الفتح :29کا ترجمہ اور تشریح گزشتہ کالم میں آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں‘ قرآن نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ جس طرح ختم المرسلین ‘رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکرِ مبارک تورات ‘ انجیل اور سابق انبیائے کرام کے صحیفوں میں موجود ہے‘ آپ کے بارے میں بشارتیں دینا اورآپ کی تائید ونصرت کااقرار کرنا اُن کی تعلیمات کا حصہ رہا ہے اور اس پر عالَمِ ارواح میں ارواحِ انبیائے کرام علیہم السلام سے لیا گیا میثاق اوراقرار نامے کا ذکر آل عمران:81میں تاکیدات کے ساتھ مذکور ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کا ذکر بھی انجیل میں مذکور ہے ''اور اس نے کہا : خداکی بادشاہی ایسی ہے ‘ جیسے کوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اوررات کو سوئے اور دن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اُگے اور بڑھے کہ لگے زمین آپ سے آپ پھل لاتی ہے ‘ پتی پھر بالیاں‘ پھر بالیوں میں تیار دانے ‘ پھر اناج پک چکا تووہ فی الفور درانتی لگا تا ہے ‘ کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ آگے چل کر کہا : رائی کے دانے کی مانند ہے جب زمین میں بویا جاتا ہے تو زمین کے سب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے ‘ مگر جب بو دیا گیا تو اُگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتاہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندے اس کے سائے میں بسیرا کرتے ہیں‘(انجیلِ متّیٰ باب :13آیات : 31-32 مرقس ‘ باب : 4 آیات: 26-32)‘‘۔اسی طرح فتح ِ مکہ کے منظر کو تورات نے ان الفاظ میں بیان کیا ''خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا ‘ فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا‘ دس ہزار قُدسیوں کے ساتھ آیا‘ اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی ‘ (استثناء ‘ باب : 33 آیت : 2)‘‘یہ اتنا واضح بیان ہے کہ کسی تاویل و توجیہ کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔
الفتح:29میں اصحابِ رسولؐ (اور ان کے وسیلے سے تمام اہلِ ایمان )کی ایک پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ سجدوں کے نورانی اثرات ان کے چہروں پر عیاں ہوں گے ۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ سجدوں کی وجہ سے بعض لوگوں کی پیشانی پرجو سیاہ نشان پڑ جاتاہے ‘ اس سے وہ مراد ہے ۔ ہماری نظر میں یہ تعبیر درست نہیں ہے ‘ بلکہ اس کی بہترین تعبیر حدیثِ پاک میں بیان کی گئی ہے ''رسول اللہ ﷺ ایک قبرستان میں آئے اور فرمایا ''اے مومنوں کی بستی والو !تم پر سلام ہو‘ ان شاء اللہ ہم بھی (اپنی باری پر ) تم سے آ ملیں گے ‘ میری تمنا تھی کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہوتا ‘‘۔صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہؐ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟‘ آپ ﷺ نے فرمایا : تم تو میرے اصحاب ہو‘ ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی دنیا میں آئے نہیں ہیں ‘ صحابہ نے پھر عرض کی : یار سول اللہؐ ! آپ کی اُمت کے وہ افراد جو ابھی(دنیا میں )نہیں آئے ‘ انہیں کیسے پہچانا جائے گا ؟‘ آپﷺ نے فرمایا : ذرا بتاؤتو سہی اگر ایک آدمی کا پنچ کلیان( پیشانی اور چاروں گھٹنوں پر سفید نشان والا ) گھوڑا ہواور وہ کالے سیاہ گھوڑوں میں موجود ہو ‘ تو کیا وہ سب سے ممتاز نظر نہیں آئے گا؟ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہؐ! یقینا ممتاز نظر آئے گا ‘ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اس حال میں آئیں گے کہ ان کے وُضو کے اعضا(یعنی ہاتھ اور چہرے ) نورانی ہوں گے اور میں حوضِ کوثرپر ُان کے استقبال کے لیے پہلے سے موجود ہوں گا(صحیح مسلم : 249)‘‘۔ اس سے صرف قرونِ اولیٰ کے بعد آنے والے امتی مراد نہیں ہیں‘ بلکہ آپ کی ساری امت مراد ہے اور صحابۂ کرام اس کا اولین مصداق ہیں‘ کیونکہ وضو پوری امت کا شعار ہے‘اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرمایا ہے ''ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں جانب رواں دواں ہوگا ‘ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب ! ہمار ا نور ہمارے لیے مکمل فرمادے اور ہمیں بخش دے‘ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘ (التحریم : 8)‘‘نیز فرمایا ''جس دن منافق مر داور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے : ہماری طرف دیکھو ‘ تاکہ ہم (بھی ) تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کریں ‘ اُن سے کہاجائے گا: تم اپنے پیچھے لوٹ جائو (اوراپنے لیے) کوئی روشنی تلاش کرو‘ پس ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہوگا‘ اس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور اس کے باہر کی جانب عذاب ہو گا ‘وہ منافق اہلِ ایمان کو پکاریں گے:کیا ہم (دنیا میں)تمہارے ساتھ نہیں تھے ‘ وہ کہیں گے: کیوں نہیں !(یقینا تم ہمارے ساتھ تھے)‘ لیکن تم نے اپنے آپ کو (نفاق کے)فتنے میں ڈال دیا اور تم (مسلمانوں پر مصائب کا) انتظار کرتے رہے اور (دین میں)شک کرتے رہے اور تمہاری جھوٹی آرزوئوں نے تمہیں فریب میں مبتلا رکھا‘ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اوربڑے دھوکے باز (شیطان )نے تمہیں فریب میں مبتلا رکھا‘ (الحدید : 13-14)‘‘۔
مفسرینِ کرام نے بیان کیا ہے کہ الفتح:29میں صحابۂ کرام کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ‘ وہ عمومی طور پر تمام صحابۂ کرام میں درجہ بدرجہ موجود ہیں اور ہر ایک صحابی اپنے اپنے مرتبے کے مطابق ان کا مَظہرہے ۔ لیکن اِن صفات میں جو ایک معنوی ترتیب ہے ‘ وہ خلافتِ راشدہ کی ترتیب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے ۔ پہلی صفت معیّت و رفاقتِ رسول اللہﷺ کا مَظہرِ اَتَمّ حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اعلانِ نبوت کے پہلے دن سے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ ظاہری کے آخری دن تک آپ کے ساتھ رہے ‘ بزم میں ‘ رَزم میں ‘ سفر میں ‘ حَضَر میں ‘ جَلوت میں ‘ خَلوت میں یہاں تک کہ غارِ ثور میں تین دن اور تین راتیں ایسی بھی آئیں کہ رُخِ مصطفیﷺ کے جلوے تھے اور نگاہِ صدیق ؓتھی ‘ اس پُر کیف نظارے میں چشمِ فلک بھی اُن کے ساتھ شریک نہ تھی ‘ آج روضۂ انور میں بھی آپ کے ساتھ ہیں ‘ اسی طرح قبرِ انور سے ایک ساتھ اٹھیں گے اور جنت میں بھی ایک ساتھ داخل ہوں گے ۔
کفّار پر انتہائی شدّت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا امتیاز تھا ۔ طبیعت میں نرمی ‘حلم وبردباری ‘عفّت و حیا ‘ سخا و غِنٰی حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھا اور ہر لمحے عبادتِ الٰہی میں محو رہنا ‘ اللہ تعالیٰ کے فضل و رضا کے بحرِزخّار میں غوطہ زن رہنا اور حلم و شجاعت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا ۔ صحابۂ کرام کے اوصافِ جلیلہ کو اس معنوی ترتیب سے بیان کرنے میں خلافتِ راشدہ کی ترتیب اور تدریج کی طرف بھی لطیف معنوی اشارہ موجود ہے اور بعد میں عملی صورت میں بھی اُمت نے خلافتِ راشدہ کی یہی ترتیب دیکھی ۔ سورۂ الفتح ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن صحابۂ کرام کو اپنی رضا کی قطعی سند عطا فرمائی ہے اور جس کے بارے میں اہلِ ایمان کے درمیان دو آر ا ء نہیں ہو سکتیں ‘ اس اعزاز میں بھی یہ چاروں خلفائے کرام شامل ہیں ۔
عمومی فضائل کا مصداق درجہ بدرجہ تمام صحابۂ کرام ہیں ‘لیکن رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابۂ کرام کے خصوصی فضائل اور امتیازی اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں ‘آپ ﷺ نے فرمایا ''میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکر ؓہیں ‘ اللہ کے دین کے بارے میں زیادہ شدت کرنے والے اور غیّور عمر ؓہیں ‘ سب سے زیادہ پیکرِ حیا عثمانؓ ہیں ‘ قضا کی سب سے زیادہ اہلیت علی ابن ابی طالبؓ میں ہے ‘کتاب اللہ کے سب سے بڑے قاری (وحافظ) اُبی بن کعبؓ ہیں ‘ حلال وحرام کے احکام کو سب سے زیادہ جاننے والے مُعاذ بن جبلؓ ہیں اور علمِ میراث کو سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابتؓ ہیں ‘سنو! ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جرّاحؓ ہیں ‘(ابن ماجہ:154)‘‘۔
حدیثِ پاک میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اپنا دستِ مبارک میرے شانے پر رکھا اور فرمایا:''اے اللہ! انہیں دین میں فقاہت اور تاویل کا علم عطا فرما‘ (مسند احمد: 2397)‘‘۔ تاویل سے مراد یہ ہے کہ قرآن کا وہ کلمہ جو اپنے معنی پر قَطْعِیُّ الدَّلَالَت نہیں ہے اور ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھتا ہے ‘تو اُسے صحیح اور راجح معنی پر محمول کرنا‘ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے تفسیری آثار سب سے زیادہ ہیں‘ حدیثِ پاک میںہے'' حضرت ابوجُحَیفہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت علیؓ سے پوچھا: کیا آپ کے پاس کتاب اللہ کے سوا بھی کوئی امانتِ وحی ہے ‘ انہوں نے فرمایا: نہیں‘ اُس ذات کی قسم جس نے بیج کے دانے کو پھاڑا(اور کونپل نکالی) اور روح کو پیدا کیا‘ صرف اتنی بات ہے کہ اللہ نے مجھے فہم عطا فرمائی جو کسی شخص کو قرآن کے بارے میں اللہ کی طرف سے عطا کی جاتی ہے ‘ (انہوں نے پوچھا:) اس صحیفے میں (جو حضرت علیؓ کے پاس تھا)کیا ہے : انہوں نے فرمایا: عقل ‘ (صحیح البخاری: 3047)‘‘یعنی دیت کے احکام ‘قیدیوں کو چھڑانے کے احکام اور یہ کہ کسی مسلمان کو (حربی) کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
بحیثیتِ مجموعی صحابۂ کرام کی عدالت ‘دیانت اور صداقت پر اعتماد ضروری ہے ‘ کیونکہ دینِ اسلام جس کا مدار نقل وروایت پر ہے ‘اس کی پہلی کڑی صحابۂ کرام ہیں‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا''ستارے آسمان کے لیے بچائو اور امان ہیں‘ پس جب ستارے مٹ جائیں گے تو جس بات کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (یعنی قیامت) ‘ وہ آسمان پر آجائے گی اور میں اپنے صحابہ کے لیے ڈھال ہوں اورجب میں چلا جائوں گا تو میرے اصحاب پر وہ (فتنے) آجائیں گے جن سے اُن کو ڈرایا گیا اور جب میرے صحابہ چلے جائیں گے (یعنی اُن کا عہد ختم ہوجائے گا) تو میری امت پر وہ حالات (بتدریج) آجائیں گے ‘ جس کی وعیدیں انہیں سنائی جاتی رہی ہیں (یعنی حوادث وفِتَن کامرحلہ وار ظہور ہوگا )‘ ( مسلم: 2531)‘‘۔ اسی لیے آپ ﷺ نے علاماتِ قیامت کے طور پر یہ بھی فرمایا تھا ''اس امت کے بعد میں آنے والے اپنے پہلے آنے والوں پر لعن طعن کریں گے‘ ( ترمذی: 2210)‘‘‘ پس صحابۂ کرام کے بارے میں کَفِّ لِسان حکمتِ دین کا تقاضا ہے۔