"MMC" (space) message & send to 7575

سیکریٹ بیلَٹ کا فلسفہ

سیکریٹ بَیلَٹ سے مراد ووٹ کی پرچی کے ذریعے پسِ پردہ اور خفیہ طور پر کسی امیدوار کے حق میں ووٹ دینا یا اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے، اس میں رائے دہندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور اور اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ سمجھ کر کسی کے حق میں ووٹ دیتا ہے۔ اپنے پسندیدہ امیدوار کے نام یا انتخابی نشان پر پولنگ افسر کی دی ہوئی ووٹ کی مُہر ثبت کرتاہے۔ اسے خفیہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق آزادانہ فیصلہ کرے، اس پر کسی کا دبائو نہ ہو، نیز اسے بعد ازاں کسی کے انتقام کا خوف نہ رہے۔ حالیہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ ووٹنگ کا مسئلہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 226 کہتا ہے: ''وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے سوا آئین کے تحت تمام انتخابات خفیہ بیلَٹ کے ذریعے ہوں گے‘‘۔ یہ آرٹیکل اپنے مفہوم پر بالکل واضح دلالت کرتا ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
3 مارچ کو سینیٹ کے ارکان اور پھر 12مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں جو ہونا تھا، وہ ہو چکا۔ اب ہم نظریاتی طور پر ''خفیہ بیلَٹ‘‘ کے فلسفے پر گفتگو کریں گے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جب صدارتی ریفرنس زیرِ بحث تھا، تو اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر جو عدالتی کارروائی رپورٹ ہوئی، اُسے ہم نے قانون کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے انتہائی غور سے پڑھا اور توجہ سے سنا، کیونکہ جو شخص پیشگی رائے قائم کر کے کسی موقف کو سنے تو وہ نظریاتی عصبیت کا شکار ہو جاتا ہے، سو ہم نے خالی الذھن ہوکر ان ساری ابحاث کو سنا اور اس کے بعد رائے قائم کی۔ اگر ہم سینیٹ الیکشن سے پہلے اپنی رائے کا اظہار کرتے توکوئی بدگمانی کر سکتا تھا کہ اس میں کسی کی جانبداری مقصود ہے۔ حاشا وکلّا! ہم ملک میں جاری سیاسی کھیل میں نہ کسی کے حریف ہیں اور نہ کسی کے حلیف، بلکہ نفسِ مسئلہ پر گفتگو کرنا مقصود ہے، سیاسی جماعتوں کا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ ہر مرحلے پر یہ دیکھتی ہیں کہ اُن کا فائدہ کس میں ہے، لہٰذا وہ موقف بدلتی رہتی ہیں۔
ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے قابلِ صد احترام جج کا منصب آئین اور قانون کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے، حتیٰ کہ کوئی عزت مآب جج اپنی ذاتی معلومات، ذاتی ترجیحات اور ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ وہ زیرِ بحث مقدمے میں اپنے سامنے موجود دلائل وشواہد اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے، وہ اپنی پسند وناپسند کو گھر چھوڑ کر آتا ہے، اس نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوتا ہے، وہ لوگوں کے انسانی، مذہبی اور آئینی حقوق کا محافظ ہوتا ہے۔ اخلاقیات کا درس بہت اچھی بات ہے، لیکن عدل کرتے وقت نہ وہ''مُعلِّم اخلاق‘‘ ہوتا ہے اور نہ کسی روحانی خانقاہ کا مُربِّی، مُزَکِّی اور مُصْلِح ہوتاہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: جب بھی رسول اللہﷺ کو دوچیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو آپﷺ نے (امت کی رعایت کرتے ہوئے) اُن میں سے آسان پہلو کو اختیار کیا، بشرطیکہ اُس میں گناہ کا کوئی شائبہ نہ ہو اور اگر وہ چیز گناہ ہوتی تو آپﷺ تمام لوگوں سے زیادہ اُس سے دور رہنے والے تھے اور رسول اللہﷺ نے کبھی اپنی ذات کے لیے (کسی سے) کوئی انتقام نہیں لیا، سوائے اس کے کہ اللہ کی (حدودکی) حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو آپﷺ ایسے شخص سے اللہ (کی حدودکی حفاظت) کے لیے انتقام لیتے تھے‘‘ (صحیح بخاری: 3560)۔
سینیٹ الیکشن کے حوالے سے صدرِ پاکستان کے ریفرنس، اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دلائل اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے عالی مرتبت جج صاحبان کے ریمارکس اور آبزرویشن اس طرف اشارہ کر رہے تھے کہ اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں سے وابستہ ارکانِ اسمبلی کا جو تناسب ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو سینیٹ میں اُسی تناسب سے نمائندگی ملنی چاہیے۔ اگر دستور کا منشا یہی ہوتا تو خواتین کی ترجیحی فہرست کی طرح ہر سیاسی جماعت اپنی طرف سے سینیٹ کے لیے بھی ایک ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس پیشگی جمع کرا دیتی اور الیکشن کمیشن منتخب ارکان کے تناسب سے اُس جماعت کو سینیٹ کی نشستیں الاٹ کر دیتا، انتخابات کے جھنجٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی نہ رہتی، کیونکہ جب یہ فرض کر لیا جائے کہ جو رکنِ اسمبلی اپنی پارٹی امیدوار کے بجائے کسی اور کو سینیٹ کے لیے ووٹ دیتا ہے تو وہ خائن اور ضمیر فروش ہے، تو نہ خفیہ بیلٹنگ کی ضرورت ہے اور نہ سینیٹ کے ادارے کی، آئین میں سینیٹ کے ادارے کی گنجائش ہی اس لیے نکالی جاتی ہے کہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ارکان جماعتی وابستگی سے بالاتر ہو کر قومی وحدت اور ملک وملّت کے بہترین مفاد میں سینیٹ کے امیدواروں کا انتخاب کریں۔ نیزاس میں وفاقی اکائیوں کے مفادات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، کیونکہ فیڈریشن یا وفاق اکائیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی میں صوبوں کے لیے نشستیں آبادی کے تناسب سے رکھی جاتی ہیں، جبکہ سینیٹ میں تمام وفاقی اکائیوں کو مساوی نمائندگی دی جاتی ہے۔ ارکانِ اسمبلی صرف سیاسی مزارعین نہیں ہوتے کہ اپنی عقل ودانش، فراست اور میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر صرف قیادت کے اشارۂ ابرو پر چلیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات قومی اسمبلی سے منظور کردہ بل کو سینیٹ میں ردّ کر دیا جاتا ہے یا اس میں ترامیم تجویز کر کے یا بعض شقوں کو حذف کر کے قومی اسمبلی کو واپس بھیج دیا جاتا ہے تاکہ قانون میں کوئی سقم باقی نہ رہے۔ اگر سیاسی جماعت کی قیادت، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں قائدِ ایوان یعنی وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کا منشا ہی حرفِ آخر ہو تو پارلیمنٹ کی مجالسِ قائمہ بے اثر ہوکر رہ جاتی ہیں۔ امریکی ایوانِ نمائندگان میں مختلف ریاستوں کے لیے نشستیں آبادی کے تناسب سے رکھی جاتی ہیں، کیلیفورنیا سٹیٹ کی ایوانِ نمائندگان میں 53 نشستیں ہیں، لیکن چھوٹی سے چھوٹی ریاست کی طرح سینیٹ میں اس کی دو ہی نشستیں ہیں، جبکہ امریکی سینیٹ دنیا کی سب سے طاقتور اور بااختیار سینیٹ ہے۔
امریکا میں ہر چار سال بعد نومبر کے مہینے میں صدارتی انتخاب ہوتا ہے، انتخابات کے فوراً بعد نومنتخب صدر کے لیے وائٹ ہائوس میں دفتر قائم کر دیا جاتا ہے اور بجٹ بھی مختص ہو جاتا ہے تاکہ وہ اپنی کیبنٹ اور مختلف شعبوں کے سربراہان کا انتخاب کر سکے۔ 20 جنوری کو حلف برداری کے بعد وہ اپنی کیبنٹ ممبران کے نام سینیٹ کو بھیجتا ہے اور سینیٹ پوری چھان بین کر کے ان کی منظوری دیتی ہے یا ردّ کر دیتی ہے۔ 20 جنوری 2021ء کو صدر بائیڈن نے حلف اٹھایا اور منصب صدارت سنبھالا، لیکن ابھی تک سینیٹ سے اُن کے تمام کیبنٹ ممبران کی توثیق کا مرحلہ مکمل نہیں ہو سکا۔ ایوانِ نمائندگان نے دو مرتبہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی قرارداد منظور کی، لیکن دونوں مرتبہ سینیٹ نے اُسے ردّ کر دیا، چیک اینڈ بیلنس کے انہی کڑے معیارات سے گزر کر نظام میں توازن پیدا ہوتا ہے۔
یہاں ہم تھوڑی دیر کے لیے دولت کے چلن اور ارکانِ اسمبلی کی خرید وفروخت کے مسئلے کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں، ہم صرف آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اصولی بات کرتے ہیں۔ کرپشن، ضمیر فروشی اور پیسوں کا لین دین ایک لعنت اور اخلاقی زوال کی انتہا ہے، اس کا حل تلاش کرنا ہماری پارلیمنٹ کا کام ہے۔ عالی مرتبت جج صاحبان کامنصب آئین کی رُوح کے مطابق اُس کی تشریح اور قانون کا شفاف اطلاق کرنا ہوتا ہے تاکہ کسی کے لیے انگلی اٹھانے کی گنجائش نہ رہے، نیز کرپشن کی تمام صورتوں کو کنٹرول کرنے اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے لیے کئی ریاستی ادارے بیک وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں، ان میں نیب، انٹیلی جنس ادارے، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ، سی آئی اے، پولیس وغیرہ سب شامل ہیں اور یہ سب ادارے حکومت کے براہِ راست یا بالواسطہ کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ اگر ان سب کے ہوتے ہوئے ضمیروں کے سودے ہوتے ہیں، وفاقی وزراء کے بقول‘ لوگ بوریوں میں نوٹ بھر کر بیٹھے ہوئے تھے تو اتنی ثقہ معلومات کے بعد ان لوگوں کو قانون کی گرفت میں لے لینا چاہیے تھا، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہوا، نیز بعض وزراء کے بقول رقوم کی ادائی کا انتظام دبئی میں کیا گیا تھا، یہ سب کچھ جانتے ہوئے حکومتی ادارے حرکت میں کیوں نہ آئے، اس کا راز نامعلوم ہے۔
خفیہ رائے شماری کا فلسفہ یہی ہے کہ رائے دہندہ اظہارِ رائے میں آزاد ہو، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے حضور اور اپنے ضمیرکو جوابدہ ہو، بشرطیکہ ضمیر زندہ ہو اور فطرت سلیم ہو۔ لیکن کہا گیا کہ خفیہ بیلَٹ کی رازداری کا ہمیشہ کے لیے تحفظ ضروری نہیں۔ اسی لیے ووٹ کی پرچی پر بارکوڈ لگانے کی بات کی گئی۔ اس سے رازداری کے سارے فلسفے کی نفی ہو جاتی ہے۔ بااثر لوگوں اور حکومتِ وقت کو اس راز تک رسائی میں کوئی دقّت نہیں ہو گی اور طاقتور حلقوں کی منشا کے خلاف ووٹ دینے پر انتقام کا جو خدشہ لاحق رہتا ہے، ووٹر اس سے بچ نہیں سکے گا، لہٰذا ووٹ کی پرچی پر بارکوڈ کی حکمت سمجھ سے بالاتر ہے، راز کو تو راز ہی رہنا چاہیے، سوائے اس کے کہ صاحبِ راز اپنی صوابدید پر خود اس کا انکشاف کرے۔ حدیث میں ہے: ''حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: (1) نبی کریمﷺ نے مجھے ایک راز بتایا تو میں نے اس کے بعد وہ راز کسی پر افشا نہیں کیا، مجھ سے میری والدہ اُمِّ سُلیم نے اس راز کی بابت پوچھا تو میں نے ان کو بھی نہ بتایا‘‘ (صحیح بخاری: 6289)، (2) ''رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: میرے راز کو پوشیدہ رکھنا، تم مومن ہو گے‘‘ (اعتلال القلوب للخرائطی: 682)۔ مُطَرِّفِیْ نے کہا ہے: ''کریم شخص وہ ہے کہ اس کی محبت خالص رہے یا رشتۂ محبت ٹوٹ جائے، وہ (ہر حال میں) راز کی حفاظت کرتا ہے‘‘ (شُعَبُ الْاِیْمَان: 9051)۔
ہم مذہبی لوگ ہیں، سینیٹر رضا ربانی صاحب لبرل سیکولر پارلیمنٹیرین اور سوشل ڈیموکریٹ ہیں، لیکن اپنے استدلال میں سینیٹ کا ادارہ قائم کرنے کی حکمت ومصلحت، آئین کی روح کے مطابق اس کے متعلقہ آرٹیکلز کی تشریح انہوں نے احسن انداز میں کی، نیز کراچی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بھی اپنے موقف کو آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بہتر انداز میں بیان کیا۔ فاضل اٹارنی جنرل بیرسٹر جاوید خان اخلاقی پہلوئوں پر زور دیتے رہے، لیکن آئین وقانون کے دائرے میں ان کا استدلال مؤثر نہیں تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں