"MMC" (space) message & send to 7575

مقامِ محمود

سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے مقاماتِ عالیہ اور خصائصِ کبریٰ میں سے ایک اہم اعزاز ''مقامِ محمود‘‘ ہے، اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کیجیے جو آپ کے لیے اضافی عبادت ہے، یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘ (بنی اسرائیل: 79)۔
اس آیت میں لفظِ ''عَسیٰ‘‘آیا ہے جو امید کے معنی میں ہوتا ہے لیکن جب اس کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو پھر وجوب کے معنی میں آتا ہے، یعنی یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ مفسرین نے یہی معنی مراد لیا ہے۔ ''محمود‘‘ کے لغوی معنی ہیں: ''جس کی ہر لحاظ سے تعریف کی گئی ہو‘‘، شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ''مقامِ شفاعتِ کبریٰ‘‘ ہے۔
شفاعت کا اردومتبادل سفارش ہے، ہم نے شفاعت کی لغوی بحث سے اعراض کیا ہے تاکہ تحریر قارئین کے لیے ثقیل نہ ہو جائے۔ شریعت میں شفاعت کے معنی ہیں: ''رسول اللہﷺ کا اللہ کے مقبول بندوں کے لیے درجات کی بلندی، صغیرہ گناہوں کی معافی، گناہگاروں کے لیے کبیرہ گناہوں کی مکمل معافی یا عذاب میں تخفیف کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا، استغفار اور سفارش کرنا‘‘، پس یہ شفاعت ہر ایک کے حسبِ حال ہو گی۔ محشر میں سب انبیائے کرام، صدیقین، شہدا، صلحا، مؤمنین، مشرکین، کفار، منافقین، فساق و فجار‘ الغرض سارے انسان جمع ہوں گے اور میزانِ عدل قائم ہونے میں تاخیر ہو گی۔ یہ مرحلہ سب کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہو گا، سب کی تمنا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی وسیلہ بنے اور یہ عبوری مرحلہ آگے کی طرف بڑھے۔ قرآنِ کریم میں میدانِ حشر کی ہولناکی کو بیان کیا گیا ہے: (1) ''بے شک تمہارے رب کے نزدیک ایک دن ایسا ہے جو تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی مانند ہے‘‘۔ (الحج:47)، (2) ''اُس دن کی مقدار پچاس ہزار برس ہے‘‘ (المعارج:4)۔ ان آیات کی رو سے روزِ قیامت کی طوالت ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی یا یہ کہ وہ اس قدر ہولناک ہوگا کہ ایک لمحہ ہزاروں سال کے برابر محسوس ہو گا۔ انسان کی فطرت ہے کہ انتہائی کرب کے عالَم میں ایک لمحہ بھی برسوں کے برابر محسوس ہوتا ہے اور عیش و راحت کے عالَم میں لگتا ہے کہ کئی برس پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور قیامت کا معاملہ صرف ایک پلک جھپکنے کی مانند یا اُس سے بھی قریب ہوگا‘‘ (النحل:77)۔ رسول اللہﷺ سے سورہ المعارج کی آیت 4 کے حوالے سے پوچھا گیا: پھرتو یہ دن بہت ہی طویل ہو گا، آپﷺ نے فرمایا: ''اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، مومن پر اسے ہلکا کر دیا جائے گا، حتیٰ کہ اُسے اتنا خفیف محسوس ہو گا جیسے دنیا میں ایک فرض نماز کا وقت ہوتا ہے‘‘ (مسند احمد: 11717)۔
الغرض زمان و مکان ایک ہو گا، لیکن ہر ایک پر اس کے اعمال کے مطابق بیت رہی ہو گی۔ آپﷺ نے فرمایا: ''قیامت کے دن سورج مخلوق کے قریب ہو گا، لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے اپنے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، کسی کا پسینہ ٹخنوں تک، کسی کا گھٹنوں تک، کسی کا کمر تک اور کسی کا لگام کی مانند منہ تک پہنچا ہو گا‘‘ (مسلم: 2864)۔ ایسا ممکن ہے کہ انبیائے کرام اور اللہ تعالیٰ کے مقربین کو وہ دن پل بھرکی مانند محسوس ہو، پھر بھی انسان چاہتا ہے کہ عبوری منزل سے گزر کر اپنے مستقل مقام پر جا پہنچے۔
صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے: ''اہلِ محشر مصیبت کے عالم میں کسی شفیع اور وسیلے کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے، وہ باری باری حضراتِ آدم، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے رجوع کرتے ہوئے بالآخر رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے، ہر نبی یہ کہے گا: ''آج بارگاہِ جلالت میں مجھے کچھ عرض کرنے کی مجال نہیں ہے، تم کسی اور کے پاس جائو‘‘، جبکہ آپﷺ فرمائیں گے: اس منصب کا اہل میں ہی ہوں۔ پھر آپﷺ کو اذنِ شفاعت عطا ہوگا، اس عظیم منظر کو آپﷺ یوں بیان فرماتے ہیں: ''مجھے حمدِ باری تعالیٰ کے خاص کلمات اِلقا کیے جائیں گے، میں ان کلمات سے اللہ کی حمد بیان کروں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! سر اٹھائیے، آپ جو کہیں گے، سنا جائے گا، آپ جو مانگیں گے، عطاکیا جائے گا، آپ کی شفاعت قبول ہو گی‘‘۔ آخر میں ہے: آپﷺ بنی اسرائیل، آیت 79 کی تلاوت کرکے فرمائیں گے: ''یہ وہ مقامِ محمود ہے جس کا اللہ نے تمہارے نبی سے وعدہ فرمایا ہے‘‘۔
اور حدیث میں فرمایا: ''ہر نبی سے اللہ نے قبولیتِ دعا کا ایک وعدہ فرمایا ہے، ہر نبی نے جلدی سے اپنی مراد مانگ لی اور میں نے قبولیتِ دعا کے اس وعدۂ ربانی کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا کر رکھ لیا ہے، ان شاء اللہ میرا جو بھی امتی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا‘ وہ (اپنی باری پر) اس دعا سے مستفید ہوگا‘‘ (مسلم: 199)۔ یہ مقامِ محمود کی طرف اشارہ ہے: رسول اللہﷺ قبولیتِ دعاکے وعدۂ ربانی کا حوالہ دے کر قیامت کے دن گنہگارانِ امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''مجھے دوباتوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا: میں شفاعت کو اختیار کروں یا یہ کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو جائے، پس میں نے شفاعت کو اختیار کیا، کیونکہ یہ عام ہے، اس میں سب کے لیے کفایت ہے، تم سمجھ رہے ہو گے کہ صرف متقین کے لیے ہے، نہیں! بلکہ گناہگاروں، خطاکاروں اور معصیت میں آلودہ سب کے لیے ہے‘‘ (ابن ماجہ: 4311)، علامہ حسن رضا قادری نے کہا:
کہیں گے اور نبی: اِذْ ھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ
مرے حضور کے لب پر ''اَنَا لَھَا‘‘ ہو گا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘ (الضحیٰ: 5)۔ علامہ قرطبی نے لکھا ہے: ''جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: پھر تو جب تک کہ میرا ایک بھی امتی جہنم میں ہے‘ میں راضی نہیں ہوں گا‘‘، پھر فرمایا: ''اللہ تعالیٰ جبریلِ امین سے فرمائے گا: محمدﷺ کے پاس جائو اور کہو: بے شک ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور آپ کو رنج نہیں پہنچائیں گے‘‘ (مسلم:202)۔
قرآنِ کریم میں شفاعت کی نفی اور اثبات دونوں طرح کی آیات موجود ہیں، کالم میں ماہرینِ علم العقائد کی طویل بحثوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''سو اُن (مجرموں) کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نفع نہ پہنچائے گی‘‘ (المدثر:48)‘‘، پھر فرمایا: (1) ''کس کی مجال ہے کہ اس کی بارگاہ میں سفارش کرے، مگر جسے وہ اِذن عطا فرمائے‘‘ (البقرہ:255)، (2) ''اُس دن کسی کی شفاعت نفع نہیں پہنچائے گی مگر جسے رحمن نے اجازت دی ہو اور اس کی بات سے وہ راضی ہو‘‘ (طہٰ: 109)۔ اس مفہوم کی دیگر آیات بھی موجود ہیں کہ اللہ کے حضور اُس کے اذن سے شفاعت کی جائے گی مگر جب تک رسول اللہﷺ مقامِ محمود پر فائز نہیں ہوں گے‘ بابِ شفاعت نہیں کھلے گا، اس کے بعد انبیائے کرام و رُسلِ عُظام، اولیاء و صُلَحا حسبِ مرتبہ سفارش کریں گے، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' ناتمام پیدا ہونے والا بچہ اپنے رب سے بطورِ ناز جھگڑے گا، تو اس سے کہا جائے گا: اپنے رب سے جھگڑنے والے ناقص بچے! اپنے ماں باپ کو جنت میں لے جا، وہ اُن دونوں کو اپنی نال کے ساتھ باندھ کر کھینچے گا حتیٰ کہ اُن دونوں کو جنت میں داخل کر دے گا‘‘ (ابن ماجہ: 1608)۔
رسول اللہﷺ نے اپنے فضائل و خصائص خود بیان کیے‘ ہم احادیثِ مبارکہ میں بیان کردہ فضائل کو یکجا کر کے درج کر رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ''میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور یہ میرے لیے کوئی فخر کی بات نہیں، آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک سب انبیاء میرے پرچم تلے ہوں گے، میں رسولوں کا قائد ہوں گا، میں خاتم النبیین ہوں، میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا اور مقبولُ الشفاعۃ ہوں گا اور یہ میرے لیے فخر کی بات نہیں، قبر سے باہر آنے والا پہلا شخص میں ہی ہوں گا، جب انسانیت اللہ کے حضور حاضر ہو گی تو اُن کا قائد میں ہی ہوں گا اور جب جلالِ الٰہی کے آگے سب لوگ مہر بہ لب ہوں گے تو اُن کا ترجمان میں ہوں گا، جب انہیں حشر میں روک دیا جائے گا تو اُن کا وسیلۂ شفاعت میں بنوں گا، جب نجات کی ساری امیدیں ٹوٹ جائیں گی تو بشارت دینے والا میں ہی ہوں گا، ساری عزتیں اور رب کے خزانوں کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی، حمدِ باری تعالیٰ کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا، اللہ کی بارگاہ میں اولادِ آدم میں سب سے معزز میں ہی ہوں گا، ہزاروں خدام چمکتے ہوئے موتیوں کی طرح میرے گرد و پیش ہوں گے‘‘۔ مفسرین کرام نے شفاعت کی کئی قسمیں بیان فرمائی ہیں: شفاعت بالاذن، شفاعت بالوجاہت، شفاعت بالمحبت، دعا و استغفار، ان کی تفصیل بیان کرنے کا اس وقت موقع نہیں ہے۔
نبیﷺ نے فرمایا: ''جب مؤذن اذان کہے تو تم بھی کلماتِ اذان کو دہرائو، پھر مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے مقامِ وسیلہ کی دعا مانگو، یہ جنت میں ایک نمایاں مقام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی ایک خاص بندے کو عطا فرمائے گا، مجھے یقین ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا، سو جو میرے لیے ''مقامِ وسیلہ‘‘ کی دعا مانگے گا، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی‘‘ ( مسلم: 384)۔ ہم نے اپنے مجموعۂ فتاویٰ ''تفہیم المسائل‘‘ کی جلد اول میں یہ ثابت کیا ہے کہ دعا بعد الاذان کے تمام کلمات احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں، اُس میں یہ بھی ہے :'' اے اللہ! انہیں مقامِ محمود پر فائز فرما، جس کا تو نے اُن سے وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ رہا یہ سوال کہ جب اللہ نے اپنے حبیبِ مکرمﷺ سے ''مقامِ وسیلہ‘‘ اور ''مقامِ محمود‘‘ کا وعدہ فرما رکھا ہے تو ہماری دعا کی کیا ضرورت ہے، تو جواباً عرض ہے: '' ہماری دعا ہماری اپنی سعادت کے لیے ہے، رسول اللہﷺ کے مقاماتِ رفیعہ ہماری دعا کے محتاج نہیں ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں