ہم رویوں کے اعتبار سے ایک غیر متوازن قوم ہیں، کبھی ایک انتہا پر ہوتے ہیں اور کبھی دوسری انتہا پر۔ حال ہی میں موٹروے کا سانحہ رونما ہوا تو وفاقی کابینہ کے وزرا کے متضاد رویے سامنے آئے، بعض نے کہا: 'ایسے مجرموں کو سرِعام پھانسی دینی چاہیے، جبکہ بعض نے اس کی مخالفت کی۔ اُن کا استدلال ہے کہ اس سے حقوقِ انسانی کی نفی ہوتی ہے۔ اسی طرح متعدد کالم لکھے گئے، معاشرے کے اخلاقی زوال کا مرثیہ پڑھا گیا، ٹیلی وژن پر پروگرام ہوئے، مگر ہمارا وتیرہ یہ ہے کہ ایک سانحے کا احساس کچھ دنوں تک رہتا ہے اور کوئی دوسرا سانحہ رونما ہونے پر اسے بھلادیا جاتا ہے، پس المیہ یہ ہے کہ ہمارا ردِّعمل عارضی ہوتا ہے، رویے دیرپا نہیں ہوتے، جلد ہی سانحات ہمارے ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں۔
اسلام میں جرائم کی سزائوں کی دو اقسام ہیں: ایک حدود اور دوسری تعزیرات۔ حدود، حَد کی جمع ہے، لغت میں حَد کے معنی ہیں: ''منع کرنا، روکنا، باز رکھنا، دو چیزوں کے درمیان حائل یا رکاوٹ‘‘، عربی میں دربان کو ''حدّاد‘‘ کہتے ہیں کہ وہ ایسے شخص کو‘ جو اُس مقام میں داخل ہونے کا مُجاز نہیں ہے‘ روک لیتا ہے۔ شریعت نے جن جرائم کی سزائیں متعین کر دی ہیں، انہیں ''حد‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں: قتلِ عمد، چوری، ڈاکا، زنا، تہمتِ زنا (قذف)، شراب نوشی اور اِرتداد۔ ڈاکا زنی، قتل و غارت اور دہشت گردی کو بحیثیتِ مجموعی ''حِرابہ‘‘ اور ''فساد فی الارض‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، بعض صورتوں میں اس میں زنا بالجبر کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ قتلِ عمد کی سزا قصاص، چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، غیر شادی شدہ زانی، تہمتِ زنا اور شراب نوشی کی سزا کوڑے لگانا اور اِرتداد کی سزا موت ہے۔ حد کی حکمت یہی ہے کہ مجرم سزا کے خوف سے ارتکابِ جرم سے باز رہے اور دوسرے بھی جب مجرم کے عبرتناک انجام کو دیکھتے ہیں تو ارتکابِ جرم سے باز رہتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر جرائم کی سزائوں کا تعیُّن شریعت نے نہیں کیا، یہ حاکمِ وقت یا نظمِ اجتماعی کی صوابدید پر ہے کہ وہ حکمت اور مصلحتِ عامّہ کے تحت ان کی سزائیں مقرر کرے۔ اگر کسی زمانے میں کسی خاص جرم کی شرح بڑھ جائے، لوگ جرائم کے ارتکاب پر جری ہو جائیں، قانون کا خوف دل سے نکل جائے تو حاکمِ وقت زیادہ سزا بھی مقرر کر سکتا ہے اور اگر مجموعی حیثیت سے معاشرہ بہتر حالت میں ہے، جرائم خال خال ہیں تو ان کی سزا کم بھی رکھی جا سکتی ہے، ایسی سزائوں کو تعزیر کہتے ہیں، عربی لغت میں تعزیر کے معنی ہیں: ملامت کرنا، ادب سکھانا، سخت مارنا اور اس کے ایک معنی تعظیم و توقیر کے بھی ہیں۔
جب ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے قانونِ قصاص اور شرعی حدود کو نافذ کرو تو لبرل عناصر اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں، شرعی سزائوں کو وحشیانہ اور حرمتِ انسانیت کے منافی قرار دیتے ہیں، اچانک ان کے دلوں میں مجرموں کے لیے رحم کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ ضررِ کثیر سے بچنے کے لیے ضررِ قلیل کو ترجیح دیتا ہے، انسان کا جب کوئی عضو ناکارہ ہو جائے، اس میں زہر سرایت کرنے لگے، جسم کا کوئی حصہ بے جان ہو جائے اور اس نقص کے باقی وجود میں سرایت ہونے کا ظنِّ غالب ہو تو بقیہ جسم کو بچانے کے لیے اُسے کاٹ کر بدن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ شوگر کے سبب Gangreneکا مرض لاحق ہونے پر پائوں یا ٹانگیں کاٹنے کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں، ناقص گردہ نکال کر صالح گردہ ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے، جگر کی پیوند کاری ہوتی ہے، بعض اوقات اصل اعضا ناکارہ ہونے کے باعث انہیں کاٹ کر مصنوعی اعضا لگا دیے جاتے ہیں، یہ سارا عمل باقی بدن کی سلامتی کے لیے ہوتا ہے، اسی لیے انسان کی اجتماعی دانش نے اسے قبول کر لیا ہے اور متاثرہ فرد بھی بخوشی اس کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
