اہلسنت وجماعت کے حالات ان دنوں انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ہم اپنے علمی اختلافات کوداخلی سطح پر طے کرنے کی بجائے عوام میں لے آتے ہیں‘ پھر سوشل میڈیا پر دین کو بازیچۂ اطفال بنادیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے۔ اس کے باوجود بعض علماء کو یہ شوق لاحق ہوگیا ہے کہ اُن کی ہر بات ‘ ہر ادا ‘ ہر قول وفعل بلاتاخیر سوشل میڈیا پر آجائے‘ یہ روش انتہائی حد تک نقصان دہ ہے ‘ سوشل میڈیا پر چیزوں کو ایڈٹ کر کے ڈالنا چاہیے اور فائدے کے حصول پر نقصان سے بچنے کوترجیح دینی چاہیے ۔ ہمارے ہاں ایک شعار یہ ہے کہ اگر کسی سے کسی مسئلے میں اختلافِ رائے ہوگیا ہے ‘تو بلاسوچے سمجھے انتہائی درجے کاحکم لگادیا جاتا ہے اور پھر واپسی کا راستہ باقی نہیں رہتا‘جبکہ افتاء کا اصول یہ ہے کہ جس درجے کی خطا یا لغزش ہو ‘ اُسی درجے کا حکم لگایا جائے اور اس میں بھی احتیاط برتی جائے‘فقہائے کرام نے تو اس حد تک احتیاط کا حکم دیا ہے کہ اگر کسی کے کلام میں ننانوے وجوہ کفر کی ہوں اور ایک وجہ اسلام کی نکلتی ہو تو اُسے ترجیح دی جائے‘ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہے:اے کافر! تو بے شک دونوں میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا‘‘ (بخاری:6103)۔یعنی اگر مخاطَب درحقیقت کفر کامرتکب ہوچکا ہے ‘ تو اس پر کفر کا اطلاق درست ہوگا‘ورنہ مسلمان کو کافر کہنے والے پر یہ کفر لوٹ جائے گا ‘فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ''یہ اس صورت میں ہے کہ وہ اسے اعتقاداً کافر سمجھ کر کہے اور اگر محض گالی کے طور پر کہے تو قائل کافر نہیں ہوگا(بلکہ گناہگار ہوگا)‘‘۔
بعض لوگ اختلافِ رائے کے وقت ازخود کسی شخص کے ایمان ‘ اخلاص ‘قلبی کیفیات ‘نیت اورعمل کے محرّکات کے بارے میں گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ اختلافِ رائے کے حوالے سے ایک بنیادی خرابی یہ ہے کہ اس نظریے سے بات کا آغازکیا جاتا ہے کہ وہ حق کے آخری درجے پر کھڑاہے اور سامنے والا مِن کل الوجوہ باطل ہے‘ لوگ دیانتداری کے ساتھ دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنا ہی نہیں چاہتے ‘ انانیت کا غلبہ ہوتا ہے ۔جو مراد آپ لے رہے ہیں ‘ سامنے والا اس کی نفی کر رہا ہے ‘ مگراصلِ مقصود معاملہ سلجھانا نہیں ہوتا‘ بلکہ اپنی فتح کو منوانا اور دوسرے کو بدنام کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ان سب وجوہ سے ہم تہذیب وشائستگی سے دور چلے جاتے ہیں۔ پس‘ اختلاف ِ رائے کا درست طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کے نقطہ ٔ نظر کو پوری طرح سے سمجھا جائے ‘فریقِ مخالف کی وضاحت ‘اگر قابلِ قبول ہے تو اُسے قبول کرلیا جائے ‘ اصلِ مقصود اصلاح ہونی چاہیے‘ نہ کہ پندارِ فتح۔
علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں: ''نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیاء کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی وبددینی ہے ۔ عصمتِ انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کاوعدہ ہولیا‘ جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً مُحال ہے‘ بخلاف ائمہ واکابر اولیا کہ اللہ عزوجل انہیں محفوظ رکھتا ہے ‘ اُن سے گناہ ہوتا نہیں‘ مگر ہو تو شرعاً مُحال بھی نہیں۔ انبیاء علیہم السلام شرک وکفر اور ہر ایسے امر سے جو خلق کے لیے باعثِ نفرت ہو‘ جیسے کذب وخیانت وجہل وغیرہا صفاتِ ذمیمہ ‘ نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مروّت کے خلاف ہیں‘ قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت بالاجماع معصوم ہیں اور کبائر سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ قصداً صغائر سے بھی قبلِ نبوت اور بعدِ نبوت معصوم ہیں‘‘(بہارِ شریعت‘ ج:1‘ص:38-39)۔اس پر بھی اجماع ہے کہ امورِ تبلیغیہ میں نبی سے سہو ونسیان اور خطا کا صدور مُحال ہے ۔علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''خلاصہ‘‘ ودیگر کتبِ فتاویٰ میں ہے :جب ایک مسئلے میں کئی وجوہِ کفر ہوں اور ایک وجہ ایسی ہو جو کفر کا اطلاق کرنے میں مانع ہوتو مفتی پر لازم ہے کہ مسلمان کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہوئے اسی وجہ کی طرف مائل ہو جو کفر کے اطلاق میں مانع ہے ‘سوائے اس کے کہ جب وہ کفر کا سبب بننے والی وجہ کی تصریح کرے توپھر تاویل اس کو فائدہ نہیں دے گی‘‘(ردالمحتار علی الدرالمختار‘ج:6ص:272)۔
علامہ ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں: ''اس حوالے سے ظاہر بات یہ ہے کہ جس مسلمان کے کلام کو کسی صحیح مفہوم پرمحمول کرنا ممکن ہو اس کی تکفیر نہ کی جائے یا جس کے کفر میں روایتِ ضعیفہ کی وجہ سے اختلاف ہو ‘ اس کی بھی تکفیر نہ کی جائے ۔ پس‘ اس سبب اکثر کفریہ کلمات (جو ماقبل عبارت میں ) مذکور ہوئے ہیں‘ ان پر تکفیر نہ کی جائے اور میں نے اپنے آپ کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ ان کے بارے میں کوئی فتویٰ نہ دوں‘‘ (البحر الرائق‘ج:5ص:210)۔
دانشمندی کا تقاضا ہے کہ آپس کے اختلافات کو بازاروں اور چوراہوں میں نہ لایا جائے‘ آج کل سوشل میڈیا کی مثال بازار اور چوراہے ہی کی ہے ‘ بلکہ اس سے بھی ہزاردرجے آگے ہے ۔نیز وہ امور جو اہلسنت وجماعت میں مسلّم ہیں ‘عوام میں انہی کا ابلاغ کیا جائے ‘اگر کسی مسئلے میں کسی کی رائے جمہور سے جدا ہے تو وہ اُسے کلاس روم تک محدود رکھیں ‘عوام میں نہ لائیں‘ اس کا نقصان نفع سے زیادہ ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انتہائی باصلاحیت شخص جومختلف شعبوں میں معرکہ آراء کام انجام دے سکتا ہے ‘ اس کی صلاحیتیں ان الزامات کے جواب اور جوابی الزامات پر صرف ہوتی ہیں اور بحیثیت مجموعی اہلسنت کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں‘ مخالف حلقوں کویقینا اس سے تسکین ملتی ہوگی ‘یہی وجہ ہے کہ وہ آگ کے شعلے بھڑکانے کے لیے جلتی پر تیل ڈالتے ہیں‘ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا:؎
تری دُعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دُعا ہے تری آرزو بدل جائے
جس نے کفر کا ارتکاب کیا ہو یا ضروریاتِ دین میں سے کسی کا انکار کیا ہو یا ضروریاتِ مسلک اہلسنت وجماعت میں سے کسی بات کا انکار کیا ہو یا کوئی علانیہ حرام اور فسق وفجور کا ارتکاب کر رہا ہو‘توفقہی اعتبار سے ایسے اشخاص سے اعلانِ برأت ضروری ہوجاتا ہے ‘لیکن جس کے کسی قول کی تاویل کی جاسکتی ہو یا وہ خود کوئی قابلِ قبول تاویل کر رہا ہو تو زبردستی اس پر کوئی معنی ٹھونسنا مناسب نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ہم معاصرین کے بارے میں انتہائی سنگ دلی اور قساوتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘اُن کی گرفت میں حد سے گزر جاتے ہیں؛حالانکہ وہی یا اس سے ملتا جلتا کوئی قول بعض متقدمین کے ہاں بھی مل جاتا ہے ‘ جو مسلّمہ طور پر ہمارے اکابر میں سے ہیں ‘ پھر یاتوہم اُن کے ایسے اقوال سے صرفِ نظر کرتے ہیں یا حتی الامکان ان کی تاویل کرتے ہیں ‘ ان پر فتویٰ صادر نہیں کرتے۔
