"MMC" (space) message & send to 7575

Surrogate Mother…(1)

Surrogate Motherاُس عورت کو کہتے ہیں جو اپنا رحم اوربیضہ کسی غیر مرد کے نطفے کی افزائش کے لیے رضاکارانہ یا اجرت کے عوض پیش کرے‘ یہ عمل شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں ہے، امام محمد بن سیرین اور امام حسن بصری سے روایت ہے:''شرمگاہ کو عاریت پر نہیں دیا جائے گا‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ:17301، 17297)، جب عاریت پر نہیں دیا جاسکتا تو اجرت کے عوض دینا بطریقِ اولیٰ ناجائز ہوگا، کیونکہ یہ بدکارعورت کی اجرت کی مانند ہوگا۔ حدیث مبارک میں اس کی ممانعت آئی ہے ۔ پس جو خدشات آج حقیقت بن کر سامنے آرہے ہیں‘ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں بھی محدثین کرام کو ان کا ادراک تھا، حدیث میں ہے:''رسول اللہﷺنے فرمایا:جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے پانی (نطفہ)سے غیر کی کھیتی (رحم)کو سیراب کرے۔ (سنن ابودائود:2158)
اس حدیث مبارک کے مطابق اپنی منکوحہ کے علاوہ کسی دوسری اجنبی خاتون کی کھیتی کو سیراب کرنے سے مراد جنسی ملاپ یا دیگر طبی طریقوں سے اُس کے رحم میں اپنامادّہ مَنویّہ پہنچانا ہے اور یہ عمل حرام ہے۔لہٰذا جب بیوی کے رحم میں شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے جرثومے رکھے جائیں گے تو وہ ازروئے حدیث حرام ہوگا، اسی طرح بیوی کے علاوہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں شوہر اور بیوی کا مادّہ مَنویّہ رکھنا اس ممانعت میں شامل ہے ۔لیکن اس عمل پرزنا کی تعریف صادق آتی ہے نہ اس پر زناکا اطلاق ہوتا ہے اور نہ زنا کی حدِّ شرعی جاری ہوتی ہے، البتہ یہ عمل سخت گناہ کا باعث ہے اورمعناً زنا ہے، کیونکہ اس سے اُس عورت کا حمل قرار پاسکتا ہے۔ جہاں تک بچے کے نسب کا تعلق ہے تو اس کا نسب صاحبِ نطفہ کے ساتھ قائم نہیں ہوگااور نہ اس کی منکوحہ بیوی اس بچے کی ماں کہلائے گی۔ لہٰذا شرعاً نہ تو یہ بچہ اُن کا وارث ہوگا اور نہ یہ دونوں بچے کے وارث بنیں گے، بچے کی ماں وہی عورت کہلائے گی جس کے بطن سے اُس نے جنم لیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(1)''اور ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے‘‘ (المجادلہ:2)، (2)''انسان کواُس کی ماں نے مشقت سے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور مشقت ہی سے جنا‘‘ (الاحقاف: 15) پہلی آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حقیقت میں انسان کی ماں وہی عورت ہے، جس نے اُسے جنم دیاہے اور دوسری آیت میں مزید صراحت کے ساتھ فرمایا: انسان کی ماں وہ عورت ہے جو حمل کو پیٹ میں رکھتی ہے اور پھر اسے جنتی ہے۔اس کی مزید وضاحت عہدِ رسالت میں پیش آنے والے اس واقعے سے ہوتی ہے:
''حضرت سعدؓ کے بھائی عُتبہ نے مرتے وقت انہیں یہ وصیت کی کہ زَمعہ ( اُم المومنین حضرت سودہؓ کے والد)کی لونڈی کا بیٹا عبدالرحمٰن میرے نطفہ سے ہے، لہٰذا تم اس کو لے لینا؛ چنانچہ حضرت سعدؓ جب بچے کو لینے گئے تو ابنِ زَمعہ کہنے لگے :یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے، پھر یہ مقدمہ نبی کریمﷺکی بارگاہ میں پیش ہوا، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:'' عُتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد کو وصیت کی:''زَمعہ کی باندی کا بیٹا میرے نطفہ سے ہے، تم اس پر قبضہ کرلینا‘‘، حضرت عائشہؓ نے کہا:''جب فتح مکہ کا سال آیا تو حضرت سعدؓ نے ابن ِزَمعہ کو لے لیا اور کہا:یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کی وصیت کی تھی، پھر حضرت عبدؓ بن زَمعہ کھڑے ہوئے اور کہا:یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ پھر ان دونوں نے اپنا مقدمہ نبیﷺکے سامنے پیش کیا، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے عرض کی:یارسول اللہ!یہ میرا بھتیجا ہے، اس کے متعلق عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی ۔ حضرت عبدؓ بن زَمعہ نے کہا:یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے، ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے، رسول اللہﷺنے فرمایا: عبد بن زَمعہ!وہ تمہارا (بھائی)ہے، پھر رسول اللہﷺنے فرمایا:بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہے، پھر آپ نے حضرت سَودہ ؓبنت زَمعہ سے فرمایا:''سَودہ! تم اس سے پردہ کرنا‘‘، کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عُتبہ کی مشابہت دیکھی تھی، پھر زَمعہ کے بیٹے نے اپنی وفات تک حضرت سَودہ کو نہیں دیکھا‘‘ (بخاری:2053)۔ 
رسول اللہﷺ نے ''بچہ صاحبِ فراش کا ہے اور زانی کے لیے محرومی ‘‘کے شرعی اصول کے تحت بچے کی ولدیت کے بارے میں فیصلہ عَبد بن زمعہ کے حق میں دیا کہ وہ تمہارا بھائی ہے اور چونکہ آپﷺکو اللہ تعالیٰ نے حقائق پر بھی مطلع فرمایا تھا، اس لیے آپ نے حضرت سودہؓ بنتِ زمعہ کو حقیقتِ واقعہ کی بنا پر پردے کا حکم فرمایا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی لفظِ''فِراش‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:رسول اللہﷺکا فرمان ''بچہ صاحبِ فراش کا ہے ‘‘، یعنی ایسی عورت جس سے شریعت نے کسی مرد کے لیے مباشرت کو حلال قرار دیا ہے اور وہ کسی کی منکوحہ بیوی ہے یا باندی ہے۔ (فتح الباری، ج:1، ص:221)۔
علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں:''بچہ صاحبِ فراش کاہے‘‘، رسول اللہﷺ نے یہ فرمان عبد بن زَمعہ کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ محض کسی کے نسب کو اپنے ساتھ لاحق کرنے کے مطالبے سے نسب ثابت نہیں ہوتا، بلکہ فِراش سے ثابت ہوتا ہے، آپﷺنے فرمایا:''بچہ صاحب ِفراش کا ہے‘‘۔ علماء کی ایک جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد عورت کا فِراش ہونا نکاح سے ثابت ہوتا ہے، جبکہ وطی کرنا اور حمل قرار پاناممکن ہو، پس جب اس امکان کے ساتھ نکاح منعقد ہو تو بچہ صاحبِ فراش کا ہوگا، لعان کے سوا کسی غیر کے دعوے یا کسی اور سبب سے بچے کا نسب اُس سے کبھی منقطع نہیں ہوگا‘‘(عمدۃ القاری، ج:11، ص:168)۔ 
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:''اس حدیث میں نبیﷺنے فرمایا:''بچہ صاحبِ فراش کا ہے اور زانی کے لیے پتھر‘‘، کسی عورت کے لیے صاحبِ فراش وہ شخص ہے جس کی یہ منکوحہ ہے، اس سے واضح ہوگیا کہ نبیﷺکو علم تھا کہ یہ بچہ زَمعہ کے نطفے سے پیدا نہیں ہوا، اس کے باوجود آپ نے اس بچے کو زمعہ کے ساتھ لاحق کردیا ۔ پس ثابت ہوا کہ ثبوتِ نسب‘ صاحبِ نسب کے پانی اور اس کی وطی پر موقوف نہیں ہے بلکہ فراش پر موقوف ہے، جس کا فراش ہوگا، اس کا نسب ہوگا، خواہ اس نے وطی کی ہو یا نہ کی ہو، یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فراش ہونے کے لیے امکانِ وطی کی شرط نہیں رکھی‘‘ (شرح صحیح مسلم، ج:3، ص:934)۔ 
پس معلوم ہوا کہ بچے کا نسب صاحبِ فراش سے ثابت ہوگا، صاحبِ فراش سے وہ ہے جس کی یہ عورت منکوحہ ہے، اسی لیے آپﷺنے فرمایا:''زانی کے لیے پتھر ہے‘‘، یعنی ایسا صاحبِ نطفہ اُس بچے کی نسبتِ نسب کے اعزاز سے محروم رہے گا۔ پس جب بچے کا نسب صاحبِ فراش کے ساتھ لاحق ہوگا تو اس کی بیوی اس کی ماں قرار پائے گی اور اس عورت کا شوہر اس کا باپ قرار پائے گا، کیونکہ ثبوتِ نسب بھی ضروریاتِ شرعیہ میں سے ہے اور اسی طرح دیگر رشتے قائم ہوں گے۔یہ مسئلہ کنواری مَزنیہ(جس سے زنا کیا گیاہو )کے بارے میں نہیں، بلکہ کسی کی منکوحہ کے بارے میں ہے۔
حال ہی میں ایک مضمون اس موضوع پر نظروں سے گزرا جس میں مضمون نگار نے اجرت کے عوض یا رضاکارانہ اپنا بیضہ اور رحم فراہم کرنے والی عورت کو رضاعی ماں قرار دیاہے جبکہ حدیث میں تو اسے حقیقی ماں ہی کا حکم دیا گیا ہے۔ رضاعی ماں تو اُسے کہتے ہیں کہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے اور پھر وہ بچہ مدتِ رضاعت (یعنی ڈھائی برس)کے اندرکسی دوسری عورت کا دودھ پیے، وہ رضاعی ماں کہلائے گی، اُس کا شوہربچے کا رضاعی باپ کہلائے گا اور اسی طرح دوسرے رضاعی رشتے بھی قائم ہوں گے۔ یہ شریعت میں کوئی عیب نہیں ہے، یہ شعار اسلام سے پہلے بھی عالمِ عرب میں رائج تھا اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ہے اور اس میں نسب کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہتا۔ 
مضمون نگار کا موقف ہے:یہ عَلانیہ ہونا چاہیے، ابہام نہیں ہونا چاہیے، اس کے نتیجے میں ماں اور نان نفقے کے حقوق قائم ہوجائیں گے اور جو کچھ معاہدہ ہوا ہے، اُس کی پابندی کرنا پڑے گی۔ اُس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں، اُن رشتوں کو بھی وہی حرمت ملے گی، یعنی نکاح ہونا ہے، طلاق ہونا ہے، دین میں ایسی صورت ہوگی، اگر کسی نے کرنی ہے ۔ اگر مضمون نگار نکاح وطلاق اور نان نفقہ سے حقیقی نکاح وطلاق مراد لیتے ہیں تو اس پر کرائے کی ماں (Surrogate Mother)کا اطلاق بالکل غیر متعلق بات ہے اور اس کے لیے اتنی طویل فلسفیانہ بحث کی کیا ضرورت ہے اور اگراُن کی یہاں نکاح وطلاق سے مراد اجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اجنبیہ عورت کا رحم حاصل کرنا ہے، تویہ دیدہ ودانستہ تحریف اور خَلطِ مبحث ہے، اس صورت میں نکاح، طلاق اور نفقے کا اطلاق کرناشرعی اصطلاح کے پردے میں لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔
پس اگرنکاح وطلاق ہے، نان نفقہ ہے، تو اُس پر کرائے کی ماں( Surrogate Mother)کا اطلاق ہرگز درست نہیں ہے، اس طرح تو کوئی شخص اپنی منکوحہ بیوی کو بھی کرائے کی ماں قرار دے سکتا ہے، کیونکہ شریعت نے بیوی اور بچوں کی کفالت کی ساری ذمے داری شوہر پر عائد کی ہے جبکہ کرائے پر کسی اجنبی عورت کی خدمات اعلان کر کے حاصل کی جائیں، تو یہ اعلان کسی بھی صورت میں نکاح کے ہم معنی نہیں ہے، نہ اس پر نکاح کے احکام مرتّب ہوتے ہیں اور نہ اس کے لیے طلاق کی ضرورت ہے اور نان نفقہ بھی صاحبِ فراش کی ذمہ داری ہے۔ (جاری )

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں