کسی بھی نظام کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ اس پر اعتماد ہو، شک وشبہے سے بالاتر ہو اور اس میں طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت (By Design) دھاندلی یا ہیر پھیر (Maneuvering) کے ذریعے انتخابی نتائج کو بدلنے کی روایت نہ ہو، ایسے انتخابات شفاف کہلاتے ہیں۔ شفافیت کسی خاص سسٹم یا نظام سے وابستہ نہیں ہے۔ شفاف اور شک وشبہے سے بالا انتخابات منعقد کرنے کے لیے ''انتخابی اصلاحات‘‘ لائی جاتی ہیں اور یہ انتخابات سے حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جب ہر نئے انتخاب کی روشنی میں کوئی جھول سامنے آتا ہے تو اس کے سدِّباب کے لیے مزید اصلاحات کی جاتی ہیں۔
اگر ہمارے موجودہ نظامِ انتخابات پر لفظاً ومعناً اُس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو یہ نظام اپنی ساخت کے اعتبار سے بہت شفاف ہے۔ الغرض مسئلہ قوانین کے نَقص کا نہیں ہے، بلکہ قوانین کو مِن وعَن زیرِ عمل لانے اور برتنے والوں پر اعتماد کا ہے کہ آیا وہ کسی ترغیب یا تحریص (لالچ) یا دبائو میں آکر گڑبڑ تو نہیں کرتے، جیسے ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ہوا کہ بیس سے تیس کے درمیان پریذائیڈنگ افسران مع نتائج اور ساز وسامان کے لاپتا ہوگئے اور پھر صبح کے وقت نمودار ہوئے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ اس سے یقینا حکومتِ وقت کی رسوائی ہوئی اور اس پر لوگوں کا اعتماد متزلزل ہوا۔ کراچی کے ضمنی انتخاب میں تاحال واضح بدعنوانی کے کوئی شواہد تو سامنے نہیں آئے لیکن ووٹنگ کی کم ترین شرح کے باوجود بعض پولنگ سٹیشنز کے نتائج کا تاخیر سے آنا شکوک و شبہات کا باعث بنا۔ الغرض ہمارے انتخابات کا اصل مسئلہ نظام چلانے والوں پر ''اعتماد کا فقدان‘‘ ہے۔
آج کل انتخابات میں ''بائیو میٹرک‘‘ یا ''ای ووٹنگ‘‘ کی بات کی جا رہی ہے، موجودہ حکومت شدت سے اس کی حامی ہے، جبکہ اپوزیشن اس کی بابت خوف کا شکار ہے کہ اس نظام کے ذریعے پورے انتخابات ہی چرا لیے جائیں گے، کیونکہ اس میں ٹیمپرنگ خارج از امکان نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پاسپورٹ اور کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے لیے بائیو میٹرک سسٹم رائج ہے اور کامیابی سے چل رہا ہے، اس حوالے سے نادراکی کارکردگی مثالی ہے اور ہم اس پر فخر کر سکتے ہیں، پاسپورٹ کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ سسٹم رائج ہے لیکن انتخابات کے لیے صرف چند ممالک میں بائیو میٹرک سسٹم ہے، جبکہ امریکا سمیت بیشتر ممالک میں تاحال بیلٹ پیپر کے ذریعے ہی ووٹنگ کا نظام رائج ہے، حالانکہ امریکہ عہدِ حاضر میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا امام ہے۔ امریکا کے 2016ء کے انتخابات کی بابت کہا گیا تھا کہ روس نے اس میں دخل اندازی کی ہے، اسے امریکا میں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے، اگرچہ یہ الزام تاحال پوری تحقیق وتنقیح کے بعد پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچا۔ یہ ہمارے لیے حیرت کا باعث ہے کہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے امریکا جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں روس مداخلت کرنے میں کیسے کامیاب ہوا، کیونکہ کہا گیا تھا کہ روس نے اُس وقت کے صدارتی امیدوار ٹرمپ کو جتانے میں خفیہ کردار ادا کیا تھا۔ امریکا کے گزشتہ انتخابات میں کورونا کی وجہ سے ای ووٹنگ اور پوسٹل ووٹنگ کی گنجائش زیادہ رکھی گئی، اس پر شکست خوردہ صدر ٹرمپ نے ابتدا ہی میں شکوک و شبہات کا اظہار کیاتھا اور بعد میں بعض ریاستوں میں کئی دنوں تک دوبارہ گنتی ہوتی رہی۔
ہماری رائے میں بائیو میٹرک سسٹم کے تحت انتخابات سے مزید بے اعتمادی پیدا ہوگی، یہ دعوے کیے جائیں گے کہ ایک خاص جماعت یا امیدوار کی کامیابی کے لیے پہلے ہی ووٹ فیڈ کر دیے گئے تھے، انتخابی عمل تو محض ضابطے کی کارروائی ہے۔ ذاتی طور پر ہم پاسپورٹ، کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ، امریکا اور مغربی ممالک کے ویزوں اور امیگریشن کے لیے بائیو میٹرک سسٹم سے گزرے ہیں اور ہم نے دیکھا کہ یہ سسٹم تیز رفتار نہیں ہے، اکثر انگوٹھے یا انگلیوں کے پور کئی بار مشین پر رکھے جاتے ہیں، بعض اوقات ہاتھ پر کیمیکل چھڑکتے ہیں اور ٹشو پیپر سے صا ف کرا کے پھر مشین پر رکھواتے ہیں اور اس عمل میں کافی وقت صرف ہوتا ہے۔ ہتھیلی سے کام کرنے والے بعض افراد، اسی طرح عمر رسیدہ افراد کے انگوٹھے کے پور ہموار ہو جاتے ہیں اور مشین پر جب انگوٹھا رکھا جاتا ہے تو اس کے پرنٹ صحیح طریقے سے سافٹ ویئر پر منعکس نہیں ہوتے اور پہلے سے موجود ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کا تجربہ مجھے ذاتی طور پر ہوا: میرا اور میری اہلیہ کا ایک جوائنٹ بینک اکائونٹ تھا، جو آپریٹ نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال قرار دے کر بند کر دیا گیا تھا، ہمیں نوٹس ملا کہ آپ اس اکائونٹ کو فعال کرنے کے لیے شناختی کارڈ سمیت بینک میں آئیں ورنہ یہ جمع شدہ رقم سٹیٹ بینک کو منتقل کر دی جائے گی، ہم بینک میں حاضر ہوئے، لیکن سعیِ بسیار کے باوجود میری اہلیہ کے فنگر پرنٹس اصل سے نہ مل سکے، بالآخر ہمیں وہ اکائونٹ بند کر کے اپنی جمع شدہ رقم بینک سے پے آرڈر کی شکل میں وصول کرنا پڑی، اس تجربے میں کئی دن صرف ہوئے۔
پریذائیڈنگ یا پولنگ افسر کے پاس نہ تو ٹشو پیپر کے باکس رکھے ہوں گے، نہ کیمیکل ہوگا اور اگر بالفرض انگوٹھے کا نشان نہ ملا تو وہ شخص ووٹ ڈالنے سے محروم رہ جائے گا، لہٰذایہ تصور کرنا کہ یہ طریقِ انتخاب تیز رفتار ہے، درست ثابت نہیں ہو گا۔ کبھی ہمارے ٹی وی ریمورٹ کا بٹن کام نہیں کرتا، مکینک سے رجوع کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے: ''بٹن کے نیچے کاربن آ گیا‘‘۔ سو پُش بٹن کے ذریعے جو ووٹنگ ہو گی‘ کیا اس امکان کو ردّ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بٹن خراب ہو جائے یا کر دیا جائے۔
2018ء کے انتخابات میں نتائج کی الیکشن کمیشن کو فوری ترسیل کے لیے آر ٹی (رزلٹ ٹرانسمیشن) سسٹم بنایا گیا تھا، لیکن بعد میں پتا چلا کہ وہ سسٹم فلاپ ہو گیا تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہمارا بائیو میٹرک سسٹم فلاپ نہیں ہو گا، جبکہ ہماری بیشتر آبادی غیر تعلیم یافتہ ہے اور بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی نہ کمپیوٹر کے جدید سسٹم سے آگاہ ہیں، نہ انہیں اس کی مشق ہے۔ بیلٹ پیپر پر کسی امیدوار کے انتخابی نشان کو سمجھنے میں لوگوں کو دشواری ہو جاتی ہے توٹچ بٹن میں اتنی مہارت کیسے حاصل ہو گی۔ پھر اس امکان کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ بائیو میٹرک مشین میں نقص پیدا ہو جائے یا اس کو ہیک کر لیا جائے تو پورا انتخابی نظام زمیں بوس ہو جائے گا۔
ہم ابھی ٹیکنالوجی میں اتنے کامل نہیں ہوئے کہ عام انتخابات کے لیے اس تجربے میں داخل ہوں۔ مزید یہ کہ جب ہم قانونی اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ حکومتِ وقت اپنے مفاد کے لیے اس کام میں دلچسپی لے رہی ہے، اسی بے اعتمادی کی وجہ سے نیب کے قوانین میں متفقہ طور پر ترامیم نہیں ہو پا رہیں کیونکہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ یہ قوانین مؤثّر بہ ماضی ہوں تاکہ انہیں بھی فائدہ پہنچے اور حکومت چاہتی ہے کہ فائدہ صرف موجودہ اور مستقبل کی حکومتوں کو ملے، اپوزیشن والوں کو رگڑا لگتا رہے۔ اس صورت میں اپوزیشن کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں تو رگڑا لگ ہی چکا ہے، اب موجودہ حکومت کے ذمہ داروں کی باری بھی آنی چاہیے، سو ایک دوسرے کے لیے بدنیتی اور بدخواہی کے سبب یہ اصلاحات نہیں ہو پا رہیں، یہی بدنیتی انتخابی اصلاحات کی بارے میں ہے۔
بنگلہ دیش کے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے ہاں تین ماہ کے لیے نگراں حکومت کے تصور کو رائج کیا گیا مگر وہ بھی کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ممبران ریٹائرڈ جج صاحبان کو بنایا گیا لیکن وہ بھی لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دراصل کسی انتظامی تجربے کے بغیر ہی فرض کر لیا گیا تھا کہ ہر مرض کا علاج یہی صاحبان ہیں۔ لیکن تجربے سے ثابت ہوا کہ ایسا ضروری نہیں‘ اس کے لیے ایک ایسے بیورو کریٹ کی ضرورت ہے جو مستحکم شخصیت، انتظامی تجربے کا حامل ہو، نظم و ضبط پر مکمل کنٹرول رکھتا ہو، خود اعتمادی اور قانون کی پاس داری اس کے مزاج کا حصہ ہو اور کسی لالچ یا دبائو میں نہ آئے؛ چنانچہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے سپریم کورٹ میں بھی سینیٹ کے خفیہ انتخابات کے حوالے سے اور ڈسکہ کے الیکشن میں دھاندلیوں کے حوالے سے مضبوط موقف اختیار کیا، کسی طرف سے دبائو قبول نہیں کیا، اس طرح پہلی مرتبہ اس ادارے پر کسی حد تک لوگوں کا اعتماد قائم ہوا۔ بھارت میں بھی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخاب کی بنیاد ایک بیورو کریٹ ٹی این سیشن نے رکھی تھی، انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کا کوئی دبائو قبول نہیں کیا اور اپنی مستحکم شخصیت اور خود اعتمادی کے باعث بھارتی انتخابات کو دنیا بھر میں معتبر بنا دیا۔
دھاندلی کے اِکّا دُکّا واقعات پورے نظام کو مشتبہ نہیں بناتے، تھوڑی بہت بے اعتدالیاں انسانی سَماج کا حصہ ہیں، ان سے کہیں بھی پورے نظام کا بھرم نہیں ٹوٹتا۔ نظام کا بھرم تب ٹوٹتا ہے جب محسوس ہو کہ قومی انتخابات میں دھاندلی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ہم مشاہدہ کرتے چلے آئے ہیں کہ قومی انتخابات میں لڑائی جھگڑے، قتل وغارت اور بے امنی کے زیادہ واقعات نہیں ہوتے کیونکہ قومی اور صوبائی انتخابی حلقے کافی حد تک پھیلے ہوتے ہیں، ووٹروں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، اس لیے امیدواروں کا براہِ راست تصادم کم ہوتا ہے، جبکہ مقامی انتخابات محلے یا قصبے کی سطح پر ہوتے ہیں، امیدوار آمنے سامنے ہوتے ہیں، برادریوں اور شخصیات کا ٹکرائو ہوتا ہے، اسی لیے عام انتخابات کی بہ نسبت مقامی انتخابات میں فساد زیادہ ہوتے ہیں۔
ایک آرڈیننس کے ذریعے دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو یقین ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی انہیں زیادہ پسند کرتے ہیں اور وہ ان کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ ڈالیں گے، اسی سبب ای ووٹنگ متعارف کرائی جا رہی ہے، میرے خیال میں یہ کاوش بھی امریکا کی طرح قومی انتخابات کو متنازع بنائے گی، نیز جو پاکستانی امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپین ممالک کی شہریت اختیار کر چکے ہیں، اُن کے لیے پاکستانی سیاست میں دخیل ہونے کا جواز نہیں بنتا، انہیں اُن ممالک کی سیاست میں بھرپور حصہ لینا چاہیے جن کی وطنیت کو انہوں نے اپنی آزادانہ مرضی سے اختیار کیا ہے، البتہ عارضی طور پر مقیم پاکستانیوں کے لیے اس رعایت پرضرور غور کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اُن کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