وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے پہلے '' ٹویٹ فیم‘‘امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹویٹر پر دوٹوک جواب دیا اور اس کے بعد ' ' واشنگٹن پوسٹ ‘‘کو انٹر ویو دیتے ہوئے افغانستان میں برپا جنگ کے حوالے سے اکیسویں صدی میں پہلی بار پاکستان کا جری ‘ توانا اور باوقار موقف پیش کیا ۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کے امریکا کے آگے سر نگوں ہونے کے وقت سے لے کر ہماری سماعتیں پاکستان کی قیادت کی جانب سے کسی ایسے موقف کو سننے کے لیے ترس رہی تھیں ۔ اُنہوںنے کہا : ''ہم اب کرائے کے سپاہی بنیں گے‘ نہ بندوق ‘ اب کسی کے آگے نہیں جھکیں گے ‘اب وہی ہوگا‘ جو ہمارے مفاد میں ہوگا ‘ افغانستان کا چالیس فیصد حصہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا؛ اگر ہم نائن الیون کے بعد غیر جانبدار رہتے ‘توہم اپنے آپ کو اُس تباہی سے بچاسکتے تھے‘ جو دہشت گردی کے خلاف امریکی یا عالمی جنگ میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی ‘ اب امریکا کو افغانستان میں قیام ِ امن کیلئے ہماری مدد کی ضرورت ہے‘ پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے بند کیے جائیں‘ امریکا سے برابری کی سطح پر چین جیسے تعلقات چاہتے ہیں ‘ ‘۔
وزیر اعظم سے سوال ہوا :آپ گزشتہ برسوں میں امریکا کے مخالف رہے ہیں ‘اُنہوں نے جواب دیا: '' اگر آپ امریکا کی پالیسیوں سے مُتّفق نہیں ہیں ‘ تو اس کے یہ معانی نہیں کہ آپ امریکا کے مخالف ہیں‘‘ ۔ اُنہوں نے کہا:'' یہ کہنا سامراجی سوچ ہے کہ تم یا تو ہمارے دوست ہو یا دشمن ‘‘‘ کیونکہ اس کا واضح مطلب ہے کہ غیر جانب دار رہنے کا کوئی آپشن نہیں ہے ۔اُن سے سوال ہوا : ''کیا آپ چاہتے ہیں کہ امریکا سے پُر جوش تعلقات رہیں ‘‘۔اُنہوں نے جواب دیا :'' سپر پاور سے دوستانہ تعلقات کون نہیں چاہتا ‘‘۔یہ اُن کے اُن فرمودات کاوہ خلاصہ ہے‘ جو ہماری دلچسپی کا موضوع ہے۔
ہماری اصولِ فقہ میں عبارت کے منطوق (Spoken Words)کاایک'' مفہومِ مخالف ‘‘ہوتا ہے ‘ اُس کی رو سے اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ پہلے ہم کرائے کے سپاہی اور بندوق کا کردار اداکرتے رہے ہیں اور جن کی خاطر یہ کررہے تھے‘ وہ صلے اور انعام میں ہماری توہین وتحقیر کرتے رہے ۔ یہ ہمارے علم میں نہیں ہے کہ ہم کب سے کب تک یہ کردار اداکرتے رہے اور کب سے ہم نے اپنی سمتِ قبلہ کو اپنے ملک وملّت کی ترجیحات کے مطابق درست کیا ‘ یہ وہ یوٹرن ہے‘ جو بلاشبہ باعثِ افتخار ہے ۔
لیکن بصد ادب عرض ہے : '' ہنوز دلّی دور است‘ یعنی منزل ابھی بہت دور ہے ‘‘۔امریکہ ماضی میں صدر رچرڈ نکسن کے زمانے میں ویتنام کی جنگ سے نکلنے کے لیے مذاکرات کے کرب سے گزر چکاہے ‘ ہوچی مِنھ کی قیادت میں ویت کانگ کو امریکا اپنا براہِ راست حریف ماننا اپنی توہین سمجھتا تھا ‘ اس لیے پیرس میں مذاکرات کے آغازسے پہلے کافی وقت اس میں صرف ہواکہ مذاکرات کی میز کیسی ہو اورامریکا کے مقابل کون بیٹھے ‘ بالآخر کافی بحث وتمحیص کے بعد مستطیل (Rectangular)میز پر اتفاق ہوا ۔ یہاں بھی تحریکِ طالبان ِ افغانستان جناب اشرف غنی کی قیادت میں موجودہ افغان حکومت کو اپنا حریف نہیں سمجھتے ‘ بلکہ وہ اُنہیں امریکہ کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔پہلے امریکا چاہتاتھا : طالبان اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کریں‘ طالبان اس کیلئے تیار نہ تھے ‘ کیونکہ یہ امریکا کے زیر تسلّط مرتّبہ دستور اور اُس کے تحت قائم حکومت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا ۔ اب امریکا اپنے بالادست مُوقِف سے نیچے آگیاہے اور طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہے ‘ یہ طالبان کی علامتی کامیابی ہے۔ لیکن امریکا کی خواہش یہی ہے کہ طالبان افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم کرکے اُس کا حصہ بنیں ‘ اس کے برعکس طالبان کا موقف یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر افغانستان سے نکل جائیں ‘ پھر افغان اپنے معاملات کو خود طے کرلیں گے ‘ ظاہر ہے کہ یہ واضح طورپر اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے مُترادف ہے اور سپر پاور کے لیے یہ کڑوی گولی نگلنا دشوار ہورہاہے ۔ایک طرف تو امریکا مذاکرات میں تعاون کا طلب گار ہے ‘ لیکن دوسری جانب حالیہ دنوں میں افغانستان میں بڑی کارروائیاں کی گئی ہیں ‘ طالبان کے نام پر مُعتدبِہ تعداد میں لوگوں کو موت سے ہمکنار کیاگیاہے اور اس حقیقت کے جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ اُن میں کتنی تعداد میں طالبان کے جنگجو تھے اور کتنے عام شہریوں کو اپنے حقِ حیات سے محروم کیاگیا ‘ اس لیے کہ طالبان اپنے لوگوں میں گُھل مِل کر رہتے ہوئے گوریلاکارروائیاں کرتے ہیں اور یہ امریکا کا ایک بے شناخت (Unidentified)دشمن ہے ‘ تباہ کُن اسلحے کیلئے یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ اُس کا ہدف درست ہے یا نہیں ۔ماضی میں مدارس کے بچوں کو بلا امتیاز مارا گیا ‘ شادی اور جنازوں کی تقریبات پر بمباری کی گئی ‘ اس سے افغان عوام میں امریکا کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا ہے اور پاکستان کیلئے اس نفرت کا ازالہ ممکن نہیں۔ یہ تو صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی شان ہے کہ کنکر بھی صرف طے شدہ ہدف کو نشانہ بنائے ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :(۱)''فرشتوں نے کہا: اے لوط! ہم آپ کے رب کے فرستادہ ہیں ‘ یہ (سرکش) آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکیں گے ‘ آپ رات کے ایک حصے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں سے روانہ ہوجائیں اور آپ میں سے کوئی بھی مڑ کر نہ دیکھیو؛البتہ اپنی بیوی کو ساتھ نہ لیں ‘ بے شک اس کو (بھی) وہی (عذاب) پہنچنے والا ہے ‘جو اُنہیں پہنچے گا ‘ بے شک اُن (کے عذاب) کیلئے صبح کا وقت مقرر ہے ‘کیا صبح قریب نہیں ‘ سو جب ہمارا عذاب آپہنچا ‘توہم نے اُس بستی کو تلپٹ کردیا اور ہم نے اس پرآگ میں پکی ہوئی مٹی کے پتھر لگاتار برسائے ‘ جو آپ کے رب کی طرف سے نشان زدہ تھے اور یہ سزا اُن ظالموں سے کچھ دورنہ تھی‘ ‘(ہود:83)۔ (۲) '' ابراہیم نے کہا: اے رسولو! تمہارا مقصد کیاہے ؟‘فرشتوں نے کہا: ہم مجرموں کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ‘تاکہ ہم اُن پر مٹی کے پتھر برسائیں ‘جو آپ کے رب کے نزدیک حد سے تجاوز کرنے والوں کیلئے نشان زدہ ہیں‘‘ (الذاریات:33-34)۔مفسرین ِ کرام نے لکھاہے کہ جو پتھر جس مجرم کیلئے اللہ کی طرف سے نشان زَد (Guided)تھا ‘ وہ اُسی کو جاکر لگتا ‘ اللہ کے نشانے کے خطا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یہی بات مفسرین نے اَصحابِ فیل کیلئے لکھی ہے کہ پرندے اپنے دو پنجوں اور چونچ میں آگ میں پکی ہوئی مٹی کے پتھر کی کنکریاں لے کر آتے اور اُن پر برساتے اور ہر کنکر ٹھیک ٹھیک اپنے نشانے پر جالگتا اور اُنہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح بنادیتا ۔
جنابِ وزیر اعظم نے کہا:''اکثر پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری تذلیل کی گئی ہے اور ہمیں ناقابلِ اعتبار قراردیاگیاہے‘‘ ۔نیز اُنہوں نے یہ بھی کہا : ''ہم بیک وقت آئی ایم ایف کی طرف جانے اور متبادل آپشن پر بھی غور کررہے ہیں ‘ گزشتہ تیس سال میں ہم سولہ بار آئی ایم ایف کے پاس جاچکے ہیں ‘ لیکن اب اگر ہمیںجانا بھی پڑا ‘ تو اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ یہ آخری بار ہو‘‘ ۔ یہ دعویٰ ماضی کی حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں اوراس کا فیصلہ وقت کرے گا کہ موجودہ حکومت اپنے اس دعوے اور وعدے میں سُرخرو ہوپاتی ہے یا نہیں ۔
ماضی میں سامراجی اور استعماری قوتیں ممالک کو فتح کرکے اپنے زیر تسلّط رکھتی تھیں ‘ لیکن دوعالمی جنگوں کے بعد یہ رُجحان (phenominon)تبدیل ہوگیا اور اب مَحکوم اور تابع ممالک جغرافیائی اور علامتی طورپرتو آزاد ہوتے ہیں ‘ اُن کا اپنا کوئی نہ کوئی
دستور اور نظامِ حکومت بھی ہوتا ہے ‘ لیکن معاشی اعتبار سے بالا دست طاقتوں کے محتاج ہونے کی بناپر وہ عملاً تابع ہی رہتے ہیں ‘ اپنی پالیسیوں میں آزاد نہیں ہوتے اور یہ قوموں اور ملکوں کی غلامی کی جدید شکل ہے ‘ جو امریکی استعمار نے تابع ممالک پر مُسلّط کررکھی ہے ‘ اقوامِ مُتحدہ اور اُس کے ذیلی ادارے ‘ آئی ایم ایف ‘ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک امریکی پالیسی سے انحراف نہیں کرسکتے ۔ وہ یکطرفہ طورپر اپنے معتوب اور مغضوب ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کرکے اُنہیں بے دست وپا کردیتاہے ‘ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ الغرض امریکا کے لیے ابھی کوئی توانا چیلنج درپیش نہیں ہے ۔ چین اکیلے یا روس کے ساتھ مل کر کب امریکا کے مقابل اور متوازی قوت بن پاتے ہیں ‘ اس کیلئے مستقبل کا انتظار کرنا ہوگا ۔
تقسیمِ ہند کے وقت کے قتل وغارت اور مظالم کو بھلا کر بھارتی سکھوں کیلئے یکطرفہ طورپر کرتارپور کی راہداری کھولنا خیر سگالی کی ایک اچھی علامت سہی ‘ لیکن بھارت کی طرف اتنا جھکاؤ دکھانا کہ جیسے ہم اُس سے بہتر تعلقات کی بھیک مانگ رہے ہیں اور وہ شانِ بے اعتنائی سے ہماری مذاکرات کی پُر امن پیشکش کو جھٹک رہاہے ‘اچھا نہیں معلوم ہوتا ‘ نہ ہی مودی حکومت سے باہر کے سیاسی ‘ سماجی ‘ صحافتی اور ادبی حلقوں میںبڑے پیمانے پر اس کی پذیرائی ہورہی ہے ۔ایک قومی اخبار کی خبر کے مطابق ایک بھارتی انتہا پسند جماعت نے پاکستان کا دورہ کرنے پر نوجوت سنگھ سدھو کو غدار قرار دے کر اُس کے سرکی قیمت ایک کروڑ روپے مقررکی ہے اورایک انتہا پسند ہندو نے کہا : ''اگر سدھوجی میرے شہر آگرہ آئے تو میں ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا‘‘۔ اگر ہمارے ہاں کسی بھارتی کیلئے کوئی بے نام سا انتہا پسند ایسے ریمارکس دے دیتا ‘تو ہمارا میڈیا آسمان سر پہ اٹھالیتا کہ گویا قیامت نازل ہوگئی‘لیکن وہا ں کے میڈیاپر اُس کی مذمت کے بارے میں کوئی توانا آواز نہیں اٹھی ۔ وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بھی اس راہداری کھولنے کا سرسری سا ذکر کیا اور مغربی میڈیا نے بھی اسے غیر معمولی اہمیت نہیں دی ۔