"MMC" (space) message & send to 7575

شعبان المعظم اور شبِّ برات…(آخری قسط)

جامع ترمذی میں ''بَابُ مَاجَآئَ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ‘‘ کے تحت شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روایت کی گئی ہے۔ اس پر بحث کرتے ہوئے مشہور اہلِ حدیث عالم شیخ عبداللہ مبارک پوری لکھتے ہیں: ''جان لو کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں۔ یہ احادیث بحیثیتِ مجموعی اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ (شریعت میں) اس کی اصل موجود ہے۔ پھر انہوں نے اس رات کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ذکر کرکے ان پر کلام کیا ہے اور آخر میں لکھتے ہیں: ''اور ان روایات کا مجموعہ ان لوگوں پر حُجت ہے، جو یہ گمان کرتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت کے بارے میں دین میں کوئی بات ثابت نہیں ہے‘‘، (تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی، جلد:2، ص:52-53)‘‘۔ یہ ان کی بحث کا خلاصہ ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں: ''ہمارے والد صاحب فرماتے تھے کہ ان احادیثِ مبارَکہ کی روشنی میں زندگی میں کم از کم ایک بار شعبان کی پندرہویں شب کو ضرور قبرستان جانا چاہیے‘‘۔ تاہم احادیث میں ایسی کوئی تحدید نہیں ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ علمائے کرام کسی نہ کسی درجے میں اس رات کی فضیلت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن پھر عوام کے مساجد میں نفلی عبادات اور مجالس وعظ کے لیے جمع ہونے کے رجحان کو بدعت بھی قرار دیتے ہیں، یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم بھی اس رات میں قیام، عبادات، تلاوت و ذکر و اذکار اور تسبیحات و درود کو فرض یا واجب قرار نہیں دیتے، یہ باتیں سنت و مستحب ہیں، ہم ان کے التزام کی تلقین یا تاکید نہیں کرتے، صرف ترغیب دیتے ہیں اور نہ ہی ترک پر کسی کو ملامت کرتے ہیں، یہ بھی اصولِ شرع کے خلاف ہے، البتہ جواز و استحباب احادیث و روایات میں موجود ہے۔ سو شریعت میں جس بات کا ثبوت جس درجے میں ہو، اُسے مان لینا چاہیے، ہر بات کو مسلمانوں کے درمیان محلِ نزاع نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی ماننے والوں کو حد سے تجاوز کرنا چاہیے۔ 
ان احادیث کی روشنی میں ہمارے اس خطے میں شعبان کی پندرہویں شب کو اپنے مرحومین کی قبور پر جانے کی روایت ہے اور یہ اچھی بات ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے (ابتدائے اسلام میں) تمہیں قبرستان جانے سے روکا تھا، سو اب تم جایا کرو، کیونکہ اس سے دنیا کی ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے، (سنن ابن ماجہ:1571)‘‘۔ دنیا سے کسی قدر بے رغبتی اور آخرت کی یاد شریعت کا مطلوب ہے، پس جب قبرستان جائیں تو آخرت کا تصور ذہنوں میں تازہ کریں کہ یہ اہلِ قبور بھی کبھی بڑی شان و شوکت والے تھے، حسین و جمیل مکانات میں رہتے تھے، پُر تعیّش زندگی گزارتے تھے، اب چھ فٹ کے گڑھے میں لیٹے ہوئے ہیں، دنیا کی ساری عشرتیں اور قرابت کے رشتے اسی دنیا میں رہ گئے، میر تقی میر نے کہا تھا:
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخواں شکستوں سے چُور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر 
میں بھی کبھو کُسُو کا سرِ پرغرور تھا
بہت سے لوگ زائرین کی سہولت کے لئے قبرستان کی صفائی کرتے ہیں، یہ بھی اچھی روایت ہے، کیونکہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز (یعنی پتھر، کنکر، کانٹے، موذی حشرات الارض وغیرہ) کے ہٹا دینے کو رسول اللہﷺ نے ایمان کا ایک حصہ قرار دیا ہے اور اگر کوئی اسپرے بھی کر سکے تو اس کی وجہ سے حشرات الارض اور موذی جانوروں سے لوگ محفوظ رہیں گے، جدید دنیا ویسے بھی ماحولیاتی تطہیر کو بڑی اہمیت دے رہی ہے اور ماحولیاتی آلودگی کو ایک بڑا مسئلہ قرار دے رہی ہے۔ کچھ لوگ قبرستان میں چراغاں کرتے ہیں، زائرین کی سہولت کے لئے روشنی کا انتظام کرنا اچھی بات ہے، لیکن اس کا شبِ برات سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ہے کہ اسے محض اس رات کے لیے خاص سنت یا عبادت سمجھ کر کیا جائے، یہ انتظام مستقل اور ضرورت کی حد تک ہونا چاہیے، اس میں اِفراط درست نہیں ہے۔ اہلِ قبورکو جو نور کام آتا ہے، وہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کا نور ہے اور اہلِ قبور کو ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے اس خطے میں شب برا ت کے موقع پر آتشیں کھلونوں سے بچے کھیلتے ہیں، یہ ناجائز ہے اور کم از کم مکروہِ تحریمی ہے۔ ملکی قانون کی رو سے بھی آتشیں کھلونے بنانا، انہیں ذخیرہ کرنا اور بیچنا منع ہے اور مفادِ عامّہ کے قوانین کی پابندی شرعًا بھی مستحسن اور بعض صورتوں میں ضروری ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ محض دولت کمانے کے لیے غیر شرعی اور غیر قانونی کام کرتے ہیں۔