مزید یہ کہ ہرشخص دین کا سٹیک ہولڈر بن گیا ہے ‘بعض لوگ اپنی ناموس پر ناموسِ رسالت کے قانون کے اطلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔جو کسی کے دامِ عقیدت میں گرفتار ہیں‘ وہ اپنے مرجعِ عقیدت سے اختلافِ رائے کرنے والے کے منصب کو نظر انداز کر کے اس کی توہین ‘ تضحیک اور تحقیر کو اپنا شعار بنالیتے ہیں ‘ بزرگوں کو چاہیے کہ اپنے ایسے عقیدت مندوں کو لگام دیں۔ آج جنہیں ہم اپنے جسدِ ملّی سے کاٹ کر پھینکنا چاہتے ہیں‘ ہوسکتا ہے کہ کل کسی دینی ضرورت یا کسی مسلکی مصلحت کے تحت انہیں قبول کرنا پڑے یا اللہ تعالیٰ ان کے دل میں جمہوراہلسنت کے ساتھ مل کر چلنے کا جذبہ پیدا فرمادے اور ہمیں پھر مل بیٹھنا پڑے تو شرمندگی نہ ہو۔ اسی طرح ہر فریق کو اختلافِ رائے کرتے وقت دوسرے کے علمی مقام اور منصب کی پاسداری کرنی چاہیے ‘ جو علمی احترام ہم اپنے لیے چاہتے ہیں ‘ دوسروں کے لیے بھی ہمیں اس کی گنجائش رکھنی چاہیے ۔ مجھے حیرت اس پر ہے کہ جن بزرگوں نے اعلانِ برا ت کیا ہے ‘ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جو چیز اُن کے نزدیک کسی کی خطا یا لغزش ہے ‘ وہ اصولِ اِفتاء کے اعتبار سے کس درجے کی ہے اور اس پر کیا حکم لگتا ہے۔
حالیہ ناخوشگوار فضا میں ایک افسوس ناک روش یہ سامنے آئی کہ بعض حضرات نے مسلک کا مخلص اور ہمدرد بن کر بعض ذمے دار اکابر سے بات کی ‘ انہوں نے اپنے انداز سے وضاحت کی اور انہوں نے خیانت کرتے ہوئے اسے ریکارڈ کیااور پھر سوشل میڈیا پر ڈال دیا‘ رسول کریمﷺ کا فرمان ہے: ''مجلس میں ہونے والی گفتگو امانت ہے‘ (پس‘ اُسے بلا اجازت اِفشا نہ کیا جائے )‘‘( ابودائود: 4869)۔
میرے نزدیک موجودہ دور میں کسی کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کوبلااجازت ریکارڈ کر کے افشاکرنا یا سوشل میڈیا پر ڈالنا بھی مجلسی امانت میں خیانت ہے ‘ لہٰذا اس سے لوگوں کو احتراز کرنا چاہیے اور اگر کسی کی بات کو افشاکرنا ہے تو پہلے اس سے اجازت لیں‘اگر وہ اجازت دے فبہا‘ ورنہ امانت کی پاس داری کرنی چاہیے۔بہت سے لوگ مصلح کے روپ میں آکر نقصان پہنچاتے ہیں ‘ حضرت آدم وحوا علیہما السلام کے بارے میں شیطان نے اسی شعار کو اختیار کیا تھا ‘ وہ خیرخواہ کے روپ میں اُن کے سامنے نمودار ہوا اور قسمیں کھاکھاکر اپنے اخلاص کی یقین دہانیاں کرانے لگا ؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا دوٹوک فیصلہ ہے: ''بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘(یوسف:5)۔
پاک وہند کے مسلمانوں کو چند عبارتوں نے ہمیشہ کے لیے تقسیم کردیا ‘ ان کی تاویلیں بیان کرنے میں درجنوں کتابیں لکھی گئیں ‘ لیکن شاید ایسے ہی '' خیرخواہ‘‘ ان کے اردگرد تھے‘ جنہوں نے شاید یہ باور کرایا ہوگا کہ اگر آپ ان عبارتوں کو بدل دیں گے تو اسے آپ کی شکست پرمحمول کیا جائے گا ‘ اس سے اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