ہمارا ایمان ہے کہ یہ کائنات ازخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کا ایک خالق ومالک اور مدبّر وکارساز ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عبث پیدا نہیں فرمایا، بلکہ اسے عقل کی نعمت اور خیر وشر میں تمیز کی صلاحیت عطا کی اور اپنے احکام کا پابند بنایا، اسی کو شریعت کی اصطلاح میں تکلیف ِ شرعی سے تعبیر کرتے ہیں اور انسان کو عبدِ مُکلَّف یعنی Accountableکہاجاتا ہے، نیز ان احکام کی تعمیل یا عدمِ تعمیل کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے آخرت میں جزا وسزا کا نظام قائم فرمایا ہے، جنت وجہنم اسی مقصد کے لیے پیدا فرمائے ہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام پر تبشیر واِنذار کا فریضہ عائد کیا، یعنی نیک کاموں پراللہ کی رحمت اورجزا کی بشارت دینااوربرے کاموں پر اُس کے عذاب اور انجامِ بد سے ڈرانا، اسی لیے علماء نے کہا: ایمان خوف اور رَجا کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے، یعنی بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا خوف بھی ہواور اُس کی رحمت کی کامل امید بھی ہو، اس روحِ ایمان کی معراج حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اِن کلمات میں بیان فرمائی: ''اگر کل قیامت کے دن یہ اعلان کردیا جائے کہ سوائے ایک آدمی کے کوئی اورجنت میں نہیں جائے گا تومجھے اپنے بارے میں یہ گمان رہے گا کہ شاید وہ میں ہی ہوں اور اگر یہ منادی کردی جائے کہ سوائے ایک آدمی کے دوزخ میں کوئی نہیں جائے گا تو مجھے یہی خوف رہے گا کہیں وہ میں ہی تو نہیں ہوں‘‘ (کیمائے سعادت، ص:926)۔
بندوں کو عذاب دینااللہ تعالیٰ کی مشیت تو ہے یعنی اُس کے تشریعی نظام کا تقاضا ہے لیکن اُس کی رضا یہ ہے کہ بندے اس کی اطاعت کرکے اجرِ عظیم کے حق دار بنیں اوراُس کی اُخروی نعمتوں سے فیض یاب ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گااگر تم شکر ادا کرو اور (خالص) ایمان لے آئو اور اللہ شکر کی جزا دینے والا بہت جاننے والا ہے‘‘ (النساء:147)۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی اپنی بشری کمزوری سے بھٹک جائے یا بہک جائے تو اللہ تعالیٰ اُسے ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ نہیں فرماتا بلکہ اُس کی واپسی کا راستہ کھلا رکھتا ہے، وہ بندے کو یاس وحِرمان میں مبتلا نہیں دیکھنا چاہتا، اسی لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ شاعر نے رحمتِ باری تعالیٰ کی پکار کو اس رباعی میں منظوم کیا ہے:
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگہ ما درگہ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
ترجمہ: ''رحمت ِ باری تعالیٰ پکار رہی ہے: اے میرے بندے! اگر تم راہِ راست سے بھٹک گئے ہو، توجو کچھ بھی ہو اور جیسے بھی ہو، واپس پلٹ آئو، اگر تم کافر، آتش پرست اور بت پرست ہوچکے ہو، تب بھی واپسی کا راستہ کھلا ہے، ہماری بارگاہ ناامیدی کی جگہ نہیں ہے، اگر تم نے سوبار بھی پیمانِ وفا باندھ کر توڑ دیا ہے، تو آئو، ایک بار پھر پلٹ کر ہماری رحمت کی آغوش میں آجائو‘‘۔
ریاض خیر آبادی نے کہا:
جامِ مے توبہ شکن، توبہ میری ہے جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
یعنی میں شراب نوشی سے توبہ کرتا ہوں، لیکن پھر جب شراب کا جام سامنے آتا ہے توتوبہ ٹوٹ جاتی ہے، جب ہوش میں آتا ہوں تو ایک بار پھر توبہ کرتا ہوں، میرے سامنے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا ڈھیر لگا ہے، یعنی پیمانۂ شراب اور اللہ کی ذات سے پیمانِ وفا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱) ''اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں‘‘ (یوسف:87)، (۲) ''آپ کہہ دیں:اے میرے وہ بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جائو، بیشک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا‘‘ (الزمر:53)، (۳) ''میری رحمت ہر چیز کو وسیع ہے‘‘ (الاعراف:156)، (۴) ''بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے اور وہ شرک کے علاوہ (دوسرے گناہوں کو) جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا‘‘ (النساء :116)۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرنہایت مہربان اور بے حدشفیق ہے، اُس کی رحمت اورعفووکرم کی کوئی انتہا نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ گناہوں اور نافرمانیوں پر دلیر ہوجائے، جواس کے جی میں آئے کرتاپھرے اورپھر کہے : ''پروا نہیں، اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے ‘‘، جاہل متصوفین اور واعظین ایسے لوگوں کو شہ دیتے ہیں کہ رسول اللہﷺیا فلاں بزرگ کا ہاتھ تمہاری پشت پر ہے، وہ تمہاری شفاعت کریں گے اور تمہیں بخشوادیں گے۔ درحقیقت ایمان خوف و رجا کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے، کوئی بندہ اگر شامتِ اعمال سے گناہ کربیٹھے اورپھر اپنے کیے پر نادم ہوتو اُسے یاس اور قنوطیت میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، اللہ کی رحمت سے نااُمیدی گناہِ کبیرہ ہے، احادیثِ مبارکہ میں ہے:
(۱) ''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے بنی آدم! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی اُمیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا، میں تجھے بخشتا رہوں گا، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں اور میں کسی چیز کی پروا نہیں کرتا، اے بنی آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں، پھر تُو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور میں کسی چیز کی پروا نہیں کرتا، اے بنی آدم! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے، لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آئوں گا (اور تجھے بخش دوں گا)‘‘ (سنن ترمذی:3540)، (۲) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکا تو اپنی کتاب (لوحِ محفوظ) میں، جو اُس کے پاس عرش کے اوپر ہے، لکھا: بیشک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے‘‘ (صحیح بخاری: 3194)، (۳) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کہتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، اگر وہ میرے بارے اچھا گمان رکھے تو اُس کے لیے اچھائی ہے اور اگر وہ میرے بارے میں برا گمان رکھے تو اُس کے لیے برائی ہے‘‘ (مسنداحمد:9076)، (۵) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس دن اللہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا کیا تو سو رحمتیں پیدا کیں، ننانوے رحمتیں اس نے اپنے پاس رکھ لیں اور تمام مخلوق کے پاس ایک رحمت بھیجی، اگر کافر یہ جان لیتا کہ اللہ کے پاس کل کتنی رحمت ہے تو وہ جنت سے مایوس نہ ہوتا اور اگر مومن یہ جان لیتا کہ اللہ کے پاس کل کتنا عذاب ہے تو دوزخ سے بے خوف نہ ہوتا‘‘ (صحیح بخاری:6469)۔
(۶) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے لیے سو رحمتیں ہیں، اُن میں سے ایک رحمت کو اُس نے جنّات، انسانوں، چوپایوں اور حشرات الارض میں نازل کیا، جس کے سبب وہ ایک دوسرے سے شفقت سے پیش آتے ہیں، ایک دوسرے پر مہربان ہوتے ہیں یہاں تک کہ ایک وحشی جانور اپنے بچے پر مہربان ہوتا ہے اور ننانوے رحمتوں کو اللہ نے مؤخر فرمادیا، اُن کے ذریعے قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا‘‘ (صحیح مسلم: 2752)، (۷) ''حضرت عمرؓ بن خطاب بیان کرتے ہیں: نبیﷺ کے پاس قیدی آئے، ایک قیدی عورت (کا شاید بچہ کھوگیا تھا اور وہ اُسے دودھ پلانے کے لیے بے تاب تھی)، پس جب اُس نے اچانک اپنے بچے کو پایا، اُسے ہاتھ میں لیا اور اپنے سینے سے چپکاکر اُسے دودھ پلایا، تو نبیﷺ نے (بچے کے لیے اُس کے اضطراب کو دیکھ کر) فرمایا: کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! جب تک اس کے اختیار میں ہے، وہ ایسا نہیں کرے گی۔ آپﷺ نے فرمایا: جتنی یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے، اس کی بہ نسبت اللہ اپنے بندوں پر بے پناہ مہربان ہے‘‘ (بخاری:5999)۔
لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُس کی بخشش ومغفرت کی وسعت کی طرف نگاہ تورکھے، لیکن اپنے اعمال اور کردار کی درستی کی طرف توجہ نہ دے اوراللہ تعالیٰ کے عذاب اور اُس کی پکڑ سے بے خوف ہوجائے، یہ کیفیت انسان کو گناہوں پر دلیر اور جری کرتی ہے، درحقیقت یہ رَجا واُمید نہیں، بلکہ فخر وغرور اور صریح حماقت ونادانی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے لیکن اُس کی پکڑ اور گرفت بھی ایسی ہے کہ پھر اُس سے کوئی چھٹکارا نہیں دلاسکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱) ''میرے بندوں کوبتادیجیے : بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہوں اور یہ کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے‘‘ (الحجر:49تا 50)، (۲) ''آگاہ ہو جائو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے‘‘ (المائدہ: 98)، (۳) ''پھر کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہیں، حالانکہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے صرف وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جو تباہ وبرباد ہونے والے ہوں‘‘ (الاعراف:99)۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کومتنبہ فرمادیا ہے کہ وہ صرف غفورورحیم ہی نہیں، بلکہ شَدِیْدُ الْعِقَاب یعنی دردناک اورسخت سزائیں دینے والا بھی ہے، سو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ومغفرت کے ذکر کے ساتھ اپنے عذاب کا بھی ذکر فرمایاتاکہ بندے گناہوں پر بے باک نہ ہوجائیں۔ مومن کبھی اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اُس کی پکڑ سے بے خوف اور مطمئن نہیں رہ سکتا، یہ منافق اور کافر کی علامت ہے کہ وہ گناہوں اور سیاہ کاریوں کے باوجود بے فکر رہتے ہیں؛ چنانچہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ''مومن اپنے گناہ کے بارے میں اس طرح پریشان ہوتا ہے کہ گویا وہ پہاڑتلے دبا ہوا ہے اور اُسے اپنے اُوپر پہاڑ کے گرنے کا خوف لاحق ہے، جبکہ کافر وفاجر اپنے گناہ کو ایک مکھی کی مانند ہلکا سمجھتا ہے کہ گویا مکھی اس کی ناک پر بیٹھی اوراس نے اسے ہاتھ سے اُڑا دیا‘‘ (صحیح بخاری:6308)۔
مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: ''مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ گناہِ صغیرہ کو بھی ہلکا نہیں جانتا، وہ سمجھتا ہے کہ چھوٹی چنگاری بھی گھر کوجلاسکتی ہے، اس لیے وہ ان کے ارتکاب کی جرأت نہیں کرتا اور اگراس سے سرزدہوجائیں تو فورًا توبہ کرلیتا ہے، گناہوں سے خوف کمالِ ایمان کی علامت ہے‘‘۔ مزید فرماتے ہیں: ''چھوٹے تودرکنار، بدکار شخص بڑے گناہوں کو بھی ہلکا جانتا ہے، کہتا ہے کہ میں نے گناہ کرلیا تو کیا ہوا!ربّ غفور رحیم ہے، بخش دے گا، یہ خیال اُمید نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے بے خوفی ہے جو کفر تک پہنچا دیتی ہے، انسان پہلے چھوٹے گناہ کو ہلکا جانتا ہے، پھر بڑے گناہوں کو، پھرکفروشرک کو بھی معمولی چیز سمجھنے لگتا ہے‘‘ (مرآۃ المناجیح، ج:3، ص:375)۔ (جاری)