ایصالِ ثواب کے لیے غریبوں کو کھانا کھلانا اچھی بات ہے، لیکن شبِ برات کے حوالے سے حلوہ پکانا اور بانٹنا ہمارے خطے کا ایک رواج ہے جو شریعت میں منع تو نہیں ہے، لیکن یہ شرعًا لازم بھی نہیں ہے۔ شب برات کے لئے کوئی خاص عبادت منقول نہیں ہے، نوافل، تلاوتِ قرآنِ کریم، اَذکار و تسبیحات و درود میں سے جس کی بھی توفیق و سعادت نصیب ہو، قابلِ تحسین ہے۔ میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ اِن مبارک راتوں میں اور جب بھی موقع ملے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق کی ارزانی ہو، تو ماضی کی قضا نمازیں پڑھنی چاہییں۔ حدیث مبارک میں ہے: '' غزوۂ خندق کے دن رسول اللہﷺ کی چار نمازیں مشرکینِ مکہ (کے محاصرے) کی وجہ سے جاتی رہیں، یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ گزر گیا، پھر آپﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، اُنہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو رسول اللہﷺ نے پہلے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی گئی اور عصر کی نماز پڑھائی پھر اقامت کہی گئی تو مغرب کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہی گئی تو عشاء کی نماز پڑھائی، (سُنن ترمذی: 179)‘‘۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ''سنن مؤکدہ کے سوا دیگر نوافل پڑھنے سے قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول رہنا اولیٰ اور اہم ہے، (عالمگیری، جلد:1،ص:125)‘‘۔ حضرت حسن بصری سے سو رکعات پر مشتمل ''صلوٰۃ الخیر‘‘ منقول ہے، بعض مفسرین نے بھی اسے نقل کیا ہے اور ''غنیۃ الطالبین‘‘ میں بھی اس کا حوالہ موجود ہے۔ 
امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ''شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے، نادان سمجھتا ہی نہیں، نیک کام کر رہا ہوں اور نہ جانا کہ نفل بے فرض نرے دھوکے کی ٹٹی ہے، اِس کے قبول کی امید تو مفقود اور اس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز! فرض، خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجیے، وہ قابلِ قبول ہوں گے؟، خصوصاً اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے، (فتاویٰ رضویہ، جلد:10 ص:178، مطبوعہ: رضا فائونڈیشن، لاہور)‘‘۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''اگر فرض چھوڑ کر سنت و نفل میں مشغول ہو گا، تو یہ قبول نہ ہوں گے اور خوار کیا جائے گا‘‘۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں: ''لازم اور ضروری چیز کا ترک اور جو ضروری نہیں اس کا اہتمام عقل و دانش کی رو سے غیر مفید ہے، کیونکہ عاقل کے نزدیک نفع کے حصول سے ضرر کا دور کرنا اہم ہے، (فتوح الغیب مع شرح عبدالحق الدہلوی، ص:273)‘‘۔
میں نے عام روش سے ہٹ کر یہ گزارشات اس لیے کی ہیں کہ دین میں ترجیحات اور اَحکامِ شریعت کی درجہ بندی کو بعض اوقات ہم نظرانداز کردیتے ہیں اور ایک طرح سے یہ عملی تضاد کی صورت بن جاتی ہے۔ فرائضِ شرعی وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کو ہر مسلمان سے مطلوب ہیں، یہ شریعت کا لازمی مطالبہ ہے۔ نفلی عبادات بلاشبہ شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہیں اور قرآن و حدیث میں ان کے بے شمار فضائل بھی آئے ہیں، لیکن نفلی عبادات میں یہ رغبت فرائض کے ترک کا سبب نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی انہیں فرائض کا متبادل سمجھنا چاہیے، البتہ انہیں فرائض کا تکملہ اور تتمّہ سمجھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ محافلِ نعت، میلادالنبیﷺ اور اَعراس کی مجالسِ مبارکہ پر دل کھول کر رقم خرچ کریں گے، لیکن زکوٰۃ جو فریضۂ الٰہی ہے، اُس سے غافل رہیں گے، اس لیے شریعت میں ''اَلاَہَمّ فَالْاَہَمّ‘‘ کی رعایت ضروری ہے۔
بعض مساجد میں لوگ باجماعت صلوٰۃ التسبیح کے نوافل پڑھتے ہیں، فقہائے کرام نے ان کے لیے تداعی کو مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولیٰ قرار دیا ہے اور بعض نے فرمایا کہ جو لوگ پڑھ رہے ہوں ، اُن کو منع نہ کیا جائے۔امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں:
''تراویح کے سوا دیگر نوافل میں امام کے سوا تین آدمیوں تک تو اجازت ہے ہی، چار کی نسبت کتب فقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں، یعنی مکروہِ تنزیہی، جس کا حاصل خلافِ اَولیٰ ہے، نہ کہ گناہ و حرام (جیساکہ ہم نے اس کی تفصیل اپنے فتاویٰ میں دی ہے)۔ مگر مسئلہ مختلف فیہ ہے، بہت اکابر دین سے نوافل کی جماعت کی تداعی ثابت ہے اور عوام فعلِ خیر سے منع نہ کیے جائیں، علمائے امت و حکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے، درمختار میں ہے: ''عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیا جائے، کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں اُن کی رغبت کم ہوتی ہے، بحوالہ البحر الرائق، اسی میں ہے: ''عوام کو ان (ذوالحجہ کے) دس دنوں میں بازار میں تکبیرات پڑھنے سے منع نہ کیا جائے، اسی پر ہمارا عمل ہے، (بحر اور مجتبیٰ وغیرہ)‘‘۔ حدیقہ ٔندیّہ میں ہے: ''صلوٰۃالرغائب کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہیں، اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے، مگر عوام میں یہ فتویٰ نہ دیا جائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر لکھا بھی ہے، عوام کو نماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے، (فتاویٰ رضویہ ،ج:7،ص:465-466)‘‘۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں