امام الصوفیہ حضرت ابوالحسن سید علی بن عثمان ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ کا سلسلۂ نسب حضرت امام حسن کے توسط سے امام الاولیاء و امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ آپ کاعہد مشہور روایات کے مطابق 400ھ تا 465ھ ہے۔ آپ کا مزارِ پرانوار 24گھنٹے مرجعِ خلائق رہتاہے۔ تصوف بنیادی طور پر صفائے قلب اور روح کی جِلا کا نام ہے۔ اسے قرآن وحدیث میں تزکیہ، احسان اور عرفان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت سید علی ہجویری نے صوفیہ کی تین قسمیں بیان کی ہیں :(۱)صوفی (۲) متصوف(۳) مُسْتَصْوِفْ، وہ لکھتے ہیں:
(۱)صوفی وہ ہے جو اپنے وجود سے فانی ہوکر حق کے ساتھ باقی ہوگیا ہو، نفسانی خواہشات اور ان کے تصرف سے آزاد ہوکر حقیقت الحقائق یعنی اللہ تعالیٰ سے واصل ہو گیا ہو، (۲) متصوف وہ ہے جو مجاہدے اور ریاضت کے ذریعے اِس مقام کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور راہِ حقیقت کی تلاش میں اپنے آپ کو صوفیہ کے طریقے پر کاربند رکھتا ہے، (۳) مُسْتَصْوِفْ وہ ہے جو دنیوی منفعت کے حصول اور جاہ و مرتبے کی لالچ میں صوفیہ کی نقالی کر رہا ہو، اسے نہ تو اوپر والے دونوں گروہوں سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی اسے طریقت کے بارے میں کوئی ادنیٰ سی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ مشایخِ کرام نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے: ''مُسْتَصْوِفْ صوفیہ کے نزدیک مکھی کی مانند ہے اور غیر صوفیہ (عوام) کے لیے بھیڑیا ہے‘‘۔ صوفیائے کرام مُسْتَصْوِفْ کو مکھی سے اس لیے تشبیہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ صوفیہ کی نقّالی ہوا و ہوس کی خاطر کرتے ہیں‘ جیسے مکھی کسی چیز پر بھنکتی رہتی ہے اور عوام کے حق میں اس لیے بھیڑیے ہیں کہ بھیڑیے کاکام بھی چیرنا پھاڑنا اور مردار کھانا ہے، یعنی ناجائز طریقے، حیلے اور مکروفریب سے مفادات سمیٹنا ہے۔ الغرض صوفی صاحبِ وصول ہوتا ہے اور متصوف واصل باللہ ہوتاہے اورمُسْتَصْوِفْ صاحبِ فصول یعنی ذاتِ حقِ تعالیٰ اور راہِ حق سے دور ہوتا ہے۔
امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا: ایک شخص شریعت کا عامل نہیں ہے، اَحکامِ شریعت کا تارک ہے، اُس کا مُؤاخَذہ کیاجائے توکہتاہے: ''اَحکامِ شریعت تو وصول اللہ کا ذریعہ ہیں اور میں تو واصل ہو چکا ہوں، یعنی منزلِ حق پر پہنچاہواہوں،لہٰذا میں اب اَحکام کے لیے جواب دہ نہیں ہوں، اُنہوں نے جلیل القدر ائمۂ تصوف کے حوالے سے لکھا: ''ہاں! واصل (پہنچا ہوا) تو ضرور ہے، مگر جہنم میں‘‘ ، مزید لکھتے ہیں: ''صوفیہ کرام فرماتے ہیں: بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہے، اُس کی باگ ڈور شیطان کے ہاتھ میں ہے، وہ اُسے اپنی راہ پہ چلاتا ہے ،حدیث میں ہے:'' بغیر فقہ کے عابد بننے والا ایساہے ،جیسے چکی میں گدھا ،کہ محنتِ شاقّہ کرے اور حاصل کچھ نہیں‘‘۔
حضرت سید علی ہجویری مزید لکھتے ہیں:
''صوفیہ سے متعلق آج کل یہ مصیبت عام ہوگئی ہے، ملحدین کے ایک گروہ نے جب حقیقی صوفیہ کی شان اور قدر ومنزلت دیکھی، تو اپنے آپ کو بھی ان کا ہم شکل بنالیااور کہنا شروع کردیا کہ طاعات وعبادات کی تکلیف اس وقت تک ہے، جب تک معرفت حاصل نہیں ہوجاتی۔ جب معرفت حاصل ہوگئی تو عبادات وطاعات کی تکلیف جسم سے اُٹھ جاتی ہے (یعنی انسان اللہ تعالیٰ اور رسولِ مکرمﷺ کے احکام اور شریعت کا پابند نہیں رہتا)‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم اسلام کی قرونِ اُولیٰ اور قرونِ وُسطیٰ تک حقیقی صوفیہ کرام کا حلیہ اختیار کرنا طریقت کے نام پرسادہ لوح مسلمانوں کو اپنے دامِ عقیدت میں پھنسانے کا ایک حربہ تھا، ورنہ آج کل اس طرح کے کسی تکلف کی بھی قطعاً کوئی حاجت نہیں ہے اور نہ ہی ظاہری اعتبار سے تدیُّن اور تشرُّع کی صورت اختیار کرنے کا تکلف کیا جاتا ہے، ہر قسم کا شکار خود ہی شکاری کے جال میں پھنسنے کے لیے بے قرار ہوتا ہے، علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو منظوم انداز میں بیان کیا ہے :
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
حضرت سید علی ہجویری نے بتایا: روحانی ارتقاء کی راہ میں دو چیزیں حائل ہوتی ہیں: ایک ''رَین‘‘ اور دوسری ''غَین‘ ‘۔ دراصل قلبی اور روحانی خرابیوں میں ایک تو کفر، شرک اور نفاق ہے اور اس کے سبب انسان کے دل و دماغ پر ہدایت کے انوار و تجلیات کا فیضان مستقل طور پر رک جاتا ہے؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: حجاب کی دو قسمیں ہیں: ایک ''رینی‘‘ اور یہ کبھی نہیں اٹھتا ، وہ مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بعض لوگوں کی ذات خود حق سے حجاب کا سبب ہوتی ہے، یہاں تک کہ ان کے نزدیک حق اور باطل یکساں ہوجاتاہے۔ اسی حجاب کو ''رَین‘‘ کہتے ہیں اور قرآن مجید میں اسے ختم، طبع، اِغفال (غافل کرنا)، اَکِنّہ (دل پرظلمتوں کا غلاف چڑھ جانا) اور قَساوت (سنگ دلی) سے تعبیر کیا ہے؛ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے: ''ہرگز نہیں، بلکہ ان کے کرتوتوں نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیاہے، (المطففین :14)‘‘۔ یہ لوگ ناقابلِ اصلاح ہوتے ہیںاور ہدایت سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اُنہوں (کافروں) نے کہا: آپ ہمیں جس دین کی طرف بلا رہے ہیں، اُس کی(قبولیت کی راہ میں) ہمارے دلوں پر پردے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان حجاب ہے، (حم ٓ السجدہ:05)‘‘۔
دوسری قسم کے حجاب کو '' غین‘‘ کہتے ہیں۔ دراصل یہ انسان کے دل میں حرص وطمع، بُخل، ہواوہوس، حسد، کِبَرونَخوت، ریا اور دیگر اَخلاقی اَمراض ہوتے ہیں، جن کے سبب انسان کے دل پر پردہ پڑ جاتاہے، مگر یہ حجاب عارضی ہوتاہے اور توبہ و استغفار سے زائل ہوجاتاہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:''میرے دل پر کبھی (انوار کے غلبے سے) اَبَر چھا جاتاہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں، (صحیح مسلم:42)‘‘۔ بعض شارحین نے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سیدالمرسلینﷺ کے مقاماتِ عالیہ کے ارتقا کا سفر جاری رہتا ہے اور جب آپﷺ اپنے اگلے مقامِ رفیع سے پلٹ کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں، تو ایک غُبار سا چھا جاتاہے اور مقامِ نبوت کے حوالے سے اسی کو ''غین‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ''رَین‘‘ کی مثال وطن کی سی ہے، جو مستقل ہوتاہے اور ''غین‘‘ سے وہ خیالات وخطرات ہیں، جو دل پر طاری ہوتے ہیں اور کبھی دل میں جگہ بھی پالیتے ہیں، لیکن توبہ و استغفار سے ان کے اثرات مٹ جاتے ہیں۔
حدیثِ پاک میں مرتبۂ احسان کو ان کلمات میں بیان فرمایا گیا ہے: ''(احسان یہ ہے کہ) تم اللہ کی عبادت اس قدر حضوریِ قَلب (Presence of Mind) سے کرو کہ گویا تم اللہ عزّوجلّ کو دیکھ رہے اور اگر تم (اپنی نارسائی کے سبب) اسے نہیں دیکھ پاتے، تو وہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے، (صحیح بخاری:50)‘‘۔ چنانچہ حضرت سید علی ہجویری اسی مقامِ احسان کومزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''میں نے حاتمِ اَصمّ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: آپ نماز کس طرح ادا فرماتے ہیں ؟، انہوں نے جواب دیا: جب نماز کا وقت آتا ہے، تو پانی سے ظاہری وضو کرتا ہوں (یعنی اس سے اعضائے وضو کی پاکیزگی حاصل کرتاہوں) اور توبہ کے ذریعے باطنی وضو کرتا ہوں، یعنی توبہ سے قلب وروح کی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ مسجد میں نماز پڑھتے وقت خانۂ کعبہ کو اپنے سامنے، مقامِ ابراہیم کو دونوں ابروئوں کے درمیان، بہشت کو دائیں، دوزخ کو بائیں، پلِ صراط کو قدموں کے نیچے اور فرشتۂ موت کو اپنے پیچھے تصور کرتاہوں۔ اس کے بعد اللہ کی عظمت و جلالت کو اپنے ظاہروباطن پر طاری کرکے اللہ اکبر کہتا ہوں، اعزازووقار کے ساتھ قیام کرتاہوں، قرات کے وقت اللہ کی ہیبت دل پر طاری رہتی ہے، تواضع اور انکسار کے ساتھ رکوع اور انتہائی تضرُّع اور عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتاہوں، حِلم ووقار کے ساتھ قعدہ کرکے شکر کے ساتھ سلام پھیرتا ہوں‘‘۔
جنت کو دائیں اور دوزخ کو بائیں رکھنے کی حقیقت کو اس قول میں بیان کیا گیا ہے: ''ایمان خوف ورجا کے درمیان ہے‘‘، یعنی حقیقتِ ایمان اور کمالِ ایمان یہ ہے کہ انسان کے دل پر خشیت و ہیبتِ الٰہی بھی طاری ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عفو و مغفرت پر اس کا یقین بھی مرتبۂ کمال پر ہو، اسی کو وعظ و تذکیر کے عنوان پر مجموعۂ احادیث میں ترغیب وترہیب اور رغبت ورَہبت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرشتۂ اَجل کو پیچھے تصور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن کو ہر آن موت کے لیے تیار رہنا چاہیے اور پل صراط کو سامنے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے جادۂ مستقیم پر ایک ایک قدم ہزار بار سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے، ورنہ ذرا سی بے احتیاطی اور لغزش سے انسان گہرے ظلمت کدے میں گر سکتا ہے یا جہنم کا ایندھن بن سکتاہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے اپنی پناہ عطا فرمائے۔
آخر میں ایک حدیث پاک کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے:''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب قومی خزانے کو ذاتی جاگیر بنالیا جائے اور امانت کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹا جائے اور زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کیا جائے اور دین کا علم دنیا کمانے کے لیے حاصل کیا جائے اور ایک شخص اپنی بیوی کا فرمانبردار اور اپنی ماں کا نافرمان بن جائے اور ایک شخص اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو دھتکار دے اور مسجدوں میں شوروغوغا ہونے لگے اور قبیلے (یا قوم)کی سیادت بدکار شخص کرے اور قومی معاملات کی ذمے داری کمینے لوگوں کے ہاتھ میں آجائے اور معاشرے میں کسی شخص کی عزت (اس کے تقوے یا علم کی بنیاد پر نہیں، بلکہ) اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے اور آلاتِ غنیٰ اور مغنّیات کا دور دورہ ہو اور شراب نوشی عام ہو جائے اور اس امت کے بعد والے اپنے پہلووں پر لعنت کرنے لگیں ،تو (اچھے دنوں کی تمنا تو دور کی بات ہے) تم اس وقت کا انتظار کرو جب سرخ ہوائیں چلیں گی، زلزلے آئیں گے، زمین میں دھنسا دیے جائو گے، صورتیں بگاڑی جائیں گی، آسمان سے سنگ باری ہو گی اور قربِ قیامت کی نشانیاں اس تسلسل سے آئیں گی، جیسے موتیوں کی لڑی ٹوٹ گئی ہو اور دانے ایک ایک کر کے گر رہے ہوں، (سنن ترمذی:2211)‘‘۔