"MMC" (space) message & send to 7575

اتحادوں کی سیاست

سابق مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کے خلاف جگتو فرنٹ بنا، پھر سابق صدر محمد ایوب خان کے خلاف متحدہ حزبِ اختلاف بنی۔ 1967ء میں جمہوری مجلسِ عمل وجود میں آئی، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1973ء میں متحدہ جمہوری محاذ بنا۔ 1974ء میں متحدہ مجلس ختمِ نبوت کی تشکیل ہوئی اور پھر 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) بنا۔ سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے خلاف 1981ء میں تحریک بحالیٔ جمہوریت (ایم آر ڈی) چلی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنا۔ اُسی دور میں ایک عوامی جمہوری اتحاد بھی بنا۔ پیپلز پارٹی کی سرکردگی میں 1993ء میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس بنا۔ 2000ء میں اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) بنا۔ 2002ء کے انتخابات سے پہلے مذہبی سیاسی جماعتوں کے الائنس متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی تشکیل ہوئی۔ 2017ء میں سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) بنا۔ 2020ء میں موجود حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ قائم ہوا‘ جو اَب سمٹ چکا ہے لیکن تاحال اس کا وجود برقرار ہے۔ 1990ء کے عشرے میں فرقہ وارانہ تصادم کو کنٹرول کرنے کے لیے ملّی یکجہتی کونسل قائم ہوئی جو اَب اگرچہ سمٹ چکی ہے لیکن علامتی طور پر قائم ہے۔ سیاسی اور مذہبی اتحادوں کا یہ ایک سرسری جائزہ ہم نے پیش کیا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم سے تسامح ہو گیا ہو اور کسی اتحاد کا ذکر کرنا ہم بھول گئے ہوں، لیکن اکثر کا حوالہ موجود ہے۔ ان اتحادوں پرغالب کا یہ شعر صادق آتا ہے:
مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خِرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
قرآنِ کریم کی یہ آیتِ مبارکہ بھی ان کے حسبِ حال ہے: ''ان کی لڑائی آپس میں بہت سخت ہے، (اے مخاطَب!) تم انہیں یکجا گمان کر رہے ہو حالانکہ ان کے دل (آپس میں) بٹے ہوئے ہیں‘‘ (الحشر: 14)۔ الغرض یہ اتحاد مختلف الخیال اور مختلف المقاصد عناصر کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یہ کسی مثبت مقصد کے لیے نہیں بلکہ منفی مقصد کے لیے قائم ہوتے ہیں، یعنی حکومتِ وقت کو گرانا اور ناکام بنانا۔ پس جو اتحاد منفی مقصد کے لیے ہو، اُس سے کسی مُثبت نتیجے کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے ببول کے درخت سے گلاب کے پھولوں کی توقع کی جائے۔ نیز یہ اتحاد عجلت میں بنتے ہیں، یہ حالات کے جبر یا وقتی ضرورت کا نتیجہ ہوتے ہیں، ان کے پیچھے نہ کوئی نظریاتی انگیخت یا فکری وحدت ہوتی ہے، نہ کوئی عملی منصوبہ پیشِ نظر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دو نشستوں میں اتحاد بن جاتے ہیں، ایک اعلامیے کی صورت میں ان کا اعلان کر دیا جاتا ہے، چند مشترکہ اجتماعات ہوتے ہیں، اُن میں بھی سب کے اپنے اپنے تحفظات ہوتے ہیں کہ کس کا خطاب کب ہو گا، ترتیب کیا ہو گی، کس جماعت کو کتنی نمائندگی ملے گی، پرائم ٹائم کس کے حصے میں آئے گا، نیز منتظمین اور مقررین کی طرح مجمع بھی بٹا ہوتا ہے، اپنے اپنے جھنڈے ہوتے ہیں۔ حاضرین خوش دلی سے صرف اپنے رہنما کو پذیرائی بخشتے ہیں، دوسروں کے لیے زیادہ جوش اور ولولے کا مظاہرہ نہیں کرتے، یعنی مجمع پوری طرح ذہنی، فکری اور عملی طور پر محو نہیں ہوتا۔ مختلف جلسوں کے منتظمین، مختلف رکن جماعتیں ہوتی ہیں اور سب کی ترجیحات اپنی اپنی ہوتی ہیں، اس لیے ایک دوسرے سے گلے شکوے بھی بہت ہوتے ہیں۔ یہ اتحاد جوہری طور پر تعمیر کے لیے نہیں ہوتے بلکہ تخریب کے لیے ہوتے ہیں۔ حکومتِ وقت کی بھی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان میں تفریق پیدا کی جائے تاکہ ان کے درمیان پوری طرح ہم آہنگی نہ ہو پائے۔ مقتدر ادارے اور حکومتِ وقت اُن کی صفوں میں اپنے گماشتے بھی چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ پتا نہیں ہوتا کہ مجلس میں شریک کون کس کی نمائندگی کر رہا ہے اور کون کس کا مُخبر ہے۔
