"MMC" (space) message & send to 7575

تعمیر ِ کعبہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اللہ کی عبادت کے واسطے سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا‘ وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ذریعۂ ہدایت ہے، اس میں واضح نشانیاں ہیں، مقامِ ابراہیم ہے اور جو شخص اس میں داخل ہوا،وہ بے خوف ہوگیا، بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ سارے جہانوں سے بے نیاز ہے‘‘۔ (آل عمران:96-97)۔
اس مرکزِ عبادت کو بیت اللہ اور کعبۃ اللہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زمان ومکان کی تحدیدات سے ماورا ہے، بیت کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت اُس کے مَجدوشرف کو ظاہر کرنے کے لیے ہے، اسی معنی میں حدیث پاک میں مساجد کو بھی ''بیوت اللہ‘‘ کہا گیا ہے،حدیث پاک میں ہے:
''نبیﷺ نے فرمایا: جو قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی ایک گھر میں جمع ہوتی ہے،پھر وہ دین سیکھتے اور سکھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پرتسکین نازل فرماتا ہے، انہیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لیتا ہے، ملائکہ انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں کی مجلس میں ان کا ذکر فرماتا ہے‘‘۔ (ابودائود:1455)
بیت اللہ کو ابتدا میں ملائکہ نے تعمیر کیا، پھر جب مرورِ زمانہ سے بیت اللہ کی عمارت منہدم ہوتی رہی تو اُسے ازسرِ نو تعمیر کیا جاتا رہا، علامہ احمد قسطلانی تعمیر ِ بیت اللہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
''بیت اللہ کوپہلی بار فرشتوں نے بنایا، دوسری مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام نے، تیسری بار حضرت شیث بن آدم نے، چوتھی بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، پانچویں بار قوم عمالقہ نے، چھٹی باربنی جُرہم نے، ساتویں باررسول اللہﷺ کے جدِّاعلیٰ حضرت قُصَیْ بِن کِلَاب نے، آٹھویں بار قریش نے، نویں بار حضرت عبداللہ بن زبیر نے رسول اللہﷺ کے حسبِ منشا کعبہ کو بنایا،اس میں دو دروازے رکھے،ایک داخل ہونے اور ایک خارج ہونے کا اور حطیم کو کعبہ میں داخل کیا اور یہی بنائے ابراہیم تھی، قریش اپنے وسائل میں کمی کی وجہ سے اس کو مکمل بنائے ابراہیم پر نہیں بناسکے تھے، جبکہ آپﷺکی خواہش تھی کہ کعبۃ اللہ کو بنائے ابراہیم پر بنادیا جائے، لیکن فتنہ کے اندیشے کے سبب آپ نے ایسا نہیں کیا، دسویں بار عبدالملک بن مروان کے حکم سے حجاج بن یوسف نے اس کو پھر منہدم کر کے بنائے قریش کے مطابق بنادیا‘‘۔ (ارشاد الساری، ج:3،ص:143-144) اس سے معلوم ہوا کہ مختلف ادوار میں حوادثِ زمانہ کے نتیجے میں بیت اللہ کی عمارت منہدم ہوتی رہی یا اُسے نقصان پہنچتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُسے بار بار تعمیر کیا جاتا رہا۔ 
اعلانِ نبوت سے پہلے قریش نے سیلاب کے سبب کعبۃ اللہ کے منہدم ہونے کے بعد از سرِ نو اس کی تعمیر کی، رسول اللہﷺ کی عمرِ مبارک اُس وقت پینتیس برس تھی، آپ نے بھی تعمیر ِ کعبہ میں حصہ لیا، پھر جب حجرِ اسود کو اپنے مقام پر نصب کرنے کا وقت آیا تو قریش کے سرداروں میں جھگڑا ہونے لگا، وہ کسی ایک کو یہ اعزاز دینے پر آمادہ نہ ہوئے، چنانچہ آپﷺ کو حَکم بنایا گیا، آپﷺ نے ایک چادر بچھائی، اُس پر حجرِ اسود کو رکھا اورقریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں سے فرمایا:اس کا ایک ایک کونا پکڑ کر اسے اٹھائیں اور جب وہ اپنے مقام تک بلند ہوگیا تو آپﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اُسے اٹھاکر اس کے مقام پر نصب فرمادیا اور اس طرح آپ کی قائدانہ بصیرت سے یہ مسئلہ حل ہوا۔ قریش نے یہ طے کیا تھاکہ بیت اللہ کی تعمیر پر صرف حلال پیسا لگایا جائے اور حلال مال اس قدر جمع نہ ہوسکا تھا کہ بنائے ابراہیمی کے مطابق پوری عمارت کو مکمل کیا جائے، تو انہوں نے شمال کی جانب کم وبیش تین میٹر کا حصہ موجودہ عمارت سے باہر رکھا،اسی کو حطیمِ کعبہ کہاجاتا ہے،اس میں نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے بیت اللہ کے اندر پڑھنا۔ رسول اللہﷺ کی خواہش تھی کہ کعبۃ اللہ کی دوبارہ تعمیر بنائے ابراہیمی پر ہو، لیکن آپ نے حکمتِ دین کے تحت وسائل ہونے کے باوجود اپنی خواہش پر عمل نہیں فرمایا: 
رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا:''عائشہ! اگر تمہاری قوم کا زمانۂ شرک تازہ تازہ نہ ہوتا تو میں کعبۃ اللہ کومنہدم کرکے زمین سے ملادیتا اور پھر اس کے دودروازے بناتا:ایک شرقی جانب اور ایک غربی جانب اور اس میں حِجر(حطیم)کی جانب تقریباً تین گز کا اضافہ کرتا، کیونکہ قریش نے جب کعبہ بنایا تو عمارت کے رقبے میں کچھ کمی کردی تھی‘‘۔ ( مسلم:401) 
الغرض رسول اللہﷺ کی خواہش تھی اور اُس وقت آپ کو وسائل بھی میسر تھے، لیکن آپ نے دینی حکمت کے تحت اپنی خواہش پر عمل نہ کیا کہ مبادا بیت اللہ کی عمارت پر کدال اور ہتھوڑے چلاتے ہوئے لوگوں کے عقائد متزلزل ہوجائیں، کیونکہ وہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کے ذہنوں میں بیت اللہ کی تقدیس کاایک تصور تھا۔ پھر جب حجاز میں حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت قائم ہوئی تو انہوں نے رسول اللہﷺ کی خواہش کی تکمیل کی خاطر بیت اللہ کومنہدم کرکے از سرِ نو بنائے ابراہیمی پر تعمیر کیا۔ پھراموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں حجاج بن یوسف کے ذریعے کعبۃ اللہ کی عمارت کو شہید کر کے دوبارہ بنائے قریش پر تعمیر کیا گیا۔پھر عباسی خلیفہ ہارون الرشیدنے امام مالک سے رائے لی کہ کیا میں بیت اللہ کو ایک بار پھر منہدم کر کے بنائے ابراہیمی پر تعمیر کرادوں تو امام مالک نے فرمایا: ''میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ کعبۃ اللہ کو اسی طرح رہنے دیں، بار بار منہدم کرنے سے اس کی ہیبت اور جلال میں کمی آئے گی‘‘۔(تفسیر قرطبی ج:2،ص:124) امام مالک کی رائے بصیرت اور دواندیشی پر مبنی تھی،کیونکہ اگر ایک بار اس کا دروازہ کھول دیا جاتا، توپھر ہرآنے والا حکمران یہ چاہے گا کہ وہ اپنے دور میں نئی شان کے ساتھ بیت اللہ کی تعمیر کرے تاکہ یہ عمارت اس کی طرف منسوب ہو۔ اس طرح بیت اللہ کی عمارت سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بھی بن جاتی، لیکن یہ بازیچۂ اطفال بن جاتا اور بیت اللہ کی جلالت اور حرمت میں کمی آتی۔پس امام مالک کا امت پر احسان ہے کہ انہوں نے اپنی دینی بصیرت سے آنے والے زمانوں میں ممکنہ طور پر رونما ہونے والے فتنوں کو روک دیا، اللہ تعالیٰ اُن کی تربت پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ 
سورۂ دخان آیت 37 میں ''قومِ تُبَّع ‘‘ کا ذکر ہے، ایک قول یہ ہے کہ'' تُبَّع ‘‘ یمن کے بادشاہوں کا لقب تھا، اسی لیے تُبَّعِ حِمیَری کہاجاتاہے، جیساکہ روم کے بادشاہوں کا لقب قیصر، فارس کے بادشاہوں کا کِسریٰ،حبشہ کے بادشاہوں کا نجاشی، قبطیوں کے بادشاہوں کا فرعون، ترکوں کے بادشاہوں کا خاقان، مصر کے بادشاہوں کا عزیز تھااور مسلمان حکمران کا لقب امیر المؤمنین یاخلیفہ تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک معیّن شخص کا نام ہے اوریہی قول زیادہ درست ہے۔ حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تُبَّع کو برا نہ کہو، کیونکہ وہ اسلام قبول کرچکا تھا‘‘۔(مسند احمد:22880)
بعض روایات میں ہے: '' تُبَّع‘‘ کعبۃ اللہ کو ڈھانے کے ارادے سے آیا تھا،اُسے ایک لاعلاج بیماری لاحق ہوگئی، اُسے ایک دانا شخص نے بتایا کہ برے ارادے کو دل سے نکال دو، تمہیں شفا مل جائے گی اور ایسا ہی ہوا، پھر اُسے نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بابت معلوم ہوا تو وہ اسلام لے آیا، اس نے آپﷺ کے لیے مدینہ طیبہ میں ایک دومنزلہ گھر بنوایااورآپﷺنام حسبِ ذیل مکتوب لکھا : 
''حمد وصلوٰۃ کے بعد! میں آپ اور آپ پر اتاری گئی کتاب پر ایمان لایا، میں آپ کے دین اور سنت پر ہوں،میں آپ کے رب اور ہرچیز کے رب پر ایمان لایا، آپ اپنے رب کی طرف سے جو احکام لے کر آئے،میں اُن سب پر ایمان لایا، اگر میں نے آپ کا زمانہ پایا تو فبھا اور بہت اچھا ہوگااور اگر میں نے آپ کا زمانہ نہ پایا تو آپ میری شفاعت فرمائیے گا اور قیامت کے دن مجھے بھول نہ جائیے گا، کیونکہ میں آپ کی امت کے اوّلین میں سے ہوں، آپ کی آمد سے پہلے میں نے آپ کی بیعت کی، میں آپ اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام کی ملّت پر ہوں اور پھر اس نے خط کے آخر میں مہر لگائی، اس مہر پر یہ نقش تھا:''اول وآخر حکم اللہ کے لیے ہے اورخط کا عنوان یہ لکھا: اللہ کے نبی، اس کے رسول، خاتم النبِیّٖن رسول رب العالمین محمد بن عبداللہ کے نام تُبَّعِ اول کی جانب سے‘‘۔ (تفسیر قرطبی،جز:16،ص:146)
امام ابن عساکر لکھتے ہیں: 
''پھر تُبَّع مدینہ منورہ گیا اور وہاں سے ہندوستان کے کسی شہر میں چلا گیا اور وہیں فوت ہوگیا۔ تبع کی وفات کے ٹھیک ایک ہزار سال بعد ہمارے نبی سیدنا محمدﷺ کی ولادت ہوئی اور جن اہل مدینہ نے ہجرت کے وقت نبیﷺ کی نصرت کی تھی، وہ سب ان علماء کی اولاد میں سے تھے جو مدینہ منورہ میں تبع کے بنائے ہوئے گھروں میں رہتے تھے، جب رسول اللہﷺ مدینہ پہنچے تو وہ لوگ آپ کی اونٹنی کے گرد آکر اکٹھے ہوگئے اورہر ایک آپﷺکو اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگا، آپﷺنے فرمایا: اس اونٹنی کو چھوڑ دو، یہ اللہ سبحانہٗ کے حکم کی پابند ہے، حتیٰ کہ وہ اونٹنی حضرت ابوایوب انصاری (ان کا اصل نام خالد بن زید تھا)کے گھر کے پاس آکر بیٹھ گئی اور نبیﷺنے ان کے گھرپر قیام فرمایا۔ حضرت ابوایوب انصاری اس عالم کی اولاد سے تھے جس نے خیر خواہی کے جذبہ سے تبع کو نصیحت کی تھی اور اس کو کعبہ منہدم کرنے کے ارادہ سے باز رکھا تھا اور رسول اللہﷺ حضرت ایوب کے جس گھر میں ٹھہرے تھے، یہ تبع ہی کا بنایا ہوا تھا‘‘ (تاریخ دمشق الکبیر،ج:11،ص:67-77،خلاصہ)۔
یہ وہی تُبَّع ہے جس نے سب سے پہلے بیت اللہ کو غلاف پہنایا اور اہل مکہ کو کعبہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے : حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سب سے پہلے کعبہ کو غلاف پہنایا اور ایک روایت کی رُو سے سب سے پہلے آپﷺ کے جدِّ اعلیٰ عدنان بن أُد نے پہنایا، واللہ اعلم بالصواب۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں