اسلامی شریعت کی بنیاد دو چیزوں پر قائم ہے: کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ‘ اجماعِ امت اور اجتہاداتِ ائمہ کرام انہی کے تابع ہیں۔ قرآنِ کریم کا ایک ایک لفظ ‘ایک ایک حرف شک وشبہ سے بالا تر ہے اور غارِ حرا میں پہلی وحی کے نزول اور اعلانِ نبوت سے لے کر آج تک اُمّت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن قطعی ہے ‘ نقلِ متواتر ہے ‘لا ریب ہے‘ دین کی اصل اور اساس ہے ۔لیکن قرآنِ کریم کو حدیث وسنت سے مربوط کیے بغیر اسلام پر حقیقی معنی میں عمل ممکن نہیں ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک سے زائد مقامات پرتعلیمِ قرآن کے ساتھ بیان کو بھی جوڑ کر بیان کیا‘ارشادِ باری تعالیٰ ہے''رحمٰن نے قرآن سکھایا‘اس نے انسان کو پیدا کیااور اُسے بیان سکھایا‘ (الرحمن:1-4)‘‘۔ قرآنِ کریم نے البقرہ:129آل عمران: 164 اور الجمعہ :2میں بعثتِ رسالت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے تلاوتِ آیات کے ساتھ ساتھ تعلیمِ کتاب وحکمت کو بھی بیان کیا اور مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنتِ مصطفیﷺ ہے۔ سورۃ القیامہ : 16تا19میں فرمایا ''آپ قرآن کوجلد یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیاکریں‘ بے شک اسے (آپ کے سینے میں) محفوظ کرنا اورپڑھانا ہمارے ذمے ہے ‘ پھر جب ہم (یعنی جبریلِ امین ) اسے پڑھ لیں تو آپ(قراروسکون کے ساتھ) اس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں‘پھر اس کا بیان(بھی) ہمارے ذمے ہے ‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ بیان کس پر نازل ہوا‘ پس یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ بیان اُسی پر نازل ہوا ‘جس پر اصل کلام نازل ہواہے۔ اسی مفہوم کو قرآنِ کریم نے مزید وضاحت سے بیان فرمایا:(1)''اور ہم نے آپ کی طرف قرآنِ کریم کو اتارا تاکہ آپ وہ(احکام) وضاحت سے بیان کردیں جو اُن کی طرف نازل کیے گئے ہیںاور تاکہ وہ غوروفکر کریں‘(النحل:44)‘‘۔(2)''اور ہم نے آپ پر کتاب صرف اس لیے نازل کی کہ آپ اُن لوگوں کو(وہ احکام) وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیں ‘جن کے بارے میں وہ اختلاف کرتے ہیں اور(یہ کتاب)اہلِ ایمان کے لیے (ذریعۂ) ہدایت اور رحمت ہے‘ (النحل:64)‘‘۔
پس حدیث وسنت قرآن کے معانی اور مطالب کا قولی اورفعلی بیان ہے‘اگر کوئی یہ کہے کہ ہماری ہدایت اوراسلامی تعلیمات پر عمل کے لیے قرآن ہی کافی ہے ‘ جذباتی حوالے سے تو یہ بات ناپختہ ذہن کو اپیل کرتی ہے ‘ لیکن حق یہ ہے کہ عقائد ‘عبادات ‘ معاملات اور اخلاقیات کی بابت تفصیلی احکام تو چھوڑیے‘سنتِ مصطفی ﷺ سے تمسُّک واعتصام کے بغیر اسلام کے بنیادی ارکان پر عمل کرنا بھی ممکن نہیں ہے ‘مثلاً: نماز کے پانچ اوقات کا صراحت کے ساتھ بیان ‘ نیز نمازکے ارکان اور طریقِ ادا کا قرآن میں جامع بیان نہیں ہے‘ روزے کے تفصیلی مسائل کا بیان قرآن میں نہیں ہے‘ زکوٰۃ کی فرضیت ‘ اس کی حکمت اور اس کے مصارف کا تو قرآنِ کریم میں بیان ہے ‘ لیکن کم از کم نصابِ زکوٰۃ ‘شرائطِ وجوبِ زکوٰۃ ‘حولانِ حول کی شرط اور شرحِ زکوٰۃ وعُشرکا قرآنِ کریم میں وضاحت کے ساتھ بیان نہیں ہے ‘ اسی طرح حج کے مسائل اور حلال وحرام کے دیگر تفصیلی مسائل ہیں ۔اگر کوئی یہ کہے کہ پھر تو قرآن جامع اور مکمل نہ ہوا ‘یہ اس کی غلط تعبیر ہے ‘جب قرآنِ کریم نے تفصیلی احکام کا بیان نبی ﷺ کی ذمے داری قرار دی ہے ‘تو جو کچھ آپ نے اپنے قول وفعل سے بیان کیا ‘اس کی حجیت قرآن ہی سے ثابت ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''اور وہ( نبی ﷺ)اُن کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں‘ (الاعراف:157)‘‘۔ اس آیۂ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ مُقَنِّن (Law Maker)اور شارعِ مُجاز (Authorized Law giver)ہیں‘ اُن کا ہر قول و فعل قرآن کا معنی ومفہوم اوربیان ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں: گودنے والیوں‘ گودوانے والیوں ‘بال نوچنے والیوں اور حسن کے لیے دانتوں میں جھری(کشادگی) کرنے والیوں (اور)اللہ تعالیٰ کی ساخت میں تبدیلی کرنے والیوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے ‘بنو اسد کی اُمِّ یعقوب نامی ایک عورت کو یہ خبر پہنچی تو وہ آئی اور (عبداللہ بن مسعودؓ سے)پوچھا:مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے فلاں فلاں صفات کی حامل عورتوں پر لعنت کی ہے ‘ انہوں نے کہا: جن پر اللہ کے رسول نے لعنت فرمائی ہے اوراللہ کی کتاب میں لعنت ہے‘میں اُن پرکیوں لعنت نہ کروں ‘ اس عورت نے کہا: میں نے دو لوحوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ‘میں نے تو اس میں نہیں پڑھا‘اُنہوں نے کہا: اگر تم نے (سوچ سمجھ کر) پڑھا ہوتا توتم اسے پالیتیں‘ کیا تم نے نہیں پڑھا:''اور جو کچھ رسول تمہیں دیں ‘اُسے لے لو اور جس سے وہ منع کریں ‘اس سے رک جائو‘(الحشر:7)‘‘‘ اس عورت نے کہا: یقینا(میں نے یہ پڑھا ہے)‘انہوں نے کہا: پس نبیﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ‘ اس عورت نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بیوی بھی اس طرح کرتی ہے ‘ انہوں نے کہا: جائو جاکر اسے دیکھ لو‘ وہ عورت گئی اور اس نے دیکھا‘ پس اس کو اپنی مطلوبہ کوئی چیز نہیں ملی‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: اگر میری بیوی اس طرح کرتی تو وہ میرے ساتھ ہرگز نہیں رہ سکتی تھی‘ (بخاری:4886)‘‘۔ اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہؐ کا ہر قول وفعل قرآن ہی کی تفسیر ہے اور آپ سے جو اُمور تواتر کے ساتھ ثابت ہیں ‘وہ قرآن کی طرح قطعی ہیں۔ دولوحوں کے درمیان کو عربی میں ''مَابَیْنَ الدَّفَتَیْنِ ‘‘ یعنی مُصحفِ مُقدّس کی پہلی اور آخری جلد کے درمیان کلمۂ اول الحمد سے کلمۂ آخر النّاس تک جو کچھ بھی ہے ‘وہ قرآن ہے ۔
قرآنِ کریم نے اہلِ ایمان کو اللہ اور اس کے رسول ؐکی اطاعت کا پابند کیا ‘ ارشاد ہوا:(1)''اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو ‘ (النسائ:59)‘‘۔ اورپھر قولِ فیصل صادر کیا کہ رسول کی اطاعت ہی در اصل اللہ کی اطاعت ہے‘ فرمایا: پس جس نے رسول کی اطاعت کی ‘درحقیقت اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی‘ (النسائ:80)‘‘۔آل عمران:31میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے اتباع کو اپنی محبوبیت کا مدارومحور بتایا ‘ نیز فرمایا:''اور کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے روا نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ فرمادیں ‘تو اُن کے لیے (اُس کے رَد وقبول کا) کوئی اختیار باقی رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوا‘ (الاحزاب:36)‘‘۔پس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرم ﷺ کے فیصل شدہ حکم کو تبدیل کرنے کا اختیار کسی ریاست ‘ حکومت ‘ عدالت یا فرد کے پاس نہیں ہے ‘ اسی لیے قرآن نے اللہ اور اس کے رسول کی غیر مشروط اطاعت لازم قرار دینے کے بعد فرمایا: ''اگر تمہاراکسی معاملے میں اختلاف ہوجائے ‘ تو اسے (حتمی فیصلے کیلئے)اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادو‘(النسا:59)‘‘۔
پس قرآن اور سنت وحدیث باہم لازم وملزوم ہیں اور سنت وحدیث کو قرآن سے جدا کر کے حقیقی فہمِ قرآن اور عمل بالقرآن ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس لیے منحرفین اسلام کی اساس کو کمزور کرنے کے لیے ہمیشہ قرآن کو حدیث سے جداکرنے کی سعیِ مذموم کرتے رہے ہیں ‘ اس فتنے کی طرف رسول اللہ ﷺ نے خود متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: (1)سنو !مجھے کتاب دی گئی ہے اور اُس کی مثل اس کے ساتھ دی گئی ہے‘ سنو! عنقریب ایک پیٹ بھرا شخص اپنی مَسند پر ٹیک لگائے ہوگا اور کہے گا: اس قرآن کو لازم پکڑو‘ سو جو کچھ تم اس میں حلال پائو‘ اُسے حلال جانو اور جو کچھ تم اس میں حرام پائو‘ اُسے حرام جانو ‘سنو! پالتو گدھا اور کچلیوں سے شکار کرنے والے درندے حلال نہیں ہیں‘ (ابودائود:4604)‘‘۔ (2)''رسول اللہ ﷺ نے کُچلیوں (سامنے کے دانتوں) سے شکار کرنے والے ہر درندے اور پنجوں سے شکار کرنے والے ہر پرندے کو حرام قرار دیا ہے ‘(صحیح مسلم:1934)‘‘۔ حالانکہ اشیا میں سے قرآنِ کریم میں صرف چندچیزوں کی قطعی حرمت کا ذکر ہے: مُردار‘ذبح کے وقت بہنے والا خون‘ خنزیر‘ غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور‘ خمر‘ درندے‘ حشرات الارض ‘ پنجوں سے شکار کرنے والے پرندے ‘ ربوٰا ‘ قِمار وغیرہ کو رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے اور آپ کا حرام قرار دینا قرآن ہی کا حرام قرار دینا ہے‘ کیونکہ یہ اتھارٹی آپ کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں عطا فرمائی ہے۔نیز اللہ تبارک وتعالیٰ نے نُطقِ مصطفی ﷺ کی عصمت کی قرآن میں شہادت دی ہے ‘فرمایا: ''اور وہ (اپنی )خواہشِ نفس سے کوئی بات نہیں کرتے ‘وہ صرف وہی بات کہتے ہیں جس کی انہیں وحی کی جاتی ہے‘ (النجم:3-4)‘‘۔ سو آپ ﷺ کا قولِ مبارک‘ آپﷺ کا فعلِ مبارک ‘ آپ ﷺ کا نُطقِ مبارک اور آپ ﷺ کی فکر اورقلبِ مبارک پر وارد ہونے والے خیالات سب معصوم ہیں‘ کیونکہ اگر آپ سے معصیت کا صدور العیاذ باللہ! ممکن مانا جائے ‘ تو قرآنِ کریم میں جو آپ کی اطاعت واتباع کو علی الاطلاق واجب قرار دیا ہے‘ خدانخواستہ اس سے معصیت کی اطاعت واجب قرار پائے گی جو شریعت کی رُو سے محال ہے اور جو امر محال پر مُنتج ہو ‘ وہ بھی محال ہوتا ہے ۔
اس موضوع پر میں نے گفتگو اس لیے کی ہے کہ دینی مدارس وجامعات میں نصفِ شوال المکرم سے نیا تعلیمی سال شروع ہونے جارہا ہے اور ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ حصولِ خیر وبرکت کے لیے تعلیمی سال کا آغاز صحیح بخاری کی پہلی حدیث کی تدریس سے کرتے ہیں ‘ اس موقع پرحجیت ِ حدیث پر بھی کلام کیا جاتا ہے ‘ کیونکہ دین کے تفصیلی احکام کا مدار کتاب وسنت پر ہے اور اجماع وقیاس انہی دونوں اصولوں کی فرع ہیں ۔ ائمۂ حدیث اور اکابرِ اُمّت نے حدیث کے اَخذ وقبول کے لیے کڑے معیارات مقرر کیے ہیں ‘ جن میں راوی کا معروف الحال ‘ حافظے میں کامل واکمل اور عادل ہونا اور یہ کہ کاذب ہونا تودرکنار اُن پر کبھی کذب کی تہمت بھی نہ لگی ہو ‘ علیٰ ہذا القیاس ۔ اس کے لیے باقاعدہ علمِ اَسماء ُالرجال اور فَنِّ جرح وتعدیل کی تدوین کی گئی ‘ ایسانہیں کہ تاریخ کی کتابوں کی طرح چھان بین اور تحقیق وتنقیح کے بغیر رطب ویابس کو جمع کردیاگیاہو ۔