نام لکھنے کی ضرورت نہیں ‘ آپ خود سمجھ جائیں گے کہ اتنا ''شیریں دہن‘‘ معروف دانشورکون ہے‘ ان سے کسی مولانا کے حوالے سے سوال ہواتو وہ بھرے بیٹھے تھے ‘ چھلک پڑے۔ کافی عرصے سے ٹیلی ویژن کے پروگرام نہیں دیکھ رہا ‘ بس صرف ہیڈ لائنز اورٹِکرزپر اکتفا کرتاہوں۔موصوف اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں ‘ اپنی دانش پر افتخاراوردوسروں کی توہین اُن کا پسندیدہ شیوہ ہے۔اس سے شاید انہیں قلبی سکون ملتا ہے ۔بعض لوگ فطرتاً مردم آزاروآدم بیزار ہوتے ہیں‘ جنابِ شاہنواز فاروقی کے کالم میں درج ذیل اقتباسات پڑھے ‘ آپ بھی ان کے افکار سے لطف اندوز ہوں:
''یار خدا کا واسطہ! یہ'' مولانے‘‘ مسلمانوں کو جینے دیں‘ انہیں زندہ رہنے دیں‘ یہ ہمارے بچوں کو مغرب سے مقابلہ کرنے دیں‘ احسان کریں‘ کس بات کا انتقام لے رہے ہیں یہ ہم سے۔ بیڑہ غرق ستیاناس مسلمانوں کا تب سے شروع ہوا جب مولانا اسلام نے کہا پرنٹنگ پریس نہیں چاہیے‘ہم صدیوں پیچھے چلے گئے‘ پہلا میڈیکل کالج‘ مولانا نے کہا: نہیں یہ غیر اسلامی ہے۔ صبح کرتے ہیں‘ یہ فلش سسٹم‘ٹوتھ پیسٹ‘یہ سب اہلِ مغرب لائے‘سمجھ آئی بات۔ کوئی کنویں کھودنے والے( یعنی مسلمان)نہیں‘ یہ ہینڈ پمپ گورا لایا تھا‘ یہ رحم کریں ہم لوگوں پہ‘ بیمار ہوتے ہیں پہنچ جاتے ہیں ہسپتال‘ کوئی ایک دوائی‘ کوئی وہ جسے سرجیکل کہتے ہیں‘آلات‘ مشین‘ وہ تمہاری میری بنائی ہوئی ہیں‘شرم نہیں آتی‘ اس سے تو بہتر ہے مر جائیں۔ہسپتال جانے کا مطلب ہے کہ آپ نے خود کو مغرب کے رحم و کرم پہ ڈال دیا‘ سارے ٹیسٹ وغیرہ یہ وہ۔جہاز پر بیٹھتے ہیں حج اور عمرہ کا ثواب کمانے‘ تو یار کوئی توپانچ فیصد ثواب اُس (کافر)کو بھی دے دو جس نے تمہیں Facilitateکیا۔ عمریں بیت جاتی تھیں حج اور عمرہ پہ جاتے ہوئے‘ واپس آتے ہوئے اور پتا بھی نہیں ہوتا تھا کہ واپس لوٹے گا کہ نہیں‘اب ہماری زیادہ تر مسجدیں ماشا اللہ ائرکنڈیشنڈہیں‘ وہاں بیٹھ کے پرسکون طریقے سے اب آپ نماز ادا فرماتے ہیں۔ بجلی انہوں نے دی جس کے صدقے یہ گفتگو ہورہی ہے اور کروڑوں لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔ ریل اور کار‘ اس پہ تشریف رکھ لیتے ہیں اور کروزوں پہ ہاں‘ سائیکل سے لے کرسیٹلائٹ تک اہلِ مغرب نے‘پولٹری سے لے کر ہائی برِڈ سیڈ تک‘ ٹی وی سے لے کرسپر کمپیوٹرتک‘سمارٹ فون سے لے کر خون کی تبدیلی تک انہوں نے دی‘ کوئی شرم حیا ہمیں نہیں آتی۔انجکشن جس کا مذاق اڑایا تھا ''ملا حضرات‘‘ نے‘لائوڈ سپیکر کا مذاق اڑایا‘ اسے شیطانی آلہ قرار دیا۔ڈسپرین سے لے کرلیور ٹرانسپلانٹ تک۔ میں دعاگو ہوں اللہ ان کی صحت درست رکھے‘ چلتے پھرتے جائیں‘ لیور ٹرانسپلانٹ کی نوبت نہ آئے۔ خدا کا خوف کرو‘ روبوٹ سے لے کر مریخ تک جانا ہے‘ یہ ہمارے پلے کیا ہے‘ یہ جو عہدِ حاضر ہے اس میں مسلمانوں کی بنی نوع انسانی کے لیے ایک کنٹری بیوشن بتائو او زندگیاں تم ان کے صدقے گزار رہے ہو۔ترکی سے انہوں نے برباد‘ سلطنت عثمانیہ‘ خلافت عثمانیہ‘ تین کانٹی نینٹ پہ حکومت‘ انہوں نے مسلمانوں کو ایسا ریورس پر ڈالا‘ ان کے نزدیک پتا ہے کیا ہے مغرب۔ننگی ٹانگیں اور حجاب نہ ہونا یا الکوحل اور نہیں ہے۔ ایڈیسن نے اپنی زندگی دے دی‘ ہمیں ایک ہزار سے زیادہ ایجادات دینے کے لیے‘ ان کو یہ کیوں نہیں لگتا‘ ان کے دماغوں میں اہلِ مغرب بھی مخلوق ہے میرے رب کی مخلوق ہے۔ قرآن ایک وزڈم بتاتا ہے‘ لکھا ہے:بے شک تم غالب آئوگے اگر تم مومن ہو‘غالب ہمیشہ وہ ہوتا ہے جو مومن کے قریب تر ہواور ہم جھوٹے لوگ ہیں۔ ہمارے یہاں خالص چیز کوئی نہیں ملتی‘ وہاں ملاوٹ کا تصور ہی نہیں ہے‘ دو نمبر فیکٹریاں ہیں‘ ملک لوٹ کر باہر جاتے ہیں‘ او تم کرتے کیا ہو؟ اور گالیاں اہلِ مغرب کو‘او کس بات پہ ہم ایٹمی طاقت ہیں‘ تم ایٹمی طاقت کہاں سے ہو‘ یہ تو سیکنڈورلڈ وار میں ایک پرزہ‘ ایک آلہ‘ یہ اسلحہ‘ یہ تواستعمال ہوچکا‘ اس سے پہلے اسے Conceiveکیا گیا تھا‘بنالیا گیا‘پھر یہ ہیروشیما‘ ناگاساکی یہ تو پھر۔ تو ہم ایٹمی طاقت‘ ٹینک‘ یہ جتنا ماڈرن ہتھیارہے‘ کدھر ہے‘ یہ کون لوگ ہیں‘ اہلِ مغرب‘ اوئے اہل مغرب سے مقابلہ کرنے کے لیے بچے تیار کرو اپنے‘ اپنے بچے تیار کرو ورنہ ہمارے بچے ان کے قدموں تلے روند دیے جائیں گے‘ جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ او اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے کہاں ہو تم‘ تمہارے تو پورے ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارہ ڈھنگ کا نہیں ہے‘یہ میرا بلڈ پریشر تباہ کرنے کے لیے تم نے یہ سوال کیا ہے‘ مولانا خدا کا خوف کرو‘ ڈرو اس طرح کی باتیں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری نظر میں روزِ محشر نہیں ہے‘ انصاف نہیں ہونا‘ اس کا مطلب یہ ہے‘ اہلِ مغرب موریلٹی میں‘ اخلاقیات میں بلند ترین مقام پر فائز ہیں‘ میں کہہ رہا ہوں‘ دو فتویٰ میرے خلاف اور ہمارے قدم قدم پر تمہارے الیکشن جھوٹے‘ خود کہہ رہے ہو‘ تمہاری اسمبلیاں جھوٹی‘ ہمارے الیکشن فراڈ‘تمہارا وزیراعظم‘ تمہارا سب کچھ غلط‘ ان کا سب کچھ صحیح‘ پھر اہلِ مغرب او ان کی نقل کرلو‘ زندہ رہ لو‘ کیوں ہم کو برباد کررہے ہو‘‘ ۔
اس عہدِ تنزُّل میں بھی ہمارے لبرل سیکولر اسلام بیزار دانشور اپنی شدید خواہش کے باوجود اسلام پر براہِ راست حملہ کرنے کی جسارت نہیں کرپاتے ‘تو علامت کے طور پر کسی مولانا کا ہیولیٰ ذہن میں تشکیل دے کر سنگ باری فرماتے ہیں ۔اگر نشانے پر کسی دوسرے مسلک کا عالم ہے ‘تو مخالف مسلک کے لوگ خوش ہوتے ہیں ‘ یہ نہیں سوچتے کہ ہدف شخص نہیں ہے ‘اس کا نام توعلامت کے طور پر لیاجارہا ہے ‘اصل ہدف دین اور اسلام ہے ‘ پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا کا سیلابِ بلا خیز آنے کے بعد مُصلحِ اعظم بن کرسٹوڈیوز میں یہی اینکر پرسنزبراجمان ہیں ‘ لیکن پھر بھی قصور وار ''مولانے ‘‘ ہیں۔
آپ اس کالم کو بار بار پڑھیے ‘اس کاTheme یا مرکزی خیال یہ ہے کہ امتِ مسلمہ یا پاکستان کے زوال کا سبب دینی طبقات ہیں ۔ پاکستان کی حد تک ستر سال میں دینی طبقات تختِ اقتدار پر کب فائز ہوئے ہیں‘ نظامِ حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر کب بیٹھے ہیں ‘ کیا ریاست کے زیرِ انتظام یا پرائیویٹ سیکٹر میں یونیورسٹیوں کے ریکٹر یا وائس چانسلر ''مولانے‘‘ ہیں تاکہ انہیں کوس کر تسکین حاصل کی جائے۔ نظام تو روزِ اول سے سیکولر لبرل طبقات کے پاس ہے ‘ اسٹیبلشمنٹ پر انہی طبقات کو غلبہ حاصل ہے ‘وہی الیکشن کراتے ہیں‘ تخت پر بٹھاتے اور اتارتے ہیں‘ کیا ملک کی پالیسیاں ''مولانے‘‘بناتے ہیں‘ کیا ملک کے زوال کا سبب ''مولانے‘‘ ہیں‘ کیا ہمارے ہاں سائنسی ایجادات ‘ فنی ترقی ‘ معاشی استحکام کے نہ ہونے اور سیاسی انتشار کا سبب فقط دینی طبقات اور''مولانے ‘‘ہیں ۔ کیا ملک کو مذہبی طبقات نے لوٹا ہے ‘کیا قومی خزانوں کی کنجیاں ہمیشہ ان کے پاس رہی ہیں۔ کیا کسی ایک قومی انتخاب میں بھی قوم نے کلی اقتدار دینی طبقات کو سونپا ہے تاکہ انہیں کوسنے کا جواز مل جائے۔ باستثنائے انقلابِ ایران‘ جو داستان پاکستان کی ہے وہی تمام مسلم ممالک کی ہے ‘ کیا ستاون مسلم ممالک کے صدور ‘وزرائے اعظم‘ آمرین اور ملوک وسلاطین ''مولانے‘‘ ہیں۔ کیا کسی ''مولانا ‘‘کے ٹرین یالائوڈ سپیکر کی مخالفت کرنے سے ان دونوں چیزوں کا برصغیر میں چلن موقوف ہوگیا تھا۔ کیا ملک کو غریبوں‘ مفلسوں اور ناداروں نے لوٹا ہے یا انہوں نے جن کے پاس حدیث پاک کے مطابق سونے کی ایک وادی ہے تو دوسری کی تمنا ‘دو ہیں تو تیسری کی تمنا انہیں بے چین کیے رہتی ہے ‘ کوئی بتائے کہ ان بالادست طبقات میں ''مولانے‘‘کتنے ہیں ۔ نفرت کرنا آپ کا اختیارہے ‘ لیکن خدارا! انصاف پر مبنی بات کیجیے‘ دینی مدارس نے ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جن پر مغرب کی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ہورہا ہے۔ دین سے آپ کو نفرت ہے تو براہِ راست اپنا مؤقف بیان کیجیے‘ ہاتھ گھماکر کان پکڑنے کا تکلف کیوں ‘ کیا ملک کے بڑے سرمایہ دار ‘ جاگیر دار وزمیندار‘ سیاسی مقتدرین اور اسٹیبلشمنٹ کے ستون ''مولانے‘‘ ہیں ‘اہلِ دین کی اکبر الٰہ آبادی کی زبان میں ایک عاجزانہ سی التجا ہوتی ہے :
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
اللہ کو اور اس کی حقیقت کو نہ بھولو
کیا ایسا ہوا ہے کہ آپ مریخ کی طرف پرواز کررہے تھے اور کوئی مولانا آپ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا‘آپ نے سائنسی ایجادات اور فنی کمالات کا ہمالیہ کھڑا کردیا اور کسی مولانا نے انہیں آگ لگادی‘ اُن پر پردہ ڈال دیا ‘ انہیں چرا لیا اوراُن کی نفی کردی ۔ مولانا ئوںکے بھی قصور یقینا ہوں گے‘ لیکن جو سوال یونیورسٹیوں سے کرنا چاہیے ‘وہ بھی مولانا سے ہورہا ہے ‘ جو وقت کے اہلِ اقتدار اورعدالت سے کرنا چاہیے ‘ وہ بھی مولانا سے ہورہا ہے ‘ جو خود سے کرنا چاہیے وہ بھی مولانا سے ہورہا ہے ‘ علامہ اقبال نے کہا ہے:
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے‘ وہ خطا کیا ہے!
موصوف کو علامہ اقبال سے بھی بہت نفرت ہے ‘لیکن ہر خطیب اور لکھاری کی مجبوری ہے کہ عنوان کوئی بھی ہو‘ مشکل میں اقبال کام آتے ہیں ‘ موصوف نے اُن پر بھی چاند ماری فرمائی ہے۔
اہلِ دانش سے گزارش ہے کہ ''مولانوں‘‘ کے جرائم کی فہرست ایک ہی بار اور ایک ہی جگہ مرتب کر دیجیے تاکہ ان کواپنا جائزہ لینے اور اصلاح کرنے کا موقع مل سکے ‘ وہ بھی اپنے اندر جھانک سکیں اور اپنی کوتاہیوںکا ازالہ کرسکیں ‘ لیکن زندگی کو جرم بنادیا جائے اور ''بے خطائی‘‘کو خطا قرار دے کر سزا دے دی جائے ‘ تو اس کا حل ہمارے پاس نہیں ہے ۔ جب تحریکِ پاکستان چل رہی تھی ‘ تو یہی ''مولانے‘‘ صفِ اول میں تھے ‘ استاد قمر جلالوی نے کہا تھا:
اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
آپ کی وفا کا تقاضا یہ ہے کہ جن کے آپ قصیدے پڑھ رہے ہیں‘وہ آپ کو اپنے دیس اوراس دنیا کی جنت میں لے جائیں تاکہ ''مولانوں‘‘ سے آپ کی جان چھوٹے ‘ہمہ وقت کڑھنے سے آپ کو راحت ملے ‘وہاں لذتوں کے بڑے سامان ہیں ‘ الکوحل بھی پانی کی طرح دستیاب ہے ‘ عریاں نظارے ‘ رقص وسرود‘عَشوَہ وطرَب ‘ رنگ ونور ‘الغرض !کیا ہے جو وہاں نہیں ہے ‘سونے پر سہاگہ یہ کہ وہاں ''مولانے‘‘ بھی نہیں ہیں۔