اسی طرح پورا معاشرہ بھی جسدِ واحد کی طرح ہوتا ہے، معاشرے کا ہر فرد ایک عُضو کی مانند ہے، پس جب کوئی عضو جرائم، فساد اور تخریب کے ذریعے پورے معاشرے کے امن، سلامتی اور سالمیت کے لیے خطرہ بن جائے، لوگوں کی جان و مال اور آبرو محفوظ نہ رہے، اس کی وجہ سے کوئی عورت یا بچہ ہمیشہ اپنے آپ کو بے توقیر محسوس کرے اور معاشرے میں ناقدری کا ہدف بن جائے، تو لازم ہے کہ ایسے فرد کو نابود کرکے معاشرے کو اُس کے شر سے محفوظ کر لیا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسے جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو بار سوچے کہ وہ بھی ایسے انجام سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ایسے مفسد عناصر سے ہمدردی ایسی ہی ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی کے پائوں یا ٹانگ میں زہر سرایت کرگیا ہے تو اُسے اسی حالت میں رہنے دیا جائے تاکہ یہ زہر بتدریج پورے بدن کو چاٹ جائے اور اس کی صلاحیتِ حیات کو سلب کر لے۔
اسلام میں عبرت دلانے کے لیے بعض سزائیں برسرِ عام دینے کا حکم بھی موجود ہے، چنانچہ حدِ زنا کے بارے میں فرمایا: ''(غیر شادی شدہ) زانی مرد اور زانیہ عورت میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگائو اور اللہ کے حکم کو نافذ کرنے میں تم ان دونوں پر کوئی ترس نہ کھائو، اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور اُن کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے‘‘ (النور:2)۔ حدِّ سرقہ کے بارے میں فرمایا: ''چوری کرنے والے مرد اور عورت میں سے ہر ایک کا (دایاں) ہاتھ کاٹ دو، یہ اُن کے کیے کا بدلہ (اور) اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور اللہ بہت غالب نہایت حکمت والا ہے‘‘ (المائدہ:38)۔ ظاہر ہے کہ یہ عبرت مجرم کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی ہے۔
بعض اوقات کئی جرائم ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں، مثلاً: ڈاکا زنی، دہشت گردی، زنا بالجبر اور خوف و ہراس پھیلانا وغیرہ، قرآنِ کریم نے جرائم کے اس مجموعے کے لیے سب سے سنگین سزا مقرر کی ہے، فرمایا: ''اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، ان کی یہی سزا ہے کہ انہیں چُن چُن کر قتل کیا جائے یا اُن کو سولی پر لٹکایا جائے یا مخالف سَمت سے اُن کے ہاتھ اور پائوں کاٹے جائیں یا اُنہیں (قید کرکے) زمین سے نکال دیا جائے، یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑا عذاب ہے، ماسوا اُن لوگوں کے جنہوں نے تمہارے قابومیں آنے سے پہلے توبہ کر لی (اور ہتھیار ڈال دیے)، پس جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘ (المائدہ:33تا 34)۔ یعنی قتل کی صورت میں قصاص یا عبرت کے طور پر سولی پر لٹکانا، چوری اور ڈاکا زنی کی صورت میں مخالف سمت سے ہاتھ اور پائوں کاٹنا، دہشت پھیلانے کی صورت میں قید کر کے معاشرے کو اس کے شر سے محفوظ کرنا شامل ہیں، بعض مفسرین نے فرمایا: اگر کسی نے ایک سے زائد جرائم یا ان سب جرائم کا ارتکاب کیا ہے تو بالترتیب ایک سے زائد سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
جرائم کی تفتیش کے حوالے سے ہمارے تفتیشی ادارے جدید وسائل اور مہارت سے محروم ہیں، برطانوی استعمار کے دور سے صرف ''مجرم پر جبر کر کے اور اذیت دے کر اعترافِ جرم کرانے‘‘ کا حربہ استعمال ہو رہا ہے۔ اخبارات کو کھنگال کر دیکھیں، کراچی کے حوالے سے ایک ایک قاتل نے پولیس کی اذیت سے بچنے کے لیے سو سو قتلِ ناحق کا اعتراف کیا، مگر عدالت کے سامنے اعترافِ جرم سے منحرف ہو گئے اور پھر رہا بھی ہو گئے۔ ملک میں تسلسل کے ساتھ کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کر کے قتل کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، میڈیا اور سیاستدانوں کے واویلا مچانے کے باوجود یہ سلسلہ رک نہیں پا رہا، اس کا ایک ہی حل ہے کہ جرائم کی تفتیش قطعی ثبوت و شواہد کے ساتھ کرکے مجرم کو عبرت ناک انجام سے دوچار کیا جائے اور یہی چیز ہمارے ہاں مفقود ہے۔
بلاشبہ فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے تعلیم اور اخلاقی تربیت بھی بے حد ضروری ہے، صالح ذہنوں پر یقینا اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن الیکٹرونک میڈیاکی بہتات اور سوشل میڈیا کی مختلف اقسام نے اخلاقی تربیت کے مواقع کو شدید متاثر کیا ہے۔ بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے ناپختہ ذہن جب ہیجان انگیز مناظر دیکھتے ہیں، تو اخلاقیات پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اب بظاہر ان چیزوں کو کنٹرول کرنا حکومتوں کے لیے بھی مشکل ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ ہماری قیادت کا اپنا اخلاقی معیار بھی تنزّل سے دوچار ہے، پست سے پست ہوتا جا رہا ہے، سب نے ایک دوسرے کی تذلیل و تحقیر کے لیے سوشل میڈیا کے جتھے پال رکھے ہیں، دوسروں کی عزت تار تار کر کے قیادت راحت محسوس کرتی ہے اور پھر اُسے بھی اُسی طرح کاجواب ملتا ہے، اختلاف کے آداب معدوم ہو چکے ہیں، عزت و ذلت کے معنی بدل چکے ہیں، ایسے میں اخلاقی تربیت کیسے ہوگی۔ وہ قومی مناصب جو سب کے لیے قابلِ احترام ہونے چاہئیں، اس اعزاز سے محروم ہو چکے ہیں، اس میں صاحبانِ مناصب کے اپنے رویوں کابھی کافی حد تک دخل ہے اور ایسی خصلتیں جو فطرتِ ثانیہ بن چکی ہوں، اُن کا بدلنا آسان نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''جب تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو تصدیق کر لو (کہ ایسا ہو سکتا ہے)، لیکن جب تم سنو کہ کسی شخص نے اپنی جبلّت کو ترک کر دیا ہے تو تصدیق نہ کرو، وہ پلٹ کر اُسی کی طرف آئے گا‘‘ (مسند احمد: 27499)۔ یہ رسول اللہﷺ کا معجزہ تھا کہ آپ نے انسانی فطرت کی اُس استعداد کو‘ جو باطل کے لیے استعمال ہو رہی تھی‘ تزکیہ اور تربیت کے ذریعے اس کا رخ حق کی طرف پھیر دیا، آپﷺ نے فرمایا: ''لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، سو ان میں سے جو زمانہ جاہلیت میں کسی جوہرِ قابل کا حامل تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد اس کی وہ فضیلت قائم رہی‘‘ (مسلم: 2638)۔ علامہ علی القاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: انسانیت کے حوالے سے معدِن سے مراد انسانی جبلّتوں کا جوہر اور خیر کی وہ فطری استعداد ہے جسے مسلسل تربیت و ریاضت سے نکھارا جا سکتا ہے، جیسے سونا، چاندی، ہیرے اور جواہرات زمین میں چھپے ہوتے ہیں، پھر انہیں نکالا جاتا ہے، ان کی تراش خراش کر کے اندر سے کھوٹ کو نکالا جاتا ہے، پالش کر کے چمکایا جاتا ہے، سو وہی پتھر جو پاؤں کی ٹھوکر میں تھا، بادشاہوں کے تاج میں سجتا ہے اور گلے کا ہار بنتا ہے۔