مومن خاں مومنؔ نے کہا ہے:
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
ہم اگر ریاستی اور قومی پالیسیوں کے حوالے سے اسلام کا حوالہ دیں تو بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرتا ہے‘کہاجاتا ہے کہ ہم تو ایک آئینی اور قانونی نظام میں بندھے ہوئے ہیں‘ لیکن جب اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انہی لوگوں کی اپنی خواہشات اور ترجیحات پر کوئی زد پڑتی ہے تو اچانک جَست لگاکر اسلام کی پناہ لینے میں کوئی جھینپ محسوس نہیں کرتے ‘بلکہ ڈھیٹ بن جاتے ہیں‘ ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔
امریکی جاسوس اور بلیک واٹر کے کارندے ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں سرِ عام دہرے قتل کا ارتکاب کیا‘ قانون کی گرفت میں آگیا‘حوالات سے ہوتے ہوئے جیل پہنچ گیا‘ریاست کے اندر اس کو نافذ العمل قانونی عمل سے گزارنے اورجرم کے مطابق سزا دینے کی سکت نہیں تھی‘ تو اسلام کے قانونِ دیت و قصاص کا سہارا لیا گیااور پسِ پردہ ایک ہی دن میں سارے معاملات طے پاگئے۔بجائے اس کے کہ اُس مجرم کو عدالت میں پیش کیا جاتا‘ عدالت چل کر مجرم کے حضور حاضر ہوگئی‘ دیت ادا کردی گئی ‘ریمنڈ ڈیوس کو ائیرپورٹ پہنچایا گیا اور وہاں سے وہ خصوصی پرواز کے ذریعے امریکا پہنچ گیا۔حالانکہ یہ محض ایک قتل کا جرم نہیں تھا‘ بلکہ وہ جاسوس بھی تھا‘ اس نے ذاتی عداوت و انتقام کے جذبے سے مغلوب ہوکریاذاتی مدافعت میں یہ اقدام نہیں کیا تھا‘بلکہ یہ سراسر ایک دہشت گردی کاجرم تھااوراُن دنوں ملک میں دہشت گردی کی لہر بھی چل رہی تھی‘ لیکن ''جرمِ ضعیفی ‘‘ کاکوئی مداوا نہیں ہوتا‘دینی وملّی غیرت وحمیت کی رگ بھی سُن ہوجاتی ہے اور عافیت کی آغوش میں پناہ لینا ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے‘ سومومن خاں مومنؔ کا مذکورالصدر شعر ہمارے حسبِ حال ہے۔ اس کے برعکس ایک عدالت نے ممتاز حسین قادری مرحوم کے لیے سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے دہشت گردی کی دفعہ اٹھالی تھی‘ لیکن دوسری عدالت نے دہشت گردی کی دفعہ کو دوبارہ بحال کردیا‘ یہ ایک عدالتی فنی عمل تھا‘ اس سے نتیجہ بدلنا نہیں تھا‘ مگر ہر کوئی امریکا تھوڑی ہے۔
یہ پسِ منظر اس لیے یاد آیا کہ آئین معطل کرنے کے جرم میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آیاتو بہت سے لوگوں کو اچانک اسلام یاد آگیااور یہ کہ لاش لٹکانے کی بات انسانیت کی بے حرمتی ہے اور ایسی بات فیصلے میں کیوں لکھی گئی ہے۔ یہاں خصوصی عدالت کا فیصلہ اور اس کے مندرجات موضوعِ بحث نہیں ہیں‘بلکہ بحث کااصل موضوع ہمارا قومی مزاج ہے کہ ہم نے اسلام کو بھی برائے استعمال سمجھ رکھا ہے‘ ابھی اس پر شوروغوغا بپا کرتے ہوئے چنددن ہی گزرے تھے کہ جنابِ فیصل واوڈا نے جنابِ احسن اقبال کے بارے میں فرمایا:''احسن اقبال عرف ارسطو عرف منافق نواز شریف سے بھی بڑا ڈاکو ہے‘اس کو سب سے پہلے پکڑنا چاہیے تھا‘ لیکن بہت بعد میں پکڑا گیا‘ اس کی فرنٹ کمپنی اور رشتہ داروں کی فہرست جلد سامنے لائونگا‘ان کی لوٹ مار نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا‘ ایسے لوگوں کو کم از کم تین دن لٹکانا چاہیے‘‘۔سو یہ ہماری قیادت کا شعور ہے اور ہمارے حافظے کا حال بھی یہی ہے کہ تین دن پہلے جو چیز خلافِ اسلام تھی‘ وہ تین دن بعد تین سے ضرب دے کر عین اسلام قرار پائی‘ فَیَا اَسفیٰ وَیَا لَلْعَجب!۔ جنابِ واوڈا کو معلوم ہوگا کہ اُن کی اس خواہش کی تکمیل اسلامی شریعت کے تحت ہوپائے گی یا ملکی قانون کے تحت یاوہ ہر قسم کے قانون سے بالاتر ہیں‘بس اُن کی خواہش ہی قانون ہے۔کوئی ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ سابق صدر جناب پرویز مشرف نے وطنِ عزیز کی بحری‘ برّی اور فضائی حدود امریکا کے سپرد کی تھیں تو کن شرائط کے تحت ‘اُن کے زوال کے بعد بھی دس سال گزر چکے ہیں‘ لیکن آج بھی حقائق پسِ پردہ ہیں‘ نیز یہ بھی کوئی بتانے کو تیار نہیں کہ چلتے پھرتے ‘جیتے جاگتے انسانوں کو پکڑ واکر جو امریکا کے حوالے کیا گیا اور اس کے عوض ڈالر وصول کیے گئے‘ یہ کس ارضی وسماوی قانون کے تحت تھا ‘موصوف کی کتاب ''اِن دی لائن آف فائر‘‘ میں خود انہی کے قلم سے اس کا اعتراف موجود ہے۔
ویسے ''لٹکانے ‘‘کا شوق تو ہمارا قومی مزاج ہے: قصور کا واقعہ ہو‘ مردان کا ہو‘ کراچی کا ہویا بہاولپور کا‘ پہلا مطالبہ تو یہی ہوتا ہے:''اس کو چوراہے پر لٹکایا جائے‘‘۔ لیکن جہاں تپش زیادہ ہو ‘ وہاں ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے اسلام یاد آجاتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ آیا اسلام میں جرم کی محض سزا کافی ہے یا نشانِ عبرت بنانا بھی ضروری ہے‘ تو سورۂ النور میں زانی مرد وعورت کے لیے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''زنا کار عورت اور زنا کار مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگائواور اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو ان دونوں پر اللہ کا حکم نافذ کرنے میں تمہیں ان پر ترس نہیں کھانا چاہیے اور چاہیے کہ ان دونوں کی سزا (کے منظر)کومسلمانوں کی ایک جماعت دیکھے‘ (النور:2)‘‘۔ جدید دنیا مذہبِ انسانیت کی آڑ میں جرم اور مجرم کے لیے پناہ کا راستہ ڈھونڈتی ہے‘ جبکہ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ معاشرے کو اخلاق بافتگی‘ فحاشی وخرافات سے بچانااورانسانی جان کا تحفظ ترجیحی ضرورت ہے‘ اسی لیے زنا کی سزا برسرِ عام دینا لازمی قرار دی گئی ہے‘ نیز شادی شدہ زانی اور مَزنیہ کو رجم کی سزا دیتے وقت معاشرے کو اس میںشریک کیا جاتا ہے تاکہ پتا چلے کہ یہ جرم پورے معاشرے کے نزدیک قابلِ نفرت ہے اور ایسا مجرم قابلِ رحم نہیں ہے۔
اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اورچوری کرنے والے مرد اورچوری کرنے والی عورت کے (دائیں)ہاتھ کاٹ دو ‘یہ ان کے کیے کابدلہ ہے (اور)اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے اور اللہ بہت غالب‘ نہایت حکمت والاہے‘ (المائدہ:38)‘‘۔ پس ''نَکَال‘‘کے معنی مجرم کو ایسی سزا دینا جس سے دوسرے بھی عبرت پکڑیں اور معاشرے میں جرائم کی حوصلہ شکنی ہو‘معاشرے کی وسیع تر حرمت اور حفاظت اسلامی شریعت کی ترجیح ہے اور اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک بے قصور جان کے تحفظ کو پوری انسانیت کی بقائے حیات سے تعبیر کیا ہے اور ایک بے قصور انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔
اسلام میں سب سے سنگین سزا''حِرابَہ‘‘اور''فَسَاد فِی الْاَرض ‘‘کی ہے ؛چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ''فَسَاد فِی الْاَرْض‘‘ کو اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: ''وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیںاورزمین میںفساد برپا کرتے ہیں‘ ان کی سزا یہ ہے کہ انہیں چن چن کر قتل کیا جائے یا اُنہیں سولی پر لٹکایا جائے یا اُن کے ہاتھ اورپائوں مخالفت سَمت سے کاٹ دیے جائیں یا اُن کو زمین سے نکال دیا جائے‘ یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑا عذاب ہے‘ (المائدہ:33)‘‘۔امام فخر الدین رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:''اگر یہ دہشت گرد قتل و غارت بھی کریں اورلوٹ مار بھی کریں‘ توانہیں قتل کرنے کے ساتھ ساتھ سولی پر بھی لٹکایا جائے‘ اس لیے کہ اگر سرِ راہ انہیں سولی پر لٹکایا جائے گاتو یہ اس بات کا اشتہارہوگا کہ انہوں نے انسانیت کے خلاف اتنا بڑا جرم کیا ہے‘ پس یہ دوسروں کے لیے سامانِ عبرت بنے گا اور وہ جرم سے باز آجائیں گے اور اگر یہ لوگ صرف لوگوں کو خوف زدہ اور ماحول کو دہشت زدہ کر رہے ہوں‘ تو ان کا زمین سے اٹھایا جانا( یعنی موجودہ حالات میں جیل میں ڈالنا)از حد ضروری ہے ‘‘۔
آج کل ہمارے ہاں ثبوتِ جرم کے بغیر طویل عرصے تک جو لوگوں کو قید رکھا جاتا ہے‘ اس وقت اسلام کسی کو یاد نہیں آتا کہ یہ شِعار یا یہ قوانین روحِ اسلام کے منافی ہیں‘ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ پہلے جرم ثابت کرو اور پھر اس کے مطابق سزادو‘ سو اگر کسی شخص کو عرصے تک جیل میں رکھا گیا اور بالآخر وہ عدمِ ثبوتِ جرم کی بنا پر بری بھی ہوگیا‘ توایک بے قصورشخص کی جیل کی سزا اور رسوائی کا بدل کیا ہوگا‘ اللہ کے قانون میں تو اس کی اجازت نہیں ہے‘ لیکن اللہ کا قانون ہمیں صرف اپنے مقصد کے لیے یاد آتا ہے۔نیز ایک سابق بڑے منصف نے ایک آبزرویشن میں کہایا فیصلے میں لکھا: ''ہم قانون کے مطابق انصاف کرتے ہیں ‘‘۔سانحہ ساہیوال کے مجرموں کا چھوٹ جانا ''قانون کے مطابق انصاف ہی تو تھا‘‘ ورنہ قتل تو سرِ عام ہوا تھااور قاتل بھی گرفتار ہوچکے تھے۔موجودہ حکومت کے دورمیں یہ ایک ایسا سانحہ ہوا کہ اب سانحۂ ماڈل ٹائون کو وقتاً فوقتاً یاد کرنے کی اخلاقی برتری کووہ کھوچکے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اب دونوں سانحات کو بھول جانے ہی میں اُن کے لیے سامانِ عافیت ہے۔
اسی طرح ایک سابق چیف جسٹس کی عدالت میں اُن کے طلب کردہ توہینِ عدالت کے ملزمین یا مجرمین آتے ‘ اپنی غلطی پر اعتذار کرتے ‘عدالت کے احترام کی یقین دہانیاں کراتے‘ اپنی حُسنِ نیت کا اظہار کرتے‘ مگر عدالت کہتی: ''تم نے جو کہا ہے‘ حکم اس پر لگے گا‘‘مگر جب ناموسِ رسالت مآب ﷺ اورناموسِ مقدّساتِ دین کا مسئلہ آتاہے تو نیت پر اور آخرت پر چھوڑ دیا جاتا ہے ‘ جبکہ ملکی قانون بھی یہی کہتا ہے اور شرعی قانون بھی یہی کہتا ہے کہ حکم ظاہر پر لگے گا‘ باطن کا فیصلہ اللہ کی عدالت میں ہوگا۔کیا یہ رویہ اس امر کا بیّن ثبوت نہیں ہے کہ ہمارا نظام تحفظِ ناموسِ رسالت مآب ﷺ کے لیے اتنا حساس نہیں ہے‘ جتنا کہ ناموسِ عدالت اوردیگر مقتدر شخصیات کے تحفظ کے لیے ہے‘ اسی طرح آئے دن ہم دیکھتے ہیںکہ ارکانِ پارلیمنٹ اپنی اپنی جماعتوں کے قائدین کی ناموس کے لیے جب سراپا احتجاج بنتے ہیں تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور تمام تر اخلاقی حدوں کو عبور کرلیتے ہیں‘ لیکن کبھی نہیں دیکھا کہ اسی صوت وآہنگ کے ساتھ یہ سب یک زبان ویک جان ہوکر ناموسِ رسالت مآبﷺ اور ناموس مُقَدَّساتِ دین کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہوں‘ حالانکہ یہ سیاسی رہنما تو صرف دنیا میں ہی انہیںکوئی حقیقی یا متوقع فائدہ پہنچاسکتے ہیں‘ جبکہ ذاتِ رسالت مآب ﷺ سے وابستگی اور مقدَّسات دین کا دل وجان سے تحفظ اور ان کے لیے سر گرم ہونے میں دنیا وعاقبت دونوں کی فلاح ہے‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق مرحمت فرمائے۔