہی ہمیں یہ حق ہے کہ ہم کہہ دیں کہ قُربِ قیامت کی آخری علامت ظاہر ہوچکی ہے ۔گزشتہ چند سالوں سے بعض اسکالرز، انتہائی پڑھے لکھے کالم نگار یا علمائے کرام کبھی غزوۂ ہند ،کبھی غزوۂ شام (جس میں غُوطہ بھی شامل ہے)اور کبھی دیگر آثار کی طرف اشارہ کر کے یہ بتاتے رہے ہیں کہ قیامت کی ساری نشانیاں ظاہر ہوچکیں اورگویا اب قیامت آیا ہی چاہتی ہے ۔بعض حضرات غُوطہ کو آثارِ قیامت کے حوالے دے کر ناقابلِ تسخیر قرار دیتے رہے ہیں ،ہماری دعا ہے کہ یہ کبھی تسخیر نہ ہو ،لیکن کوئی حتمی دعویٰ کرنا مشکل ہے ۔ایسی تعبیرات کو سن کراور پڑھ کر بہت سے ناپختہ ذہن فرموداتِ نبوی کے بارے میں تشکیک میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔
یہی صورتِ حال دجّال کے بارے میں ہے ،1967کی عرب اسرائیل جنگ کے زمانے میں اسرائیل کاوزیرِدفاع موشے دایان بائیں آنکھ سے کانا تھا،تو لوگوں نے اسے دجّال قرار دے دیا،حالانکہ ایک موقع پرنبی کریم ﷺ نے لوگوں کے سامنے دجال کا ذکر کیااورفرمایا:''سنو! مسیح دجّال کی دا ہنی آنکھ کانی ہوگی ،گویا اُس کی آنکھ پھولے ہوئے انگور کی طرح ہوگی ،(صحیح مسلم: 169)‘‘اور آپ ﷺنے فرمایا:''ہر نبی نے اپنی امت کو کانے کذاب سے خبر دار کیا ہے ،سنو! وہ بلاشبہ کانا ہوگا اور تمہارا رب کانا نہیں ہے ،(صحیح مسلم:2933)‘‘۔احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں جمہورِ علمائے امت دجّال کو ایک معیّن شخص سمجھتے ہیں، لیکن آج کل ایسے اسکالرز موجود ہیں جو بحیثیتِ مجموعی امریکہ اور مغرب کی سائنس و ٹیکنالوجی اور مادّی غلبے کو ''دجّال‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ،دجّال بھی الوہیت کا مدّعی ہوگا ، اس وقت مغرب بھی اس بات کا مدّعی ہے کہ حق وباطل وہی ہے جس کا تعین وہ اپنی اجتماعی دانش سے کریں ،اس کے مقابل وہ کسی بھی معقول دلیل کو سننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اُن کا دعویٰ ہے :وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں ،کوئی اُن کا راستہ روکنے والا نہیں ، وہ عَلانیہ تو الوہیت کا دعویٰ نہیں کرتے، لیکن عملاً اُن کا شِعار یہی ہے ۔ایک معروف اسکالر نے تو کلوننگ یعنی ایک جاندار کے سیل سے دوسرا جاندار پیدا کرنے کے دعوے کی تعبیر یہ بیان کی کہ دجال کے ''اِحیائِ موتیٰ ‘‘کی علامت کا بھی ظہور ہوگیا ہے ۔اس کے برعکس جمہورِ امت کا عقیدہ علامہ اُبّی مالکی کے الفاظ میں یہ ہے :
'' اس باب کی احادیث سے اہلسنت وجماعت نے یہ استدلال کیا ہے کہ دجّال ایک معیّن شخص ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سبب بندوں کوآزمائش میں مبتلا کرے گا،اس کو چند اشیا پر قدرت دے گاتاکہ اس آزمائش کے ذریعے اچھوں کو بروں سے ممتاز فرمادے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُس کے امر کو باطل فرمادے گا، اُس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام قتل کردیں گے اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھے گا۔ خوارج،جَہْمِیّہاور بعض معتزلہ نے دجال کا انکار کیا ہے ،البتہ معتزلہ میں سے جبائی اور اس کے تابعین نے دجّال کے وجود کا اعتراف کیاہے،تاہم انہوں نے یہ کہا کہ دجّال کے ہاتھوں پر جو خارقِ عادت امور ظاہر ہوں گے ،وہ اس کی شعبدہ بازی ہوگی، کیونکہ اگر یہ حقائق ہوں تو اس سے نبوت پر طعن ہوگا۔
لیکن یہ ان کا وہم ہے، کیونکہ دجال نبوت کا دعویٰ نہیں کرے گا کہ ان خارقِ عادت امور سے العیاذ باللہ !اس کا صادق ہونا لازم آئے۔ وہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا اور اس دعوے کا جھٹلانے والاوہ خود ہی ہوگا، کیونکہ اس کی ذات میں نَقص اور حادث (مخلوق)ہونے کی علامتوں کا ظہور ہوگا ، وہ اپنی ذات سے اس نَقص کو دور کرنے سے عاجز ہوگا،کسی بھی مومن کو اس کے دعوے کے جھوٹا ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوگا۔دجال کی پیروی بعض لوگ کفر کی وجہ سے کریں گے (یعنی وہ مرتد ہوجائیں گے)،بعض (اپنی جان بچانے کے لیے )اضطرار کی وجہ سے کریں گے اور بعض اس کے خوف سے تقیہ کرتے ہوئے اس کی اتباع کریں گے ۔تقیّہ کا مطلب یہ ہے کہ دل سے تو اس کو جھوٹا مانیں گے ،لیکن جان بچانے کے لیے ظاہر میںاس کی تائید کریں گے۔ دجال کی صورت میں بہت بڑے فتنے کا ظہور ہوگا ، پہلی بار اس کو دیکھ کر بہت سے لوگ دہشت زدہ ہوجائیں گے اور ان کی عقل کام نہیں کرے گی۔وہ تیز آندھی کی طرح سرعت سے زمین پر چلے گا اور جس شخص کی نظر اور بصیرت کام نہیں کرے گی، وہی اس کی تصدیق کرے گا،(اکمال اکمال المعلم،ج:7،ص:264،بتصرف)‘‘۔
حضرت امام مہدی کے بارے میں اہلِ تشیُّع کا عقیدہ ہے کہ وہ بچپن میں سامرّا کے ایک غار میں روپوش ہوگئے تھے اور قیامت سے پہلے اُن کا ظہور ہوگا، چنانچہ وہ انہیں امام غائب،امام منتظَر اورامام الزماں بھی کہتے ہیں ،جبکہ اہلسنت وجماعت کے نزدیک وہ آلِ رسول میں سے ہوں گے ،وہ قیامت سے پہلے پیدا ہوں گے ،ان کا نام محمد ہوگا،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے لیے وہ موقع کیسا (باعثِ افتخار)ہوگا کہ (عیسیٰ)ابن مریم تمہارے درمیان نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا، (صحیح مسلم:7680)‘‘۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ختم المرسلین ﷺ کے امتی کی حیثیت سے آئیں گے ، پس آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ،عنقریب ابن مریم تمہارے درمیان نازل ہوں گے ، وہ عادل حکمران ہوں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے ،خنزیر کو قتل کریں گے ،جزیے کو ساقط کریں گے اور مال کو (فراوانی سے)بہائیں گے حتیٰ کہ اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا،(صحیح البخاری:2222)‘‘۔یعنی لوگوں کے دل مال کی محبت سے سیر ہوجائیں گے اور مال کی ہوس ختم ہوجائے گی ۔
ہم نہایت ادب کے ساتھ اُن تمام اسکالرز ،مذہبی جذبات سے معمور کالم نگاروں اور قابلِ احترام علماء سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ قیامت سے پہلے ظہور پذیر ہونے والے فتنوں اور علاماتِ قیامت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جو بیان فرمایا ،مناسب تشریح کے ساتھ اس کا ابلاغ ضرور کریں تاکہ لوگوں کے دلوں میں خَشیتِ الٰہی پیدا ہو،آخرت کی یاد تازہ ہو ، وہ بہکنے اور بھٹکنے سے محفوظ رہیں، لیکن ان فتنوں اور علاماتِ قیامت کا مصداق قطعیت کے ساتھ طے نہ کریں ۔ہم نہیں جانتے کہ مستقبل کے پردے میں کیا مستور ہے ،آگے کیا کیا ظہور میں آئے گا ،غیب کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ،ہمارے لیے مصداق کے تعیُّن میں احتیاط بہتر ہے۔ ان سطور کے لکھنے کی نوبت اس لیے آئی کہ بہت سے لوگ ایسی تحریریں پڑھ کر تصدیق وتائید کے لیے یا حقیقتِ حال جاننے کے لیے ہم سے رجوع کرتے ہیں ،ہم کتبِ احادیث سے اصل روایات کی توتصدیق کرسکتے ہیں ،لیکن مصداق کا تعین قطعیت کے ساتھ نہیں کرسکتے ، حال ہی میں شام کے حالات کے حوالے سے ایک بڑے صاحبِ علم بھی اس طرح کے مصادیق کا ذکر کرتے رہے ہیں ، نہایت ادب کے ساتھ اِن صاحبانِ علم سے گزارش ہے کہ ایسی بات ہرگز نہ کریں جو خدانخواستہ منفی نتائج کی حامل ہو اورآج کل کی اصطلاح میں بیک فائر ہواور نہ ہی ہم شریعت کی رُو سے اس امر کے پابند ہیں۔