تاریخِ نبوت کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہر دور میں سب سے پہلے پسے ہوئے اور زیریں طبقات نے دعوتِ حق پر لبیک کہا‘ قیصرِ روم کاابوسفیان سے مکالمہ اس پر شاہد ہے ۔ قیصرِ روم ہِرَقل کے پاس جب سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا مکتوبِ گرامی آیااور اس نے آپﷺ کے بارے میں جاننا چاہا تو اپنے درباریوں سے کہاکہ کوئی حجاز کا باخبر شخص ملے تو اُسے بلائو‘ ابوسفیان تجارتی سفر پر وہاں موجود تھے ‘انہیں بلایا گیا ‘ہرَقل نے اُن سے آپ ﷺ کے بارے میں آگہی کے لیے چند سوالات کیے ‘اُن میں سے ایک یہ تھا: ''کیا اشرافیہ یعنی بالادست طبقات کے لوگ اُن کی پیروی کرتے ہیں یا ضُعَفاء یعنی زیریں طبقات کے لوگ؟‘ابوسفیان نے جواب دیا: زیریںطبقات کے لوگ اُن کی پیروی کرتے ہیں ‘(صحیح البخاری:7)‘‘۔
فقرا صحابہ کرام صہیب‘ یاسر‘عمّار‘ مقداداور بلال رضی اللہ عنہم حضور کی مجلس میں اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ قریش کے بعض سرداراقرع بن حابس تمیمی اور عیینہ بن حصن فزاری وغیرہ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ ہمارے لیے ایک وقت مخصوص کردیں ‘ جس میں یہ خَستہ حال لوگ نہ ہوں ‘ تو ہم آپ کی بات سن لیں گے‘ لیکن ان کے ساتھ برابری کی سطح پر بیٹھنا ہماری شان اورمنصبی حیثیت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا(1): ''اور (اے رسولؐ!) آپ اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ روکے رکھیے جو اپنے رب کی رضا کے لیے صبح وشام اُس کی عبادت کرتے ہیں اور آپ اُن سے اپنی نگاہِ التفات کو اُن سے نہ ہٹائیں‘ (الکہف:28)‘‘۔(2):''اور (اے رسولؐ!)آپ اُن (مساکین اہلِ ایمان) کو (اپنے سے) دور نہ کیجیے جو اپنے رب کی رضا کے لیے صبح وشام اُسے پکارتے ہیں‘ (الانعام:52)‘‘۔ حضرت خبّاب بیان کرتے ہیں: (اس کے بعد )ہم جب بھی نبی ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے اور مجلس کے برخاست ہونے کا وقت آجاتا‘ تو ہم خود کھڑے ہوجاتے اور رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ دیتے یہاں تک کہ آپ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے‘ (سنن ابن ماجہ:4127)‘‘۔یعنی آپ ﷺ کو حکم ہوا کہ ان کمزور طبقات کو اپنی خصوصی توجّہات وعنایات کامرکز بنائے رکھیں‘علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ''ان آیات کے نزول کے بعد جب یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بیٹھے ہوتے تو آپﷺ ان کی دلداری کی خاطرمجلس سے نہ اٹھتے یہاں تک کہ یہ لوگ آپ کی رعایت کرتے ہوئے خود اٹھ جاتے‘(تفسیر قرطبی‘ ج:4ص:391)‘‘۔
قریش نے عداوتِ مصطفی ﷺ کے جذبے سے مغلوب ہوکر بنو ہاشم کا بائیکاٹ کردیا اور انہیں تین سال تک شِعب ابی طالب میں محصور رکھا ‘اُن کے ساتھ لین دین ‘نکاح کے معاملات‘ الغرض سارے رشتے منقطع کردیے‘ علامہ محمد بن یوسف صالحی لکھتے ہیں:''مشرکین نے متفقہ طور پر طے کیا :نہ وہ ان لوگوں کے ساتھ نشست وبرخاست کریں گے ‘نہ ان کے ساتھ کوئی لین دین کریں گے ‘ نہ ان کے گھروں میں قدم رکھیں گے ‘نہ ان کے ساتھ مصالحت کریں گے ‘نہ ان کے ساتھ نرمی برتیں گے ‘تاوقتیکہ العیاذ باللہ!یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کو قتل کے لیے ان کے حوالے نہ کردیں‘پھر انہوں نے یہ عہد نامہ کعبہ کے وسط میں آویزاں کردیا ‘ (سبل الھدیٰ والرشاد‘ج:2ص:377)‘‘۔ساحر لدھیانوی نے کہا ہے:
ظلم پھر ظلم ہے‘ بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے‘ ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فَرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسِل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ یا لاشۂ بِسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے‘ ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھُپ چھُپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مَسکن کا سُراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں‘ ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند‘ نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمتِ پرکار کے ایما سے کہو
محملِ مجلسِ اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے‘ دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلۂ تند ہے‘ خِرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مَقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے‘ تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے‘ تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا‘ ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے‘ آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے‘ سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو‘ بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو‘ دبائے نہ بنے
آخر ظالموں کے دل پسیج گئے ‘ہِشام‘ زُہیر بن امیہ اور ان کی والدہ عاتکہ بنت عبدالمطلب کے پاس گیا اور کہا: زہیر! تمہیں یہ پسند ہے کہ تم خوب کھائو ‘مَن پسند لباس پہنو ‘ مَن پسند عورتوں سے نکاح کرو اور تمہارے ننھیال والوں سے نہ کوئی لین دین کرے ‘ نہ کوئی نکاح کرے ‘ واللہ! اگر حَکَم بن ہشام کے ننھیال والوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا توتمہارا ردِّ عمل یہ ہوتا؟‘ حَکَم نے کہا: ہشام! میں تو تنہا آدمی ہوں ‘میرے ساتھ کوئی اور کھڑا ہوجائے تو میں یہ ظالمانہ معاہدہ توڑ دوں ‘زہیر نے کہا:میں کھڑا ہوتا ہوں ۔اس دوران اللہ کی شان دیکھیے ! رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوطالب سے فرمایا: چچا جان! اُس ظالمانہ معاہدے کو دیمک نے چاٹ کر صاف کردیا ہے‘ بس کلمۂ ''اَللّٰھُمَّ‘‘یعنی اللہ کا نام صحیح سالم باقی ہے۔الغرض مسلمانوں کی قوتِ مدافعت اور مصائب جھیلنے کی عزیمت رنگ لائی اور قریش اُس ظالمانہ معاہدے سے دستبردار ہوگئے ۔
تیرہ سالہ مکی زندگی جبر واستبداد کی ایسی ہی ناقابلِ بیان اور ناقابلِ برداشت داستانوں سے بھری پڑی ہے ‘ اس میں طائف کا بازار بھی آتا ہے ‘حضراتِ بلال ِحَبشی‘صُہیبِ رومی‘ یاسر‘سُمَیَّہ ‘عَمَّار ‘نَہدیہ ‘زُنَیرہ اور دیگر مظلوموں کی داستانیں پڑھیں توجگر خون خون ہوجاتا ہے‘ حضرتِ بلال رضی اللہ عنہ کو عین نصفُ النہار کے وقت انتہائی گرم سنگریزوں پر لٹاکر اُن کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے کہ اگر اُن پر گوشت کی بوٹیاں رکھی جائیں تو بھُن جائیں‘ دشمن کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا :''محمد(ﷺ) کی شان میں گستاخی کرو‘ توحید کا انکار اور بتوں کا اقرار کرو‘‘‘ لیکن انہوں نے ان روح فرسا مظالم کو برداشت کیا‘ مگر محبتِ مصطفی ﷺ اور توحید کے نعرے سے دستبردار نہ ہوئے ۔
آج مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھی تین دہائیوں سے مسلسل بھارتی جبر واستبداد کا شکار ہیں ‘ کیل کانٹے سے لیس سات لاکھ مسلّح افواج اُن نہتے مسلمانوں پر مسلّط ہیں ‘انہیں شہید کیا جارہا ہے ‘عِفّت مآب پاک باز عورتوں کی آبروریزی کی جارہی ہے‘ چھرے دار بندوقوں سے حسین وجمیل نوجوانوں کی بینائی کو سلب کیا جارہا ہے اور اُن کے چاند کی طرح چمکتے ہوئے سرخ چہرے چیچک زدہ نظر آتے ہیں‘ اُن کے مکانات گرائے جارہے ہیں ‘ گھر گھر تلاشیاں ہورہی ہیں ‘ اُن کے کاروبار ٹھپ اوروسائلِ معیشت تباہ وبرباد ہوچکے ہیں‘ لیکن اس دور کی ظالم دنیا کے دلوں کی شَقاوت اور قَساوت شاید مشرکینِ مکہ سے بھی بڑھ کر ہے کہ کوئی اُن کے حق میں آواز بلند کرنے اور ظالم کے ہاتھ کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ شاید اُن کا ناقابلِ معافی جرم مسلمان ہونا ہے جس کی بنا پر انہیں حقِ وطن اور حقِ حُرّیت سے محروم رکھا جارہا ہے ‘یہ وہی حق ہے جو امریکہ اور اہلِ مغرب کی بالادستی میں انڈونیشیا میں ایسٹ تیمورکے مسیحیوں کو دیا گیا اورسوڈان میں دارفورکے مسیحیوں کو بغاوت پر اُکساکر اور پھر سوڈان کی تقسیم کر کے انہیں الگ آزاد وطن دے دیا گیا۔ اس کے برعکس اہلِ کشمیر سے 1948ئمیں خود بھارت کی درخواست پر اقوامِ متحدہ نے جو استصوابِ رائے کا وعدہ کیا تھا‘آج ستّر سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی اُس کا ایفا نہیں کیا جارہا۔
بعض اوقات ظالم کا حربہ بیک فائر ہوجاتا ہے‘ یعنی اُس کی زَد اُسی پر آپڑتی ہے ‘جس طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر کفارِ مکہ نے یہ شرط عائد کی :''مکۂ مکرمہ سے جو شخص اسلام قبول کر کے مدینۂ منورہ جائے گا‘اُسے واپس کردیا جائے گا‘‘‘ یہ شرط انتہائی ظالمانہ اور یک طرفہ تھی‘ لیکن رسول اللہ ﷺ نے دل پر پتھر رکھ کر اس کی پاسداری کی ‘اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جن کے لیے نہ مکہ میں جائے امان رہی ‘نہ مدینۂ منورہ میں جائے پناہ ‘ انہوں نے سِیف البحر کے مقام پر قریش کے تجارتی قافلوں کی راہوں میں اپنی پناہ گاہیں بنالیں اور اُن کو لوٹنا شروع کردیا جس کی بنا پر ان کے تجارتی قافلے محفوظ نہ رہے اور آخرِ کارمعاہدے کی یہی یک طرفہ شرط اُن کے گلے پڑ گئی۔ یہی صورتِ حال مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوگئی کہ جب باعزت طور پر جینا اُن کے لیے دشوار ہوگیا ‘تو ذلّت کی زندگی کے بجائے وہ غیرت کی موت کو ترجیح دینے لگے ہیں‘پلوامہ جیسا واقعہ اسی کا نتیجہ ہے‘اس سے بھارت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں‘کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پالیسی خود مزاحمت کار پیدا کرنے کی نرسری بن گئی ہے اور آتنک وادی ‘گھُس بیٹھیے اوردرانداز کے جو فتوے وہ لگاتے تھے‘ اب وہ ہتھیار کُند ہوگیا ہے اور دنیا شواہد کے بغیر کسی طور پر بھی اُسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
لیکن مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی قوتِ مزاحمت ‘جذبۂ حُرّیت اور حقِ وطن کے لیے بے مثال قربانیاں آخر کار رنگ لائیں ‘ دنیا کی توجہ اُن پر مبذول ہوگئی ‘وزیرِ خارجہ جنابِ شاہ محمود قریشی نے درست کہا:''جو کام ہم ستّر سال میں نہ کرسکے‘ وہ نریندر مودی نے کردکھایا‘‘‘ کسی نے سچ کہا ہے:''عدوّ شرے برانگیزد کہ خیرِ ما دراں باشد‘‘۔ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی عزیمت واستقامت اور بے مثال قربانیوں کو سلام کرتے ہیں ‘اُن کے شہیدوں کے لیے بلندیٔ درجات کی دعا مانگتے ہیں‘ غم زدہ بوڑھے والدین اور بیوائوں کے لیے صبر واستقامت کی دعا کرتے ہیں۔ تاحال ہم انہیں آزادی تو نہ دلاسکے‘ لیکن انہیں پتا ہے کہ ان کی خاطر پاکستان اپنے آدھے حصے سے محروم ہوگیا ‘بھارت سے تین جنگیں لڑیں اور چوتھی جنگ سر پہ کھڑی ہے ‘ جس کے لیے پوری دنیا پریشان ہے کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو خدشہ ہے خدانخواستہ کسی کا کچھ بھی نہ بچے‘ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو ۔ اللہ تعالیٰ اسبابِ غیب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماتے ہوئے انہیں نعمتِ آزادی نصیب فرمائے‘ ہماری تینوں مسلّح افواج کی عزیمت کو بھی پوری قوم کا سلام!