عجلت کے سبب نہ ان اتحادوں کا کوئی باقاعدہ دستور اور منشور بنایا جاتا ہے، نہ فیصلہ سازی کا طریقۂ کار طے ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت منتخب ایوانوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے حجم کے اعتبار سے اُن کی رائے کا وزن ہوگا یا محض گنتی کرکے فیصلے کیے جائیں گے۔ آخر میں گلے شکوے رہ جاتے ہیں، چھوٹی جماعتوں کو گلہ ہوتا ہے کہ بڑی جماعتوں نے اتحاد کو ہائی جیک کر لیا ہے اور بڑی جماعتوں کو یہ گلہ ہوتا ہے کہ لوگ منتخب ایوانوں میں اپنی نمائندگی کے حجم، اپنی جماعت کی جسامت اور حقیقی قوت کو نظر انداز کر کے برابر کا درجہ مانگتے ہیں جو معقول بات نہیں ہے۔ ماضی میں نوابزادہ نصر اللہ خان اس طرح کے اتحاد بنایا کرتے تھے، حجم واثرات کے اعتبار سے چھوٹی جماعت کے سربراہ کو اتحاد کا سربراہ بنا لیا جاتا تھا تاکہ وہ ہر ایک کی ناز برداری کرے، مارے باندھے معاملات کو چلاتا رہے، لیکن وہ اتحاد کو اپنی شخصیت سازی اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے؛ چنانچہ متحدہ مجلس عمل کو اُس وقت کے صوبۂ سرحد کی حکومت مل جانے کے بعد حکومت پر مولانا فضل الرحمن کا کنٹرول تھا، کیونکہ صوبائی اسمبلی میں اُن کی نمائندگی کا حجم دوسروں سے زیادہ تھا۔ ایل ایف او (یعنی سترہویں آئینی ترمیم) کی منظوری میں جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے پر قومی اسمبلی میں انہیں قائدِ حزبِ اختلاف بھی بنا دیا گیا تھا اور اتحاد میں شامل دوسری جماعتیں احساسِ محرومی کا شکار ہو گئیں۔
1974ء میں ایک اتحاد متحدہ مجلس ختمِ نبوت کے نام سے تشکیل پایا، انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مل کر تحریک کو منظّم کیا، کیونکہ ختمِ نبوت پر سب کا ایمان تھا، نہ یہ کوئی اختلافی مسئلہ تھا، نہ کسی ایک مسلک یا گروہ کا مسئلہ تھا بلکہ یہ پوری امتِ مسلمہ کا مسئلہ تھا، اس لیے اس میں سب اخلاص کی بنیاد پر شریک تھے، پس اللہ تعالیٰ نے اسے تاریخی کامیابی سے ہمکنار کیااور رسول اللہﷺ کے پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد پوری اسلامی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے مکمل اتفاقِ رائے سے ریاست کی سطح پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کو دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے دستورِ پاکستان میں تحفظ دیا گیا، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے عہدوں کے حلف نامے میں عقیدۂ ختم نبوت کے اقرار کو شامل کیا گیا۔
پی ڈی ایم کی ناکامی کا ایک سبب یہ تھا کہ دونوں بڑی جماعتوں‘ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے مقاصد مختلف تھے، دونوں حکومت کو دبائو میں لاکر احتساب کے شکنجے سے نکلنا چاہتی تھیں، مسلم لیگ نون کے پاس چونکہ کوئی حکومت نہیں ہے، اس لیے وہ آخری حد تک جانے کے لیے تیار تھی جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی حکومت ہے، لہٰذا وہ اُسے کسی بھی صورت میں دائو پر لگانے کے لیے تیار نہیں تھی اور یہ بات قابلِ فہم ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے استعفوں کا مطالبہ بھی غیر حقیقت پسندانہ تھا، کیونکہ کوئی بھی بخوشی کسی حاصل شدہ منصب سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا، کیونکہ کسی کے پاس ایسی ضمانت نہیں ہوتی کہ آیا آئندہ وہ اس منصب پر منتخب ہو پائے گا، پس اردو کا یہ محاورہ اُن کے حسبِ حال ہے: ''نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ یا ''آدھی چھوڑ ساری کو جاوے، آدھی رہے نہ پاوے‘‘، انگریزی کا محاورہ ہے: ''جھاڑی میں دو پرندوں کے مقابلے میں ہاتھ میں ایک پرندہ غنیمت ہے‘‘، کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ جھاڑی کے دو پرندوں میں سے ایک بھی ہاتھ آئے گا یا نہیں۔ سو دل سے استعفے دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا، اس حد تک پیپلز پارٹی کا موقف آئیڈیل تو نہیں، لیکن حقیقت پسندانہ تھا۔ صرف 1977ء کا انتخاب ایک منفرد مثال ہے کہ متحدہ پوزیشن کے منتخب لوگوں نے اسمبلیوں کا حلف نہیں اٹھایا تھا اور تحریک کو جاری رکھا تھا لیکن وہ تحریک بھی آخر کار ناکامی پر منتَج ہوئی۔ سیاست دانوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا، اس کے نتیجے میں قوم کو جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کا تحفہ ملا جو گیارہ سال پر محیط رہا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کو خوش آمدید کہا اور پھر وہ تقریباً نو سال اقتدار پر فائز رہے۔
الغرض جب تک اقتدار پر مقتدرہ کے قبضے کی منصوبہ بندی نہ ہو، کسی بھی حکومتِ وقت کے خلاف کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو پاتی۔ ہردور کی حکومت‘ جیسی بھی ہو، اس کے پاس وسیع اختیارات ہوتے ہیں، انتظامیہ اور ادارے اس کے ماتحت ہوتے ہیں، وسائل اس کے پاس ہوتے ہیں، یعنی وہ چھڑی اور گاجر دونوں کا حسبِ ضرورت استعمال کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی کمزور حکومت کے خلاف بھی مضبوط حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدمِ اعتماد یکم نومبر 1989ء کو ناکام ہوئی تھی۔ دنیا میں جہاں حقیقی معنوں میں جمہوریت قائم ہوتی ہے، جمہوری روایات راسخ ہوتی ہیں، ضمیروں کی خرید و فروخت یعنی ہارس ٹریڈنگ کا کلچر نہیں ہوتا، وہاں بعض اوقات حکومتِ وقت وسط مدتی انتخابات کا خطرہ بھی مول لے لیتی ہے اور اسے کامیابی بھی مل جاتی ہے، برطانیہ کی موجودہ پارلیمنٹ اس کی نمایاں مثال ہے۔
پس سیاسی اور مذہبی اتحاد قائم کرنے سے پہلے لازم ہے کہ ذہنی اور فکری ریاضت کی جائے، اس کے لیے پسِ پردہ رہ کر کام کیا جائے، دستور و منشور اور مقاصد و اہداف متعین ہوں، جماعتوں کی نمائندگی کا تناسب طے ہو، فیصلہ سازی کا طریقۂ کار وضع ہو اور جب پورا ہوم ورک ہو جائے تو پھر اُسے منظرِ عام پر لایا جائے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا میثاقِ جمہوریت ایک عمدہ مثال ہے، لیکن بعد میں اس پر لفظاً و معنیً عمل نہیں کیا گیا، کیونکہ جب اقتدار کے حصول اور مفادات کی دوڑ شروع ہوتی ہے تو اصول و نظریات پسِ پشت چلے جاتے ہیں اور فوری فوائد ترجیحِ اول قرار پاتے ہیں۔ پس ہمارے لیے آئیڈیل بننا نہایت دشوار امر ہے۔ خود غرضی شخصی ہو یا جماعتی، ہم پر غالب آ جاتی ہے۔ حالیہ دور میں سید یوسف رضا گیلانی کا متحدہ حزبِ اختلاف کے ووٹوں سے سینیٹر بننا اور پھر اپنے ووٹروں کو اندھیرے میں رکھ کر سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف بن جانا اس کی نمایاں مثال ہے، حالانکہ ہمارے سیاسی اثاثے میں شخصی طور پر گیلانی صاحب ایک بااخلاق اور وضع دار آدمی ہیں۔ اس لیے منتشر الخیال متفرق سیاسی عناصر کا غیر فطری اتحاد بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، یہ ایسا ہی ہوتا ہے : '' کہیں کی اِینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘، اس کے بجائے بہتر ہے کہ ایسی ہم خیال جماعتوں کا دیرپا اتحاد بنایا جائے، جن کی ترجیحات اور مقاصد و اہداف یکساں ہوں۔ ویسے شیخ رشید نے افغانستان کے حالیہ تناظر میں مولانا فضل الرحمن کو اشارتاً کے پی اور بلوچستان میں کامیابی کی بشارت دی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں