اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اور آپ اس ہمیشہ زندہ رہنے والے (رب) پر توّکل کیجیے جس پرکبھی موت نہیں آئے گی‘‘ (الفرقان:58)، (2) ''اور بہت غالب اور بے حد رحم کرنے والے پر توّکل کیجیے‘‘ (الشعرائ:217)، (3) ''جب آپ (کسی کام کا) عزم کر لیں تو اللہ پر توّکل کریں، بے شک اللہ توّکل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے‘‘ (آل عمران:159)‘‘، (4) ''وہی لوگ مؤمن کامل ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوف زدہ ہو جائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں تلاوت کی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو زیادہ کر دیں اور وہ اپنے رب پر ہی توّکل کرتے ہیں‘‘ (الانفال:2)۔
بعض لوگوں کے ذہن میں توکل کا تصور یہ ہے کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور محنت و مشقت اور کسب ترک کر دے، اِسی طرح کچھ متصوفین کہتے ہیں: ''آج کھا لیا ہے تو کل کے لیے بچا کے رکھنا اللہ پر توکل کے خلاف ہے‘‘، جس رب نے تمہیں آج کھانا کھلایا ہے، کیا وہ کل کھانا کھلانے پر قادر نہیں ہے، کیا تم نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ وہ ہر صبح خالی پیٹ اپنے گھونسلے سے نکلتے ہیں اور اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ رزّاق اُن کے پیٹ کو بھر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق اپنے ساتھ اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ انہیں بھی رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی‘‘ (العنکبوت:60)۔ حدیث پاک میں ہے: (1) ''حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تم اللہ پر توکل کروجیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے‘ تو تم کو اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں‘‘ ( ترمذی: 2344)۔ (2) ''عمران بن حُصَین بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہر معاملے کا ضامن ہوتا ہے اور اس کو وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا اور جو دنیا کی طرف رجوع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے معاملے کو دنیا والوںکے سپرد فرما دیتا ہے‘‘ (شُعَبُ الْاِیْمَان:1044)‘‘۔
بہرحال توّکل کا یہ تصور‘ جو بعض لوگوں کے ذہن میں ہے‘ غلط اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، شریعت کی اصطلاح میں توکل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا و آخرت میں نفع و ضرر کا مالک مان کر اس اعتقاد کے ساتھ اسباب و ذرائع کو اختیار کرنا کہ دنیاوی و اخروی جملہ معاملات میں نفع و ضرر پہنچانے کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے حکم کے بغیر کوئی پتا اور کوئی ذرّہ حرکت نہیں کر سکتا، ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز اپنی بقا اور وجود کے لیے اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے، مثلاً: آدمی کے سامنے کھانا موجود ہو لیکن وہ نہ کھانے کو ہاتھ لگائے، نہ نوالہ توڑ کر منہ میں ڈالے اور یہ خیال کرے کہ یہ کھانا خودبخود میرے پیٹ میں داخل ہو جائے گا اور اسے توکل سے موسوم کرے تو یہ توکل نہیں، نری حماقت ہے، توکل یہ ہے کہ اسباب کو عمل میں لاتے ہوئے اپنے ہاتھ اور منہ کا استعمال کرتے ہوئے کھانا کھائے، لیکن اعتمادکھانے یا ہاتھ پر نہیں اللہ کے فضل پر ہو، کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کا ہاتھ فالج کا شکار ہو جائے اور ممکن ہے کہ کوئی شخص کھانا چھین کر لے جائے۔ الغرض توکل ترکِ عمل کا نام نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہﷺ! میں اونٹنی کو باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا کھلا چھوڑ دوں؟ آپﷺ نے فرمایا: اونٹنی کو باندھو اور اللہ پر توکل کرو‘‘۔ (ترمذی:2517)، یعنی اسباب کو اختیار کرو اور اُن کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے اللہ پر توکل کرو۔امام فخر الدین رازیؒ لکھتے ہیں: '' توکل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کی رعایت کرے، لیکن دل سے ان اسبا ب پر اعتماد نہ کرے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت، اس کی تائید، اس کی حمایت اور قدرت پر اعتماد کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘، اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اللہ کے ماسوا سے اعراض کرنے کی طرف رغبت دلائی جائے‘‘ (تفسیر کبیر، ج:3، ص:83)۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں: ''جب بندے پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی فاعل نہیں ہے، پیدا کرنا، رزق دینا، غنا یا فقر، ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو پھر وہ اپنی ضرورتوں میں غیر کی طرف نہیں دیکھے گا، اس کے دل میں اُسی کا خوف ہوگا اور اُسی سے امید ہوگی، اسی پر بھروسا ہوگا اور اسی پر اعتماد ہوگا، کیونکہ صرف وہی مستقل فاعل ہے اور باقی چیزیں اس کے مسخر اور تابع ہیں، آسمان اور زمین میں سے کوئی ذرّہ خود بخود حرکت نہیں کر سکتا اور جو شخص سبزہ اور فصل کی پیداوار میں بادل، بارش اور ہوائوں پر اعتماد کرتا ہے، وہ فاعلِ حقیقی سے غافل ہے اور ایک قسم کے شرک میں مبتلا ہے‘‘ (احیاء علوم الدین، ج:5، ص:120تا 121)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''(اے مریم!) اس کھجور کی شاخ کو اپنی طرف ہلائیں، آپ کے اوپر ترو تازہ پکی کھجوریں گریں گی، سو کھائو اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو‘‘ (مریم: 24تا 25)، غور کیجیے: جو اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ بے موسم کا تر و تازہ پھل حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے لیے پیدا فرما دے اور اس کی شاخ کو حضرت مریم پر جھکا دے، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں تھا کہ بغیر ہلائے وہ کھجوریں ان کے دامن میں گر پڑتیں، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم فرمایا: جتنا تمہارے بس میں ہے، وہ تم کرو باقی کام ہمارا ہے۔ (2) ''بھلا بتائو کہ تم جو کچھ کاشت کرتے ہو، اس کو (درحقیقت) تم اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں، اگر ہم چاہیں تو اس کو بالکل چورا چورا کر دیں‘‘ (الواقعہ: 63تا 64)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اسباب کی نفی نہیں فرما رہا، بلکہ اسباب کو اختیار کرنے کا حکم دے رہا ہے، نیز یہ کہ اسباب بھی اسی نے پیدا فرمائے ہیں، اس لیے مومن کا شعار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اسباب کو اختیار کرے، مگر توکل مسبِبُ الاسباب پر کرے اور نتائج کو اللہ رب العالمین پر چھوڑ دے۔ (3) ''جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے: غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ (التوبہ:40) سفرِ ہجرت کے موقع پر جب نبی کریمﷺ اپنے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ غارِ ثور میں آرام فرما تھے، کفار غار کے دہانے پر کھڑے تھے اور حضرت ابوبکرؓ کہہ رہے تھے: اگر ان میں سے کسی نے بھی پیر اُٹھا کر ہمیں دیکھ لیا تو ہم ان کی گرفت میں آ جائیں گے، یہ سن کر سید المتوّکلینﷺ نے فرمایا: ان دولوگوں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔ یہ رسول اللہﷺ کے شانِ توکل اور اللہ پر اعتماد اور بھروسے کی اعلیٰ نظیر ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے حاکمِ مصر کے خواب کی تعبیر بیان کی کہ سات برس خوشحالی، ہریالی اور فارغ البالی کے آئیں گے، اس کے بعد سات برس قحط سالی اور تنگی کے آئیں گے۔ پس آپ لوگ خوشحالی کے زمانے میں کفایت اور تدبیر سے کام لیں، ضرورت کے مطابق اناج کو استعمال کریں اور باقی کو خوشوں میں چھوڑ دیں۔ پھر جب قحط کا زمانہ آئے تو اس پس انداز کیے ہوئے اناج کو کفایت کے ساتھ استعمال کریں، یہ اسباب کو اختیار کرنے کی تدبیر تھی اور کارگر ثابت ہوئی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے زکوٰۃ کو اسلام کا تیسرا رکن بتایا ہے اور زکوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ سونا، چاندی، نقدی، مال و اسبابِ تجارت وغیرہ جو انسان کے پاس ایک سال سے زائد عرصے کے لیے پس انداز ہے اور شریعت کے مقرر کردہ نصاب کو پہنچ گیا ہے تو اس کا چالیسواں حصہ انسان اللہ کی بارگاہ میں خرچ کرے اور یہ اس پر فرض کیا گیا ہے۔ یقینا جس مال کی کسی شخص نے زکوٰۃ نکالی ہے، اس کی ضرورت سے زائد ہی تھا جس پر ایک سال گزرا اور پھر اس میں سے ایک خاص قلیل مقدار اللہ کی بارگاہ میں خرچ کی، اس کے باوجود ایک بڑا مال اس نے بچا لیا، اگرضرورت کے لیے مال جمع کرنا اور پس انداز کرنا اللہ پر توکل کے خلاف ہوتا تو زکوٰۃ اسلامی عبادات کا حصہ نہ ہوتی۔
یہ دنیا عالَم اسباب ہے اور ہمیں یہاں پر اسباب کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ شریعت کے خلاف نہیں، بلکہ منشائے الٰہی کے مطابق ہے؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے خود بھی اسباب کو اختیار فرمایا اور مسلمانوں کو بھی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ بدر کے مقام پر رسول اللہﷺ گھوڑے، تلواریں اور اس وقت کے ہتھیار ساتھ لے کردشمن کے مقابلے میں نکلے، اُحد میں رسول اللہﷺ نے زِرہ زیب تن فرمائی، اسی طرح غزوۂ احزاب میں رسول اللہﷺ نے خندق کھود کر دشمن کے حملے سے مدینہ منورہ اور لشکرِ اسلام کو محفوظ فرمایا اور بنفس نفیس خندق کی کھدائی میں حصہ لیا، یہ اسباب کو اختیار کرنے کی روشن مثال ہے۔ اسی طرح فتحِ مکہ کے موقع پر مدینہ منورہ سے کسی بھی خبر کے افشا کرنے پر پابندی تھی تاکہ دشمن کو پتا نہ چل سکے کہ رسول اللہﷺ ان کے خلاف کیا جنگی حکمتِ عملی اختیار فرما رہے ہیں، یہ سب اسباب کو ہی تو اختیار فرمانا ہے۔ متصوّفین جس معنی میں توکل کو لیتے ہیں، اُس کی رُو سے تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ رسول اللہﷺ دعا کرتے اور دشمن خود ہی شکست کھا جاتا، مگر اسلام کو قیامت تک کے لیے زندہ رہنا تھا، اس لیے ہر معاملے میں آپﷺ نے امت کے لیے عملی نمونہ قائم فرمایا اور آپؐ نے اسبابِ معیشت کو بھی اختیار فرمایا، صحابۂ کرامؓ کو بھی محنت کر کے اپنے گھر والوں کی کفالت کا حکم دیا۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت کعبؓ بن عُجرہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرمﷺ کے پاس سے ایک شخص گزرا، نبی اکرمؐ کے صحابہ نے اس کے قدکاٹھ اور اس کی پھرتی کو دیکھ کر عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کاش یہ نوجوان اللہ کی راہ میں جہاد کرتا، تو آپﷺ نے فرمایا: اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کیلئے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تو یہ اللہ کی راہ میں ہی ہے اور اگر یہ اپنے بوڑھے ماں باپ کیلئے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہی نکلا ہے اور اگر یہ اپنے لیے رزق کی تلاش میں نکلا ہے تاکہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے تو بھی یہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر یہ ریاکاری اور فخر کی غرض سے نکلا ہے تو یہ شیطان کے راہ میں ہے‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی: 6835)۔