اہل سنّت وجماعت کی تنظیمات اورعلماء و مشایخ کے زیرِ اہتمام ''تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ و ناموسِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ ‘‘ کے عنوان سے ہفتہ 12 ستمبر کو تاریخ ساز ریلی منعقد ہوئی۔ یہ ریلی ایم اے جناح روڈ پر تبت سنٹر سے شروع ہوکر مزارِ قائد سے بھی آگے تمام اطراف میں کافی دور تک پھیلی ہوئی تھی، لوگ کندھے سے کندھا اور پائوں سے پائوں ملائے کھڑے تھے، بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی، بیچ میں کہیں کوئی خلا نہیں تھا، ایک تسلسل تھا، اس لیے میں نے چیلنج کے طور پرکہا: ''آج کی دنیا میں Demography کے جتنے پیمانے ہیں، اُن کے مطابق ماپ لو، یہ پاکستان کی تاریخ ساز ریلی ہے اور حقیقی معنی میں ملین مارچ ہے‘‘۔ ڈیموگرافی سے مراد ''کسی مخصوص علاقے میں آبادی کا تعیّن کرنا ہے‘‘۔
تاریخ پاکستان کا یہ پہلا ملین مارچ ہے کہ فجر کی نماز کے بعد سے شروع ہوا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق ٹھیک دو بجے سہ پہر اختتام کو پہنچا، نہ کسی نے کوئی کنکر پھینکا، نہ کسی کو دھکا دیا، کوئی گملا تک نہیں ٹوٹا، کسی کے خلاف کوئی نفرت انگیز نعرہ نہیں لگا، خطابات اور نعروں کوصرف اپنے مشن تک محدود رکھا، وقت پر ریلی شروع ہوئی اور مقررہ وقت پر پُرامن طریقے سے اختتام کو پہنچی۔
نہ یہ ریلی کسی فرقے کے خلاف تھی اور نہ ہم فرقہ پرستی کے علمبردار ہیں، ہمارا مطالبہ اُن افراد کو قانون کی گرفت میں لینا ہے جنہوں نے اس ملک کی غالب اکثریت کے دینی جذبات کو عوام میں آکر مجروح کیا ہے، ہم جارح نہیں‘ مجروح ہیں، ظالم نہیں‘ مظلوم ہیں، ہم متاثرہ فریق ہیں۔ اگر کسی کو شبہ ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ مردم شماری کے فارم میں مسلک کا خانہ بنا دیں، اِدّعا، خوش فہمی اور تعلّی پر مبنی تمام دعوے فضا میں تحلیل ہو جائیں گے۔ میرے پاس علمائے شیعہ پاکستان کا ایک بیانیہ آیا، جس پر علامہ حافظ ریاض حسین نجفی، علامہ سید ساجد علی نقوی اور علامہ شیخ محسن علی نجفی کے دستخط ثبت ہیں، ہمیں اعتراف ہے کہ یہ اہلِ تشیّع کے ذمہ دار مذہبی رہنما ہیں، بیانیے میں لکھا ہے: ''وطنِ عزیز کی حفاظت و بقا کے لیے ہماری شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مسلّمہ مقدَّسات کا احترام کریں، ہمارے بزرگ مراجعِ عِظام واضح موقف دے چکے ہیں کہ کسی بھی فرقہ کے مسلّمہ مقدَّسات کی توہین و بے احترامی قطعی حرام اور ممنوع ہے، پاکستان میں اسلام کے مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر موجود ہیں اور الحمدللہ ہماری محنتوں اور کاوشوں سے ان کے درمیان نظریاتی اختلافات کے باوجود اتحاد کی فضا قائم ہے جو بعض عناصر کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ موجودہ ماحول کسی گہری سازش کا پتا دیتا ہے، لیکن ہم باہمی اتحاد اور دانشمندی سے کسی بھی منفی ایجنڈے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور پُرامن فضا قائم رکھنے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے۔ ہم تمام مسالک اور مکاتبِ فکر کے پیروکاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کے بارے میں توہین آمیز گفتگو اور دوسروں کی دل آزاری سے گریز کریں، یہ ملکی عدمِ استحکام کا باعث بنے گی، ہمارا ملک کسی قسم کی فرقہ واریت اور منافرت کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔
ہمیں اس موقف سے اتفاق ہے اورہم ان علماء کے جذبات کی قدر کرتے ہیں؛ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ پیغام نیچے تک منتقل نہیں ہو رہا، جن کے پاس پبلک سٹیج ہے‘ ان کے نزدیک معاش اولین ترجیح ہے اور دینی ترجیحات آخری درجے میں بھی نہیں ہیں۔
پاکستان کی تہتّر سالہ تاریخ میں کبھی اہلِ تشیّع کی جانب سے پبلک سٹیج پر اہل سنّت و جماعت کے مقدّسات کی اس طرح عَلانیہ توہین نہیں کی گئی، 74ویں سال میں یہ پہلی مرتبہ ہوا اور اس میں تمام حدوں کو عبور کر دیا گیا ہے، اس کے باوجود اہل سنّت نے برداشت سے کام لیا اور اربابِ اختیار کو موقع دیا کہ وہ توہین کے مرتکب عناصر کو‘ جو ریکارڈ پر ہیں‘ قانون کی گرفت میں لے اور عبرت ناک سزا دے تاکہ دوبارہ کسی کو شر انگیزی اور فتنہ و فساد کی جسارت نہ ہو، لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی۔ ان فتنہ پردازوں نے جواز یہ پیش کیا ہے: ''یہ ہمارا مذہب ہے، ہم خلافتِ راشدہ کے ادارے کو نہیں مانتے‘‘۔ پھر اسلام آباد میں ایک مقرر نے العیاذ باللہ! ایک محترم ہستی کی شان میں گستاخی کر دی اور اس کے تسلسل میں کراچی میں مقدس ہستیوں پر لَعن شروع کر دی، اسے سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر براہِ راست نشر کیا گیا، یہ تباہی و بربادی کی انتہا تھی۔ ہمیں ایک دوسرے کے عقائد معلوم ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کوئی کسی کی خواہش یا فرمائش پر اپنے عقائد نہیں بدلتا، لیکن کسی کو برسرِ عام مقدس ہستیوں کی توہین کا فری لائسنس نہیں دیا جا سکتا، یہ معاشرے کے امن کو تہ و بالا کرنے کے مترادف ہوگا اور پھر اربابِ اختیار کے لیے بھی بھڑکائی گئی اس آگ کے شعلوں کو بجھانا مشکل ہو جائے گا، سارے معاملات کی باگ ڈور انتہا پسندوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی اور امن پسندی کا درس دینے والے اور ملک کے امن کو ترجیح دینے والے صورتِ حال سے لا تعلق رہ جائیں گے، ہمارے فہم کے مطابق اہلِ اقتدار اور سلامتی کے اداروں کو صورتِ حال کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔اگر اس دلیل کو تسلیم کر لیا جائے تو فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے اور امریکا وغیرہ میں مقدّساتِ اسلام کی توہین پر ہمارے پاس احتجاج کا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ وہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے مذہب کے پابند ہیں، اسلام کے مقدَّسات کا احترام نہیں کرتے، ہمارے جو جی میں آئے گا کریں گے اس صور ت میں مسلمانوں کے پاس ان کے خلاف احتجاج اور قانونی کارروائی کا کیا جواز رہ جائے گا؟
ایک مرتبہ سابق گورنر عشرت العباد نے امریکا، کینیڈا ، آسٹریلیا اور یورپین یونین کے سفراء کو گورنر ہائوس میں جمع کیا اور ہمیں کہا :''آپ ان کے سامنے اپنا موقف پیش کریں‘‘۔ہم نے سفراء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''اگرچہ ہماری یہ دلی خواہش ہے کہ روئے زمین پر موجود ہر انسان ہمارے رسولِ مکرّم سیدنا محمد رسول اللہﷺ کا احترام کرے لیکن غیر مسلموں سے ہمارا یہ مطالبہ نہیں ہے، کیونکہ یہ اُن کے مذہب کا تقاضا نہیں ہے۔ ہمارا غیر مسلموں سے مطالبہ یہ ہے کہ آزادیِ اظہار کی آڑ میں ہمارے دینی مقدّسات کی توہین نہ کریں، قرآنِ کریم نے ہمیں یہی اصول بتایا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور(اے مسلمانو!) اللہ کے سوا جن کی یہ عبادت کرتے ہیں، تم انہیں برا نہ کہو، ورنہ وہ سرکشی اور جہالت سے اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے، (الانعام:108)‘‘، اسی کو شریعت کی اصطلاح میں ''سَدِّ ذرائع‘‘ کہتے ہیں، یعنی برائی کے نفوذ کے راستوں کو روکنا۔ بعد میں گورنر عشرت العباد نے مجھے فون کر کے کہا: ''آپ کے اس استدلال کو سفراء نے معقول قرار دیا اور مثبت معنی میں لیا ہے‘‘۔
ہم نے اپنے پیغام میں کہا: ''ہمیں قومی الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا سے گلہ ہے کہ اہلِ دین کو اہمیت نہیں دی جاتی، ان کے پیغام کو قوم تک پہنچنے نہیں دیا جاتااور اُن کی امن پسندی کو قوم کے سامنے آنے نہیں دیا جاتا ، میڈیا صرف منفی پہلوئوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ ہمارا سوال ہے: کیا پاکستانی میڈیا سنتھیا ڈی رچی کے لیے اور بھارتی اداکارائوں کی سالگرہ اور برسیوں کی خبر دینے کے لیے بنا ہے؟ کیا اس میڈیا پر یہاں کے مسلمانوں اور پاکستانیوں کا کوئی حق نہیں ہے کہ ان کے موقف کو بھی قوم تک پہنچایا جائے، کیا اس طبقے کے مذہبی اور انسانی حقوق نہیں ہیں؟ کیا تحفظِ ناموسِ رسالت اور تحفظِ ناموسِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کی بات کرنا ممنوع ہے؟ ایسے وقت میں میڈیا کے کیمرے اندھے ہو جاتے ہیں، ان کی زبانیں گُنگ ہو جاتی ہیں، کیا اخبار ات اور ٹی وی خبرناموں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ میرٹ پر خبریں دیں، کہاجاتا ہے کہ ہمیں ہدایات ملتی ہیں‘‘۔
ہم نے لاکھوں کی ریلی کو پرُامن رکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے، ہم ان کے ترجمان ہیں اور انہیں ہم پر اعتماد ہے، اس ریلی کے بعد ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے، مجرموں کو قانون کی گرفت میں لینے تک اپنی تحریک جاری رکھیں گے اور پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اس قسم کی ریلیوں کا انعقاد کریں گے۔ ہم نے کہا: سول سوسائٹی اشرافیہ طبقے کی پچاس ساٹھ بیگمات کا نام نہیں ہے، اصل سول سوسائٹی ملین ریلی میں شریک یہ عوام ہیں اور ان کی وہ باحیا خواتین اور بزرگ ہیں جو اپنے اپنے گھروں میں مصلّے پربیٹھ کر ''ناموسِ رسالت و ناموسِ صحابہؓ و اہلِ بیتؓ‘‘ ریلی کی کامیابی کے لیے گڑگڑا کردعائیں مانگ رہے ہیں۔
حدیث میں ہے: ''مصعَب بن سعد بیان کرتے ہیں: ان کے والد سعد نے گمان کیا کہ انہیں (اپنے مال وغیرہ کی وجہ سے) اصحابِ رسول میں سے اپنے سے کم تر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ فقط کمزوروں کی دعائوں، نمازوں اور اخلاص کے سبب اس امت کی نصرت فرماتا ہے۔ (نسائی:3178)‘‘۔ جس کی مرضی ہو، ایک ایک کر کے سب کو دیکھ لے اور سٹیلائٹ کیمروں سے چیک کر لے، یہاں کراچی کے ہر طبقے کی نمائندگی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہے۔
ہم اس ریلی کو کامیاب بنانے میں مؤثرکردار ادا کرنے پر اہلسنّت کی تنظیمات، علماء، مشایخ، تاجروں، صنعت کاروں، پروفیسروں، اساتذہ، طلبہ اور معاشرے کے تمام طبقات کا دلی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہماری جدوجہد کا یہ پہلا قدم ہے، اپنے مقاصد و اہداف کے حصول تک ہماری تحریک جاری رہے گی، ابھی ہماری منزل دور ہے اور ہمیں ہر وقت ہائی الرٹ رہنا ہوگا، ہم سے بڑا محب وطن کوئی نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم تو پاکستان کی جنت کے لیے ہندو استعمار کے خلاف پون صدی سے جان و مال اور آبرو کی قربانیاں دے رہے ہیں، کیا وہاں بھی حق کی آواز کو دبایا جا رہا ہے؟ ہم میڈیا کے اُس حصے کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری جائز شکایات کا ازالہ کیا اور ہمارے موقف کو عوام تک پہنچانے میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری اور دینی فریضہ ادا کیا۔