"MMC" (space) message & send to 7575

حیا کے معنی، اُس کے تقاضے اور ثمرات… (2)

حیا کا جو مفہوم گزشتہ کالم میں مذکور ہوا، مفسرین اور شارحین کے نزدیک اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاکیزہ ہے کہ وہ کسی کی ملامت سے خوفزدہ اور متاثر ہو جائے، لہٰذا قرآن و حدیث میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف حیا کی نسبت کی گئی ہے، اس سے حیا کا لازمی معنی اُس فعل کا ترک کرنا ہے، مثلاً قرآ ن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک اللہ (سمجھانے کے لیے )کسی بھی مثال کے بیان کرنے کو ترک نہیں فرماتا،وہ مچھر ہو یا اس سے بھی زیادہ حقیر چیز، پھر جو ایمان لائے وہ جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق ہے، رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تو وہ کہتے ہیں: اس مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے، اللہ اس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس کے ذریعے صرف نافرمانوں کو گمراہی میں چھوڑتا ہے‘‘ (البقرہ:26)۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مثال میں کسی چیز کا اپنا حُسن وقُبح مقصود بالذات نہیں ہوتا بلکہ مثال اور مُمَثَّلْ لَہٗ (یعنی جس چیز کے لیے مثال بیان کی جا رہی ہے) میں حُسن و قُبح کے اعتبار سے جو معنوی مناسبت ہوتی ہے، اُسے بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ 
نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف حیا کی نسبت کرتے ہوئے فرمایا: ''بلا شبہ اللہ تعالیٰ بہت حیادار کریم ہے، جب بندہ اُس کے حضور دعا کے لیے اپنے ہاتھوں کو بلند کرتا ہے تو وہ اُنہیں خالی (یعنی ناکام و نامراد) لوٹانے سے حیا فرماتا ہے‘‘ ( ترمذی: 3556)۔ الغرض مذکورہ آیت و حدیث میں اللہ تعالیٰ کی طرف حیا کی نسبت ہے اور اس سے ترک کرنا مراد ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہدایت کے سلسلے میں کسی بھی مثال کے بیان کرنے کو ترک نہیں فرماتا، پس جب اللہ تعالیٰ کے لیے حیا کا لفظ استعمال ہو تو اس سے اُس چیز کا ترک کرنا مراد ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حیا کا ملکہ اور اس کی استعداد روزِ اول سے انسانیت کے جدِّ اعلیٰ وجدّۂ عُلیَا حضرت آدم و حوا علیہما السلام کی جبلّت میں پیوست فرمائی تھی؛ چنانچہ جب حکمتِ خداوندی کے تحت حضرت آدم علیہ السلام شیطانی مکر و فریب کے نتیجے میں ممنوعہ درخت کے قریب چلے گئے اور اس کے نتیجے میں انہیں بے لباس کر دیا گیا تو اُن کا فوری اور فطری ردِّعمل قرآنِ کریم نے یہ بیان فرمایا ہے: ''پھر شیطان نے فریب سے انہیں (اپنی طرف) مائل کر لیا، پس جب اُنہوں نے اس درخت سے چکھا تو اُن کا ستر اُن پر منکشف ہوگیا اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے اور ان کے رب نے ان سے پکار کر فرمایا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تم دونوں سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ بے شک شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (الاعراف: 22)۔ الغرض مُرورِ زمانہ سے صورتیں بدلتی رہتی ہیں، لیکن اولادِ آدم کے خلاف شیطان کا حربہ اور ہدف آج بھی وہی ہے جو ابتدائے آفرینش سے تھااور وہ یہ ہے: ''بے لباس کر دینا، ستر کو اٹھا دینا، برہنگی، بے حجابی اور بے حیائی‘‘، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے بنی آدم! مبادا شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کر دے، جس طرح وہ تمہارے ماں باپ کے جنت سے اخراج کا سبب بنا تھا (وہ اس طرح) کہ ان دونوں کے لباس اُترنے کا سبب بنا تھا تاکہ انجامِ کار وہ انہیں ان کی شرم گاہیں دکھائے، بے شک وہ (شیطان)اور اس کا قبیلہ تمہیں (وہاں سے) دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ پاتے، بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے‘‘ (الاعراف: 27)۔ 
روزِ اول کی طرح ہمیشہ ابلیس اور ائمہ تلبیس کا حربہ یہی رہا ہے کہ وہ کھلے دشمن کے روپ میں سامنے نہیں آتے، بلکہ خیر خواہ اور مُصلح کے روپ میں آتے ہیں، سبز باغ دکھاتے ہیں، چکا چوند سے مرعوب کرتے ہیں اور بالآخر اپنے دامِ تزویر میں گرفتار کر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''پھر دونوں کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ ڈالا تاکہ ان دونوں کی جو شرم گاہیں ان سے چھپائی گئی تھیں، (انجامِ کار) ان پر منکشف کر دے اور اس نے کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تمھیں صرف اس لیے روکا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جائو یا حیاتِ ابدی پا لو اور ان دونوں سے قسم کھاکر کہا: بے شک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں‘‘ (الاعراف: 21)۔ 
حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کے بنیادی شعبوں میں سے ایک عظیم شعبہ ہے (1) ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا (عظیم ترین) شعبہ ہے‘‘ (بخاری:9)، (2) ''حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہلِ ایمان جنت میں ہوں گے اور بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے‘‘ (ترمذی:2009)، (3) ''حیا اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں اور فحش گوئی اور کثرتِ کلام نفاق کے دو شعبے ہیں‘‘ (ترمذی:2027)، (4) ''نبی کریمﷺ کا گزر ایک شخص پر ہوا جو اپنے بھائی کو شرم و حیا کی وجہ سے ڈانٹ رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا تم شرم و حیا کی وجہ سے اپنا نقصان کر لیتے ہو، پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِسے چھوڑ دو، بیشک حیا ایمان میں سے ہے‘‘ (بخاری: 6118)، (5) ''بیشک حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں، جب ان میں سے ایک جاتا ہے تو دوسرا بھی چلاجاتا ہے‘‘ (مشکوٰۃ :5093)، (6) ''ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور دینِ اسلام کا اخلاق حیا ہے‘‘ (ابن ماجہ:4181)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر دین کااپنا ایک رنگ اور مزاج ہوتا ہے اور وہی اس کے ظاہر و باطن پر چھایا ہوتا ہے، دین اسلام کا وہ رنگ حیا ہے، اگر حیا نہیں ہے پھر دین اسلام بے رنگ ہے، حضرت وہب بن منبہ کا قول ہے: ''ایمان بے پردہ ہوتا ہے اس کا لباس تقویٰ ہے، اس کی زینت حیا ہے اور اس کا مال دین کی فہم ہے‘‘ (صفوۃ الصفوۃ: ج:1، ص:455)، یعنی ایسا ایمان جو تقویٰ و حیا اور دین کی فہم سے خالی ہو، وہ بے جان اور بے وقعت ہے۔
خیر و صلاح کے جملہ محاسن کی اصل شرم وحیا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: شرم و حیا اپنے ساتھ خیر ہی کو لے کر آتی ہے‘‘ (بخاری: 6117) اور ایک حدیث میں فرمایا: ''حیا پوری کی پوری خیر ہے‘‘ (مسلم: 37)۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں: '' تمام اخلاق و صفات میں سے سب سے افضل اور قدر و منزلت کے اعتبار سے سب سے بلند اور نفع بخش صفت حیا ہے، بلکہ یہ انسانی خواص میں سے ہے، جس شخص میں حیا نہیں وہ انسان نہیں محض گوشت پوست کا ایک ٹکڑا ہے۔ حیا ہی کے سبب مہمانوں کا خیال رکھا جاتا ہے، وعدے وفا کیے جاتے ہیں، امانت کا لحاظ رکھا جاتا ہے، اچھائیوں اور خوبیوں کو حاصل کیا جاتا ہے، عفت و پاک دامنی اختیار کی جاتی ہے، خلقِ خدا کے حقوق کی رعایت کی جاتی ہے، اگرحیا نہ ہوتی تو مہمان نوازی کی قدر فروغ نہ پاتی، وعدے وفا نہ ہوتے، امانت داری کا پاس نہ رکھا جاتا، محتاجوں کی حاجت برآری نہ ہوتی، انسان کمالات کاخوگر نہ ہوتا، برائیوں سے کنارہ کشی نہ کرتا، شرمگاہوں کی حفاظت نہ ہوتی، فحاشی سے اجتناب نہ کرتا،خلقِ خدا کے حقوق کا تحفظ نہ ہوتا، صلہ رحمی نہ ہوتی، والدین کے ساتھ حسن سلوک نہ ہوتا، غرضکہ جملہ افعالِ خیر کا منبع اور سرچشمہ حیا ہے، یہی وہ صفت ہے جو انسانوں کو خیر و صلاح پر اُبھارتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے، خالق اوراس کی مخلوق سے حیا نہ ہوتی تو خیر کا وجود نہ ہوتا‘‘ (مِفْتَاح دَارِالسَّعَادَہ ملخصاً بتصرف، ج:1، ص:277)۔
علامہ نوَوی لکھتے ہیں: ''نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''حیا پوری کی پوری خیر ہے‘‘، اس پر کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض اوقات انسان شدتِ حیا کی وجہ سے کسی شخص کے سامنے حق بات نہیں کہہ سکتا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کر دیتا ہے اور بعض اوقات انسان بعض حقوق کی ادائیگی نہیں کر پاتا، پھر حیا پوری کی پوری خیر کس طرح ہو گی۔ علامہ ابن صلاح اس کے جواب میں فرماتے ہیں: حیا یہ نہیں کہ جس کی وجہ سے انسان حق بات نہ کہہ سکے اور حق کام نہ کر سکے، بلکہ یہ کم ہمتی اور بزدلی ہے۔ حیا ایسی صفت ہے جو انسان کو بُرے کاموں سے اجتناب پر برانگیختہ کرے اور حق داروں کی حق تلفی سے روکے، جنید بغدادی فرماتے ہیں: ''حیا یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو دیکھے اور پھر اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالے، اس سے جو حالت پیدا ہوتی ہے وہ حیا ہے‘‘ (المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ج:2، ص:4تا5)۔
قرآنِ مجید میں مرد وں اور عورتوں کو حیا کا حکم دیا گیا ہے: ''(اے رسولِ مکرم!) مسلمان مردوں کو حکم دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ طریقہ اُن کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ اُن کے تمام کاموں سے باخبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں، اپنی پاکدامنی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی نمائش نہ کریں‘‘ (النور:30تا 31)۔
حیا کی ضد فَحشاء ہے، اِسی سے فُحش اور فحاشی کے الفاظ نکلے ہیں، جس کا مطلب ہے: بے شرمی، بے حیائی، انتہائی درجے کی بے غیرتی اور عَلانیہ برائی کرنا۔ قرآن کریم میں ہے: ''بیشک جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘ (النور: 19)۔
بعض اوقات انسان لوگوں کے ڈر سے بے حیائی کی باتوں کو ترک کر دیتا ہے لیکن جب لوگوں کی نظروں سے اُوجھل ہوتا ہے تو اُسے بے حیائی کے ارتکاب میں کوئی باک نہیں ہوتا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میں اپنی اُمت کے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کی مثل نیکیاں لے کر حاضر ہوں گے، اللہ تعالیٰ اُنہیں بے حیثیت اور پراگندہ ذروں کی طرح بکھیر دے گا، عرض کیاگیا: یا رسول اللہ! ہمیں ان لوگوں کی پہچان بتا دیجیے تاکہ ہم نادانستہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جائیں، آپﷺ نے فرمایا: وہ تمہارے ہی بھائی ہوں گے، تمہاری ہی طرح راتوں میں عبادت بھی کرتے ہوں گے، لیکن جب وہ لوگ تنہائی میں ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کریں گے‘‘ (ابن ماجہ:4245)۔ یہ حدیث ہمارے حسبِ حال ہے، کیونکہ اُس زمانے میں خَلوت میں گناہ کے ارتکاب کے وہ اسباب موجود نہ تھے جو آج میسر ہیں، سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی سہولتیں عام ہیں، بے حیائی اور بدکاری کے مناظر ایک کلک سے نگاہوں کے سامنے آ جاتے ہیں،جو اُن سے لطف اندوز ہونا چاہے تو کوئی روک ٹوک نہیں، ہمارا معاشرہ تباہی کے جس دلدل میں دھنسا جا رہا ہے، کوئی صاحب ِاختیار و اقتدار اُس پر کنٹرول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے، فیشن کے طور پر ٹَسوے بہائے جاتے ہیں اور مذمتیں کی جاتی ہیں، لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ یاد رکھیں! ایک ایسی علیم وخبیر ذات ضرور موجود ہے جس کی نظروں سے کوئی پتا اور ذرہ اُوجھل نہیں ہے، وہ ہمارے قلبی خیالات سے بھی آگاہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں