ہمارے ایک لبرل کرم فرما وقتاً فوقتاً اہلِ مذہب کو اپنی توجہات، طنز اور تعریض کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اس میں وہ راحت محسوس کرتے ہیں، ہمیں چھیڑنے سے اگر کسی کو خوشی نصیب ہوتی ہے، تو اُسے مبارک ہو۔ چنانچہ ''بغیر نکاح کے، توبہ توبہ‘‘ کے عنوان سے انہوں نے کالم لکھا، وہ رقم طراز ہیں: ''میں صبح اٹھ کر تمام بڑے اردو انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں، پر یہ خبر نہ جانے کیوں میری نظر سے نہیں گزری، بھلا ہو پروفیسر ہود بھائی کا جن کا انگریزی کالم پڑھ کر مجھے پتا چلا کہ گزشتہ ہفتے سے متحدہ عرب امارات میں نئے قوانین کا اطلاق ہوا ہے، جن کے بعد اب وہاں شراب پینے پر رہی سہی پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے، یہی نہیں بلکہ '' اب غیر مرد اور عورت بغیر شادی کے اکٹھے رہ سکتے ہیں‘‘،اِس کے علاوہ بھی کچھ قوانین میں ترمیم کی گئی ہے جیسے کہ غیرت کے نام پر قتل کو اب عام قتل کی طرح ہی جرم سمجھ کر مقدمہ چلایا جائے گا اور شادی، طلاق، وراثت وغیرہ کے قوانین بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کبھی کوئی لبرل قسم کا عالم دین کھینچ تان کر کہیں سے شراب کی گنجائش پیدا کر لے، مگر نا محرم مرد اور عورت کا بغیر نکاح کے اکٹھے رہنا کہیں سے بھی اسلامی قوانین یا شریعت کے مطابق نہیں، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ امارات میں مذہب کی نئی تشریح کی گئی ہے یا پھر وہاں کے حکمران بدل گئے ہیں، جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا، مذہب بھی وہی ہے اور حکمران بھی پرانے ہیں، فقط زمانہ بدل گیا ہے۔ کچھ دہائیو ں کی بات ہے، کیا خبر کہ مسلمان ممالک ہم جنس پرستی کی اجازت بھی دے دیں، جب بھی کوئی شخص اِس قسم کے موضوعات پر قلم اٹھاتا ہے تو ہم یہ کہہ کر اُس کی بات کو رد کر دیتے ہیں کہ وہ معاشرے میں فحاشی پھیلانا چاہتا ہے یا پھر مغربی اقدار سے متاثر ہے، حالانکہ ایسا شخص صرف ہمیں آئینہ دکھا رہا ہوتا ہے، اُس کا مقصد صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ وقت کا پہیہ تصویر اور آلہ مکبر الصوت (لائوڈ سپیکر)کے فتاویٰ کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل چکا ہے۔ عالمی تصورات بدل چکے ہیں اور جدید دنیا کا انسان اب شراب نوشی اور نکاح و طلاق کے مسائل سے ماورا ہو چکا ہے، کیونکہ اب اسے کہیں زیادہ پیچیدہ اور گنجلک مسائل کا سامنا ہے۔ جی ہاں! آ پ اِس کے مقابلے میں یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ دنیا چاہے مریخ پر پہنچ جائے یا انسان خود کو حنوط کروا کے دوبارہ زندہ ہوجائے، جن معاملات پر مذہب نے حدود کا تعین کر دیا ہے اُن میں کوئی حکومت اسلامی ہویا غیر اسلامی تاقیامت تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہ بات درست ہے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس وقت مسلم دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں، جہاں مذہب اُس شکل میں رائج ہو جس شکل میں ہمارے کچھ مذہبی دوست پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے ہیں، مثلاً :اِس وقت مسلم دنیا کے رول ماڈل ممالک میں ترکی، ملائیشیا، قطر، کسی حد تک انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اِن میں کہیں بھی ہمیں شدت پسندی یا جنونیت (انڈونیشیا کا قصہ الگ ہے) نظر نہیں آتی یا مذہب کی وہ تشریح دکھائی نہیں دیتی جو ہمارے ہاں کی جاتی ہے۔ اس تقریر کا مدعا فقط یہ ہے کہ جدید دنیا میں قدامت پسند رویوں کے ساتھ رہنا اب ممکن نہیں۔ امارات نے اسی وجہ سے اپنے قوانین تبدیل کیے۔ سعودی عرب میں اسی لیے سینما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ میرے ایک دوست کو البتہ میری اِن باتوں سے اختلاف ہے، اُس کا کہنا ہے کہ نام نہاد مسلم ممالک میں یہ تصورات مغربی ممالک سے مستعار لیے جا رہے ہیں اور ان کے خطرناک نتائج نکلیں گے، ثبوت کے طور پر وہ مغربی ممالک میں ہونے والے ریپ کے اعداد و شمار پیش کرتا ہے اور مجھ سے اِس بات پر نالاں رہتا ہے کہ میں اکثر مغربی ممالک کی مثالیں دے کر کہتا ہو کہ وہا ں قانون کی حکمرانی کی وجہ سے عورتیں محفوظ ہیں، جبکہ اعداد و شمار ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ ریپ مغربی ممالک میں ہوتے ہیں۔ ریپ کے اعداد و شمار کے بارے میں بارہا میں اپنے دوست سے کہہ چکا ہوں کہ ہم کینیڈا اور افغانستان کا تقابل کرکے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کینیڈا میں ریپ زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس افغانستان کا تو کسی قسم کا ڈیٹا ہی موجود نہیں، جبکہ کینیڈا کا حال یہ ہے کہ وہاں شادی شدہ عورت کو اگر اُس کا شوہر بغیر مرضی کے ہاتھ لگائے تو وہ بھی ریپ شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح مغربی ممالک میں ریپ کی جو تعریف کی جاتی ہے، اُسے اگر سوڈان، نائیجیریا، پاکستان یا افغانستان پر لاگو کیا جائے تو یہاں ہر دوسری عورت ریپ کا شکار سمجھی جائے گی اور پھر ہمیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔ مغربی ممالک میں ریپ کی شکایات درج کروانے اور ان کا ریکارڈ رکھنے کی شرح غیر ترقی یافتہ مسلم ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے... ہم جب تک چاہیں اِس قسم کی دلیلوں سے خود کو مطمئن کر سکتے ہیں، مگر اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔ تصویر، ٹیلی وژن اور لائوڈ سپیکر کے خلاف دلائل بھی وقت کے سامنے نہیں ٹھہر سکے تھے، یہ دلائل بھی کچھ عرصے بعد ختم ہو جائیں گے، مگر تب تک وقت کا پہیہ ہمیں روند کر آگے نکل چکا ہوگا‘‘۔
اہلِ دین کو کوسنے کے لیے برطانوی استعمار کے زمانے کا دُخانی ریلوے انجن، تصویر اور آلۂ مکبّر الصوت کے استعارے بہت پرانے ہوچکے ہیں، گھِسے پِٹے ہیں، ہمیں تو ان کا علم ہے، لیکن محترم کالم نگار صاحب کے نئے قاری کا ان چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، صرف وقتاً فوقتاً موصوف اپنے نفس کی تسکین کے لیے یہ استعارے استعمال کرتے رہتے ہیں، اُن کی خدمت میں یہ عرض کیا جاسکتا ہے، جگر مراد آبادی نے کہاتھا:
پہلے کہاں یہ ناز تھے، یہ عَشوہ و ادا
دل کو دعائیں دو، تمہیں قاتل بنا دیا
سو مولوی کا وجود غنیمت جانو کہ کبھی کبھی آپ چھیڑ کر حظ اٹھاتے ہیں، لطف لیتے ہیں، نئی نسل کو باور کراتے ہیں کہ یہ ازکارِ رفتہ لوگ ہیں، دقیانوسی ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں کہ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے، یہ اب بھی ماضی میں جی رہے ہیں، اگرچہ غالبؔ کے اس شعر کے مصداق آپ رعایتی نمبر دے کر معاف بھی کرسکتے تھے:
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہِ ربا کہتے ہیں
لیکن جب کالم لکھنے کا شغل اختیار ہی کرلیا ہے، تو مولوی یا مذہبی لوگوں کی خیر نہیں ہے، فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا:
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
گِردوپیش میں بکھرے ہوئے سچے موتی بھی بہت ہیں، مگرحَدِّ ادب مانع رہتا ہے، جان کی امان کسے نہیں چاہیے، پروفیسر حفیظ تائب نے کہا تھا:
سچ میرے دور میں جرم ہے، عیب ہے
جھوٹ فنِ عظیم، آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے راہ روی
ایک آزار ہے، آگہی یانبی!
سو آزارِ آگہی سے بچنے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ مولوی اور مذہبی لوگوں کے لتّے لیے جائیں، انہیں کوس کر نفس کو تسکین پہنچائی جائے، بندہ بیٹھے بٹھائے لبرل ازم کا امام بن جاتا ہے، لبرل طبقات کا ہیرو بن جاتا ہے، سو کالم نگار صاحب کو یہ اعزاز مبارک ہو۔ جنابِ والا! ہم بھی آپ کے دور میں جی رہے ہیں، عمر میں یقینا آپ ہم سے چھوٹے ہیں، روشن خیال ہیں۔انہیں صاحبزادہ خورشید گیلانی ''روغن خیال‘‘ کہاکرتے تھے، زمانہ آگے نکل چکا ہے، ہمیں بھی معلوم ہے، لیکن ہمارے مذہب کے ساتھ جڑے رہنے سے آپ کا کیا نقصان ہے، وقت کا دھارا آپ کے ساتھ ہے، زمانہ آپ کا طرف دار ہے، پھر بھی آپ کو تسکین نہیں ہوتی۔ ہمارا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی نظر میںحلال وحرام کے پیمانے بدل چکے ہیں، کیا العیاذ باللہ کوئی نئی شریعت نازل ہوگئی ہے جو آپ تک پہنچ گئی ہے، مگر ہمیں اس کی خبر نہ ہوئی۔ اگر کسی اور کی بیٹی یا بہن اجنبی مرد کے ساتھ کسی ہوٹل میں رنگ رلیاں منائے تو ہمیں اس کا جشن منانا چاہیے،کیا وہ اس قوم، اس ملّت اور اس امّت کی بیٹی نہیں ہے، کیا اس کی آوارگی اور آبرو باختگی ہمارا دردِ سر نہیں ہونا چاہیے، ہمیں اپنی بساط کے مطابق اس پر آواز بلند نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ زمانہ آگے نکل چکا ہے۔پھر تو آئے روز زنا بالجبر، بچوں اور بچیوں کے ساتھ بدفعلی، قتل، ڈکیتیوں اور رہزنیوں پر کبھی آواز بلند نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ زمانہ آگے نکل چکا ہے، بس قصور یہ ہے کہ ہمیں اس کی خبر نہ ہوئی۔ اگر دنیا میں کہیں مذہب اپنی اصل شکل میں نافذ نہیں ہے یا جس قدر تھا، اس کی بھی بساط لپیٹی جارہی ہے، تو ہمیں اس کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے یا اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنے کو ہدفِ طعن وملامت بنانا چاہیے، کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ جو آپ کے نظریات کا حامی نہیں ہے، اس کا گلا گھونٹ دینا چاہیے، اُس کی آواز دبادینی چاہیے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے آپ ترقی پسند اور روشن خیال لوگوں کے ہوتے ہوئے اللہ کی اتنی مخلوق کو اپنا ہمنوا کیسے بنالیا، لوگ بے اختیار اُن کے گرویدہ کیسے ہوگئے، کیا یہ لوگ اس معاشرے کے فرد نہیں ہیں، کیا یہ سول سوسائٹی نہیں ہے، کیا انہیں اپنے نظریات کے ابلاغ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے یاجو لوگ اُن کے جنازے پہ جمع ہوئے، انہیں پتا نہ چل سکا کہ زمانہ آگے نکل چکا ہے، بیشتر لوگ تو آپ کے شہر کے باسی تھے، آپ نے انہیں باخبر کردیا ہوتا تو وہ اس تاریکی میں نہ رہے ہوتے۔ نیز یہ کہاں سے لازم آیا کہ برسرِ عام شراب نوشی اور نامحرم لڑکے لڑکیوں کا اختلاط اور ساتھ رہنا مادّی ترقی کے لیے لازم وملزوم ہیں، ورنہ اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے ترقی ناممکن ہے، ایسی کوئی دلیل ہو تو ضرور ہمیں آگاہ فرمائیے۔