علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ''حلم کے معنی ہیں: ''نفس و طبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ و غضب کے موقع پر بھڑک نہ اٹھے، اس کی جمع اَحْلَام ہے اور آیت کریمہ: ''أَمْ تَأْمُرُہُمْ أَحْلامُہُمْ بِہٰذَا‘‘ (ترجمہ: آیا ان کی عقلیں یہ حکم دے رہی ہیں) (الطور: 32) کی تفسیر میں بعض نے کہا: اَحلام سے عقلیں مراد ہیں، اصل میں حِلم کے معنی ''متانت‘‘ کے ہیں، مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے حِلْم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں، جیسا کہ مُسَبَّبْ (Effect) بول کر سبب (Cause) مراد لیا جاتا ہے۔ ''حَلُمَ‘‘ بردبار ہونا، ''حَلَّمَہُ الْعَقْلُ وَتَحَلَّمَ‘‘ عقل نے اسے بردبار بنا دیا، ''اَحْلَمَتِ الْمَراَۃُ‘‘ عورت کا حلیم بچے جننا، قرآن پاک میں ہے: ''إِنَّ إِبْراہِیْمَ لَحَلِیْمٌ أَوَّاہٌ مُنِیْبٌ‘‘ ترجمہ: ''بے شک ابراہیم بڑے تحمل والے، نرم دل اور (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والے تھے‘‘ اور آیت کریمہ: ''فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ‘‘، ترجمہ: ''تو ہم نے ان کو ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی‘‘ (الصّافّات: 101)، یعنی وہ لڑکا تحمل والا ہو گا اور آیت کریمہ: ''وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ‘‘، ترجمہ: ''اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہو جائیں‘‘ (النور: 59)، اس آیت میں ''حُلُمْ‘‘ سے مراد سنِ بلوغت کے ہیں اور سنِ بلوغت کو ''حُلُمْ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس عمر میں عام طور پر عقل و تمیز آ جاتی ہے‘‘۔ (اَلْمُفْرَدَات فِیْ غَرِیْبِ الْقُرآن:253 )۔
حِلم ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے اور یہ فیضانِ نبوت سے حصہ پانا ہے، حلیم انسان کا فیصلہ انجام کے اعتبار سے درست اور پُرسکون ہوتا ہے، کیونکہ وہ معاملے کے عواقب و نتائج، اس میں درپیش مشکلات اور اس کے نفاذ کے ممکنہ طریقوں پر پہلے غور و فکر کرتا ہے، اس کے بعد فیصلہ کرتا ہے۔ انسان جب غصے کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ حقائق کو نظر انداز کر دیتا ہے یا سرے سے اس کو حقائق دکھائی نہیں دیتے، غضب کی کیفیت میں اس سے حماقتیں سرزد ہوتی ہیں، نہ اس کا فیصلہ درست ہوتا ہے اور نہ نتائج کے اعتبار سے دیرپا ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہﷺ نے ہمیں غصے سے منع فرمایا ہے: ''ایک شخص نے نبیﷺ کی بارگاہ میں عرض کی: مجھے وصیت فرما دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: غصہ نہ کیا کرو، اس نے بار بار پوچھا: آپﷺ نے ہر بار یہی جواب دیا: غصہ نہ کیا کرو‘‘ (بخاری: 6116)، کیونکہ غصے کے وقت عقل مائوف ہو جاتی ہے اور فیصلہ کرنے کی قوت کمزور پڑ جاتی ہے، جوش ہوش پر غالب آ جاتا ہے اور اس کیفیت میں کیا گیا فیصلہ ہمیشہ نَدامت کا باعث بنتا ہے۔ مخالف فریق کو جسمانی قوت کے ساتھ میدان میں پچھاڑنے کے مقابلے میں عقل ودانش سے زیر کرنا زیادہ مشکل کام ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''پہلوان وہ نہیں ہے جو (اپنے مقابل) کو میدان میں پچھاڑ دے، پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے‘‘ (بخاری: 6114)۔
غصے کے وقت حقائق انسان کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور وہ اُن کو پرکھے بغیر اندھا دھند فیصلے کر لیتا ہے، اس پر بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ حلیم الطبع شخص کا فیصلہ اس لیے ندامت کا باعث نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ خوب سوچ سمجھ کر پُرسکون حالت میں فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات صفَتِ حِلم سے متّصف ہے، اس لیے وہ انتقام لینے اور سزا دینے میں جلدی نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اگر اللہ لوگوں کے کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے اُن پر (فوری) گرفت فرماتا تو روئے زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا، لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک انہیں ڈھیل دیتا ہے، پس جب ان کا مقررہ وقت آ جائے گا تو اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ لے گا‘‘ (فاطر: 45)، یعنی اللہ تعالیٰ سزا دینے میں عجلت نہیں فرماتا اور اگر وہ سزا دینے میں جلدی کرتا تو چند مستثنیات کے سوا روئے زمین پر کوئی انسان باقی نہ رہتا، کیونکہ جب بھی کوئی گناہ کرتا اللہ تعالیٰ اس کو ہلاک کر دیتا اور گناہ سے تو کوئی بھی خالی نہیں ہے۔ اگراللہ کی گرفت جلد ہوتی تو زمین انسانوں سے خالی ہو جاتی اور دنیا کا نظام برباد ہو جاتا، مگر اللہ تعالیٰ بردبار ہے، بخشنے والا ہے۔ نیز فرمایا: ''بے شک ابراہیم بہت نرم دل اور نہایت بردبار تھے‘‘ (التوبہ:114)، یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام تحمل و برداشت کے مالک تھے، وہ بے صبری اور عدم برداشت والے نہ تھے۔ بچہ جب بالغ ہو جاتا ہے تو اس کو حُلمُ کہتے ہیں، یعنی اب وہ بچہ نہیں رہا بلکہ پختہ ذہن کا مالک ہو گیا ہے اور اہلِ دانش کی صف میں آ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں‘‘ (النور: 59)۔
بندوں میں حلیم سے مراد وہ فرد ہوتا ہے جو معاملات میں جلد بازی سے کام نہ لے، تحمل اور عزم کے ساتھ کام کرے، کسی بھی صورتِ حال پر فوری ردّعمل ظاہر نہ کرے، اُس کو اپنے نفس پر پوری طرح قابو حاصل ہو، وہ کسی کے غصہ دلانے پر بھڑک نہ اٹھے، وہ جلد بازی سے کام خراب نہ کرے، اپنے اعصاب پر پورا قابو رکھے، اپنے آپ کو فوری ردِّعمل سے باز رکھے، وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے معاملے کے عواقب و نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے، وہ جذبات سے مغلوب نہ ہو اور جوش کے بجائے ہوش سے کام لے۔
حِلم و بردباری کی برکت سے اللہ تعالیٰ دو بندوں کے درمیان دشمنی اور عداوت کو محبت میں تبدیل فرما دیتا ہے، جب ایک بندہ جہل کرتا ہے اور دوسرا اس کے مقابلے میں حلم کا برتائو کرتا ہے تو وہ ایک بار جہل کرے گا، دوسری بار کرے گا، مگر تیسری بار ضرور سوچے گا، اپنے طرزِ عمل پر غور کرکے اسے تبدیل کرے گا اوراس کے دل میں عداوت کی جگہ دوستی اور محبت و شفقت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہے، برائی کو بہترین حکمت سے ٹالو، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا: جس شخص کے ساتھ تمہاری دشمنی ہے، وہ تمہارا سرگرم دوست بن جائے گا اور یہ فراست انہی کو ملتی ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوتے ہیں اور یہ حکمت انہی کو عطا ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں‘‘ (حم السجدہ: 34 تا 35)۔
پس حلم والے اعلیٰ نصیب کے مالک ہوتے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے اچھائی سے دینے کی توفیق عطا کی ہے۔ حلیم اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں میں سے ہوتا ہے، حِلم اللہ تعالیٰ کی محبت کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ حلیم شخص سے محبت فرماتا ہے: رسول اللہﷺ نے اَشَجّ بن عبدالقیس سے فرمایا: ''تم میں دو صفات ایسی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے: حلم اور وقار‘‘ (مسلم: 17)۔ اللہ تعالیٰ باوقار لوگوں کو پسند فرماتا ہے۔ حلم نرم مزاجی کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے‘‘ (بخاری:6024)‘‘۔ نیز نبیﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ مہربان ہے اور مہربانی اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ ثواب دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا اور نہ اس کے سوا کسی عبادت پر دیتا ہے‘‘ (مسلم: 2593)۔ نبی کریمﷺ نے نرمی کو خیر سے تعبیر فرمایا ہے اور نرمی سے محرومی کو خیر اور بھلائی سے محرومی کا سبب بتایا ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جس شخص کو نرم برتائو کا حصہ مل گیا، اس کو بھلائی کا حصہ بھی مل گیا اور جو شخص نرم برتائو کے حصہ سے محروم رہا، وہ بھلائی سے بھی محروم رہا‘‘ (ترمذی: 2013)۔ نرمی سے ہر چیز کی خوبصورتی ہے اور نرمی کا نہ ہونا عیب کا سبب ہے: ''نبی اکرمﷺ نے فرمایا: نرمی جس چیز میں ہوتی ہے، ا سے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے نکل جاتی ہے، اس کو عیب دار کر دیتی ہے‘‘ (ابودائود: 4808)۔ نرمی، تحمل اور حلم کا برتائو کرنے والوں کو رسول اللہﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے اور ان کو جہنم سے آزادی کی نوید دی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے‘‘ (ترمذی:2488)۔
رسول اللہﷺ حلم اور حسنِ اخلاق کا پیکر تھے، نرمی آپﷺ کے اخلاق و کردار کا لازمہ تھا۔ آپﷺ اللہ تعالیٰ کی حدود کے نفاذ کے علاوہ کسی پر سختی نہیں کرتے تھے، کوئی درشتی اور سختی کا مظاہرہ کرتا تو اس کے مقابلے میں آپ ہمیشہ حلم، صبر اور نرمی کا مظاہرہ فرماتے رہے: (1) ''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے ساتھ چل رہا تھا، آپﷺ کے جسم مبارک پر نجران کی بنی ہوئی موٹے حاشیے کی ایک یمنی چادر تھی، اتنے میں ایک دیہاتی آ یا اور اس نے رسول اللہﷺ کی چادر کو پکڑ کر اتنے زور سے کھینچا کہ میں نے دیکھا: رسول اللہﷺ کے شانے پر اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے نشان پڑ گیا تھا، پھر اس نے کہا: یا محمدﷺ! اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے، مجھے اس مال میں سے دینے کا حکم صادر کیجیے۔ رسول اللہﷺ اس کی طرف متوجہ ہو کر مسکرائے اور آپ نے اس کو دینے کا حکم فرمایا‘‘ (بخاری:5809)، (2) ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے سوچے سمجھے دوسروں کی پیروی نہ کرو، جو کہتے ہیں: اگر لوگوں نے اچھا برتائو کیا تو ہم بھی کریں گے، اگر انہوں نے ظلم کیا تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ صاحبِ عزیمت بنو (اور یہ کہو): اگر لوگ اچھا رویہ اختیار کریں تو تم بھی کرو اور اگر وہ برا کریں تو تم ظلم نہ کرو‘‘ (ترمذی: 2007)، (3) ''رسول اللہﷺ نے عقبہؓ بن عامر سے فرمایا: جو تجھ سے تعلق توڑے، اُس سے تعلق جوڑو، جو تجھے محروم رکھے، اُسے دو اور جو تجھ پر زیادتی کرے، اُسے معاف کر دو‘‘ (مسند احمد: 17452)۔ آج کل ہمارا سیاسی ماحول اسی لیے کشیدہ ہے کہ سیاسی قائدین نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو قیادت کا جوہرِ کمال سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ شعار سنّت کے خلاف ہے۔