برطانیہ عظمیٰ یعنی Great Britainکسی وقت سپر پاور تھا اور کہا جاتا تھا: ''اس کی حدودِسلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا‘ ایک خطے میں سورج غروب ہورہا ہوتا تو دوسرے میں طلوع ہورہا ہوتا ‘‘۔ امریکہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ ‘ برصغیر پاک وہند‘ ہانگ کانگ اور افریقا کے کئی ممالک اس کے زیر نگیں تھے‘ پھر اس کے عالمی اقتدار کا سورج بتدریج غروب ہوتا چلا گیااور جنگ عظیم دوم کے بعد اس سمٹائو کی رفتار تیز تر ہوگئی ۔آج کا برطانیہ چار اکائیوں پر مشتمل ہے : انگلینڈ‘ ویلز‘سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ۔سکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں بھی یو کے سے علیحدگی کی تحریک موجود ہے‘ مستقبل میں ‘اگر یہ تحریکیں کامیاب ہوئیں تو برطانیہ انگلینڈ اور ویلزتک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
یورپین یونین نومبر1993ء میں قائم ہوئی‘ یونین کے قیام کے بعداس کے رکن اٹھائیس ممالک الگ الگ خود مختار ریاستیں رہنے کے باوجود ایک مشترکہ منڈی میں شامل ہوگئے ہیں۔اس میں چار چیزوں کی آزادانہ نقل وحرکت کی ضمانت دی گئی ہے ‘یعنی؛ سامانِ تجارت‘ سرمایہ‘ خدمات اور لیبر‘ ان اٹھائیس ممالک کے درمیان کسٹم اور امیگریشن کی چیک پوسٹیں نہیں ہیں ۔ برطانیہ یورپین یونین کے قیام کے باوجود کافی عرصہ الگ تھلگ رہا‘ مگر آخر کار 1998ء میں یونین میں شامل ہوگیا‘ تاہم اس نے اپنی کرنسی پائونڈ سٹرلنگ برقرار رکھی۔
اس کے نتیجے میں برطانیہ میں یورپی یونین کے لوگوں کی آزادانہ آمد شروع ہوئی‘ پولینڈ ودیگر ممالک سے سستی لیبر کی درآمد ہونے لگی‘ سوشل ویلفیئر کے شعبے پر بھی دبائو پڑا۔ انگریزوں کے اندر اپنے ماضی کے اعتبار سے برتری اور تفاخر کا ایک احساس تھا ‘ انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ یورپ کی وسیع تر وحدت میں کہیں ان کی انفرادیت اور امتیاز گم نہ ہوجائے‘ سو بوجوہ یونین سے علیحدگی کی تحریک چلی اور آخر کار23جون 2016ء کو اس مسئلے پر ریفرنڈم ہوا‘ جذباتی فضا میں عواقب پر نظر رکھے بغیر محض دو فیصد کی اکثریت سے علیحدگی کا فیصلہ ہوا ۔ یورپین یونین سے علیحدگی کا عمل بھی کافی پیچیدہ ہے اور اسی لیے اس عمل کے مکمل ہونے کے لیے کافی وقت رکھا گیا ہے۔ اُس وقت کے مقبول وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون علیحدگی کے حق میں نہیں تھے‘ ریفرنڈم کا فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف آیا تو انہوں نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا دے دیا‘ تاکہ یورپین یونین سے علیحدگی کی مہم ایک نئی قیادت انجام دے۔
ٹرِسامَے نئی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور ان کی قیادت میںبریگزٹ کا عمل شروع ہوا۔ بریگزٹ Britishکے مخفَّفBR اور Exitکا مرکب ہے ‘اس کے معنی ہیں: ''یورپین یونین سے برطانیہ کا خروج‘‘۔ عربی کا محاورہ ہے :''قَدِّمِ الْخُرُوجَ قَبْلَ الْوُلُوْج‘‘یعنی داخل ہونے سے پہلے نکلنے کی بابت سوچو کہ اگر کہیں اس کی نوبت آگئی تو تدبیر کیا ہوگی‘ اس کو ہم یوں بھی تعبیر کر سکتے ہیں:''کسی کام کے آغاز سے پہلے انجام کی سوچو‘‘۔انگریزوں کی بابت ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سو سال بعد کی سوچتے ہیں‘ شاید یورپین یونین میں شمولیت کے وقت وہ یہ نہ کرسکے۔
ٹرِسامَے کو آج یہی مشکل درپیش ہے ‘انہوں نے طویل اور صبر آزما مذاکرات کے بعد یورپین یونین کے ساتھ یونین سے علیحدگی کا جو معاہدہ ''بریگزٹ ڈیل‘‘ کے عنوان سے طے کیا‘ برطانوی پارلیمنٹ نے اس کی منظوری دینے سے انکار کردیا‘ پھر اس میں چند ترمیمات پیش ہوئیں‘ مگر پارلیمنٹ نے انہیں بھی رد کردیا‘ آخر میں صرف ایک ترمیم کی منظوری ہوئی: ''No Brexit with out deal‘‘ یعنی ڈیل کے بغیر بریگزٹ نہیں ہوگی‘ جبکہ بظاہر تا حال No Dealکے آثار زیادہ ہیں۔ ٹرِسامَے ہاتھ پائوں مار رہی ہیں ‘ان کی حالت قابلِ رحم ہے ‘ لیکن یورپین یونین ڈیل پرنظرثانی کے لیے تیار نہیں ہے ۔ انگریزوں نے سوچا نہیں ہوگا کہ ایسی بند گلی میں بھی پھنس سکتے ہیں۔
در اصل دو ایسے تضادات ہیں‘ جن میں بیک وقت تطبیق آسان نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ یورپین یونین سے نکلنے کے بعد برطانیہ اور یونین کے دیگر ممالک کے درمیان کسٹم ڈیوٹی اور امیگریشن چیک پوسٹ کے روایتی اصول لاگو ہوں گے‘افراداور سامان کی بلا روک ٹوک اور آزادانہ نقل وحمل کی سہولت ختم ہوجائے گی‘ الغرض برطانیہ یونین کے دوسرے ممالک کے لیے اجنبی ہوجائے گا۔ دوسرا یہ کہ برطانیہ اورجمہوریہ آئر لینڈ کے درمیان 2003میں ''Good Friday Agreement‘‘کے نام سے یہ معاہدہ طے پاچکا ہے کہ جمہوریہ آئر لینڈ اورشمالی آئر لینڈکے درمیان ہارڈ کسٹم اور امیگریشن چیک پوسٹ نہیں ہوگی اور لوگوں کی دونوں طرف آمد ورفت اور سامان کی نقل وحمل آزادانہ رہے گی ۔ آئر ش قوم کے یہ دونوں حصے خشکی پر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں‘ جبکہ برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان سمندر ہے ۔ آئر لینڈ کے دونوں حصوں کی صورت ایسی ہی ہے‘ جیسے ہمارے قبائلی علاقہ جات میں افغانستان کے لوگوں کی آمد ورفت کسٹم اور امیگریشن کے بغیر جاری رہتی ہے ‘ کیونکہ دونوں طرف ایک ہی قبائل کے لوگ رہتے ہیں۔واضح رہے کہ جمہوریہ آئر لینڈ آزاد ملک ہے اور بدستوریورپین یونین کا رکن ہے اور شمالی آئر لینڈ برطانیہ کے زیر اقتدار ہے۔
شمالی آئر لینڈ برطانیہ کا حصہ ہے ‘لہٰذا اب بریگزٹ کے بعد یونین قوانین کا تقاضا ہے کہ جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے درمیان باقاعدہ ہارڈکسٹم اور امیگریشن چیک پوسٹیں ہوں ‘ سامان کی آزادانہ نقل وحمل اور دونوں طرف کے لوگوں کی آزادانہ آمد ورفت موقوف ہوجائے‘ جب کہ شمالی آئر لینڈ کے لوگ اس پر کبھی آمادہ نہیں ہوں گے‘ ماضی میں فسادات ہوتے رہے ہیںاوراگرآئر لینڈ کے دونوں حصوں کے درمیان سامان اور لوگوں کی آزادانہ نقل وحمل اور آمد ورفت جاری رہتی ہے تو یورپین یونین کا مطالبہ ہے کہ برطانیہ اور یونین کے درمیان ہارڈ کسٹم اور امیگریشن چیک پوسٹ کے لیے کوئی بیک اپ لائن ہونی چاہیے‘ جبکہ ٹرسامَے کہتی ہیں کہ ہم سمندر میں لائن کیسے کھینچ سکتے ہیں‘ کیونکہ ایک ہی ملک ہے۔
سو‘ اس مسئلے کا حل آسان نہیں ہے اور ٹرِسامے مشکل میں ہے۔ پس آج ماضی کی سپر پاور کا المیہ یہ ہے کہ بریگزٹ اُس کے گلے کا چھچھوندر بنا ہوا ہے‘ نہ نگلا جارہا ہے اور نہ اگلا جارہا ہے۔ ان مذاکرات کے بارے میں گارڈین اخبار نے لکھا: ''یہ مذاکرات بے خبر لوگوں کے لیے کسی تیاری کے بغیر نامعلوم ایجنڈے کے تحت نامعلوم نتائج حاصل کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں ‘‘۔
ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جہل کو فروغ دینے کے لیے شہباز شریف‘ عبدالعلیم خاں ‘شیخ رشید اور فواد چودھری ایسے اہم موضوعات میں اتنا مصروف ہے کہ نئی نسل کوعالمی مسائل کے بارے میں آگہی دینے کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے اور شاید ہمارے کالج اور یونیورسٹی سطح کے نوجوان طلبہ بھی عالمی امور کی ان نزاکتوں سے آگاہ نہیں ہوں گے ۔
فطرت سے بغاوت: کیتھولک مسیحیت میں ان کے مذہبی پیشوامرد وزن تجردکی زندگی گزارتے ہیں‘ شادی نہیں کرتے‘ وہ اس سے استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شادی نہیں کی تھی‘ یہ لوگ رُہبان (راہب کی جمع) اور راہبات (راہبہ کی جمع)کہلاتے ہیں اورانگریزی میں انہیں Monksاور Nunsکہتے ہیں‘ یہ فطرت کے خلاف ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی کریمﷺ کے امتی کی حیثیت سے قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گے اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے :''شادی بھی کریں گے‘‘۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: ''یہ تمہارے لیے کیسامقامِ افتخار ہوگا کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا‘‘ (مسند احمد: 7680)۔بالفرض شادی کی روایت سے کسی کو اختلاف بھی ہو تو وہ نبی ہیں اور نبی معصوم ہوتے ہیں۔ حضرت زکریا نے جب حضرت مریم کے حجرۂ عبادت میں اُن کے پاس بے موسم کا تازہ پھل دیکھا ‘ تو اُن کے دل میں امنگ پیدا ہوئی کہ جوقادرِ مطلق بے موسم کا تازہ پھل عطافرماسکتا ہے ‘ وہ بڑھاپے میں اولاد بھی عطا فرماسکتاہے۔سو‘ انہوں نے اولاد کے لیے دعا کی اور اس کی قبولیت کی بابت قرآنِ کریم میں ہے: '' بے شک اللہ تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے‘ جو کلمۃ اللہ (حضرت عیسیٰ ) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے ‘سردار ہوں گے ‘ عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے اور نیک لوگوں میں سے نبی ہوں گے ‘‘ (آل عمران:39)۔پس غیر ِنبی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو انبیائے کرام علیہم السلام کی خصوصیات پرقیاس نہ کرے۔سیدنا محمد ﷺ کی بھی بہت سی خصوصیات وامتیازات ہیں‘ جو امت کے لیے واجب الاتباع نہیں ہیں‘ جیسے: ایک وقت میں چار سے زیادہ ازواجِ مطہرات کا نکاح میں ہونا‘ افطار کیے بغیر پے در پے روزے رکھنااور تہجد کی نماز کااضافی ہوناشامل ہے۔ اس لیے سنت صرف آپ ﷺ کے اُن اقوال‘ افعال اور احوالِ مبارکہ کو کہتے ہیں ‘جو امت کی اتباع کے لیے ہیں۔
عیسائی مذہبی پیشوائوں کا تجرُّد کا شعار فطرت کے خلاف ہے اور ان کے منفی نتائج کا برآمد ہونا ناگزیر ہے ؛ چنانچہ اب کیتھولک عبادت گاہوں میں بچوں اور خود ان کی راہبات (Nuns)کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات منظرعام پر آرہے ہیں۔ پہلے تو کیتھولک چرچ ان جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا تھا‘ لیکن کچھ عرصے سے مغربی پریس نے ان واقعات کو بہت زیادہ اچھالنا شروع کردیاہے‘لہٰذا اب کیتھولک مسیحیت کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے متحدہ عرب امارات کے دورے کے موقع پراعتراف کیا ہے کہ راہبات کو جنسی غلام بنا لیا جاتا ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ مسیحی چرچ اس پر غور کرے اور اپنے راہبوں(Monks) اور راہبات (Nuns) کو شادیوں کی اجازت دے‘ تاکہ چرچ میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا سدِّباب ہوسکے۔ قانون فطرت سے انحراف منفی نتائج کو جنم دیتا ہے‘ آپ پانی کے فطری بہائو کو روکیں گے تو وہ کسی اور جانب سے اپنا راستہ بنالے گا۔
الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! میرے فتاویٰ کا مجموعہ ''تفہیم المسائل ‘‘ کے عنوان سے دس مجلّدات پر مشتمل شائع ہوچکا ہے‘ گیارہویں جلد زیر ترتیب ہے اور روزنامہ دنیا میں مطبوعہ کالموں کا مجموعہ ''آئینہ ایام‘‘ کے نام سے پانچ مجلدات پر مشتمل شائع ہوچکا ہے اور ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور/کراچی سے دستیاب ہے ‘ تفہیم المسائل کا مجموعہ خواجہ بک ڈپو جامع مسجد دہلی کے زیر اہتمام انڈیاسے بھی شائع ہوچکا ہے ۔الحمد للہ! ہمارے کالموں اور تحریروںکے قارئین دیگر ممالک کے علاوہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بھی کافی تعداد میں ہیں ‘ ان کے ساتھ برطانیہ کے دوست علماء کے توسط سے ہمارابالواسطہ رابطہ ہے۔